ایک مرتبہ کا ذکر ہے، ساری دنیا کے چھوٹے بڑے پرندے ایک بہت بڑے میدان میں اکٹھے ہوئے۔ ان سب کے اکٹھے ہونے کا مقصد اپنے لئے بادشاہ کا انتخاب تھا۔ کیونکہ دنیا کا کوئی بھی ملک بغیر بادشاہ کے ترقی نہیں کر سکتا اور نہ ہی محفوظ ہوتا ہے۔ اگر بادشاہ نہ ہو تو ملک میں کوئی قانون نہیں ہوتا۔ عوام اپنی مرضی پر چلتی ہے، نتیجے میں لاقانونیت اور بے ترتیبی پھیلتی ہے، بادشاہ کی غیر موجودگی ملکی لشکروں کا نظم و نسق خراب کر کے ملک میں فساد اور خانہ جنگی پیدا کرتی ہے۔ چنانچہ دنیا کے تمام پرندوں نے فیصلہ کیا کہ متفقہ رائے اور باہمی تعاون سے ہمیں اپنے لئے بادشاہ کا انتخاب کر لینا چاہیئے۔
چونکہ یہ فیصلہ نہایت مشکل تھا لہٰذا تمام پرندوں کو اپنی اپنی مخصوص طاقت اور کارنامہ بیان کرنے کا موقع دیا گیا تاکہ ان میں سے بادشاہ کا انتخاب آسان ہو جائے۔
تمام پرندوں کو موقع دیا گیا کہ وہ اپنے اوصاف اور کارہائے نمایاں بیان کریں۔
ہدہد جس کے سر پر قدرت نے تاج رکھا تھا۔ وہ آگے آیا اور بولا ۔۔۔۔۔
“میں چونکہ حضرت سلیمان علیہ السلام کا ساتھی رہا ہوں۔ میں ان کا پیغام رسان تھا، یعنی حضرت سلیمان علیہ السلام کو دنیا کی خبریں دیتا تھا۔” “میں نے بادشاہوں کے دربار اور ان کے کام بہت نزدیک سے دیکھے ہیں۔”
“جیسا کہ آپ سب جانتے ہیں کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کی حکومت صرف انسانوں تک محدود نہیں تھی۔ بلکہ ان کی سلطنت میں جن بھی شامل تھے، درندے، چرندے، پرندے، سمندری مخلوق، حشرات حتی کہ ہوائیں اور بادل بھی شامل تھیں۔
لہٰذا اتنی بڑی سلطنت کے بادشاہ کا شاہی قاصد ہونے کے ناطے میرا علم تم سب سے زیادہ ہے۔ میں ہر نیکی اور برائی سے آگاہ ہوں۔ لہٰذا اپنے اوصاف کے علاوہ اللہ کے دیئے ہوئے علم کی بدولت میں اپنی کمزوریوں سے بھی بخوبی واقف ہوں۔ لہٰذا اگر آپ سب کی اجازت ہو تو میں اپنا نام بادشاہت کے بجائے اس مشاورتی اجلاس کی صدارت میں دینا چاہوں گا۔”
سب پرندوں کو ہدہد کا یہ فیصلہ بہت پسند آیا اور سب کے متفقہ فیصلے سے ہدہد کو مشاورتی اجلاس کا صدر مقرر کر دیا گیا۔
اس کے بعد ہدہد کے حکم سے اجلاس کی کارروائی کو آگے بڑھایا گیا۔
سب سے پہلے ایک بڑا سا خوبصورت راج ہنس نہا دھو کر سفید کپڑے پہنے آگے آیا اور بولا،
“پوری دنیا میں میری طرح پاکیزہ طبیعت والا پرندہ کوئی نہیں، میں ہر وقت بہت اچھی طرح غسل کر کے اپنے جسم اور فکر کو پاک صاف رکھتا ہوں۔”
“میں تمام پرندوں میں بڑا زاہد و عابد ہوں کیونکہ صرف میں ہی ہوں جس کی جائے نماز پانی پر ہے۔ اسی لئے میری پاکبازی کی وجہ سے بادشاہت میرا حق ہے۔”
تمام پرندے اس کی تقریر بڑی خاموشی سے سر جھکائے سن رہے تھے۔
ہدہد نے ضروری نکات نوٹ کئے۔
دوسرے نمبر پر بلبل آگے آئی اور اپنی خوبیاں بیان کرنے لگی۔۔۔۔
“میں دنیا کا خوش آواز ترین پرندہ ہوں۔ ”
“میری آواز میں اللہ سبحان وتعالی نے اتنا سحر رکھا ہے کہ دنیا کی ہر مخلوق مجھے سن کر مسحور ہو جائے۔ دنیا کی ہر سریلی اور مَدُھر آوازکو میری آواز سے تشبیہ دی جاتی ہے”
” پھول میرا عشق ہے، پھول جب کھلتا ہے تو مجھے دیکھ کر خوش ہو جاتا ہے۔ لہٰذا باغوں کی رونق اور جوش و خروش مجھ سے ہے۔”
“لہٰذا بادشاہت کے لئے میرا نام سر فہرست رکھا جائے۔”
اس کے بعد سبز کپڑے پہنے طوطا آگے بڑھا اور اپنی خوبصورت سرخ چونچ کو اوپر نیچے ہلایا پھر اپنی سنہری ہار والی گردن کو دائیں بائیں ٹیڑھا کر کے سب پر ایک پیار بھری نظر ڈالی اور بولا۔۔۔
” چونکہ میں پرندوں کا خضر ہوں اسلئے سبز پوش ہوں۔ میرا رنگ سبز ہے جسے عربی میں اخضر کہا جاتا ہے۔”
” میری وجہ سے ہر جگہ سبزہ ہی سبزہ نظر آتا ہے۔ اور میری بولی شکر سے زیادہ میٹھی ہے۔”
“یہ اور بات کہ میرا مسکن ہمیشہ پنجرہ ہی رہتا ہے۔ مگر میں وہی ہوں جس کی سوچ کی پرواز بہت اونچی ہے۔”
“میں اگر چاہوں تو چین کے طوطے کی طرح اداکاری کر کے قید سے رہائی پا سکتا ہوں، مگر مجھے اپنی موجودہ زندگی پسند ہے۔ ”
“میں نہایت شاکر پرندہ ہوں لہٰذا میرا یہ شُکر اور شیریں گفتاری ہی میرے بادشاہ بننے کی دلیل ہیں۔”
پھر قیمتی پتھروں کی کان سے ایک چکور خراماں خراماں چلتی ہوئی آئی۔ اس کا لباس سرخی مائل بھورا تھا، اس کے گلے میں کالے موتیوں کی مالا تھی۔ اس کی چونچ تلوار کی طرح تھی۔ وہ پرجوش آنکھوں سے سب کو دیکھتی آگے آئی اور بولی۔۔۔
“میں پتھروں پر سوتی ہوں اور پتھروں سے ہی خوراک حاصل کرتی ہوں۔ میرا ٹھکانہ قیمتی پتھروں کی کانیں ہیں ، میں ان پتھروں کی حفاظت کرتی ہوں۔”
“میں چاند کے عشق میں مبتلا ہوں، جو دراصل ایک بڑا چمکتا دمکتا پتھر ہی ہے۔”
“اب جو اتنی سخت پتھریلی زندگی گزار رہا ہو۔ کیا وہ بادشاہت جیسی ذمہ داری کے قابل نہ ہو گا۔”
پھر لمبی ٹانگوں اور ٹیڑھی گردن والا بگلا آہستہ چال چلتے آگے آیا اور بولا۔۔۔
“میں ایک نہایت بےضرر اور امانت دار پرندہ ہوں۔
ہمیشہ دریا کنارے اکیلا کھڑا رہتا ہوں، کسی کو تکلیف نہیں دیتا۔ میری امانت داری کا ثبوت یہ ہے کہ میں کئی کئی گھنٹے پرجوش دریا کے کنارے کھڑا رہتا ہوں اور اپنی پیاس پر قابو رکھتے ہوئے ایک قطرہ پانی بھی دریا سے نہیں پیتا کہ کہیں اس خوبصورت ٹھاٹھیں مارتے دریا میں سے ایک قطرہ پانی کا کم نہ ہو جائے۔”
“باقی جو آپ کا فیصلہ!”
ہدہد مسلسل ضروری نکات نوٹ کر رہا تھا، تاکہ مشاورت میں آسانی رہے۔
پھر ایک اُلّو کسی دیوانے کی طرح گول گول گھومتا ہوا آگے آیا اور اپنی بڑی بڑی آنکھیں مزید کھول کر گویا ہوا۔۔۔۔
“میں ایک عاجز پرندہ ہوں۔ ویرانوں میں پیدا ہوا اور ویرانے ہی میرا مسکن ہیں۔”
“مشرقی ممالک کے لوگ مجھے بےوقوفی کا نشان سمجھتے ہیں جبکہ چین میں مجھے عقلمندی کا نشان مانا جاتا ہے۔”
اس کے بعد ایک چھوٹی سی ابابیل آگے آئی اور بولی میں وہ پرندہ ہوں کہ جس کا ذکر قرآن میں سورہ الفیل میں ہے اور جس کے ذریعے اللہ نے ابراہہ کے لشکر (جسے اصحاب فیل کہتے ہیں) کو شکست دلوائی۔”
میری ایک اور خاصیت یہ ہے کہ میں اپنا گھونسلا عموماً کنوئیں میں بناتی ہوں، تاکہ جب تک میرے بچے پوری طرح اڑنا نہ سیکھ لیں وہ ڈوبنے کے ڈر سے گھونسلے سے نکلنے کی ہمت نہ کریں۔”
“میری یہی حکمت عملی میری بادشاہت کی کرسی کی اہلیت ہے۔”
اس کے بعد کئی ایک پرندے جلدی جلدی سامنے آتے گئے اور اپنے بارے میں بتاتے گئے۔ جیسے مور نے آ کر پہلے اپنا رقص پیش کیا پھر اپنی دم کی خوبصورتی کو اپنی اہلیت کہا۔
تیتر نے آ کر اپنی بولی(سبحان تیری قدرت)اور ہمہ وقت ثناء خوانی کو اپنی اہلیت کہا۔
فاختہ نے اپنی امن پسندی کے گیت گائے۔
بٹیر نے حضرت موسی کی قوم بنی اسرائیل پر اترنے والے سلوی سے مشابہت کو اپنی خصوصیت کہا۔
کبوتر نے کہا کہ وہ انسانوں کے بیچ ڈاکیے کا کام کرتا رہا ہے۔
کوے نے کہا اس نے انسان کو قبر بنانے کا طریقہ سکھایا ہے۔
چمگادڑ نے کہا کہ وہ اندھیرے میں دیکھ سکتی ہے اور الٹا لٹک سکتی ہے۔
وغیرہ وغیرہ
آخر میں عقاب اپنے لشکری انداز میں سینہ تان کے آگے بڑھا اور بولا۔۔۔۔۔
” بادشاہت کا تاج اپنے سر پر رکھنے کی امید مجھے اس لئے زیادہ ہے کہ میرے پاؤں ہمیشہ بادشاہ کے ہاتھ پر رہتے ہیں۔ بادشاہوں کے ہاتھ پر رہنے کی وجہ سے مجھے شاہی آداب سے پوری طرح آگاہی حاصل ہے۔”
“میرا کام شکار کرنا ہے، میں کبھی حرام اور باسی نہیں کھاتا، میری پرواز نہایت اونچی ہے۔ میری نظر بہت تیز ہے، میری طاقت میرے مظبوط اور بڑے پروں، میری مضبوط چونچ اور میرے نوکیلے پنجوں میں ہے ۔ مگر میں نے اپنی طاقت کو کبھی اپنی کمزوری نہیں بنایا۔ ہر چالیس بعد میں اونچی چٹانوں پر جا کر اپنے پر نوچ لیتا ہوں تاکہ نئے پر نکلیں، اپنے پنجے اکھیڑ لیتا ہوں تاکہ نئے اور نوکیلے پنجے ان کی جگہ لے لیں، اور اپنی چونچ چٹانوں پر گھس لیتا ہوں تاکہ نئی اور مضبوط چونچ حاصل کر سکوں۔
“میرا مسکن ہمیشہ سے اونچی چٹانیں ہوتی ہیں کیونکہ مجھے گھر بنانے کی کبھی تمنا نہیں رہی۔”
عقاب کی تقریر کے بعد ایک خاموشی چھا گئی، اور سب پرندے دل سے معترف ہو گئے کہ پرندوں کا بادشاہ تو بس عقاب ہی ہے۔ باقی پرندوں نے تقریر کرنے کا ارادہ ترک کر دیا۔
اب سب کی نظریں اس مشاورتی اجلاس کے صدر ہدہد پر تھی کہ اس کا مشورہ کیا ہو گا، کیونکہ سب نے مل کر اس کو اس عہدے کے لئے قبول کیا تھا۔
سب یہی سوچ رہے تھے کہ عقاب سے بڑھ کر کسی پرندے میں کوئی خوبی کیا ہو گی۔
ہدہد نے اپنے نوٹ شدہ نکات پر ایک نظر اور ڈالی پھر گویا ہوا۔۔۔۔۔
“مجھے یقین ہے کہ اس اجلاس کی کارروائی دیکھ کر اور تمام پرندوں کی اپنے بارے میں تقاریر سن کر آپ سب کے ذہن میں عقاب کا نام ہی بطور بادشاہ آ رہا ہو گا۔ اور یہ کچھ غلط بھی نہیں لیکن اگر میں آپ سے ایک ایسے پرندے کا ذکر کروں جسے جنت کا پرندہ تصور کیا جاتا ہے تو کیا آپ یقین کریں گے؟۔”
” ضرور یقین کریں گے کیونکہ آپ کی بات پر حضرت سلیمان علیہ السلام نے یقین کیا تھا جب آپ ان کے پاس ملکہ سبا کی خبر لائے تھے، تو ہم تو حقیر پرندے ہیں!”
عقاب نے جواب دیا۔
ہدہد نے اجازت پا کر بات جاری رکھی۔
“آپ سب سے ملنے اور سننے کے بعد مجھے یقین ہو گیا کہ بے شک ہمارا بادشاہ وہی ہے جو پہاڑ کی اوٹ میں ہے، اور اس پہاڑ کا نام کوہ قاف ہے، کیونکہ اُس جیسا آپ سب میں کوئی نہیں۔”
اس بادشاہ کا نام عنقاء ہے۔ کچھ لوگ اسے سیمرغ کہتے ہیں کچھ اسے فیونکس، کچھ اسے فائیر برڈ یعنی آتشی پرندہ کہتے ہیں۔”
“کیونکہ کہا جاتا ہے کہ وہ آگ میں جنم لیتا ہے۔”
“اس کی عمر چالیس پچاس سال نہیں بلکہ ہزار سال ہوتی ہے، پھر ہزار سال بعد جب اس کی عمر پوری ہو جاتی ہے تو یہ لکڑیاں جمع کر کے اس پر بیٹھتا ہے اور موت کا گیت گاتا ہے۔ یعنی ایسا راگ الاپتا ہے جس سے لکڑیوں میں آگ لگ جاتی ہے اور عنقاء اس میں جل کر راکھ ہو جاتا ہے۔ پھر جب اس راکھ پر بارش ہوتی ہے تو اس میں ایک انڈہ پیدا ہوتا ہے جو ایک نئے عنقا کو جنم دیتا ہے۔”
” ایک ایسا پرندہ جس کی جسامت عقاب سے کئی گناہ زیادہ ہے۔!”
“روایات کے مطابق جس کے پروں کی تعداد دو نہیں بلکہ آٹھ ہے۔”
“جو اپنے پنجوں میں ایک بڑے ہاتھی کو کسی چڑیا کی طرح اٹھا کر اڑ سکتا ہے!”
سب کے منہ حیرت سے کھل گئے۔۔۔
“ہاتھی کو چڑیا کی طرح؟؟؟؟؟”
بہت سی ملی جلی آوازیں آئیں۔
“ہمیں عنقاء کے بارے میں کچھ اور بھی بتائیں جناب ہدہد صاحب!”
اُلّو نے اپنی بڑی بڑی آنکھیں کھول کر ہدہد سے درخواست کی۔
ہدہد تھوڑی دیر خاموش ہوا جیسے دماغ میں کچھ الفاظ جوڑ رہا ہو، پھر گویا ہوا۔۔۔
“کہا جاتا ہے کہ عنقاء سورج کے غروب ہونے کے مقام پر پایا جاتا ہے۔
وہ جب اڑتا ہے تو ایسا لگتا ہے جیسے زور کے بادل گرج رہے ہوں۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے ایک روایت کا مفہوم ہے کہ ‘اللہ نے حضرت موسی علیہ السلام کے زمانے میں ایک پرندہ پیدا کیا تھا جس کا نام عنقاء تھا۔ اس کے دونوں جانب چار چار بازو تھے۔ اور اس کا چہرہ انسانی چہرے سے مشابہ تھا، اس کے بازو نہایت خوبصورت رنگوں کے پروں سے مزین تھے، اور اس کے پاؤں نہایت مضبوط جیسے شیر کے پاؤں۔'”
“اللہ نے حضرت موسی علیہ السلام کی طرف وحی بھیجی کہ ‘میں نے دو عجیب پرندے پیدا کئے ہیں، جن کا رزق بیت المقدس کے اطراف کے جانور ہیں۔ پس پرندے کے اس جوڑے سے عنقاء کی نسل آگے بڑھی۔”
“جب موسی علیہ السلام کی وفات ہوئی تو یہ پرندے یہاں سے اڑ گئے اور حجاز یعنی سعودی عرب میں جا بسے۔”
“ابھی آپ نے کہا تھا کہ عنقاء کے بارے میں روایت ہے کہ یہ جنت کا پرندہ ہے؟
مور نے جب عنقاء کے پروں کے رنگوں کا ذکر سنا تو اس سے رہا نہیں گیا، کیونکہ مور خود کو بھی جنت کا پرندہ ہی کہتا ہے۔
“ہاں!” ہدہد کو جیسے یاد آیا۔
“یہودی صحیفوں میں زیز نام کے ایک پرندے کا ذکر ہے جس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ یہی عنقاء ہے کیونکہ جو شکل و شباہت زیز کی بیان کی گئی ہے وہی عنقاء کی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جنت کے باغ عدن جسے انگریزی میں ایڈن کہتے ہیں، یہی عنقاء کا مسکن تھا اور حضرت آدم علیہ السلام کے ساتھ اسے بھی دنیا میں بھیجا گیا تھا۔
بہت سی قدیم روایات یہ بھی بتاتی ہیں کہ عنقاء کے آنسوؤں میں دنیا کی ہر بیماری کے لئے انتہائی شفا بخش قوت ہوتی ہے۔”
“ایک روایت اور بھی مشہور ہے کہ ایک مرتبہ رات کے وقت عنقاء کا گزر چین کے اوپر سے ہوا تو اس کا ایک پَنکھ چین کے ملک میں گر پڑا، جس سے ملک کے لوگوں میں جوش و خروش بڑھ گیا۔ جس نے بھی اس پنکھ کے نقش و نگار کو دیکھا وہ ہنر مند ہو گیا۔ اور چین دن بدن ترقی کرنے لگا، وہ پنکھ ان پر برکت بن کر گرا۔ سنا ہے وہ پنکھ اب بھی چین کے نگار خانہ میں موجود ہے۔ ”
“پس اس سے ثابت ہوا کہ عنقاء نہ صرف ہمارا بادشاہ ہے بلکہ وہ ہم سب کے لئے بہت بابرکت بھی ہے۔
“تم سب کا کیا خیال ہے، کیا ہمیں اپنے بادشاہ کی تلاش میں نہیں جانا چاہیئے۔”
ہدہد نے سب کی طرف دیکھ کر سوال کیا۔
“ہاں ہاں! بالکل بالکل!”
“چلو سب مل کر کوہ قاف چلیں۔”
سب پرندے پرجوش تھے اپنے بادشاہ کی تلاش میں نکلنے کے لئے۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...