کیا اس شہر کی عمر دو سو تیس؍ چالیس سال ہے؟ اڑھائی سو سال سے بھی کم؟
سڈنی جس قدر پھیلا ہوا ہے‘ جتنا منظم ہے‘ جتنا خوبصورت ہے‘ جتنا شاداب اور ہرا بھرا ہے‘ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے۔ ایک ہی لفظ ذہن میں ابھرتا ہے۔۔۔ رُول آف لا۔۔۔ قانون کی عملداری!
اڑھائی سو برس سے بھی کم! دو سو تیس چالیس سال پہلے جب اس نیم مجنون‘ دُھن کے پکے‘ کیپٹن کُک نے کھاڑیوں کے بیچ جہاز لنگرانداز کیا تو اس کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ یہ شہر دو صدیوں میں کئی ایسے شہروں کو پیچھے چھوڑ جائے گا جو ہزار ہا سال سے آباد ہیں لیکن قانون اور تنظیم سے محروم! مجرموں سے بھرا ہوا پہلا بحری جہاز جب سڈنی آیا تھا اور آبادی کا آغاز ہوا تھا تو حالت یہ تھی کہ پینے کا پانی اور خوراک لینے کے لیے جہاز کو بمبئی جانا پڑا تھا!
یہی شہر آج دنیا بھر کے دھتکارے ہوئوں کی پناہ گاہ بنا ہوا ہے۔ سول وار سے بھاگے ہوئے لبنانی‘ غربت کے ڈسے ہوئے یونانی اور اطالوی‘ صومالی‘ ترک‘ ایرانی‘ پاکستانی‘ بھارتی‘ بنگالی‘ ڈھلتی شام جیسے چہروں والے فجی کے لوگ جو نسلاً برصغیر کے ہیں، لیکن تماشا یہ ہے کہ کسی کو ’’اقلیت‘‘ نہیں کہا جاتا! کمیونٹی کا لفظ استعمال ہوتا ہے اور وہ بھی کمیونٹی کے اپنے لوگ استعمال کرتے ہیں۔
اور اصل باشندے؟ ایبوریجنی (Aborgines) ، ان کے لیے ساری ہمدردیاں ہیں لیکن دنیا میں اصول ایک ہی جیتتا چلا آیا ہے۔۔۔ ٹیکنالوجی! اگر ان کے پاس ٹیکنالوجی ہوتی تو وہ بحری جہازوں سے اترنے والے برطانویوں کو مار بھگاتے ، مگر بندوقوں کا مقابلہ تیر اور نیزے کیسے کرتے۔ پھر آسٹریلیا کے گوروں نے بھی حد کردی ، ان کے بچے اٹھانا شروع کردیے۔ چوری شدہ نسلوں (Stolen Generations) کی کہانی طویل ہے اور دردناک بھی۔ ماضی قریب میں آسٹریلوی حکومت نے باضابطہ معذرت بھی کی ہے!
سڈنی اس وقت ابرآلود ہے ، ہوا ٹھنڈی ہے‘ فضا میں سبزے کی خوشبو ہے ، گرما ہے لیکن کیا ہی کیف افزا موسمِ گرما ہے! پسینہ ہے نہ ہوا میں نمی۔ سڈنی کے احباب کئی دنوں سے یاد کر رہے تھے۔ اس لکھنے والے کے تازہ ترین شعری مجموعے ’’کئی موسم گزر گئے مجھ پر‘‘ کے حوالے سے ایک شام کا اہتمام کرنا چاہتے تھے۔ اس تقریب کے روحِ رواں شاعر اور نثرنگار ارشد سعید تھے جو عنفوانِ شباب میں سڈنی آئے اور پھر یہیں کے ہو رہے۔ اردو سوسائٹی آف آسٹریلیا کے نائب صدر‘ بلا کے متحرک‘ منتظم اور دیارِ غیر میں اہل وطن کو جوڑ جوڑ کر اکٹھا رکھنے والے۔ پھر عباس گیلانی تھے، خوبصورت فارسی بولتے ہیں۔ فارسی زبان و ادب کی آموزش کرتے کرتے بحرالکاہل کے کنارے آ پہنچے اور یہیں آباد ہو گئے۔ اردو سوسائٹی کی صدارت ان کے توانا کندھوں پر ہے ، ذہنی پختگی اور بلا کی قوتِ برداشت جس سے بکھرے دانوں کو ایک مالا میں پرو دیتے ہیں۔ اشرف شاد شاعر ہیں۔ افسانہ نگار بھی اور ناول نویس بھی۔ امریکہ سے لے کر شرقِ اوسط اور برونائی تک ہر گھاٹ کا پانی پیا۔ بقول شاعر ؎
تمتمع ز ہر گوشہ ای یافتم
ز ہر حرمنی خوشہ ای یافتم
اور اب سڈنی میں قرار پکڑ گئے ہیں! ڈاکٹر کوثر جمال اردو کا ایک اور ستون ہیں۔ پی ایچ ڈی چین میں کی ، چینی زبان میں کئی کتابوں کی مصنفہ ہیں ، زبانوں کی مستند ترجمان اور مترجم‘ شاعرہ‘ زندگی کے اسرار و رموز پر گفتگو کرتی ہیں تو سحر طاری کر دیتی ہیں۔ ڈاکٹر شبیر حیدر کا تعلق توطبی مسیحائی سے ہے لیکن ضمیر جعفری کے برادر زادہ ہیں؛ چنانچہ ادب و شعر سے کیسے کنارہ کش ہو سکتے ہیں۔ شاعری سنا رہے تھے تو ضمیر جعفری یاد آ رہے تھے۔ لہجے میں انہی کی کھنک اور نرمی تھی۔ ضمیر جعفری ان کے ہاں کئی کئی مہینے قیام کرتے تھے۔
ظفر اسلام پنجابی اور اردو کا خوبصورت کلام کہتا ہے۔ ادبی پروگراموں کے ساتھ ساتھ موسیقی اور دوسرے ثقافتی شعبے بھی سنبھالے ہوئے ہے۔
یہ ایک خوبصورت شام تھی۔ باہر ڈھلتے‘ لمبے ہوتے سائے اور اہلِ سڈنی کی دیدہ زیب چہل پہل تھی اور اندر ہال میں اردو کی بستی آباد تھی۔ کئی گھنٹوں پر مشتمل پروگرام کے دوران سامعین جم کر بیٹھے رہے‘ سنتے رہے اور داد دیتے رہے۔
اردو کے بھی کیا کیا اعجاز ہیں! سوچ رہا تھا کہ دنیا کے اس آخری کنارے‘ بحرالکاہل کے ساحلوں پر‘ جہاں سے آگے کم ہی آبادیاں ہیں‘ اردو کی بستی کتنی آباد ہے‘ ہری بھری ‘ شاداب اور پُررونق ہے۔ یہ سب تارکینٍِ وطن کا فیض ہے۔ آسٹریلیا کی خوش قسمتی یہ بھی ہے کہ پاکستانی تارکینِ وطن کی ’’کوالٹی‘‘ اعلیٰ درجے کی ہے! تقریباً تمام پاکستانی پرتھ سے لے کر ایڈی لیڈ تک اور میلبورن سے لے کر سڈنی اور برزبن تک سب اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں۔ ڈاکٹر‘ انجینئر‘ پی ایچ ڈی‘ پروفیسر اور آئی ٹی کے ماہرین۔ ایک نوجوان سے ملاقات ہوئی تو حیرت ہوئی‘ ایک قدم بھارت میں دوسرا امریکہ میں‘ پورے پورے ریجن کا انچارج ، پاکستان کے لیے سرمایۂ افتخار۔ یہ الگ بات کہ وطن واپس جائے تو سفارشیں ڈھونڈتا ڈھونڈتا ہانپ جائے اور بیگ اٹھا کر پھر جہاز میں بیٹھ جائے!
اعلیٰ تعلیم کا فائدہ آسٹریلیا کے تارکین وطن کو یہ ہوا کہ وہ اس مضحکہ خیز صورت حال کے قریب تک نہ پھٹکے جو بریڈفورڈ‘ گلاسگو‘ مانچسٹر اور ہسپانیہ کے تارکینِ وطن کو چنگل میں جکڑے ہوئے ہے ، جہاں پورے پورے ٹیلی ویژن چینل جادو ٹونے کے ’’استیصال‘‘ پر مامور ہیں۔ دوپٹوں کی لمبائیاں ناپی جاتی ہیں۔ ساس اور بہو کو قابو کرنے کے ’’نسخے‘‘ بتائے جاتے ہیں۔ کیسا المیہ ہے کہ جزائر برطانیہ میں پاکستانی تارکین وطن کی تیسری چوتھی نسل بھی ٹھیلے لگا رہی ہے اور جادو ٹونے کے خوف میں مقید ہے۔ بھارتی اس سارے عرصہ میں صحافت‘ قانون اور دیگر شعبوں پر چھا گئے ہیں۔ پاکستانی بھی زینے پر چڑھ کر اوپر پہنچے ہیں لیکن خال خال۔
اور اب آخر میں ایک غزل… جو اس لکھنے والے نے تقریب میں دیگر غزلوں اور نظموں کے علاوہ سنائی:
نے عقل کی وادی سے نہ تقدیر سے پہنچا
اس اوج پہ میں اسم کی تاثیر سے پہنچا
تارِ رگِ جاں اور چھنک کاسۂ سر کی
بخشش کے لیے راہِ مزامیر سے پہنچا
ماں! کھول دے جنت کے دریچے کہ دمِ مرگ
فرزند عجب حسرتِ دلگیر سے پہنچا
پہرا تھا کڑا شہر کے دروازوں پہ جس وقت
پیغام عدو کو مرے اک تیر سے پہنچا
شہتوت کا رس تھا‘ نہ غزالوں کے پرے تھے
اس بار بھی میں جشن میں تاخیر سے پہنچا