31 دسمبر 2000ء کا دن مجھے اچھی طرح سے یاد ہے کہ جب ابا جی اپنی آخری سانسیں لے رہے تھے۔ میں بالکل ابا جی کی چارپائی کے ساتھ مونڈھے پر بیٹھا ابا جی کے ہاتھوں کو دبا رہا تھا۔ وہ میرے سکول کا زمانہ تھا اور تب میں کندہ ناتراش تھا۔ ابا جی کی وفات کے بعد میری ساری امیدیں بڑے بھائیوں سے وابستہ ہو گئیں کیوں کہ ماں باپ کے چلے جانے کے بعد ذمہ داریوں کا سارا بوجھ بڑوں کے کندھوں پر ہی آتا ہے۔ سب سے بڑے بھائی کو تو میں ویسے ہی درویش مانتا ہوں۔ وہ بالکل سیدھا سادہ اور کھلی کتاب کی طرح ہے۔ میں جب سکول سے کالج تک پہنچا تو بڑے بھائی کی اشیر باد مجھے حاصل رہی۔ میں نے چھوٹی چھوٹی مشقتیں بھی کیں۔ اس دوران میں منجھلے سے ہمیشہ نظر انداز ہی ہوا۔ اس نے کبھی بھی میری ضرورتوں کو پورا نہیں کیا۔ کبھی بھی میرے آڑے نہیں آیا ۔ اچانک بڑے بھیا کو بیماریوں نے آن گھیرا۔ ان کی ریڑھ کی ہڈی کا آپریشن کروانا پڑا۔ اس کے بعد تو وہ بالکل معذور ہو کر رہ گئے۔ اسی دوران ان کے گردے ناکارہ ہو گئے اور مثانے میں کینسر ہو گیا۔ ایک دن اچانک بڑے بھیا خون کی الٹیاں کرنے لگ گئے۔ میری غیر موجودگی میں منجھلے نے ان کو ہسپتال پہنچا دیا۔ مجھے ایک عجیب سی مسرت ہوئی کہ شاید منجھلے میں احساس ذمہ داری جاگ اٹھا ہے لیکن وہ ساری مسرت اس دن اچانک ختم ہو گئی جب ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال شیخوپورہ سے بڑے بھیا کو جواب دے دیا گیا اور میں نے اکیلے ان کو ایمبولینس میں ڈالا اور ہم میو ہسپتال لاہور کے لئے روانہ ہو گئے۔ پورے سفر کے دوران میں یہی سوچ کر پریشان تھا کہ منجھلے بھیا ہمارے ساتھ کیوں نہیں آئے؟
وہ ایسے کیسے واپس گھر جا سکتا ہے؟ کیا بڑے بھیا سے اس کا کوئی رشتہ نہیں؟ میں نے بے سروسامانی کی کیفیت میں بڑے بھیا کو میو ہسپتال لاہور میں داخل کروا دیا۔ بڑے بھیا کی آنے والی ہر اگلی رپورٹ پچھلے ٹیسٹ کی رپورٹ سے کہیں زیادہ خطرناک ہوتی۔ ڈاکٹرز کے مطابق بڑے بھیا کو بلڈ کینسر بھی تھا۔ بڑے بھیا کبھی کبھار ہوش میں آتے اور مجھے کہتے کہ مجھے منجھلے کے حوالے کر کے نہ جانا۔ تم ہمیشہ میرے پاس رہنا۔۔۔۔ تین ماہ کے اس عرصے میں منجھلے بھیا کبھی کبھار رات کی تاریکی میں آتے اور کچھ ہی لمحوں کے بعد واپس گھر چلے جاتے۔ وہ رات کی تاریکی میں یوں آتے کہ جیسے کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہ ہوں۔ جنوری اور فروری کی یخ بختہ ہوائیں میرا سینہ چیر کے رکھ دیتیں اور میں بغیر چھت کے ٹھنڈے فرش پر گھنٹہ دو گھنٹے آرام کیا کرتا۔ خیر بڑے بھیا کے گردے واش (dialysis) ہوئے تو گویا ان کی حالت تھوڑی بہتر ہو گئی۔ اب مثانے کا آپریشن باقی تھا اور اس دوران بڑے بھیا کی جان بھی جا سکتی تھی۔ اوپر سے بڑے بھیا بلڈ کینسر کی وجہ سے اس قدر کمزور ہو چکے تھےکہ ڈاکٹرز ان کو بے ہوشی کا انجکشن دینے سے بھی ڈرتے کہ وہ موت کی آغوش میں چلے جائیں گے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جمعرات کی صبح 9 بجے بڑے بھیا کو آپریشن تھیٹر لے جایا گیا۔ اور بھی کافی مریض تھے جن کے آپریشنز ہونے تھے۔ آپریشن تھیٹر کے باہر بیٹھے ہوئے میں اس قدر اکیلا تھا کہ اب میرے دل سے میرے سب سے چھوٹے ہونے کا احساس ہی جاتا رہا۔ بڑے بھیا کو سب سے آخر میں آپریشن تھیٹر سے باہر لایا گیا۔ ان کا آپریشن اس قدر الجھا ہوا تھا کہ 8 سے 10 گھنٹوں پر محیط ہو گیا۔
اب میں بالکل بھی نہیں چاہ رہا تھا کہ کوئی بڑا آئے اور میرے سر پر ہاتھ رکھے۔ مجھے حوصلہ دینے کی کوشش کرے۔ شاید اب حالات اور صورتحال نے مجھے بڑا کر دیا تھا۔ خون کے رشتوں سے بھی امیدیں لگانا مجھے کار فضول لگ رہا تھا۔ میں بڑے بھیا کو موت کے منہ سے نکال کر گھر لا چکا تھا۔ ہر چیز ویسی ہی تھی جیسی میں چھوڑ کر گیا تھا۔ مجھے گمان ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے منجھلے کے دل سے پیار، محبت، لگاوٹ، خوفِ خدا اور احساس ذمہ داری چھین لیا ہے۔ وہ جو ماں جی پر ظلم کرتا تھا اسی ظلم اور گالی گلوچ کی پاداش میں خدا نے اس کے دل پر مہر لگا دی ہے اور شاید پتھر کا بنا دیا ہے۔ جو ماں کی قدر نہیں کر سکا وہ بڑے بھائی کی قدر کیسے کرتا؟ اس کے لئے رشتے خون کے ہوں یا احساس کے، کوئی معانی نہیں رکھتے۔ مجھے خوشی ہے کہ ابا جی کی غیر موجودگی میں میرے پاس بڑے بھیا ہیں ، مجھے ان میں ابا جی نظر آتے ہیں۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...