آج ایک نئی کتاب پڑھ کر ختم کی۔ اس کتاب کا نام "عصر حاضر کی ادبی تھیوری کی ایک لغت "{A Glossary of Contemporary Literary Theory} ہے۔ یہ کتاب میں کلیدی ادبی نظریہ کی شرائط کے لئے ایک واضح اور جامع رہنمائی پیش کرتی ہے۔ زیر نظر کتاب کے چوتھے ایڈیشن میں ادبی نظریاتی تھیوری کے میدان میں متن کے نئے معیار قائم کئے گئے ہیں۔ یہ کتاب یکم ستمبر 2000 میں شائع ہوئی۔
ادبی نظریات کی اس میں لغوی سطح پر مکمل طور پر کئی نظریات اور فکریات پر نظر ثانی اور توسیع دی گئی ہے اور اس کتاب میں تیزی سے تبدیل ہوتے ہوئے میدان میں 70 سے زیادہ اہم نئی شرائط اور اصطلاحات سامنے آئیں ہیں۔۔ ان میں بہت سے ادبی نظریات کی تشریح نو کی گئی ہے۔ جس میں وہ نظریات اور فکریات بھی شامل ہیں جن پر گہرے سیاسی اثرات دکھائی دیتے ہیں۔ جن کی بڑی تعداد" صنف سیاست" کے زیر اثر ہے۔ ، جس میں کوئئیر تھیوری اور مردانہ مطالعات {masculinity studies.} بھی شامل ہیں۔
یہ ایک سلیس اور عام فہم کتاب ہے جس کا متنی اظہار صاف ستھرا ہے۔ یہ کومل تحریری شرائط کی دشواری اور مقابلہ شدہ نوعیتوں کو اجاگر کرتی ہے مگر یہ ضرور ہے کہ جن میں سے کچھ یقینی طور پر لغوی وضاحت کو خارج کردیتے ہیں۔ یہ دوہرا مددگار معیار بھی ہوسکتا ہے کیونکہ یہ دونوں اصطلاحات کی وضاحت کرتا ہے اور اگلے مرحلے پر اس لغت پڑھنے پر اکساتا ہے ، ہتھورن 'کولمبیا لغت آف جدید ادبی اور ثقافتی تنقید' سے زیادہ جامع لغت یا کشاف ہے، میں نے اپنے طالب علمی کے زمانے میں جدید ادبی تنقیدی نظریات کی تشریح و تفھیم کے لیےاور ایم ایچ ابرہام {M.H. Abrams} کی لغت پڑھی تھی۔ یہ لغت میری نصابی ضرورت کے لیے کافی مددگار ثابت ہوئی اور میری فکریات اور نظریات تکمیل کا سبب بنی اس کتاب کو پڑھکر مجھے محسوس ہوا کہ یہ ابرہام کی ادبی نظریات کی لغت کے توسیع ہے۔ اس کتاب کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ یہ لغت کسی نہ کسی طور پر دوسری عبارتوں کے مقابلے میں یہ اچھوتے، منفرد اور کم الجھا ہوا ہے … تمام اہم ادبی اصطلاحات کو پوری طرح عمیق فکریات کے جوہر کے ساتھ مرتب کی گئی ہے۔ جس میں کئی نِئی ادبی اور تنقیدی اصطلاحات کو بھی قرائین سے متعارف کروایا گیا ہے۔
**مصنف کا تعارف:***
جیریمی ہاورن{Jeremy Hawthorn}
جیریمی ہوتورن ناروے کی سائنس اور ٹکنالوجی یونیورسٹی ، ٹورنڈہیم میں انگریزی کے پروفیسر ایمریٹس ہیں۔ انہوں نے ناول خاص طور پر جوزف کانراڈ اور ادبی نظریہ پر بڑے پیمانے تنقیدی اور تحقیقی مقالے لکھے ہیں۔