{ چرکیں کی ذات اور ان کی زندگی کی معاشریات کے چند دلچسپ احوال کے اقتباسات جو مختلف کتابوں اور تحریروں سے جمع کئے گئے}:::
*برازیات " کے شاعر شیخ باقر علی یا جعفر علی قصبہ رودلی کا رہنے والا چرکین تخلص کرتے تھے۔ اور اسی نام سے مشہور ہوئے۔ یہی ان کی شناختت بنی۔ چرکن ( چرکیں، غلط ہے) کو اردو کا " غلیظ" شاعر کہا جاتا ہے۔ ان کا پورا نام شیخ باقر چرکن رودولوی ثم لکھنوی تھا۔ ان کا زکر " تذکرہ گلستان سخن" میں ملتا ہے۔ اس مضمون میں ان کا شجرہ نسب درج ہے۔ کہا جاتا ہے جو 'چرکیں' (چ کے نیچے زیر)تخلص کرتے تھے۔
**اس میں زیادہ تر اشعار کھانے پینے اورنظام انہضام کی فکاہیہ تفصیلات، بیت الخلاء، پاخانے، اور اسی طرح کی گندی مندی اشیاء پر مرکوز ہوتے تھے لیکن زبان و بیان اور تمام شعری تقاضوں کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے یہ اشعاراگرچہ تہذیب کے دائرے میں ہی ہوتے تھے۔ تاہم باذوق اور نفیس طبع قارئین کےمزاج پر گراں گزرتے تھے۔ اس بات کے حق میں یا خلاف کچھ کہا نہیں جا سکتا، سوائے اس کے کہ شاعر کا ذہن جس طرف چل نکلے۔ کئی دوسرے شعراء بھی ایسےہیں جو ایک ہی موضوع کو چن لیتے ہیں اور پھروہی ان کی شناخت قرار پاتا ہے ( اس بارے میں کوئی مثال اس وقت یاد نہیں آرہی)۔
'چرکیں' کا فقط ایک شعر مجھے یاد رہ گیا ہے جس سے ان کے طرز کلام کا اندازہ ہو سکتا ہے:
بیت الخلاء میں آج ترنم کا زور ہے
شاید کوئی حسین ہے پیچش میں مبتلا
'دیوان چرکین' کے نام سےان کا باقاعدہ ایک دیوان چھپا تھا۔ وہ چونکہ کھانے پینےاور خاص کر مصالحہ دار اور مرغّن کھانون کے بہت شوقین تھے اور اکثر بدہضمی کی شکایت رہتی تھی, یہی وجہ ہے کہ اس دیوان میں اکثر شعر ان کی طبیعت کی عکاسی کرتے ہیں, اسی دیوان میں سے ایک شعر عرض ہے,
بیت الخلاء میں آج ترنم کا زور ہے
شاید کوئی حسین ہے پیچش میں مبتلا
مرزا قادر بخش صابر انکے بارے میں لکھتے ہیں کہ
چرکین تخلص ایک شخص ظریف، شوخ مزاج، ساکن لکھنوء کا۔ وہ ہمیشہ سخن پاکیزہ کا دامن نجاست معنوی سے آلودہ رکھتا ۔ یعنی مضامین بول و بزار اس طرح شعر میں باندھتا کہ زمین سخن کو گُوہ گڑھیا بنا دیتا۔ اسکی قوت شامہ یک قلم باطل ہو گئ تھی کہ اس غلاظت سے بے دماغ نہ ہوتا تھا۔ انصاف تو یہ ہے کہ ابیات میں ہر چند گوہ اچھالتا اور کاغذ کے ہر گوشے میں پیشاب کی نالی بہاتا تھا لیکن کوئ لطیف مزاج اس سے دماغ بند نہ کرتا تھا اور کوئ پاکیزہ طبع اس سے گھن نہ کھاتا تھا۔ گویا بحر شعر نے اس نجاست کو بہا دیا تھا۔
شرط سلیقہ ہے ہراک امر میں
عیب بھی کرنے کو ہنر چاہئیے
انکے بارے میں خاصی کہانیاں مشہورہیں۔ کہا جاتا ہے کہ میاں چرکین بہت بلند پایہ شاعر تھے۔ کلام بہت عمدہ اور پاکیزہ ہوتا تھا۔ مگر لوگ آپکا کلام چرا کر اپنے نام سے پڑھا کرتے تھے۔ جسکی وجہ سے میاں چرکین نے عاجز آ کر اپنی شاعری کا رنگ بدل دیا اور ایسے اشعار کہنے لگے جس میں گندگی کا ذکر ضرور ہوتا۔ لیکن اس کلام میں بھی تمام شاعرانہ صفات بدرجہ ء اتم موجود ہوتی تھیں۔ یہ بہرحال ایک کہانی ہی ہے مکمل صداقت نہیں۔ شاعرانہ خوبیوں کے لئے کچھ نمونہ ء کلام حاضر ہے۔
سلسل البول کی مانند رہے ڈاک رواں
اتنے خط لکھوں زمانے سے ہو کاغذ عنقا
رو زو شب ہگنے سے تم اسکے خفا رہتے تھے
مہترو خوش رہو، چرکیں نے وطن چھوڑا ہے
روک کر گھوڑے کو اس نے مری تربت پہ کہا
لید کرنی ہو تو کرلے تُو یہی تھوڑی سی
قبر پہ آکے بھی اس بت نے نہ مُوتا افسوس
کام کچھ اپنے نہ مرگ شب ہجراں آئ
اپنے ہی سڑے ٹکڑوں پہ کی ہم نے قناعت
چکھا نہ متنجن کسی نواب کے خواں کا
مقصود عالم مقصود جو کہ ایک طرح سے غالب کے شاگرد تھے انہیں چرکین کی نادر ترکیبوں، الفاظ، فقرے اور محاوروں نے کھینچا ہوگا جو اب نہیں بولی جاتی اور انہوں نے چرکین کے مرنے کے پچیس سال بعد انکا کلام ایک جگہ اکٹھا کر کے اسے دیوان کی شکل دی۔ یوں یہ محفوظ ہوا مگر لوگوں کی لائبریریوں میں نمایاں جگہ نہ پا سکا۔
انکی بولی دیوان خانے یا شائستہ آنگن کی نہیں نالی، کوڑا گھر، سنڈاس، بول و بزار وغیرہ کی ہے۔ بول و بزار کے علاقے کے الفاظ جنکے سلسلے میں لوگ خاموشی اختیار کر لیتے ہیں۔ انکو چرکین نے اپنے کلام میں محفوظ کیا اور بیت الخلاء کے آداب کی ایک اہم دستاویز چھوڑی۔
چرکین نے بول و بزار کے مضامین کے لئے سوقیانہ یا کوئ خراب زبان نہیں لکھی۔انکا کلام معیاری اردو میں ہے۔ یہ وہی زبان ہے جو اس زمانے میں آتش، ناسخ اور مصحفی وغیرہ کی تھی۔ایک ایک مصرعہ تراشا ہوا، شعر میں چستی اور زائد یا بھرتی کے الفاظ سے پاک مضامین آلودہ لیکن کلام میں غضب کی روانی ہے۔ چرکین کے کلام کو بلا تعصب، صبر اور برداشت سے پڑھے بغیر انکے فن کی قدر نہیں جانی سکتی۔
بقول اردو کے مایہ ناز ادیب شمس الرحمن فاروقی، اگر کلام کے ذریعے جنسی لذت پیدا کرنے یا حاصل کرنے کی شرط کو اہم قرار دیں تو چرکین کا کوئ شعر مشکل سے فحش کہلائے گا۔خلاف تہذیب ہونا اور بات لیکن کوئ شعر ایسا نہیں کہ اسے بچوں یا بہو بیٹیوں کے سامنے پڑھایا نہ جا سکے یا انکے سامنے پڑھا نہ جا سکے۔
لیکن ہمیں پھر بھی کلام کی اس نوعیت پہ حیرت یا تعجب ہوتا ہے۔ کچھ اور لوگوں کو کچھ اور باتوں پہ ہوتا ہے مثلاً بائرن کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ نوالہ منہ میں ڈالنے، چبانے اور حلق سے اتارنے کو اس قدر غیر نفیس فعل سمجھتا تھا کہ کسی عورت کو کچھ کھاتے پیتے نہ دیکھ سکتا تھا۔ جبکہ جرمن ناول نگار پیٹرک سسکنڈ لکھتے ہیں کہ
میں اپنے بچپن میں یہ سوچ سوچ کر حیران رہ جاتا تھا کہ ناولوں کے کرداروں کو کبھی بیت الخلاء جاتے کیوں نہیں دکھایا جاتا۔ اسی طرح پریوں کے قصے ہوں یا اوپرا، ڈراما ہو یا فلمیں یا پھر بصری آرٹ کی مختلف شکلیں ان میں کسی کو بھی رفع حاجت کی ضرورت کیوں نہیں پیش آتی۔ انسان کی زندگی میں پیشاب یا پاخانے کا عمل جو زندگی کا سب اہم اور انتہائ ضروری معمول ہے وہ آخر آرٹ کی دنیا میں اپنی جگہ کیوں نہیں بنا سکا۔
قادر بخش صابر مزید لکھتے ہیں کہ
اوائل حال میں تو اس نے یہ وضع ہزل سمجھ کر اختیار کی یعنی مذاق میں۔ لیکن رفتہ رفتہ اس قال کو حال بنا لیامدام لباس چرک پہنتا اور ایسی میلی کچیلی وضع رکھتا کہ اجنبی اس کو سچ مچ کا حلال خور سمجھتے۔حق یہ ہے کہ جو ابتداء میں کہتا تھا وہ آخر میں کر دکھایا۔ آخر الامر لال بیگ کی صحبت اور گوگا پیر کی ہم نشینی کے شوق میں شہر کے پاکیزہ مقامات سے بھاگ کر صد ہا آرزو کا ٹوکرا سر پر رکھے ہوئے بہ طریق پا تراب کے جنگل کے کسی کوڑے پر اول منزل کی۔
مزید شعر حاضر ہیں
خیال زلف بتاں میں جو پیچ کھاتے ہیں
مروڑے ہو ہو کے پیچش کے دست آتے ہیں
کسی کے پاد سے اڑتے نہ کنکری دیکھی
اڑائے دیتا ہے چرکیں پہاڑ پھسکی سے
وہ جنتی ہے مرے جو مرض سے دستوں کے
ہے یہ ثواب تو باز آئے اس صواب سے ہم
عبث بدنامیوں کا ٹوکرہ سر پر اٹھانا ہے
لگانا دل کا بس جھک مارنا اور گُو کا کھانا ہے
چرکین سے کسی نے ایک دفعہ کہا کہ دنیا کے ہر موضوع کوبول و بزار کی زبان میں بیان کر سکتے ہو تو ذرا حضرت علی کی بہادری کو بیان کر دکھاءو۔ شعر ملا۔
رن میں جس دم تیغ کھینچی حیدر کرّار نے
ہگ دیا دہشت کے مارے لشکر کفار نے
یہ مصرعہ اس طرح بھی ملتا ہے، ہڑبڑا کر ہگ دیا ، لشکر کفار نے۔
نوٹ اس تحریر کا ماخذ ابرار الحق شاطر گورکھپوری کا مرتب کردہ دیوان چرکین ہے جس میں انہوں نےچرکین کا ادبی پس منظر اور تاریخ بھی دی ہے اور جس کا مقدمہ شمس الرحمن فاروقی نے لکھا
"دیوان چرکین" دیکھ کر یقینی طور پر ہر نوجوان کی آنکھیں خیرہ ہو جاتی ہیں۔ کیوں کہ ہم میں سے سب نے اپنے بچپن میں ایک دو اشعار ضرور سن رکھے ہونگے جس سے اس کے اور اشعار سننے کا ذوق پیدا ہوا ہوگا مگر اس کی پوری شاعری کو پڑھنے کی طرف توجہ نہ جا سکی ہوگی۔ عام طور پر چرکین کی شاعری کو فحاشی سے تعبیر کیا جاتا رہا ہے حالانکہ اگر ہم کلاسیکی عربی شاعری کا مطالعہ کریں تو اسے ام الفحاشی کہنا زیادہ مناسب ہوگا۔مگر اتنی غلاظت کے باوجود اس شاعری کو ادب عالیہ کا نمونہ سمجھ کر پڑھا اور پڑھایا جاتا ہے۔امرءالقیس کی شاعری لاکھ محاشی ہو مگر عربک لٹریچر کا اعلی نمونہ شمار کی جاتی ہے۔ اسی طرح جب ہم فارسی شاعری کا مطالعہ کرتے ہیں تو جامی جیسے صوفی لوگ فحاشی سے نہیں بچ پاتےاور جب ہم سبک ہندی کا مطالعہ کرتے کرتے اورنگزیب کے عہد تک آتے ہیں تو جعفر زٹلی کا نام ہمارے سامنے آتا ہے جس کی شاعری اگر ایک طرف اردو فارسی شاعری کا بہترین امتزاج ہے اور جہاں وہ اردو فارسی کی آمیزش کچھ اس انداز میں کرتا ہے کہ : کشتی جعفر زٹلی در بھنور افتادہ است/ ڈبکوں ڈبکوں می کند در ایک لحظہ پار کن۔ وہیں اس نے ہجویات میں وہ فحش نگاری کا مظاہرہ کیا ہے کہ چرکین کی شاعری شرما جائے۔ جعفر کا" گنڈمروا نامہ" اور "ہجو در عصمت النسا بیگم" اس کی فحش نگاری کی اعلی مثال ہیں۔ ہمیں اس جیسی شاعری میں ادب دیکھنا چاہئے ناکہ چند اعضائے جسم کی وجہ سے اس کو یکسر متروک و مردود قرار دے دیا جانا چاہئے۔ چرکین ہو یا جعفر زٹلی یا امرء القیس ان سب کی شاعری میں جدت خیالات اور ندرت مضامین کی بھرمار ہے۔ استعاروں کا نادر استعمال یقینا شاعر کو داد دئے بغیر نہیں رہتا۔ ایک بار جعفر زٹلی میرزا بیدل دہلوی کے پاس آیا اور اس نے مصرع پڑھا کہ ( چہ عرفی چہ فیضی ہمہ بہ پیش توفش) بیدل نے صلہ نکالا اور دے کر چلتا کیا مصاحبوں نے کہا کہ حضرت پڑھنے دیجئے دیکھتے ہیں "فش" کا قافیہ کیا لاتے ہیں۔ تو چرکین کی شاعری اور اس کا دیوان بھی ندرت مضامین سے مالا مال ہے اور جدت طبع اور استعاروں کا بر محل استعمال یقینا تعریف کے لائق ۔ اگر ہم امرء القیس کو عربی شاعری میں برداشت کر لیتے ہیں تو چرکین کی شاعری اردو میں کیوں نہیں برداشت کی جا سکتی۔