ایک چھوٹے سے گاؤں میں عبداللہ اور اس کی ماں رہا کرتے تھے ۔۔۔ اس کے ابو کے اچانک انتقال کے بعد ان کی گزر بسر کا ایک ہی ذریعہ تھا۔۔۔۔ وہ ہر سال دو چھوٹے بکرے خریدتے ۔۔۔ عبداللہ انھیں روز صبح جنگل میں چرانے لے جاتا اور شام کو گھر لے آتا ۔۔۔۔ اس طرح جب بکرے بڑے ہو جاتے تو وہ انھیں بقرعید پر بیچ دیتے ۔۔۔
اس بار عبداللہ نے ضد کرتے ہوئے کہا
” امی ۔۔۔ ہم ایک بکرا بیچیں گے اور ایک کی قربانی کریں گے ۔”
ماں نے اسے سمجھایا ۔۔۔
“بیٹا ہم پر تو قربانی فرض بھی نہیں ہے اور ہم ایسا کریں گے تو کھائیں گے کیا ؟؟؟”
لیکن عبداللہ نہیں مانا۔۔۔ مجبوراً ماں کو ہی اس کی ضد کے آگے سر جھکانا پڑا۔۔۔
بقرعید قریب آگئی اور ستم یہ ہوا کہ بکرے اتنے صحت مند نہیں ہوئے جتنے ہر سال ہوا کرتے تھے۔۔۔ لوگ بکرا خریدنے آتے اور لوٹ جاتے۔۔۔ یہ سلسلہ بقرعید کے پہلے والی رات تک چلا۔۔۔۔ ماں جھوپڑی کی دیوار سے ٹیک لگائے سوچوں میں گم تھیں اور عبداللہ اس کی گود میں سر رکھ کر لیٹا چھت کو تک رہا تھا۔۔۔۔ تبھی دروازے پر دستک ہوئی۔۔۔ ماں نے دروازہ کھولا۔۔۔ دروازے پر ایک بوڑھا شخص تھا۔۔۔ اس نے بکرا خریدنے کی خواہش ظاہر کی۔۔۔۔ عبداللہ بے دلی سے بکرا کھول کر اس شخص کے سامنے لایا ۔۔۔۔ اس شخص نے بکرے کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرا اور پسندیدگی میں سر ہلاتے ہوئے جیب سے پیسے نکال کر ماں کی طرف بڑھا دئیے۔۔۔۔ ماں نے پیسے گنے اور حیرت سے اس شخص سے کہا۔۔۔۔
” یہ تو بہت زیادہ ہیں۔۔۔ اتنے میں تو دو تین بکرے آجائیں گے۔”
“رکھ لو۔۔۔ میں ہر سال اتنے پیسے میں ایک ہی بکرا خریدتا ہوں۔۔”
اس شخص نے مسکراتے ہوئے کہا اور بکرا لے کر چلا گیا۔۔۔۔
ماں نے جذبات کی شدت میں عبداللہ کو گلے لگا لیا ۔۔۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...