آج – ١٠ ؍مئی؍ ٢٠٠٢
اردو کے ممتاز ترقی پسند شاعر، معروف نغمہ نگار اور مشہور شاعر” کیفی اعظمی صاحب “ کا یومِ وفات…
نام سیّد اطہر حسین رضوی تھا، کیفیؔ تخلص کرتے تھے۔ ان کی پیدائش ١٤ جنوری ١٩١٩ء کو موضع مجواں ضلع اعظم گڑھ میں ہوئی۔ کیفی کا خاندان ایک زمیندار خوشحال خاندان تھا۔ گھر میں علم وادب اور شعر وشاعری کا ماحول تھا۔ ایسے ماحول میں جب انہوں نے آنکھیں کھولیں تو ابتدا ہی سے انہیں شعر وادب سے دلچسپی ہوگئی، اپنے وقت کے رواج کے مطابق عربی فارسی کی تعلیم حاصل کی اور شعر کہنے لگے۔
کیفی کے والد انہیں مذہبی تعلیم دلانا چاہتے تھے اس غرض سے انہوں نے کیفی کو لکھنو میں سلطان المدارس میں داخل کر دیا۔ لیکن کیفی کی انقلابی اور احتجاجی طبیعت کی منزلیں ہی کچھ اور تھیں۔ کیفی نے مدرسے کے جامد اور دقیانوسی نظام کے خلاف آواز اٹھائی اور طلبا کے کچھ مطالبات کو لے کر انتظامیہ سے بھی نبرد آزما ہوئے۔ اس طرح کے ماحول نے کیفی کی طبیعت کو اور زیادہ انقلابی بنایا وہ ایسی نظمیں کہنے لگے جو اس وقت کے سماجی نظام کو نشانہ بناتی تھیں۔ لکھنو کے اس قیام کے دوران ہی ترقی پسند ادیبوں کے ساتھ کیفی کی ملاقاتیں ہونے لگیں۔ لکھنو اس وقت ترقی پسند ادیبوں کا ایک اہم مرکز بنا ہوا تھا۔
۱۹۴۱ میں کیفی لکھنو چھوڑ کر کانپور آگئے یہاں اس وقت مزدوروں کی تحریک زور پر تھی، کیفی اس تحریک سے وابستہ ہوگئے۔ کیفی کو کانپور کی فضا بہت راس آئی یہاں رہ کر انہوں نے مارکسی لٹریچر کا بہت گہرائی سے مطالعہ کیا۔ ۱۹۴۳ میں کیفی، سردار جعفری اور سجاد ظہیر کے کہنے پر ممبئی آگئے اور باقاعدہ طور پر تحریک اور اس کے کاموں سے وابستہ ہوگئے۔
معاشی مشکلوں کے سبب کیفی نے فلموں میں نغمے بھی لکھے۔ سب سے پہلے کیفی کو شاہد لطیف کی فلم ’’ بزدل ‘‘ میں دو گانے لکھنے کا موقع ملا۔ آہستہ آہستہ کیفی کی فلموں سے وابستگی بڑھتی گئی انہوں نے گانوں کے علاوہ کہانی، مکالمے اور منظرنامے بھی لکھے۔ کاغذ کے پھول، گرم ہوا، حقیقت، ہیر رانجھا جیسی فلموں کے نام آج بھی کیفی کے نام کے ساتھ لئے جاتے ہیں۔ فلمی دنیا میں کیفی کو بہت سے اعزازات سے بھی نوازا گیا۔
سجاد ظہیر نے کیفی کے پہلے ہی مجموعے کی شاعری کے بارے میں لکھا تھا ’’جدید اردو شاعری کے باغ میں نیا پھول کھلا ہے۔ ایک سرخ پھول ‘‘ اس وقت تک کیفی ترقی پسند تحریک سے وابستہ نہیں ہوئے تھے۔ لیکن ان کی شاعری ابتدا ہی سے ترقی پسندانہ فکر وسوچ کو عام کرنے میں لگی تھی۔ کیفی عملی اور تخلیقی دونوں سطحوں پر تا عمر تحریک اور اس کے مقاصد سے وابستہ رہے ان کی پوری شاعری سماج کے فاسد نظام، جبر و استحصال کی صورتوں اور غلامانہ ذہنیت کے تحت جنم لینے والی برائیوں کے خلاف ایک زبردست احتجاج ہے۔
کیفی اعظمی ، ١٠ مئی ٢٠٠٢ء کو انتقال کر گئے ۔
شعری مجموعے :
جھنکار، آخر شب، آوارہ سجدے، میری آواز سنو ( فلمی نغمے ) ابلیس کی مجلس شوریٰ ( دوسرا اجلاس)
پیشکش : اعجاز زیڈ ایچ
ممتاز نغمہ نگار کیفیؔ اعظمی کے یومِ وفات پر منتخب اشعار بطورِ خراجِ عقیدت…
اب جس طرف سے چاہے گزر جائے کارواں
ویرانیاں تو سب مرے دل میں اتر گئیں
—
اتنا تو زندگی میں کسی کے خلل پڑے
ہنسنے سے ہو سکون نہ رونے سے کل پڑے
—
انساں کی خواہشوں کی کوئی انتہا نہیں
دو گز زمیں بھی چاہیئے دو گز کفن کے بعد
—
بس اک جھجک ہے یہی حال دل سنانے میں
کہ تیرا ذکر بھی آئے گا اس فسانے میں
—
بستی میں اپنی ہندو مسلماں جو بس گئے
انساں کی شکل دیکھنے کو ہم ترس گئے
—
بہار آئے تو میرا سلام کہہ دینا
مجھے تو آج طلب کر لیا ہے صحرا نے
—
جو اک خدا نہیں ملتا تو اتنا ماتم کیوں
یہاں تو کوئی مرا ہم زباں نہیں ملتا
—
جھکی جھکی سی نظر بے قرار ہے کہ نہیں
دبا دبا سا سہی دل میں پیار ہے کہ نہیں
—
تم اتنا جو مسکرا رہے ہو
کیا غم ہے جس کو چھپا رہے ہو
—
وہ بھی سراہنے لگے اربابِ فن کے بعد
داد سخن ملی مجھے ترکِ سخن کے بعد
کیفی ؔ اعظمی
انتخاب : اعجاز زیڈ ایچ