(Last Updated On: )
ہمارے شہر میں پردہ دری نہیں ہوتی
یہاں پہ چارسو عریانیت کا پہرہ ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
2فروری 1975
اردو کے نامور ہندوستانی شاعر مسعود حساس صاحب کا یوم پیدائش
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کویت میں اردو کے اولین صاحب دیوان شاعر
گزشتہ 19 برس سے کویت میں مقیم اردو کے نامور ہندوستانی نژاد صاحب دیوان شاعر مسعود احمد حساس صاحب 2فروری 1975 کو تنہری معافی موضع پرساد پور ضلع سنتھ کبیر نگر اتر پردیش میں حضرت علی انصاری صاحب کے گھر میں پیدا ہوئے۔ ان کی مادری زبان پوربی ہے لیکن اردو سے محبت کی وجہ سے انہوں نے اردو میں شاعری کرنے کا فیصلہ کیا۔ انہیں پوربی، اردو،انگریزی،عربی اور فارسی سمیت 5زبانوں پر عبور حاصل ہے ۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم اپنے گائوں سے حاصل کی جس کے بعد 1994 میں انہوں نے دارلعلوم دیوبند سے عربی میں گریجویشن کیااور اسی سال 7 جون 1994 میں ان کی شادی ہوئی ۔ ان کی اہلیہ محترمہ بھی عربی کی گریجویٹ ہیں جنہوں نے جامعت الصالحات مائے گائوں سے عربی میں گریجویشن مکمل کیا۔ ماشاء اللہ یہ جوڑا اس وقت دو بیٹوں اور دو بیٹیوں سمیت 4خوب صورت بچوں سعد،عبداللہ،سدرہ اور شمرہ کے خوش قسمت والدین ہیں۔
مسعود صاحب کا اصل نام مسعود احمد اور قلمی نام مسعود حساس ہے ۔ 1994 میں گریجویشن کے بعد انہوں نے ممبئ اجمل پرفیومس میں سیلز مین کی ملازمت کی دو سال بعد شوپ انچارج کی حیثیت سے خالص پرفیومس دبئی کو جوائن کیا وہاں سے الحرمین پرفیومس میں ٹرانسفر ہوگئے
ابتدا میں شوپ انچارج کی حیثیت سے دبئی شارجہ راس الخیمہ اور عمان میں خدمات سرانجام دیں جس کے بعد وہ 2003 میں کویت منتقل ہو گئے۔
جہاں 2008 میں مارکیٹنگ منیجر کے عہدے سے استعفی دے کر ” عود المسعود” نامی اپنی ایک کمپنی کی داغ بیل ڈالی جس میں تا حال اسی پوزیشن پہ ہیں ۔
مسعود حساس صاحب نے لکھنے کی ابتداء تقریبا بارہ تیرہ سال کی عمر میں کی تھی تھی تاہم 17 سال کی عمر میں دو چار غزلیں کہہ لی تھیں جن کے دو مطلعے اس طرح تھے۔
تو مری نیند کو کیوں چرانے لگی
ہر گھڑی کیوں تری یاد آنے لگی
جو ہردم آپ کی مدح و ستائش عام کرتے ہیں
وہی مشعل جلا کر اصل میں بدنام کرتے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سن 2000 میں انہوں نے مستقل طور پہ لکھنا شروع کیا اور2004 تک کم و بیش ساٹھ ستر غزلیں کہہ لیں اتفاقا اسی دوران کویت میں چند شعرا سے ان کی ملاقات ہوئی جنہوں نے انہیں بتایا کہ غزل میں اوزان کے ساتھ قافیہ و ردیف بھی ہوتے ہیں جس کا حساس صاحب کو سرے سے علم ہی نہیں تھا
گھر جا کر انہوں نے اپنی تمام غزلوں کی چھنٹائی کی تو کرشماتی طور پہ صرف دو غزلوں میں قافیہ و ردیف کی کجی در آئی تھی وگرنہ ہر ایک میں اصولِ شاعری لا شعوری طور پہ برتا جا چکا تھا
اسی برس چھٹی گزارنے کیلیے ممبئ جانا ہوا تو بھنڈی بازار سیفی بک ڈپو پہ ایک کتاب نظر آئی جسکا نام تھا
“فن شاعری اور علم معانی و بیان “
ورق گردانی کرتے ہوئے کچھ متواتر اعداد یعنی گنتی لکھی ہوئ نظر آئی تو ٹھٹھک گئے
برقی سرعت سے خیال آیا کہ کویت میں کچھ شعرا مصرع لکھ کے نیچے گنتی لکھتے ہیں مگر کسی کو بتاتے نہیں ہیں
بس اسی سبب وہ یہ کتاب خریدنے پر مجبور ہوئے۔
واقعی وہ کتاب مختصر اور جامع تھی جس نے انہیں تقطیع کے فن سے آشنا کیا جس کے فورا بعد انہوں نے اپنی گزشتہ تمام غزلوں کی تقطیع کرڈالی یہاں بھی حیرت دوچند ہوگئی جب واضح ہوا کہ ان کی تمام غزلوں میں بحر و اوزان کا سرے سے کوئی مسئلہ ہی نہیں ماسوا اکا دکا مصرعوں کے جن کی انہوں نے فوری درستی کردی
یہی وہ وقت تھا جب وہ کویت کے افق پہ نمودار ہونے کی سعی کر رہے تھے ۔
ابتدا میں مسعود صاحب نے مزاح لکھا بہت لکھا ماشاء اللہ خوب لکھا ایک مزاحیہ مصرع جو کہ مکمل عربی الفاظ پہ مشتمل تھا اسی وقت محفلوں میں گونجنے لگا
مگر ایک سال بعد انہیں یہ احساس ہوا کہ مزاح کی بنیاد پہ شخصیت کا مذاق اڑایا جانے لگا ہے تو فورا خود کو سنجیدگی کی جانب مائل کرلیا اور تخلص جو اب تک مسعود تھا اسے بدل کے “حسّاس” کردیا ۔
2014 میں ان کا دیوان شائع ہوا جو حروف تہجی کی مراعات سے مزین کویت یا خلیج کا اولین دیوان ہے اس کے ضمیمے میں چمن زار عقیدت کے نام سے کویت میں تمام تر معاصر شعراء کا منظوم خاکہ شائع کیا گیا ہے شاید یہ اردو ادب کی تاریخ میں پہلا قدم ہو کہ کسی شاعر نے ملکی سطح پہ اپنے تمام تر معاصر شعراء کو منظوم خراجِ عقیدت پیش کیا ہے اس کمالِ احتیاط کے ساتھ کہ ہر شعر میں ممدوح کا نام چسپاں کیا ہے
اسی برس ہندوستان میں سیاسی فضا تبدیل ہوئی اور پہلی بار کسی مسلم شخص کو اس کے گھر میں کوٹ کوٹ کے اس لیے مار دیا گیا کہ اس کے گھر میں گوشت تھا جس سے ایسا دلبرداشتہ ہوئے کہ شعر و شاعری چھوڑ چھاڑ کے مظلوم کی آواز بننے کی کوشس کی اور اسی بنیاد پہ اب ان کی ” ٹائم لائن” پہ اشعار کے بجائے ہر وہ پوسٹ نظر آنے لگی جو وقت کے فرعون کے خلاف ہوتی ہے ۔ حساس صاحب کی شاعری میں غم دوراں زیادہ ہے جو کہ ان کی”حساسیت”کا واضح ثبوت ہے۔ ان کی شاعری میں دکھ ،درد،کرب،جرئت،بے باکی،للکار،مزاحمت اور خودداری شامل ہے یہی وجہ ہے کہ ان کا ایک ایک شعر بہت بڑی اہمیت اور معنویت کا حامل محسوس ہوتا ہے۔ مسعود حساس صاحب کے پسندیدہ ادباء،شعراء اور شاعرات کی فہرست میں جو اسمائے گرامی شامل ہیں وہ علامہ محمد اقبال، ساحر لدھیانوی،ساغر صدیقی، سعادت منٹو، عنایت اللہ التمش، نسیم حجازی، مولانا صادق سردھنوی، مستنصر حسین تارڑ، دلاور فگار، عینی آپا، پروین شاکر، حقانی القاسمی اور ندیم صدیقی۔ کویت میں مشاعروں کی روایت مستحکم ہے اور مسعود حساس صاحب بھی کویت کے فعال اور سرگرم شعراء کی صف اول میں شامل ہیں یہی وجہ ہے کہ زیادہ تر مشاعروں کی نظامت کی ذمہ داری ان کے حصے میں آتی ہے۔ انہوں نے دو عالمی آن لائن مشاعروں کی منظوم نظامت بھی کی ہے جبکہ ایک مشاعرے کی انہوں نے اس طرح منفرد نظامت کی کہ ہر شاعر کو اس کے شعر کے ذریعے پکارا گیا۔ مسعود صاحب سے حاصل ہونے والی معلومات کے مطابق کویت میں عام طور پر 3 زبانوں اردو،عربی اور فارسی میں مشاعروں کا انعقاد کیا جاتا ہے البتہ ” کویت رائٹرز فورم” کے نام سے وہاں ایک ہندوستانی ادبی تنظیم ہے جو کہ 7 زبانوں اردو،ہندی، انگریزی، تامل، مراٹھی، کنڑ اور گجراتی زبان میں مشاعرے منعقد کراتی رہی ہے لیکن اب اس کی سرگرمیاں پہلے کی نسبت کافی کم ہو گئی ہیں ۔
مسعود احمد حساس صاحب کی شاعری سے انتخاب
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترقی کے تعاقب میں بڑے لوگوں میں مت بیٹھو
کہ پودے پیڑ کے نیچے کبھی پنپا نہیں کرتے
آیا بڑھاپا ہو گئے ہم لوگ اجنبی
دیتا ہے کوئی دھیان لہو تھوکنے کے بعد
میں بس یزیدِ وقت کے آگے نہیں جھکا
دنیا نے اتنی بات پہ تلوار کھینچ لی
گزشتہ رات میں نے خود میں جھانکا
نمائندہ کوئی سجدہ نہیں ہے
سکوں کشید وہ کرتا ہے مار کر پتھر
وہ سنگ زاد ہے پتھر کو پھول کہتا ہے
مری انا تجھے رخصت تو کر رہا ہوں میں
تجھے عزیز مگر بے پناہ رکھتا ہوں
کہا تھازندگی نے مجھ سے ساتھ وہ نبھائے گی
مگر یہ کیا کہ چار دن میں قول سے مکر گئی
انتقاما وہ کھرچتا ہے مرا مرہمِ زخم
احتراماً اسے اکسیر پہ رکھ دیتا ہے
کچھ لوگ جاوداں ہوئے کردار کے سبب
کچھ لوگ اپنی موت سے پہلے ہی مر گئے
دیکھیں کہ ماجرا ہے میاں زیرِ آب کیا
لہروں کے ساتھ ہم بھی بھنور میں اتر گئے
ہماری دوستی کا تار ہی کمزور تھا شاید
تمھارےہاتھ ورنہ پل میں خنجر تک نہیں آتے
جو دیکھا ماں کو تہجد میں تو یقین ہوا
سمیٹتا ہے کوئی رات بھر بکھر کے مجھے
وہ خاندان کا ملبہ سہی کرو عزت
سمیٹتے ہوئے اوروں کو جو بکھر گیا ہے
ہزار لوگ موذن ہیں پر حقیقت ہے
جسے وہ چاہے اسی کو بلال کرتا ہے
ان کی تشبیہہ چاند سورج سے
فہم انساں خراب ہے بیشک
وہ احترام کے لائق ہے میری نظروں میں
بڑے خلوص سے کاٹا ہے جس نے سر میرا
ہوا کی خاصیت ہے یہ چراغ وہ بجھائے گی
ہوا تو بس ہوا ہی ہے نسیم کیا کثیف کیا
یہ خدا کی اک عطا ہے یہ خلیل کا ہے صدقہ
کوئی آب مثلِ زمزم نہ ہوا نہ ہے نہ ہوگا
وہ حرف حرف زہر تھا مگر میں پھر بھی پی گیا
سعادتاً سعادتاً سعادتاً سعادتاً
گھر کی حالت کا تذکرہ تو کیا
دل کی حالت مگر نہ کہہ پایا
ماورا عقل سے ہے ذھنی اداسی کا سبب
بے سبب پھوٹ کے رویا تو جہاں کانپ گیا
میں صبر کرکے مجرمِ انسانیت بنا
وہ ظلم کرکے اور بھی مظلوم ہوگیا
مجھے اترنے دے تو نیلگوں سمندر میں
ہرایک آنکھ کا حلقہ بھنور نہیں ہوتا
نفس کی خواہشیں کچلتا ہوں
اس سے بڑھ کر کوئی جہاد ہے کیا
میرے خیال وخواب میں بانہیں تھیں بس تری
تکیے پہ میرا گرچہ رہا سر تمام رات
دل اکیلا شش جہت پہ کس طرح مصروف ہو
جبکہ آتی ہے مصیبت آتی ہے وہ ہشت ہشت
تم کو تو یاد یہ بھی نہیں آج کیا ہوا
اک ہم ہیں یاد رکھے ہوئے سال بھر کی بات
ذبح کردوں گا میں دل کو ایک دن
شور کرتی ہے بہت دھڑکن عبث
بارہا اس نے مرے شعر کو بونا لکھا
اس سے دیکھا نہیں جاتا مرے معیار کا قد
مرے جوشِ جنوں نے رقص لہروں پر کیا ایسے
مرے ہاتھوں پہ بیعت ہوگیا گرداب بالآخر
اللہ میرے عشق کا ہو مرتبہ بلند
وہ حالِ دل کو جان لیں کہنے سے پیشتر
فقط یہ سوچ کے میں چومتا نہیں ان کو
مرے لبوں سے نہ آئے ترے لبوں پہ خراش
سر کاٹتا نہ آپ کا کرتا میں کیا بھلا
اس بار لڑ رہا تھا میں اپنی بقا کی جنگ
سنتا ہوں کہ سجدے میں ہے قربِ خداوندی
فرعون کا سر لے کر جاؤں تو کہاں جاؤں
تم سوچتے ہو عیش کا بستر ہے میسر
میں دھوپ کے صحرا میں تھکن اوڑھ رہا ہوں
جسم کے اپنے تقاضے جاگ اٹھے اس طرح
جیسے دریا کے بدن پر موج کی انگڑائیاں
چند درویش صفت لوگ ابھی ہیں باقی
آگ کے شہر میں پانی کی قبا رکھتے ہیں
میں اپنے آپ میں بڑا عجلت پسند ہوں
تو بھی مثالِ نقش برآبِ رواں نہ ہو
تمہیں جو سوچوں تو دھڑکن ٹھہر سی جاتی ہے
ہے میرے ساتھ مری یہ کمائی ہر لمحہ
اگر تو آیا ہے کہنے پہ تو مکمل کہہ
جسے چھپایا ہے دل میں وہ بات ساری رکھ
غریبی کو تو مل ہی جاتی ہے دو وقت کی روٹی
مگر دولت کے گھر عزت بہت مشکل سے آتی ہے
ہمیں آواز دینی یے تو لہجہ نرم ہی رکھیں
رعونت سے بلانے پر تو نوکر تک نہیں آتے
گلاب چہروں سے ملنا کوئی گناہ ہے کیا
جہاں ملیں وہیں فتنہ وجود میں آئے
وہ مسافر کیا ٹکے گا اک جگہ
جس کے قدموں میں سفر تقسیم یے
بہت سنبھل کے اٹھانا کوئی قدم اپنا
شریف شخص ہمیشہ نظر میں رہتا ہے
اسے حدود میں رہنے سے ایک وحشت ہے
وہ سوچتا یے تو حد سے گزر گزر کے مجھے
سر کاٹ کے میرا وہ سجانے پہ بضد ہے
حالانکہ کوئی صاحبِ دستار نہیں ہوں
کسی کے واسطے خود کو جلانا
یہ خود سوزی نہیں تو اور کیا ہے
میں اپنی تنگ دامانی چھپانا چاہتا ہوں بس
نہ جانے کیوں مجھے احباب سب مغرور کہتے ہیں
یوں ہویدا ہے ترے پھول سے رخسار پہ تل
مصحفِ حسن پہ اک شعر لکھا ہو جیسے
انا کا ایک بت مجھ میں بہت پہلے سے بیٹھا تھا
تمہاری ضد نے بالآخر اسے دھڑکن عطا کردی
اس درجہ مرے شوق نے سجدے کئے اسے
آخر کو بتِ ناز میں گویائی آ گئی
جناب شیخ جوابِ سلام تو دے دیں
انا پرست ہوں متکبرالمزاج نہیں
ہمارے شہر میں پردہ دری نہیں ہوتی
یہاں پہ چار سو عریانیت کا پہرہ ہے
اس بناء پر دیکھتا ہوں روز میں اخبارِ نو
مرنے والوں میں تو میرا نام بھی شامل نہیں
آؤ اس دل کو مار دیتے ہیں
اس نے آفت میں ڈال رکھا یے
میں مفتی تو نہیں لیکن یہ میری رائے ہے ذاتی
تمہارے حسن کو چھوکر کوئی کافر نہیں ہوتا
روابط تم سے میری جاں مری جاں کے محافظ ہیں
اگر یہ رابطے ٹوٹے تو میں بھی ٹوٹ جاؤنگا
مسعود حساس