بچپن انسان کی عمر کا وہ حصہ ہے جہاں ذہن میں پیدا ہونے والی تصوراتی دنیا کی تشکیل اور اسکا پروان چڑھنا انسان کی باقی کی عمر میں اسکی ذہنی صلاحیتوں پر بھی اثر انداز ہوتا ہے۔ تین سے چھ سال کی عمر بچے کی عمر کا وہ حصہ ہے جہاں مشاہدات اور نئی معلومات کی بناء پر ذہن کی نشو و نما ہو رہی ہوتی ہے اور اسی عمر میں انسان کے بڑے سے بڑا خواب دیکھنے، تصور کرنے کے ساتھ ساتھ تخلیقی صلاحیت پروان چڑھتی ہے۔
ہماری عمر بھی اس دور میں یہی کوئی پانچ برس ہو گی کہ پہلی بار لفظ ‘سورج گرہن’ سنا۔ غالباً والد صاحب نے اخبار پڑھتے ہوئے حلقہء احباب کو اور بعد ازاں گھر میں ذکر کیا ہوگا کہ سورج گرہن لگنے کو ہے۔ ہمارے لئیے یہ نیا لفظ تھا۔ سورج کا تو علم تھا کہ وہی جو روز صبح نکل کر سکول جانے کا باعث بنتا ہے۔ ہمیں چاند اچھا لگتا تھا کہ چاند کےوقت صبح صبح نیند خراب کر کے سکول نہیں جانا پڑتا تھا۔ سو اس سورج گرہن کا سن کر ایک بار تو یوں لگا کہ شاید اب ایک کے بجائے دو سورج ہونے جا رہے ہیں، ہمیں تو ایک سورج بھی وارا نہیں کھاتا تھا چہ جائیکہ دو۔۔ اب دو سورجوں سے کیونکر نمٹا جا سکےگا؟ ڈرتے ڈرتے والدہ سے پوچھا کہ اب ابو بتا رہے تھے کہ سورج گرہن لگنے کو ہے، اب ہم دو سورجوں کا کیا کریں گے، کیا اب ہمیں دو بار سکول جانا پڑا کرے گا؟
والدہ ہنس دیں۔۔سینے سے لگایا۔ ۔ پیار کیا اور سمجھایا کہ نہیں ایسے نہیں بیٹا۔۔سورج گرہن کا مطلب ہے کہ کچھ دیر کیلئیے سورج کے آگے چاند آ جائے گا، جب چاند سورج کے آگے سے ہٹ جائے گا تو سب ٹھیک ہو جائے گا۔
اب یہ ایک اور الگ مسئلہ تھا، سورج کے آگے بھلا چاند کیسے آ سکتا تھا؟
چاند تو رات کو نکلتا تھا، تو کیا یہ چاند بغاوت پر اتر آیا ہے کہ سورج کے دفتری اوقاتِ کار میں باہر نکل کر اس کے کام میں دخل اندازی کر رہا ہے؟ اس رات ہمیں چاند پر شدید غصہ اور رنج رہا۔ بھئی تمھارا کام رات کو نکلنا ہے تو تم کیوں خوامخواہ میں دن کو نکل کر بے چارے سورج کے کام میں دخل اندازی کرتے ہو؟ اور پھر وہ جو خالہ رات کو کہانی سناتے ہوئے بتا رہی تھیں کہ چاند پر بڑھیا چرخہ کات رہی ہے کہیں یہ اسکی شرارت تو نہیں؟ کیا اس بڑھیا کو کوئی پوچھنے والا نہیں؟ ہم ذرا بڑے ہو جائیں، ہم پوچھیں گے اس بڑھیا سے! شاید کچھ ایسا ہی سوچتے ہوئے نیند آ گئی ہوگی۔ اس دن سے چاند ہمارا دوست نہیں رہا تھا۔ کھلے آسمان تلے رات کو صحن میں بچھی چارپائی پر نیند آنے سے پہلے چاند سے دوستی، چاند سے تصور ہی تصور میں ڈھیروں باتیں۔۔گردن گھما کر امی کی طرف بھی دیکھ لینا کہ کہیں وہ ہمارے راز سُن تو نہیں رہیں؟ کتنا اچھا دوست تھا چاند۔۔اور آج کتنا دُکھ ہو رہا تھا۔
چاند کو کھو کر۔۔شاید سب دوستوں کو کھو کر ایسے ہی دُکھ ہوتا ہوگا؟
اس رات ہم نے چاند سے راز کی باتیں نہیں کیں، اسکی اتنی سزا تو بہرحال بنتی ہی تھی۔ اگلے دن صبح پتہ چلا کہ آج سورج گرہن ہے۔ ریڈیو سے بار بار بتایا جا رہا تھا کہ سورج کی طرف نہ دیکھیں۔ غیر ضروری طور پر باہر نہ نکلیں۔ ہمیں اس ہنگامی صورتحال پر سورج کا کنٹرول اچھا لگ رہا تھا۔ ہم نے فیصلہ کر لیا کہ اب ہم بھی سورج گرہن لگائیں گے، مگر لگائیں کیسے؟ امی سے پوچھتے ہیں، ضرور انکو پتہ ہوگا انکو ہر مسئلے کا حل معلوم ہوتا ہے۔ امی سے پوچھا کہ کیا ہم سورج گرہن لگا سکتے ہیں؟ مگر یہ کیا؟
امی تو ہنس دیں۔۔
پھر غالباً ابو نے کوئی بات کہہ دی اور امی کی توجہ ادھر چلی گئی، ہم نے مگر فیصلہ کرلیا کہ اب سورج گرہن اپنی مدد آپ کے تحت لگایا جائے گا، کسی سے مدد نہیں لیں گے کہ ہم پہ ناحق ہنستےہیں، ایک سورج کو گرہن لگانے کا ہی تو پوچھاتھا کوئی سکول جانے کا تو نہیں کہہ دیا تھا جو اتنا مشکل ہو۔ اچانک یاد آیا کہ اس دن گھر پر ابو الیکٹریشن کو بجلی کا بورڈ ٹھیک کرنے لائے تھے، اس نے دو تاریں جوڑی تھیں تو ہلکا سا دھماکا ہوا اور بجلی کا بڑا شعلہ لپکا تھا، ابو نے فوراً ہماری آنکھوں کے آگے ہاتھ رکھ دیا تھا۔ سورج گرہن کے بارے میں یہی کہا جا رہا تھا کہ سورج کی طرف نہ دیکھیں، تو کیا تاریں جوڑنے سے سورج گرہن لگتا ہے؟ ہممممم سمجھ گئے!
گھر کے باہر جامن کے درخت کے ساتھ بھی تو ایک تار لٹک رہی ہے، ٹھیک ہو گیا، ابھی سورج گرہن لگاتے ہیں۔
اور ہم نے ایک چھڑی سے جامن کے درخت سے تار کو نیچے کیا اور اسکا ایک سرا کنڈی کی طرح موڑ کر درخت کے نیچے موتئیے کے پودے کی شاخوں میں پھنسا دیا۔ سورج گرہن لگایا جا چکا تھا۔ جیسے ریڈیو پر بھی اس دن کوئی تقریر کر رہا تھا۔۔ہمارا بھی دل چاہا کہ ویسے ہی اعلان کریں کہ عزیز ہموطنو، سورج گرہن لگایا جا چکا ہے اور یہ میرا آپ سے وعدہ ہے کہ سورج گرہن نوے دن میں اٹھا لیا جائے گا۔ وغیرہ
امی کو بہرحال ہم نے متنبہ کر دیا تھا کہ سورج کی طرف نہ دیکھیں سورج گرہن لگایا جا چکا ہے۔ امی کو شاید ہماری تنبیہہ سمجھ ہی نہ آئی اور کسی نے ہماری میڈیکل ایدوائزری وارننگ کو قابلِ درخورِ اعتنا نہ سمجھا۔
اب ہم روز سکول جانے سے پہلے سورج گرہن لگا کر جاتے اور عصر کے وقت عوام الناس پر رحمدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے گرہن میں نرمی کر دیتے۔ سکول میں بھی دن بھر کنٹرول اور اختیار کی ایک خماری سی رہتی۔ دوستوں کو بھی چپکے سے بتا دیتے کہ سورج کی طرف زیادہ نہ دیکھا کریں۔ ٹیچر مِس طاہرہ سخت طبیعت کی مالک تھیں۔ ایک دن کسی بات پر ڈانٹا تو ہم نے فیصلہ کر لیا کہ انکے گھر پر سےسورج گرہن کبھی بھی نہ ہٹائیں گے! اب بھگتیں۔۔اور ڈانٹیں ہمیں۔
انہی دنوں گرمیوں کی چھٹیاں ہو گئیں، ننھیال جانے کا فیصلہ ہوا۔۔ہفتہ بھر وہاں رہے لیکن طبیعت بہت بے چین اور اضمحلال کا شکار رہی۔ ننھیال ہماری پسندیدہ جگہ تھی، بہت پیار ملتا تھا، کزنز سےمل کر خوب کھیلتے، نانی امی سے ٹافیوں کے پیسے بھی ملتے، لیکن اس بار سب ہی اکارت گیا۔ ہوا یہ کہ ننھیال کی طرف سفر کیلئیے نکلنے سے پہلے ہم سورج گرہن والی تار نکالنا بھول گئے۔ وہی جامن کے درخت سے لٹکتی ہوئی موتئیے کی ٹہنی میں اٹکی تار جس سے ہم پوری دنیا میں سورج گرہن لگاتے تھے۔ بھلا کوئی ایسا غیر ذمہ دار بھی ہو سکتا تھا؟ ہفتہ بھر ہو گیا تھا اور ہم نے پوری دنیا کو سورج گرہن کے عذاب میں مبتلا کر رکھا تھا۔ غالباً ہمیں عہدے سے الگ ہو جانا چاہئیے تھا ہم ایسی اہم ذمہ داری کے مستحق ہی نہ تھے۔ خدا کی پناہ۔۔کیسی زیادتی ہو گئی ہم سے۔۔ اوپر سے مستزاد یہ کہ کسی کو بتا بھی نہ سکتے تھے۔ کسی کھیل میں جی نہ لگا، اور تو اور ڈیکو مکھن ٹافی بھی پہلے جتنی مزے کی نہ لگی ۔دورہء ننھیال کا پورا ہفتہ یونہی ضائع ہوگیا۔ اور پھر وہ دن۔۔جب بالآخر ابو لینے آ ہی گئے۔ میں سب سے پہلے جانے کو تیار، ہر کوئی حیران ہوا کہ یہ اس دفعہ اتنا جلد جانے کو کیوں تیار ہو گیا؟ امی نے کہا آجکل سکول میں دل لگتا ہے نا شاید سکول کو مس کر رہا ہوگا۔ امی کو کیسے بتاتے کہ دنیا کو سورج گرہن کے عذاب سے نکالنا ہے اور ہم پر سکول سے کہیں بڑی ذمہ داری ہے۔۔ ابو کا ویسپا جیسے ہی گھر پہنچا، ہم کہ ویسپا کے پائیدان پر کھڑے ہو کر بمشکل سر ہینڈل سےاوپر نکال کر دیکھ رہےتھے، گھر کے باہر پہنچتے ہی نظر جامن کےدرخت کی طرف گئی اور جی بیٹھ گیا۔ گرہن لگا ہوا تھا!
ابو نےویسپا روکا، ہم ابو کےہاتھوں سے نکل کر دوڑ لگا کر موتیئے کی جھاڑی کے پاس پہنچے، ہاتھ کا جھپٹا مارا اور جامن سےلٹکتی تار کا کنکشن موتیئے سے ڈسکنکٹ کر ڈالا ہم دنیا کو بچانے میں کامیاب ہو چکے تھے، سورج گرہن بروقت بڑا نقصان ہونے سے پہلےختم کر دیا گیا تھا۔ ابو نے دور سے حیران ہو کر پوچھا، یہ کیا کر رہے تھے، عرض کیا۔۔وہ جی سورج گرہن لگا رہ گیا تھا۔ وہ ختم کیا ہے۔۔اور ابو کا زور دار قہقہہ۔ ۔
ابو جب تک حیات رہے واقعہ دوستوں کو سناتے رہے ہماری وزیر خزانہ شوکت ترین سےدرخواست ہےکہ اگر انہوں نےملکی معیشت درست کرنی ہے تو وہ بھی خان جی کے چمن میں جامن کا درخت تلاش کریں، خان جی کا جب دل چاہتاہے تار اتار کر معیشت ڈاؤن کردیتےہیں اور جب دل کرتاہے موتیے کے پودے کے ساتھ جامن سےلٹکتی تار پھنسا کر ملکی معیشت اپ کر دیتے ہیں۔