محبت بھی نہیں محفوظ قانون ِ تغیر سے
اردو کے نامور شاعر، مرثیہ نگار، نقاد، محقق، مؤرخ اور استاد ڈاکٹرسید صفدرِحسین پر پی ایچ ڈی کا تحقیقی مقالہ احوال اور آثار کتابی شکل میں شائع ہونے کے بعد مقالے کی مصنفہ ڈاکٹر زرین حبیب نے لاہور کے جم خانہ کلب میں ایک وقارتعارفی تقریب منعقد کی۔
چھ سو صفحات پر مشتمل کتاب ’ڈاکٹرسید صفدر حسین ِاحوال اور آثار‘ کی تعارفی تقریب میں ادب نواز مہمانان گرامی کے علاوہ تاریخی اورینٹل کالج کے سابق پرنسپل اورادب کی دنیا کا ایک بڑا نام خواجہ محمد ذکریا، شاعر وادیب پروفیسر حسن عسکری، لاہور کالج کی شعبہؑ اردو کی سابق سربراہ ڈاکٹر شگفتہ، افسانہ نگاری میں ایک بڑا نام عذرا اصغر، شاعرہ اور مدیر شیبا طراز، لاہور کالج یونیورسٹی کی پروفیسر ڈاکٹر عظمت رباب، ,شاعر کرامت بخاری اور شاعرشاہین واصفی نے شرکت کی۔ اور تقریب کی ایک خاص بات یہ تھی کہ صفدر حسین کی صاحبزادی روبینہ، داماد اور نواسے بھی شریک ہوئے۔
پی ایچ ڈی کی ڈگری کے لیے ڈاکٹر صفدر حسین پر یہ علمی، ادبی اور تحقیقی کاوش ڈاکٹر زرین حبیب کی کئی برس کی شبانہ روز محنتوں کا نچوڑ اورعلمی کامیابی ہے۔ تقریب کے آغاز پر نے انھوں نے اپنے مقالے کا تعارف کرواتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر صفدر حسین بلاشبہ اردو ادب میں تخلیق، تاریخ اور تنقید کے حوالے سے ایک مستند اور معتبر نام ہیں۔ وہ ایک ہمہ جہد ادیب اور شاعر ہیں۔ جنھوں نے ۱۹۳۲ میں غزل گوئی کا آغاز کیا، مگر بعد میں نظم نگاری کی دنیا میں رومانیت کے علم بردار بن کر ابھرے۔
محبت بھی نہیں محفوظ قانون تغیر سے
یہ وہ لذت تھی جس کو چاہیے تھا جاوداں ہونا
وہ مرثیہ نگاری میں بھی ایک منفرد مقام رکھتے تھے۔ انھوں نے تحقیق کے سمندر میں ڈوب کر ایسے ایسے عظیم مرثیہ نگاروں کے کام کا کھوج نکالا جن کا فن گرد آلود ہوچکا تھا۔ ان کی ریڈیائی تقاریر کا ایک ذخیرہ بھی علمی اور ادبی سرمائے کی زینت ہے۔
زرین حبیب نے شرکائے محفل کو بتایا کہ میں خود کو سرخرو محسوس کرتی ہوں کہ یہ مقالہ کتابی شکل میں آپ کے سامنے ہے۔ جو ڈاکٹر صفدر حسین جیسی قد آور ہمہ جہت شخصیت پر ہونے والا پہلا تحقیقی مقالہ ہے۔ تاریخ ، تحقیق اور تنقید سے انھیں والہہانہ عشق تھا۔ سادات بارہہ کی تاریخ لکھنا ان کا ایک اہم کارنامہ ہے جو تاریخ کی ایک اہم دستاویز بھی ہے۔ تبصرہ نگاری میں بھی انھیں بہت دلچسپی تھی۔انھوں نے بہت سے دانشوروں کی کتابوں پر تبصرے کئے اگرچہ انھوں نے متفرق اصنافِ سخن میں طبع آزمائی کی لیکن نثر نگاری میں تاریخ، تحقیق اور تنقید کا کام ان کی ایک بڑی پہچان ہے۔
زرین حبیب نے اس موقع پر ڈاکٹر صفدر حسین کی اہلیہ جمیلہ خاتون کو خراج تحسین پیش کیا اور کہا اُن کی مدد و تعاون کے بغیر یہ مقالہ مکمل نہ ہو پاتا۔ انھوں نے کہا کہ ’تحقیق کے اس پُرخار دشت میں سفر کے آغاز پر سب سے پہلے میں محترمہ جمیلہ خاتون سے ملی جنھوں نے نہایت شفقت سے اہنے نامورادیب شوہر کے کام کو آگے بڑھانے میں مجھے اپنے بھر پور تعاون کا یقین دلایا۔ بلکہ مجھ سے یہ بھی کہا کہ’ آپ یہ کام ضرور مکمل کیجیے گا کہ میرے شوہر نے اردو ادب میں جتنا کام کیا وہ سامنے نہیں آسکا، اور انھیں وہ پذیرائی نہیں مل سکی جو ان کا حق تھا۔ کئی لوگوں نے اس کام کا ارداہ کیا مگر اس راہ پر تھوڑی دور چل کر راستہ ہی چھوڑ بیٹھے۔ انھوں نے کہا کہ میری دعا ہے آپ یہ کام میری زندگی میں مکمل کر لیں۔ زرین حبیب نے کہا کہ مجھے افسوس ہے کہ میں اُن کی زندگی میں کی ان کی خواہش پوری نہیں کر سکی، مگر مجھے خوشی ہے کہ میں نے مقالہ مکمل کرکے ان سے کیا ہوا اپنا وعدہ نبھا دیا۔‘
مصنفہ نے مقالے کے نگران ڈاکٹر سعید مرتضے زیدی مرحوم کو بھی یاد کیا اور انھیں بھر پور خراج تحسین پیش کیا۔
مرثیہ گو ڈاکٹر صفدر حسین دنیا سے رخصت ہوتے ہوئے ایک ایسا اعزاز بھی اپنے نام کر گئے، جو اُن سے پہلے میر انیس اور مرزا دیبر جیسے عظیم مرثیہ گو شعرا کو بھی نصیب نہ ہو سکا، مگر جس کی تمنا ہر مرثیہ گو اور منبر نشین کے دل میں جا گزیں رہتی ہے کہ ہمیں منبر پر موت آئے۔ وہ منبر پر مرثیہ پڑھ رہے تھے۔ وہ اپنے بھر پور انداز میں ذکر رسول و اہلبیت ِرسول کرتے ہوئے اچانک منبر پہ جھکے اور جان جان ِآفرین کے سپرد کردی۔
زرین حبیب کے استادِ محترم اورینٹل کالج کے سابق پرنسپل خواجہ محمد ذکریا نے اپنی شاگرد کے کام کو بہت سراہا اور بتایا کہ جب زرین پی ایچ ڈی کے لیے موضوع کی تلاش میں تھیں۔ تو میں نے ہی یہ موضوع تجویز کیا تھا۔ ڈاکٹر ذکریا نے کہا کہ مجھے خوشی ہے کہ اُن کی تحقیقی کاوش کتابی شکل میں دنیائے ادب میں ایک ایسا علمی اور معتبر اضافہ ہے جو تحقیق کے سکالرز کے لیے ایک مستند حوالہ ہے۔ ڈاکٹر صفدر جیسی ہشت پہلو شخصیت پر یہ پہلی اور ایک جامع تحقیق ہے، اس لیے اس کی بہت زیادہ تشہیر کی جانی چاہیے، تاکہ ادب کا قاری اور علم کا طالب استفادہ کرسکے۔
متعدد کتابوں کے مصنف، محقق، شاعر وادیب اور ایک ادب نواز معروف شخصیت پروفیسر حسن عسکری نے ڈاکٹر صفدر حسین کے ساتھ گزرے اپنے ذاتی لمحات کا ذکر کیا اور بتایا کہ اعلی عہدے پر ہونے کے باوجود وہ ایک درویش صفت‘ ایماندار اور سادا انسان تھے، جو سفارشی کلچر سے بہت دور تھے اسی لیے اُن کے محالفین کی تعداد دوستوں سے کہیں زیادہ تھی۔ یہاں تک کہ سفارش نہ ماننے پر ایک موقع پر اُن کی شکایت سابق وزیر اعظم بھٹو تک پہنچی مگر انھوں نے ڈٹ کر مقبلہ کیا۔
لاہور کالج یونیورسٹی کی پروفیسر ڈاکٹر عظمت رباب نے پی ایچ ڈی مقالے ’ڈاکٹرسید صفدر حسین احوال اور آثار‘ کے بارے میں کہا اسے پڑھ کر اندازہ ہوا کہ زرین حبیب نے بہت گہرائی میں جاکر بہت محنت سے صفدر حسین کے ہر رخ کی تصویر کشی ہے۔ محقق، مصنف ، مدیر‘ شاعر اور مرثیہ نگار صفدر ہمدانی نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ زرین حبیب نے ڈاکٹر صفدر حسین کا انتخاب کر کے قلم اور قلم کار سے انصاف کیا ہے۔ اس لیئے کہ میری ذاتی رائےمیں ڈاکٹر صفدر حسین کو جو مقام ملنا چاہیئے تھا وہ نہیں ملا اور اس معاشرے میں یہی رویہ ڈاکٹر صفدر حسین کے جینون یعنی حقیقی تخلیق کار ہونے کی دلیل ہے۔
اس تقریب کی ایک خوبصورتی یہ بھی تھی کہ ڈاکٹر صفدر حسین کی بیٹی بمع اپنے شوہر اور صاحبزادے کے محفل میں شریک تھیں۔ کسی بھی بیٹی کے لیے اس سے زیادہ خوش قسمتی اور کیا ہوگی کہ وہ اپنے والد کی علمی اور ادبی کاوشوں کا بول بالا ہوتے دیکھے۔ یہ یقیناٍ ایک بیٹی کے لیے باعث افتخار ہے کہ اُن کے والد ادب کی دنیا کے روشن ستارے ہیں ۔انھوں نے بیٹی کے لئے وراثت میں اینٹوں اور سیمنٹ کا جنگل نہیں، علم کا وہ ورثہ چھوڑا ہے جو صرف ان کا ہی نہیں پورے اردو ادب کا ورثہ بلکہ سرمایہ ہے، فی زمانہ ایسے ادیب اب عنقا ہوتے جارہے ہیں۔۔ بیٹی روبینہ اپنے والدِ محترم صفدر حسین کے بارے میں یہ بتاتے ہوئے جذباتی ہوگئیں کہ باہر وہ کچھ بھی تھے مگر گھرمیں وہ ایک بہت سادا انسان اور ایک محبت کرنے والے باپ تھے۔ جس کے بعد وہ کچھ نہ کہہ پائیں۔
شاعر طارق واصفی نے صفدر حسین پر اپنی نظم سنا کر خوب داد سمیٹی۔ ادبی تقریب کی نظامت سابق پرنسپل گلبرگ ڈگری کالج گلناز زیدی نے کی۔ انھوں نے پروگرام کا آغاز کرتے ہوئے شرکا کی آمد کا شکریہ ادا کیا اورکہا اللہ نے انسان کو علم و حکمت اور قوت زبان و بیان سے نوازا ہے اور بندے کا قلم سے یہ رشتہ دراصل قرب الہی کا ہی عکاس ہے۔
میری خوش قسمتی کہ میں بھی اس تقریب میں موجود تھی ۔ میرے لیے یہ مقام فخر تھا کیونکہ زرین حبیب میری بہن ہیں۔ میں نے اپنی اور بہنوں کی جانب سے اُن کی اس شاندار علمی کامیابی پر مبارک باد دیتے ہوئے کہا کہ انھوں نے صرف صفدر حسین کی اہلیہ سے کیا ہوا وعدہ ہی نہیں نبھایا بلکہ اپنی والدہ کی روح کو بھی بہت شاد کیا ہے، جو خود تواپنے زمانے میں بیٹیوں کو تعلیم سے دور رکھنے کے رواج کی بھینٹ چڑھ گئیں مگر وہ جنون کی حد تک اپنی بیٹیوں کو علم کے دشت میں بہت آگے دیکھنا چاہتی تھیں۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...