اردو خالص ہندوستانی زبان ہے جس نے اپنی پیدائش سے جوانی تک کا پورا سفر اسی ملک میں طے کیا ہے۔ آج اردو اور ہندی زبانوں کو جس طرح مخصوص مذاہب کی زبان بتانے کی سازش کی جا رہی ہے اس کی جتنی مذمت کی جائے وہ کم ہے حیرت ہوتی ہے کہ اردو کسی مذہب کی زبان کیسے کہی جا سکتی ہے جبکہ اس کو گلے لگانے میں ہر مذہب اور ملت کے افراد شامل ہیں۔آرین اپنے ساتھ سنسکرت زبان لے کر آئے تھے۔سنسکرت جب عوام کی زبان سے خواص کی زبان بن گئی تو پھر پراکرت وجود میں آئی اور اسکے بعد اپبھرنش ۔اپبھرنش سے مگربی ہندی کی جو بولیاں نکلیں ان میں سے کھڑی بولی نکھر کر اردو زبان بن گئی۔ہندوستان میں مغلوں کی آمد سے بیشک فارسی زبان کو فروغ حاصل ہوا لیکن مغلوں کی حکومت کے آخری دور میں اردو زبان استحکام کی طرف گامزن ہوئی۔سر سید احمد خان ،محمد حسین آزاد،شوکت سبزواری اورمسعود حسن رضوی وغیرہ نے اپنے نظریات کی پیشکش کے ذریعہ اردو کے خالص ہندوستانی زبان ہونے کو تقویت دی ہے۔
بلا شک و شبہ ہندوستان کی۹۰ فیصدی آبادی نہ صرف اردو بولتی ہے ملک کی ۹۵ فیصدی فلمیں بھی اردو زبان میں ہی بنتی ہیںبھلے ہی ان کو فلم سنسربورڈہندی فلیں قرار دے۔ایسی صورت میں اردو کو خالص ہندوستانی زبان سمجھا جانا چاہیے۔ افسوس فضا کچھ اورہی بنائی جا رہی ہے۔کہا جا رہا ہے کہ اردو مسلمانوں کی زبان ہے۔اردو اگر مسلمانوں کی زبان ہے تو ذرا یہ بتایا جائے کہ پروفیسر گوپی چند نارنگ کا مرتبہ اردو میں کیونکر بلند تسلیم کر لیا گیا اور یہ کہ چندربھان خیال کو قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان نامی مرکزی حکومت سے متصل ادارہ کا وائس چئر مین کیسے بنا دیا گیا تھا۔چکبست ،کرشن چندر،مہندر سنگھ بیدی ،پریم چند اور فراقؔ جیسے ادیبوں اور شاعروں نے کیوں اردو میں بیش قیمتی ادبی و شعری سرمایہ تخلیق کیا؟گلزار،آنند موہن گلزار زتسی،رتن سنگھ،آج بھی اردو کی خدمت میں کیوں سرگرم عمل ہیں؟ایک عجیب مطالبہ یہ بھی کیا جاتا رہا ہے کہ اردو کو دیو ناگری رسم الخط میں لکھا جائے۔کچھ کہتے ہیں کہ رومن رسم الخط میں لکھا جائے۔سب سے بڑی بات کہ ہر زبان کا اپنا مروجہ رسم الخط ہی اس کا اصل حسن ہوتا ہے۔اردو کے رسم الخط جیسی جاذبیت رومن یا دیوناگری میں بھلا کیسے ممکن ہے۔اردو کونسخ اور نستعلیق کے اشتراق سے جو خوبصورت رسم الخط ملا ہے وہ تمام زبانوں کے الفاظ کو اپنے اندر سمو لینے کا ہنر رکھتا ہے۔
اردو ہندوستان کی عوامی زبان ہے۔اردو کے عوامی زبان ہونے کا ثبوت یہی کیا کم ہے کہ ہندوستان بھر میں جو زبان بولی جاتی ہے وہ ہندی نہیں اردو ہے۔سیاسی نقطہ نظر سے بھلے ہی اردو کو کم کر کے آنکا جائے یا پھر اعداد و شمار میں ہیرا پھیری کرکے اردوکو کمتر دکھانے کی کوشش کی جائے لیکن حقیقت یہی ہے کہ ملک کی عام بول چال کی زبان اردو ہی ہے۔اردو کو دیو ناگری رسم الخط میں لکھنے کی وکالت کرنے والوں سے پوچھا جانا چاہئے کہ اگر اس میں ماترائیں ہٹا دی جائیں تو کیا ہندی کو آسانی سے پڑھا جا سکے گا۔اور جب ماترائیں استعمال کرنی ہی ہیں تو پھر اردو میں اعراب کا استعمال کر لینے میں کیا مذائقہ ہے ۔
ہندوستان کی آزادی کے وقت یہ طے کر پانا بے حد مشکل ہو گیا تھا کہ اردو اور ہندی میں سے کس زبان کو قومی زبان کا درجہ دیا جائے۔جب کبھی اس موضوع پر بحث ہوتی ہے تو ایک بات بڑے وثوق کے ساتھ کہی جاتی ہے کہ ڈاکٹر راجندر پرساد کے کاسٹنگ ووٹسے اردو ہندوستان کی قومی زبان بننے سے محروم رہ گئی۔ڈاکٹر راجندر پرساد اس وقت دستور ساز اسمبلی کے صدر تھے اور جب ووٹنگ کرائی گئی تو اردو محض ایک ووٹ کے فرق سے قومی زبان کا درجہ حاصل نہیں کر سکی۔اس تنازعہ پر بنا کسی حوالے ہی بحث و مباحثہ کیا جاتا رہا ہے۔دراصل قومی زبان منتخب کرنے کے لئے بحث کا دور حصول آزادی سے کئی سالقبل ہی شروع ہو چکا تھا۔اردو زبان نے عوام کے درمیان مقبول عام ہونے کے سبب قومی زبان بننے کا مضبوط دعویٰ پیش کیا تھا۔لیکن دوسری طرف آر ایس ایس ذہنیت رکھنے والے کچھ لوگ ہندی زبان کو آگے بڑھانے کی مہم چلا رہے تھے۔یہ لوگ سنسکرت الفاظ پر مشتمل ہندی کی وکالت کر رہے تھے۔اس لئے ہندی کو دیو ناگری اور اردو کو فارسی رسم الخط میں لکھنے کی تجویز پر بھی اعتراضات کئے گئے۔مہاتما گاندھی حصول آزادی سے قبل ہی اپنے لیڈران کو زبان کے تنازع میں الجھتا دیکھ پریشان ہوئے اور انھوں نے اتفاق رائے قائم کرنے کے لئے ایک تجویز پیش کی۔اس کے مطابق شمالی ہند میں بولی جانے والی عام فہم زبان کو قومی زبان تسلیم کرنے کا مشورہ دیا گیا تھا اور اسے ہندی یا اردو کہنے کی جگہ ’’ہندوستانی‘‘کا نام دیا جانا تھا۔گاندھی جی نے یہ بھی کہا کہ ہندوستانی زبان کو فارسی اور دیو ناگری دونوں رسم الخط میں لکھا جائے گا۔اس تجویز پر غور کرنے کے بعد اتفاق رائے بن گئی تھی۔فارمولے کو تیار کر کے اس پر ہندی والوں کی طرف سے بابو راجندر پرساد نے اور اردو والوں کی طرف سے مولوی عبد الحق نے دستخط کئے۔یہ فارمولہ پورے ہندوستان میں یکساں طور پر نافذ کرنے کا فیصلہ ہوا۔
حالات نے اس وقت نئی کروٹ لی جب کہ آزادی کے ساتھ ہی ملک تقسیم ہو گیا اور اس کی وجہ سے ہندو مسلم فسادات برپا ہوئے۔فسادات میں ہوئی خوں ریزی نے ہندو مسلمانوں کے درمیان ایسی خلیج قائم کر دی جو آج تک بھی پر نہیں ہو سکی ہے۔زبان تنازع اس وقت اور زور پکڑ گیا جبکہ پاکستان نے آزادی کے ساتھ ہی اپنی قومی زبان کے طور پر اردو کوفارسی رسم الخط کے ساتھ منتخب کر لیا۔ظاہر ہے ہندو تنگ ذہن لیڈران نے پاکستان کے ساتھ اردو سے بھی نفرت کا رشتہ قائم کر لیا۔اور شاید یہی وہ مقام تھا جب کہ اردو کو مسلمانوں کی زبان کا نام دے کر اسے ختم کرنے کی سازشیں شروع کر دی گئیں۔ایسے میں بھلا گاندھی جی کے فیصلے اور فارمولے پر عمل کیسے ممکن ہو سکتا تھا لہذا معاملہ کھٹائی میں پڑ گیا۔
آزادی کے بعد دستور ساز اسمبلی میں جب قومی زبان کے انتخاب کا مسئلہ اٹھا۔تو ایک بار پھر تمام لیڈران دو زمروں میں منقسم ہو گئے۔پنڈت نہرو اور مولانا آزاد نے گاندھی جی کے فارمولے کو ہی اتفاق رائے سے عملی جامہ پہنانے کی پر زور کوششیں کیں وہیں دوسری طرف سردار پٹیل،پرشوتم داس وغیرہ لیڈران ہندی کو دیو ناگری کے ساتھ قبول کر لینے پر زور دے رہے تھے۔مولانا حفظ الرحمن نے اس ضمن میں معرکتہ الآرا تقریر کر کے اردو کے حق میں فضا ہموار کرنی چاہی۔لیکن تمام جتن بے کارثابت ہوئے۔حد یہ ہوئی کہ مولانا آزاد اور پنڈت نہرو نے بھی ہتھیار ڈال دئے اور انھوں نے سابقہ موقف میں تبدیلی کر کے ’’ہندوستانی‘‘ زبان کو دیوناگری رسم الخط میں رائج کرنے کی تجویز پیش کر دی۔لیکن تنگ ذہن طبقہ اس پر بھی راضی نہ ہوا۔اس کے بعد حالات اس قدر کشیدہ ہوئے کہ مولانا آزاد نے ناراض ہو کر دستور ساز اسمبلی سے استعفیٰ دے دیا۔
بعض دانشوروں کی رائے ہے کہ اسمبلی میں اس مدعے پر گرما گرم بحث ہوئی۔جب معاملہ سلجھنے کی گنجائش معدوم ہو گئی تو پھر ووٹنگ کرانے کا فیصلہ لیا گیا۔اس ووٹنگ میں ہندی اور اردو دونوں کے لئے برابر ووٹ پڑے ۔لیکن صدر کے کاسٹنگ ووٹ سے ہندی کو قومی زبان کا درجہ مل گیا۔ہندی زبان کو دیو ناگری کے ساتھ قومی زبان تسلیم کرا لینے کے لئے بابو راجندر پرساد کو ہیرو بنا دیا گیا۔ایک روز نامہ میں سید شہاب الدین (سابق ممبر پارلمینٹ) کا مراسلہ شائع ہوا تھا جس میں انھوں نے دعویٰ کیا ہے کہ دستور ساز اسمبلی کے ریکارڈ کے مطابق قومی زبان کے مسئلے پر ۱۲۔۱۴ ستمبر ۱۹۴۹ء کو بحث ہوئی۔تجویز گوپال سوامی کی تھی جس پر بحث کے بعد کافی ترمیمات پیش کی گئیں۔لیکن محض کے ایم منشی کی ترمیم کے علاوہ باقی سبھی ترمیمات مسترد کر دی گئیں۔بحث میں اردو والوں کی طرف سے مولانا حفظ الرحمن ،مولانا اسمٰعیل،نذیر احمد،مولانا ابو الکلام آزاد وغیرہ نے مورچہ لیا۔بحث اور گفت و شنید کے بعد آخر میں صدر اسمبلی نے قومی زبان کے بارے میں ایک بیان پڑھ کر سنایا جس سے ایک دو افراد کو چھوڑ کر سبھی نے اتفاق کیا۔تو کیا ہندی کو قومی زبان کا درجہ دے دیا گیا؟۔اور فیصلہ ووٹ سے ہوا یا نہیں ؟آئین میں تو قومی زبان کے طور پر ہندی کا کوئی ذکر نہیں ہے لیکن عوام میں ایسا ہی مشہور کر دیا گیا ہے۔مرحوم سید شہاب الدین ممبر پارلمنٹ ہونے کے ساتھ دانشور طبقے سے بھی تعلق رکھتے تھے اگر انھوں نے لکھا ہے کہ وہ ریکاڑد دیکھنے کے بعد ہی یہ سب بیان کر رہے ہیں تو پھر اس پر بھروسہ کیا جانا چاہئے۔
اردو خالص ہندوستانی زبان ہے اس کو قبول کیا جانا چاہئے۔ملک بدل رہا ہے تو ذہن بھی تبدیل ہونے چاہئے۔اب رویوں اور فکر میں اثبات کی ضرورت ہے۔اردو کو اس کا واجب مقام دیجئے۔یہ سایہء مرگ میں خاتمے کا انتظار کر رہی ہندی کو بھی دوبارہ پنپنے کا موقع فراہم کریگا ۔اگر ایسا ہو سکا تو اردو اور ہندی دونوں ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکیں گی،ورنہ ہم سب واقف ہیں کہ زوال کو دعوت نامہ بھیجنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔