وہ امریکی ریاست ورجینیا میں رہ رہے تھے۔ جہاں دل کے دورے سے جانبر نہ ہوسکے ۔ وہ کچھ عرصے سے پارکنسن کے عارضے میں بھی مبتلا تھے۔ اس سے پہلے وہ پاکستانی اخبارات پاکستان اور دنیا کیلئے کالم رکھتے رہے اور واشنگٹن سے شائع ہونے والے اردو اخبار دنیا انٹرنیشنل کے ایڈیٹر بھی رہے۔
وہ 1931 میں پیدا ہوئے۔ والدین نے غلام حسین نام رکھا۔ پہلے کلرکی کی اور پھر روزنامہ احسان سے صحافت کا آغاز کیا۔ ایک دو اور اخباروں سے ہوتے ہوئے اردو کے سب سے معیاری اخبار امروز میں پہنچے۔ جہاں بالآخر چیف رپورٹر بنے۔ شہر کی ادبی و ثقافتی سرگرمیوں کے بارے میں ان کا ہفتہ وار کالم "یہ لاہور ہے" بہت مقبول تھا۔ انہیں وہ کالم "حرف وحکایت" لکھنے کا اعزاز بھی حاصل ہوا جس کا مولانا چراغ حسن حسرت نے آغاز کیا اور ان کے بعد احمد ندیم قاسمی بھی لکھتے رہے۔وہ پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ صحافت میں رپورٹنگ پڑھاتے بھی رہے۔
اکمل علیمی 1973 میں وائس آف امریکہ میں چلے گئے تھے۔ ان کا خبریں سنانے کا دل نشیں انداز بہت سوں کو یاد ہوگا۔
1977۔78 میں وہ لاہور واپس آئے تو مجھے بھی ان کا کولیگ ہونے کا موقع ملا۔ وہ سینئیر موسٹ رپورٹر تھے اور میں جونئیر موسٹ سب ایڈیٹر، لیکن نیوز ایڈیٹر فضیل ہاشمی صاحب ان کی خبریں مجھے ایڈٹ کرنے کیلئے دینے لگے۔ یقین مانیں کہ ان کی خبر میں کوئی ایک بھی لفظ زائد ہوتا تھا نہ آگے پیچھے کرنے کی گنجائش۔ بس سرخی لگانی ہوتی تھی۔ ایک بار اپنی خبر پر میری سرخی کی انہوں نے خاص طور پر تعریف بھی کی۔ (یہاں یہ بھی بتاتا چلوں کہ ایسے ایک اور رپورٹر بدرالاسلام بٹ تھے جن کی خبر میں کسی قطع و برید کی گنجائش نہیں ہوتی تھی۔ ان کا بھی چند ماہ پہلے ہی انتقال ہوا ہے، امروز کے رپورٹروں میں سے رضاحمید، ممتاز شفیع اور سعید ملک اور جنگ کے حامد میر کی خبروں میں بھی بہت کم اصلاح کی ضرورت پڑی )
انہی دنوں معلوم ہوا کہ اکمل علیمی صاحب کسی بڑے سے بڑے جلسے میں بھی جائیں تو نوٹس نہیں لیتے، دفتر پہنچ کر یادداشت سے خبر لکھ لیتے ہیں۔ ایک بار میں نے بھی دیکھا کہ کسی تقریب سے ہوکر آئے اور ایک بڑی سلپ پر پوری خبر لکھ دی۔
اکمل علیمی صاحب بچوں کو امریکہ چھوڑ کر واپس جانے کے ارادے سے ہی پاکستان آئے تھے۔ اس دوران انہوں نے شاید رحمنٰ پورہ کا مکان بیچنے سمیت ضروری کام نمٹائے اور پھر وائس آف امریکہ چلے گئے اور تیس سال سے زیادہ وہاں کام کیا۔ وہ واشنگٹن کے اردو پنجابی حلقوں کی ایک مقبول شخصیت رہے۔
وہ 2008 تک وآئس آف امریکہ کی اردو سروس میں ایڈیٹر، پروڈیوسر اور بین الااقومی براڈ کاسٹر کے طور پر خدمات انجام دیتے رہے۔ اس دوران انہوں نے عرصے تک مذاکروں کے ریڈیو پروگرام راؤنڈ ٹیبل کی میزبانی بھی کی۔ ان کا ایک پروگرام ' اسلام امریکہ میں' بہت مقبول ہوا، جس میں امریکہ میں مسلمانوں کی تاریخ، ثقافت، اور مختلف شعبوں میں ان کی خدمات کا تذکرہ کیا جاتا تھا۔ یہ پروگرام کئی برس تک چلا۔
انہیں 1998 میں یونائیٹڈ اسٹیٹس انفارمیشن ایجنسی اور وائس آف امریکہ کی طرف سے اعلیٰ کارکردگی کے اعتراف میں ایوارڈ دیا گیا۔
اکمل علیمی متعدد کتابوں کے مصنف تھے، ان میں مکہ ڈائری (احوال عمرہ) اسلام امریکہ میں، مکہ کا محاصرہ شامل ہیں۔ انہوں نے خالد حسن، عبدالقادرحسن، اے حمید، احمد بشیر اور لاہور کے دیگر صحافیوں اور ادیبوں سے وابستہ یادوں کے بارے میں بھی بہت سے کالم لکھے۔
امریکہ میں لاہور نامی قصبے کا اب تو سب کو پتہ ہے لیکن سب سے پہلے پاکستانیوں کیلئے اس کا انکشاف اکمل علیمی نے ہی کیا تھا۔
اکمل علیمی 2005ء میں آخری بار لاہور آئے اور عمرے کیلئے بھی گئے ، سعودی عرب میں ہی ان کو دل کی تکلیف ہوئی۔ وہاں ہسپتال داخل ہونے کا احوال انہوں نے بہت تفصیل سے لکھا تھا۔
سید اکمل علیمی کی تدفین جمعرات کو ہوگی، انہوں نے پسماندگان میں بیوہ اور تین بیٹے سید ادیب علیمی، عاطف علیمی اور آصف علیمی چھوڑے ہیں۔