نام توان کا انجمن النساء تھا مگر ہم نے ہمیشہ اپنوں اور غیروں کو بی جی کہتے سنا۔ امروہے کے قریب اورنگ آباد سے تعلق تھا۔ بیاہ کر بلند شہر آئی تھیں۔ سنا تھا بی جی کی شادی بارہ برس کی عمر میں ہوگئی تھی۔ اس وقت ان کے شوہر کی عمر بھی پندرہ سال تھی۔ شوہر فوج میں سپاہی تھے۔ بی جی اپنے والدین کی اکلوتی بیٹی تھیں اور ان کے ایک بڑے بھائی بھی تھے جن کا وہ اکثر تذکرہ کیا کرتی تھیں۔ یہ بی جی کی صحبت کا اعجاز تھا کہ بچپن میں بہت سے ایسے کاموں کی تربیت کردی کہ جو لوگ پختہ عمر میں بھی نہیں سیکھ پاتے۔
ہماری زندگی کا دائرہ تو بچپن سے بی جی کے گرد گھوم رہا تھا۔ صحن میں چلتے ہوئے ہم بہن بھائی پاؤں گھسیٹ کر چلتے اور فرش پر رگڑ پیدا ہوتی، چپل کی آواز سنتے ہی بی جی کی آواز آتی کہ پاؤں اٹھا کر چلو، یہ کیا گھسٹ گھسٹ کر چل رہے ہو۔ زبان پر بے انتہا عبور تھا، محاورات کا استعمال کثرت سے اور بر محل کیا کرتیں۔ ان سے سنے ہوئے محاورے جب ہم اپنی گفتگو میں استعمال کرتے تو لوگ یہ ضرور پوچھتے کہ یہ لفظ یا محاورہ آپ نے کس سے سیکھا؟ کیا آپ کا تعلق کسی علمی اور ادبی گھرانے سے ہے؟
بی جی سے سنے ہوئے اکثر الفاظ، محاورات، اور کہاوتیں، ہمیں یاد آتی ہیں، جیسے مر گیا مردود نہ فاتحہ نہ دورود، ریت کا موتا پاپ نہ پُن، جورو کا غلام، اٹھاریائی بھاگنا، چارچوٹ کی مارلگنا، کھال ادھیڑ دینا، پھوہڑیائی، دودھ لی گالے کی دو لاتیں ہی بھلی، بہن گھر بھائی کتا ساس گھر جمائی کتا، اٹھائی گیرا، کٹنی، لگائی بجھائی، کن سوئیاں لینا۔
بی جی کو ہم نے ہمیشہ متحرک دیکھا، گلی میں آنے والے سبزی فروشوں، مچھلی والوں اور خوانچے والوں سے روزمرہ کی چیزیں خرید کر سبزی بنا دینا۔ دال چاول چن دینا، کپڑے طے کردینا، بچوں کو نہلانا دھلانا، لڑکیوں کی چوٹی بنانا۔ اس کے علاوہ چھوٹی موٹی کترنوں سے کتر بیونت کرکے چھوٹے بچوں کے کپڑے تیار کرنا، لڑکوں کے کرتے اور لڑکیوں کی فراک اور جمپر بنانا بی جی کے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا۔ محلے پڑوس سے لوگ بی جی سے غرارے آڑے پائجامے اور رضائی کی گوٹ کٹوانے آیا کرتے تھے۔ اور وہ مہارت سے کم کپڑے میں بھی جوڑ توڑ کرکے چیز تیار کردیا کرتی تھیں۔
کروشیہ بننے، سوئیٹر بننے، سویاں بٹنے، ازاربن بننے، چُٹیلا بنانے، سلائی اور کڑھائی میں مہارت حاصل تھی۔ اگر کوئی اور بھی اس طرح کے کام کرتا ہوا دِکھتا تو خوش ہوتیں۔ رسالے پڑھنے اور خاص طور پر لڑکیوں کے رسالے پڑھنے پر بہت غصہ ہوا کرتیں۔ بچیوں کے کُرتے، جمپر اورقمیضوں میں کپڑا کم پڑ جاتا تو کچھ نہ کچھ جوڑ توڑ کر کبھی کلیاں ڈال کر، کبھی جالی کی آستینیں لگا کر یا کبھی کسی بیل کے ذریعے اس قمیض کی خوبصورتی میں اضافہ کر دیا کرتیں۔ اس زمانے میں بی جی کے ہاتھ کے سلے، آٹھ کلی، سولہ کلی، بتیس کلیوں کے کرتے، اور پشواز ہمیں آج بھی یاد ہیں۔ خاص طور پر ان کے ہاتھ کے بنے چٹا پٹی کے غرارے، دوپٹے اوربھوپالی کرتے، آج اگر ڈھونڈیں تو انتہائی مہنگی برانڈ میں ملیں گے۔
گوٹا کناری اور بیلوں کے لیے انھوں نے دو تین کسنے بنا رکھے تھے۔ سگھڑ ایسی تھیں کہ پرانے کپڑوں سے بھی گوٹا کناری، بیلیں ادھیڑ کر کسنے میں رکھ لیتیں اور جب پوتیوں، نواسیوں کی شادی بیاہ یا عید تہوار کے کپڑے سیتیں تو وہ بیلیں کام آجاتیں۔ ان کے ہاتھ کے بنے ہوئے کسنے گول گیند کی طرح تھے۔ ان کی ڈوریاں ڈھیلی کر کے وہ گوٹا کناری نکالتیں اور واپس ڈوریاں کس کر کھونٹی سے ٹانگ دیا کرتیں۔
گھر میں ہر بچے کا علیحدہ قرآن مجید موجود تھا۔ اکثر قرآن پاک کے نئے جزدان بناتیں اور اس کو گوٹا کناری لگا کر مزید خوبصورت کردیتیں۔ سردیوں کی آمد سے قبل نئی رضائیوں کے کور تیار کرتیں، پرانی رضائیوں کی روئی دُھنواکر نئے کور میں بھرائی کے لیے روئی والے کے پاس بھجواتیں اور جب روئی دُھن کر، رضائی میں بھر کر آجاتی تو بڑی بہو کے ساتھ مل کر رضائی میں ڈورے ڈالا کرتیں۔ بی جی کو دیکھ دیکھ کر پوتیوں نے بھی رضائی میں ڈورے ڈالنا سیکھ لیے تھے۔
بڑھاپے میں ان کی سرمئی آنکھیں بے انتہا چمکدار محسوس ہوتیں۔ سردیوں میں جب وہ نہا دھو کر بال سکھانے کے لیے دھوپ میں بیٹھتیں تو ان کی گندمی رنگت، سرمئی آنکھیں اور سرمئی بال بچوں کو مبہوت کردیتے۔ بچوں پر ان کا ایک خاص قسم کا رعب تھا۔ ایک آواز لگاتیں اور تمام پوتے پوتیاں ارد گرد جمع ہوجاتے۔ پوتے پوتیوں کو وہ اپنے پروں میں چھپا کر رکھتیں۔ بچے ان کی مسہری پر پائنتی میں پہلو میں لیٹ کر سو جاتے اور تھکی ہاری ان کی بہوؤں کو ہوش بھی نہیں رہتا، رات کے کسی پہر ان بچوں کو اٹھا کر باتھ روم لے جاتیں تاکہ بستر گیلانہ ہو۔
بی جی کوصبح دیر تک سونا سخت ناپسند تھا۔ زیادہ دیر تک سونے والوں کو خوب صلواتیں سننے کو ملتیں ان کا کہنا تھا کہ فجر کے بعد دیر تک شیطان سوتا ہے۔ سردیوں میں بھی ٹھیک فجر کے وقت اٹھ جاتیں۔ نماز کے بعد سات بجے تک انتظار کرتیں کہ بہوئیں اٹھ جائیں تو ناشتہ دیں۔ اگر ذرا سی بھی دیر ہوجاتی تو خود ہی ناشتہ بنا لیتیں۔ بڑھتی ہوئی عمر اور کمزوری کی وجہ سے ایک آدھ دفعہ دیگچی ہاتھ سے چھوٹ گئی تو انھوں نے باورچی خانے جانا چھوڑ دیا تھا۔
گھر میں جب کسی نئے بچے کی آمد کے آثار ہوتے تو بی جی خاموشی سے گھر پر دائی یا ساڑھی والی سسٹر کو بلالیتیں۔ سسٹر کا آنا جانا ایک دو روز قبل شروع ہوجاتا اور وہ بی جی کو بتا جاتیں کہ ولادت میں ابھی اتنا وقت باقی ہے۔ پھر چاہے رات کے چار بجے ہی دائی یا ساڑھی والی سسٹر کی ضرورت پڑتی بی جی فوراً بلوا لیتیں۔ صبح بچوں کو ناشتے کے دوران علم ہوتا کہ گھر میں نیا مہمان آچکا ہے۔ یہ تمام کام انتہائی خاموشی سے انجام پاتے۔ لڑکوں کی پیدائش پر موتی چور کے لڈو اور لڑکیوں کی پیدائش پر جلیبیاں تقسیم کرواتیں۔
سردیوں کے مخصوص کھانے ان ہی کی رہینِ منت تھے۔ سردیوں میں باجرے کی ٹکیاں ضرور بنتیں۔ بھنے چنے، الائچی دانہ اور کشمش وافر مقدار میں منگا کر ملا کررکھتیں۔ سردیوں میں بچوں کو تھوڑی تھوڑی دیر میں بھوک لگتی تو مٹھی بھر ہر بچے کو دیتیں۔ اکثر اوقات وہ کمرے میں نہ ہوتیں تو بچے خاموشی سے ان کے کنستر نما ڈبے سے جس میں ڈھکن اور تالا لگا ہوا تھا چابی سے کھول کر بھنے چنے، الائچی دانہ اور کشمش پار کرلیتے۔ ان کو فوراً ہی خبر ہوجاتی مگر ان جان بن جاتیں۔
سردیوں میں دو تین مرتبہ بیس بیس کلو گاجر کا حلوہ بنتا۔ جس میں تمام میوہ جات کے علاوہ کھویا بھی وافر مقدار میں ڈلتا۔ گھر میں اس زمانے میں فریج نہیں تھا۔ اس لیے اس حلوے کو اونچائی پر ٹنگے ہوئے چھیکے میں کسی جالی کے کپڑے یا چھلنی سے ڈھک کر رکھ دیا جاتا۔ کھانے کے بعد گاجر کا حلوہ گرم کرکے تقریباً تمام لوگوں کو دیا جاتا۔
سنا تھا کہ سخت سے سخت وقت میں خود داری اور عزتِ نفس کا یہ عالم تھا کہ بھوکی سوگئیں مگر پڑوس کو خبر نہ ہونے دی۔ اپنے بچوں، پوتے، پوتیوں کو بھی یہ ہی تربیت دی تھی۔ عزت سے روکھی سوکھی کھا کر دنیا کے سامنے خوش باش نظر آؤ تاکہ لوگ ترس نہ کھائیں۔ بچوں پر بی جی کے رعب کی ایک وجہ ان کی نائیلون کی چپل اور پائپ سے پٹائی بھی تھی۔ اوّل تو کچھ کہتی نہیں تھیں۔ مگر جب غصہ آتا تو پائپ سے ایسی پٹائی لگتی کہ نیل پڑجاتے۔
ان کا کہنا تھا کہ مارو تو پھر ایسا کہ نیل پڑجائیں اور بچے اس نیل کو دیکھ دیکھ کر روئیں اور عبرت پکڑیں۔ اِس طرح نہ صرف پٹنے والا بچہ سدھر جاتا بلکہ دیگر بہن بھائی دوست احباب اور کزن بھی اس غلطی سے توبہ کرلیتے۔ وی سی آر کی آمد کے بعد جب پاکستان میں انڈین فلموں کا دور دورہ تھا اس وقت بھی ہفتے یا پندرہ دن میں بمشکل ان سے ایک فلم دیکھنے کی اجازت ملتی، فلم چلنے کے دوران گھر میں جلے پیر کی بلی کی مانند حرکت کرتی رہتیں۔ اگر فلم ختم ہونے میں دیر ہوجاتی توڈانٹ کر بند کروا دیتیں کہ عصر کا وقت ہورہا ہے یا دونوں وقت مل رہے ہیں اور گھر میں منحوسیت پھیلائی ہوئی ہے۔
بی جی نے قرآن پاک نہیں پڑھا تھا۔ حافظہ اچھا تھا۔ قرآن پاک کی کئی سورتیں زبانی یاد تھی۔ فارسی بھی کسی حد تک جانتی تھی۔ کہانیاں کہنے میں مہارت تھی بچے رات میں کہانی سنانے کی ضد کرتے تو اساطیری، داستانی اور دیومالائی کہانی سناتیں کبھی جدید دور کی سبق آموز عام سی کہانیاں۔ سنا تھا کہ بی جی کے چودہ بچے ہوئے تھے جن میں سے صرف تین حیات رہے ایک جوان بیٹے نورحسن کا عین جوانی میں بخار میں انتقال ہوا تھا اکثر اس بیٹے کا تذکرہ کیا کرتی تھیں۔ جو جو بچے دنیا میں آئے اور آکر واپس چلے گئے ان کا غم ہمیشہ ان کے دل میں رہا مگر اظہار ذرا کم کیا کرتی تھی۔
بی جی شادی ہو کر بارہ برس کی عمر میں ایسی سسرال آئیں کہ دوبارہ کبھی میکے جانا نصیب نہ ہوا۔ کہتی تھیں کہ نور کے ماموں ایک دفعہ مجھے لینے آئے تھے کہ میں اپنی بھاوج کو اس کے میکے جا کر منا کر لے آؤں مگر میں ان دنوں ایسی حالت میں تھی کہ سفر کے قابل نہ تھی۔ بھائی اس وقت ایسے ناراض ہو کر گئے کہ پھر کبھی ان کی کوئی خبر نہیں ملی۔ میری بھاوج نے بھائی کے نام پر بیٹھے بیٹھے پوری جوانی گزار دی۔
بی جی کے پاس قصے کہانیوں کے علاوہ بے شمار جیتے جاگتے کردار موجود تھے۔ جن کے بارے میں کئی گھنٹے گفتگو کر سکتی تھیں۔ بی جی لڑکیوں کی تعلیم کی حامی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ بچیوں کو اتنا تعلیم یافتہ ضرور ہونا چاہیے کہ اگر کبھی برا وقت آئے تو سلائی کڑھائی کرکے یا نوکری کرکے اپنے بچوں کا پیٹ پال سکیں۔
رجب المرجب کے مہینے میں جمعہ کی نماز سے قبل سورہ الملک کا ختم ضرور کرواتیں۔ کبھی اکیس دفعہ کبھی اکتالیس دفعہ کبھی اکہتر دفعہ۔ اس دن گھر کے جو مکین فارغ ہوتے یا جو بچیاں اور لڑکے پڑھ سکتے ہر ایک کے حصے میں آٹھ، دس دفعہ کی پڑھائی ضرور آتی۔ اس کے بعد گھر میں تبارک کی روٹی فاتحہ کے لئے تیار ہوتی تھی۔ وہ میٹھی روٹی بسکٹ کی طرح کی ہوتی تھی جس پر تل لگے ہوتے تھے۔ وہ کہتی تھیں کہ یہ روٹی جب سورج سوا نیزے پر ہوگا تو ہمیں اس کی سختی سے بچائے گی۔
گھر میں جب کوئی پریشانی آ جاتی تو بی جی فوراًنفل مان لیا کرتی تھیں۔ ایک دفعہ بڑے بیٹے کے شدید گردے کا درد اٹھا اور جان پر بن گئی تو بی جی نے ڈیڑھ سو نفل صحت یابی کے لیے مان لیے، جو ادا کرتے ہوئے بچوں سے حساب لکھواتی جاتی تھیں تاکہ حساب میں غلطی نہ ہو۔ مغرب کے بعد ان کا معمول تھا کہ کلمہ طیبہ اور تیسرے کلمہ کا ورد کرتیں اور اس کا حساب بچوں سے ایک کاپی میں لکھواتی جاتیں۔ استغفار بھی کثرت سے پڑھتیں۔ ہم کہتے کہ بی جی اس قدر تسبیحات کیوں پڑھتی ہیں، تو کہتیں کہ مرتے وقت سوا لاکھ کلمہ ہونا چاہیے ساتھ جانے کے لیے۔
سنا تھا بی جی کو مدینے جانے کی بہت خواہش تھی اور جب بڑے بیٹے کے ہمراہ حج پر گئیں تو وہاں سے آبِ زم زم سے اپنا کفن دھو کر لائی تھیں۔ جس پر پاک مٹی سے کلمہ بھی لکھا ہوا تھا۔ ہر دس پندرہ دن بعد یا مہینے بعد صندوق کھلوا کر کفن نکالتی اور اگر کبھی دھوپ کی ضرورت ہوتی تو دھوپ لگا کر رکھ دیتیں۔ پوتے پوتیوں، بہو بیٹوں کو وصیت کر رکھی تھی کہ جیسے ہی میرا انتقال ہو نہلانے اور کفنانے میں دیر نہیں کرنا میت کے سرہانے بیٹھ کر اونچی آواز سے مسلسل یسین پڑھنا اور میت اٹھنے سے قبل گیارہ دفعہ سورۃ البقرہ ضرور پڑھ کر بخشنا۔
جس قدر ممکن ہو سورہ الملک سورہ یسین سورہ المزمل کا ثواب پہنچاتے رہنا۔ کہتے ہیں کہ بی جی نے بانوے برس عمر پائی بڑھاپے میں ان کا رنگ سانولا ہوگیا تھا۔ رمضان المبارک میں ایک دن کسی بات پر غصہ آگیا، مغرب کے وقت یہ کہتی ہوئی مڑیں کے اب ایسے گروں کہ پھر کبھی نہ اٹھ سکوں۔ اسی رات باتھ روم جاتے ہوئے کسی چیز سے ٹکرا کر گریں، کولہے کا گولہ ٹوٹ گیا تھا۔ اس زمانے میں کولہے کے گولے کی سرجری تھی یا نہیں مجھے علم نہیں۔
بیٹوں کو سختی سے منع کردیا تھا کہ ہسپتال نہ لے جانا۔ بچے چار ماہ تک خدمت کرتے رہے۔ مگر ہڈی ٹوٹنے کی وجہ سے سخت ترین اذیت اور تکلیف میں مبتلا رہیں۔ اس دوران دونوں بہوؤں نے بڑی خدمت کی۔ اکثر کہتیں کہ یہ میری پائنتی میں تم نے کس کے بچے لٹا کر چھوڑ دیے ہیں ان چھوٹے بچوں کو اٹھا لو یہ مجھے تنگ کر رہے ہیں یا کبھی کہتیں کہ دیکھو نور کے ماموں آئے ہیں دروازہ بجا رہے ہیں جا کر دروازہ کھول دو یا پھر اکثر ان لوگوں کے نام لیتیں جو دنیا سے جاچکے ہیں۔ بچے انھیں وہ نظر آرہے تھے جو کم سنی میں انتقال کر گئے تھے۔
ہمارا خیال تھا کہ اس وقت تک ان کے بڑے بھائی بھی وفات پا چکے ہوں گے۔ بیماری کے دوران ہاتھ جوڑ کر اللہ تعالی سے معافی مانگتی رہیں۔ 29 مئی 1995 ء کو رات ساڑھے گیارہ بجے تمام پوتے پوتیوں، اپنے بیٹے بہوؤں کی موجودگی میں یسین سنی، تمام لوگوں پر الوداعی نظر ڈالتے ہوئے کلمہ پڑھا اور اپنی جان، جان آفریں کے سپرد کر دی۔ دو گھنٹے کے اندر انھیں نہلا دھلا کر کفنادیا گیا۔
غسل کے بعد ان کا رنگ انتہائی صاف اور پیلاہٹ لئے ہوئے تھا۔ چہرے کے تمام جھریاں ختم ہوگئی تھیں۔ موت کے بعد ایسے پرسکون چہرے شاذونادر ہی دیکھنے کو ملتے ہیں۔ مئی کے دن تھے۔ سخت گرمی تھی۔ گھر میں برف منگوا کر ان کی چارپائی کے نیچے رکھ دی گئی۔ تدفین دوسرے دن ظہر میں ہوئی۔ بی جی اپنی طبعی عمر پوری کر کے گئی تھیں۔ مگر ہمیں اس صدمے سے سنبھلنے میں ایک عمر لگی۔ آج بھی زندگی میں کبھی کوئی پریشانی آجائے تو کبھی خواب میں اور کبھی خیال میں آکر کہتی ہیں کہ میری لاڈو پریشان نہ ہو، اللہ بہتر کرے گا۔ بحیثیت ماں، بحیثیت بیوی بحیثیت دادی اور بحیثیت ساس بہت کم خواتین ایسی ملیں گی جنھوں نے اپنی زندگی اتنی متحرک اور فعال گزاری ہوگی اور بیک وقت اتنے سارے بچوں کی تربیت کر گئی ہوں گی۔