یکم مارچ 1939 کو لاہور میں مقیم گجرات کے کاشت کار رحمت خان تارڑ صاحب کے ہاں ایک بیٹا پیدا ہوا جسے مستنصر حسین نام دیا گیا، یہ بچہ جو اب مستنصر حسین تارڑ کے نام سے انتہائی ہردل عزیز ہے
بچپن، لاہور کے بیڈن روڈ پر واقع لکشمی مینشن میں سعادت حسن منٹو کے پڑوس میں گزرا۔ تحصیل علم کے لیے پہلے مسجد، پھر مشن ہائی اسکول رنگ محل اور پھر مسلم ماڈل ہائی اسکول سے میٹرک کرکے گورنمنٹ کالج میں پہنچے۔ ایف اے کیا اور فلم، تھیئیٹر اور ادب کے نئے جہاں دریافت کرنے برطانیہ چلے گئے، یہ شریفانہ ’’چھانڑے بازی‘‘ پانچ چھے برس کی۔
من موجی تو تھے ہی، 1957 میں ماسکو کے یوتھ فیسٹول جا نکلے۔ قلم یہیں کسی رات ہتھے چڑھا تھا اوریوں کہ پھر زندگی بھر اترکر ہی نہ دیا۔
پاکستان واپس آئے تو اداکاری کا شوق چرایا، پی ٹی وی جا دھمکے، شکیل تو تھے ہی، زیادہ تردو نہ کرنا پڑا ’’پرانی باتیں‘‘ میں پہلی بار کام ملا، ایکٹنگ کی، غالباً مطمئن نہ ہوئے، جی میں آئی ڈراما خود لکھا جائے تو ’’آدھی رات کا سورج‘‘ طلوع کیا۔
یہ 1974 کا سال تھا جب یہ کھیل نشر ہوا۔ پھر چل سو چل، برسوں ٹی وی سے وابستہ رہے، کبھی اِس عہدے پر، کبھی اُس پر، کئی یادگار ڈرامے لکھے، جی بھر اداکاری کی۔ صبح کی نشریات میں شامل ہوئے تو بچوں کے آئیڈیل ’’چاچا جی‘‘ بن گئے۔
1969 میں یورپی ممالک کی سیاحت پر روانہ ہوئے، واپس (1971) آئے تو قارئین کے لیے ’’نکلے تری تلاش میں‘‘ کی سوغات لائے، یہ ایک بے خطا تیر تھا کہ قاری اور ناقد دونوں کو بہ یک وار شکار کیا۔
محمد خالد اختر جیسے سفر نگار نے تحسین کی
’’تارڑ نے مروجہ ترکیب کے تار و پود بکھیر ڈالے ہیں‘‘۔
اس کتاب کی پذیرائی کا طوفان تھا کہ تھم نہیں پا رہاتھا۔ فطرت میں بے نیازی کا عنصر کچھ زیادہ ہی ہے سو یہ ہوائی اڑائی گئی کہ جناب کی گردن میں کچھ سریا وریا سا آگیا ہے لیکن انہوں نے ایسی آوازوں پر کان بند کرلیے، خدشہ تھا کہ پلٹ کر دیکھا تو ’’پتھر کا ہو جاؤں گا‘‘۔
اگلا سفر نامہ ان کا ’’اندلس میں اجنبی‘‘ تھا۔
صاحبِ طرز مزاح نگار شفیق الرحمٰن نے کہا
’’تارڑ کے سفرنامے قدیم اور جدید سفرناموں کا سنگم ہیں‘‘۔
بیالیس برس سیارے کو چھانتے پھرے، تیس سفرنامے لکھے(پاکستان کے شمالی علاقوں کے بارہ سفروں سمیت)۔ بیش تر سفر نامے اور ناول لاہور میں اپنی بیچوں کی دکان کے شور شرابے اور دُھول مٹی میں بیٹھ کر لکھے۔
کے ٹو پر ان کا سفرنامہ ایسا مقبول ہوا کہ دو ہفتے بعد ہی دوسرے ایڈیشن کی ضرورت پڑگئی تھی، نہ صرف یہ بل کہ کے ٹو پر کہیں واقع ایک جھیل کا نام ہی ’’تارڑ جھیل‘‘ پڑگیا۔
خانہ بدوش، نانگا پربت، نیپال نگری، سفر شمال کے، سنو لیک، کالاش، پتلی پیکنگ کی، ماسکو کی سفید راتیں، یاک سرائے، ہیلو ہالینڈ اور الاسکا ہائی وے، ان کے چند نمایاں سفرنامے ہیں۔
سفرنامے کے میدان میں سکہ رائج کروا لیے تو ناول نگری فتح کرنے پر تل گئے۔
’’پیار کا پہلا شہر‘‘ تخلیق کیا تو سیل کے ریکارڈ ٹوٹ گئے، اِس ناول کے پچاس سے زیادہ ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔
یوں تو ان کا ہر ناول مقبول ٹھہرا مگر ’’راکھ‘‘ اور ’’بہاؤ‘‘ کی بات ہی کچھ اور ہے۔ یہ اردو ادب کے چند کشید ناولوں میں شمار ہوتے ہیں۔
’’راکھ‘‘ پر انہیں 1999 میں بہترین ناول کا پرائیم منسٹر لٹریری ایوارڈ پیش کیا گیا، اس کا بنیادی موضوع سقوط ڈھاکا اور بعد کے برسوں میں کراچی میں جنم لینے والے حالات ہیں۔
’’قلعۂ جنگی‘‘ نائن الیون کے بعد افغانستان پر امریکی حملے کے پس منظر میں لکھا، پنجابی میں بھی ناول نگاری کا کام یاب تجربہ کیا، کالم لکھنا شروع کیا تو یہاں بھی اپنا اسلوب جداگانہ رکھا، حجازِ مقدس گئے تو ’’غار حرا میں ایک رات‘‘ اور ’’منہ وَل کعبہ شریف‘‘ کے زیرعنوان دو سفر نامے لکھے۔
قرۃ العین حیدر پسندیدہ لکھاری اور ان کا ناول ’’آخرِشب کے ہم سفر‘‘ پسندیدہ ہے۔
ٹالسٹائی اور دستوفسکی کے مداح ہیں۔
’’برادرز کرامازوف‘‘ کو دنیا کا سب سے اعلٰے ناول خیال کرتے ہیں۔ شفیق الرحمٰن کی ’’برساتی کوے‘‘ کو اپنے سفرنامے ’’نکلے تری تلاش میں‘‘ کی ماں قرار دیتے ہیں، کرنل محمد خان کی ’’بجنگ آمد‘‘ کو اردو کا سرمایہ قرار دیتے ہیں، رسول حمزہ توف کی ’’میرا داغستان‘‘ اور آندرے ژید کی خودنوشت اچھی لگتی ہیں، کافکا اور سارتر بھی پسند ہیں، ترک ادیب یاشر کمال اور اورحان پامک کے مداح ہیں، مارکیز اور ہوسے سارا ماگو کو بھی ڈوب کر پڑھا، محمد سلیم الرحمٰن کی تنقیدی بصیرت کے قائل ہیں، اپنی تخلیقات پران سے ضرور مکالمہ کرتے ہیں۔ نوبل انعام یافتگاں کی تخلیقات توجہ سے پڑھتے ہیں۔ کہتے ہیں ’’جو پسند آتا ہے، اس سے اثر بھی لیتا ہوں۔‘‘
اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ قرہ العین حیدر کے سوا اردو ادب کے عظیم داستان گو، ناول نگار اور کہانیاں لکھنے والے زیادہ تر پنجابی ہی ہیں۔ کوئی تیس پینتیس برس اُدھر کا قصہ ہے کہ ایک امریکی اردو دان لِنڈا ونیٹک، برکلے یونی ورسٹی سے جدید اردو افسانے پر ڈاکٹریٹ کا مقالہ لکھنے پاکستان آئیں۔ انہوں نے برصغیر کے چالیس افسانہ نگاروں کو منتخب کیا تھا۔
اْن ہی دنوں میرا افسانوی مجموعہ ’’سیاہ آنکھ میں تصویر‘‘ شائع ہوا تھا چناں چہ مجھ پر بھی آنکھ رکھی، میری رہائش پر تشریف لائیں اور ایک تفصیلی انٹرویو کیا۔ پہلا سوال یہ تھا کہ آپ فکشن یا نثر ہی کیوں لکھتے ہیں؟ میرا جواب تھا ’’اس لیے کہ میں پنجابی ہوں‘‘۔ لِنڈا کو اس عجیب سے جواز کی توقع نہ تھی، تب میں نے قرۃ العین حیدر کے ذکر کے بعد فکشن کے ٹھیٹھ پنجابی رائٹرز کے نام گنوانے شروع کر دیے۔
کرشن چندر، راجندر سنگھ بیدی، بلونت سنگھ، سعادت حسن منٹو، کنہیا لال کپور، پطرس بخاری، اوپندر ناتھ اشک، رام لعل، عبداللہ حسین، فکر تونسوی، ممتاز مفتی، شفیق الرحمٰن، اے حمید، سریندر پرکاش، اشفاق احمد، بانو قدسیہ، نثار عزیز بٹ، جمیلہ ہاشمی، ۔۔۔۔ درجنوں نام اور سب پنجابی۔۔۔۔ محترمہ نے ٹیپ ریکارڈر بند کردیا اور پریشان سی ہو کر پوچھا ’’یہ تو مجھے اپنا مقالہ دوبارہ لکھنا پڑے گا، عجیب بات ہے کہ اردو زبان کے ان عظیم لکھاریوں کی مادری زبان اردو نہیں پنجابی ہے‘‘۔
تارڑ کہتے ہیں، عجیب بات یہ بھی ہے کہ انگریزی کے پاکستانی ناول نگار مثلاً محمد حنیف، ندیم اسلم، محسن حامد، بَپسی سدھوا، عظمیٰ ، اسلم خان، سیالکوٹ کے غوث، عمر شاہد حامد پنجابی ہی تو ہیں، داستان گوئی پنجاب کی سرشت میں ہے‘‘۔
تارڑ ربع صدی سے بیسٹ سیلر چلے آرہے، ہمارے یہ داستان گو بتاتے ہیں
’’داستان گوئی مجھے ماں اور بڑی خالہ سے ملی، دونوں نے لکھنے اور بولنے کا اسم اعظم عطا کیا اور اس اسم اعظم کی حفاظت کا وظیفہ پیر و مرشد والد صاحب نے سکھایا، یہ میرے اللہ کی مجھ پر بہت خصوصی عنایت ہے۔
داستان گوئی تال سے تال ملانے کا فن ہے، سننے والا قصہ گوکے سحر سے باہر نہیں نکل سکتا، جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ میں اپنے قاری کو اپنی مرضی کا منظر دکھاتا اور منواتا ہوں تو میں نے جان بوجھ کر ایسانہیں کیا، ہاں یہ ہے کہ داستان کو سنتے یا پڑھتے ہوئے، آپ کہیں درمیان سے چھوڑ کر آگے نہیں جاسکتے، اُسی طرح میں بھی جزئیات کو چھوڑنے کا قائل نہیں، شاید اسی لیے میرا قاری ایک دائرے میں بندھا رہتا ہے، وہ کتاب کا کوئی ورق چھوڑ کر آگے جانے کی جلدی میں نہیں ہوتا، اس میں میری خانہ بدوشی کا عمل دخل ہے، آوارگی مجھے منفرد کرتی ہے۔
قاری کو مسمرائیز کرنے والی بات بالکل اُلٹ لگتی ہے، میں جب بولتا یا رات کو لکھتا ہوں تو مجھ پر ایک نیم مدہوشی سی طاری ہوجاتی ہے، اپنے ہی لفظوں میں جکڑا جاتا ہوں، رات کے لکھے کو دن میں درست بھی کر لوں تو بھی اس کیفیت سے نکل نہیں پاتا، جس رات یہ مدہوشی نہیں ہوتی، تو نہیں لکھتا۔ شاید یہ ہی کیفیت میرے قاری میں منتقل ہو جاتی ہے حالاںکہ میں کبھی کسی کو متاثر کرنے کے لیے نہیں لکھتا۔
مطالعے کے علاوہ خلق خدا کو مختلف جہتوں اور مظاہر فطرت کو قریب سے دیکھنے کا جو موقع مجھے ملا، اُس سے بھی لکھنے میں بہت مدد ملی۔ دنیا کو دیکھنے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچاکہ میرا سچ ہی سچ ہے البتہ یہ حرف آخر نہیں، دنیا میں اور بھی سچ ہیں، میری ثقافت اور میرے عقیدے کے علاوہ بھی ثقافتیں اور عقیدے محترم ہیں، یہ سچائی ہاتھ آجائے تو تنگ نظری آپ کے اندر سے ختم ہوجاتی ہے۔ اب جو میں پچھتر برس کی عمر میں اپنے قاری کا محبوب بنا بیٹھا ہوں تو اس کی وجہ دوسروں کو اور اُن کے سچ کو تسلیم کرنا ہی ہے۔ صدق دل سے لکھتا ہوں اور لکھے بغیر رہ نہیں سکتا، میرے قاری اور تنقید نگار مجھے بہت زیادہ پڑھاکو سمجھتے ہیں لیکن ایسا ہے نہیں، ہاں یہ ضرور ہے کہ لکھنے پر پڑھنے کو ترجیح دیتا ہوں‘‘۔
لکھاری کہتے ہیں کہ لکھتے ہوئے، لفظ، اگر بوتل سے نکلے جن کی طرح بے قابو ہوجائیں، توگڑبڑ ہوجاتی ہے مگرمستنصر کہتے ہیں
’’لفظوں کو قابو میں رکھنے کا منتر میں نے سیکھ لیا ہے، اب میں ان کے برتاؤ سے مسئلہ حل کرلیتا ہوں، صراط مستقیم لکھنے کے بجائے سیدھا راستہ لکھ کر آگے بڑھ جاتا ہوں، اس طرح جعلی دانش وری کے عذاب سے بھی بچ جاتا ہوں البتہ کہانی کے کردار اکثر باغی ہو کر آزاد زندگی گزارنے پر اُتر آتے ہیں اور سمجھ لیجے کہ جب کردار بغاوت کردے تو لکھنے والے کے پاس دو ہی راستے رہ جاتے ہیں، وہ بہادر بن کر اُس کردار کی اخلاقیات یا آفاقیات کو مان لے یا پھر لکھنا بند کردے، مجھ سے اکثر کہا جاتا ہے کہ آپ کا لکھا ہوا فلاں کردار یہ کہتا ہے، وہ کہتا ہے، تو میں لاچارگی سے کہ دیتا ہوں کہ ضروری تو نہیں کہ میرا لکھا ہوا کردار میری طرح ہی سوچتا ہو‘‘۔
’’بہاؤ‘‘ لکھتے ہو ئے مستنصر نے جب پنجابی، دراوڑی اور دیگر زبانوں کے الفاظ اپنی تحریر میں شامل کیے توسوال اُٹھا کہ ابلاغ کیسے ہوگا؟ ان کا جواب ہے’’بہاؤ میں 1930 کا عہد ہے، اُس پس منظرکے ابلاغ کے لیے دراوڑی اور پنجابی الفاظ ضروری تھے، جس پنجاب کی کہانی ہے، اُس میں آج بھی ان لفظوں کا ورتارا موجود ہے ’’جس طرح ’’کُھرے‘‘ کا اردو میں ترجمہ ممکن نہیں، اسی طرح ’’ویہڑے‘‘ اور’’چاٹی‘‘ کی اردو آپ کو نہیں ملے گی۔ یہ لفظ جان بوجھ کر نہیں لائے گئے، اصل میں ان سے بہتر لفظ مجھے ملے ہی نہیں اور یقین کریںکہ قارئین کو کہیں بھی ابلاغ کا مسئلہ پیش نہیں آیا، میرے اور قاری کے درمیان ایک ایسی فریکوئینسی ہے، جس سے ہم ایک دوسرے کو سمجھ لیتے ہیں‘‘۔
اپنی تحریروں میں Magical Realism (طلسماتی حقیقت پسندی) کے حوالے سے کہتے ہیں
’’میری بود و باش جس ماحول میں ہوئی، یہ عنصر اسی کا حصہ ہے۔ وارث شاہ کی ’’ہیر وارث شاہ‘‘ اور مولانا غلام رسول عالم پوری کی ’’احسن القصص المعروف قصہ یوسف زلیخا‘‘ Magical Realism کا شہ کار ہیں، میرا پنجابی ناول ’’پکھیرو‘‘ اسی تیکنیک میںہے، ہماری لوک داستانیں اور بچوں کی کہانیاں تک، اس عنصر سے خالی نہیں، مجھے کیا پڑی تھی کہ میں یہ عنصر غیروں سے لیتا، یہ ہمارے خمیر میں ہے۔‘‘
تارڑ نے جسمانی سفر کیے تو سفر نامے مکمل ہوئے لیکن وہ کہانیاں کیسے مکمل ہوئیں جن کا جسمانی طور پر سفر ممکن نہیں تھا؟
’’مجھے ملامتی صوفی بنانے اور ثابت کرنے کی بہت سی کوششیں ناکام ہو چکی ہیں، یہ ایک دل چسپ داستان ہے، کبھی پھر سہی لیکن میں اس بات کا قائل ہوں کہ جہاں سے عقیدت شروع ہوتی ہے، وہیں سے جہالت بھی آغازہوتی ہے، میں علم والا نہ سہی مگر جاہل بننا مجھے پسند نہیں، مجھ میں عقیدت کی کمی ہے، اس لیے صوفی بننا بھی مجھے پسند نہیں، ہاں اپنی طبعِ خانہ بہ دوش کے باعث اُس دنیا کا سفر بھی کر لیتا ہوں جس کا وجود نہیں اور وہاں جسمانی طور پر جانا ممکن نہیں، مثلاً میرے لیے میرے مرحوم والد صاحب دنیا کی نہایت قابل احترام ہستی ہیں، جب میں اُن کا جسد خاکی لحد میں اتار کے اُن کے کفن کے بند کھول رہا تھا تو تمام تر غم اور دکھ کے باوجود میں نے ان کی ادھ کھلی آنکھوں میں نیلی روشنی دیکھی اور یک بہ یک اُن کا دایاں ہا تھ اپنے ہا تھ میں لے کر اُس پچپن میں چلا گیا جب میں یہ ہاتھ تھام کر چلا کرتا تھا، عزیز ترین ہستی کو لحد میں اتارتے ہوئے اس طرح کی حرکت ممکن نہیں مگر مجھ سے ایسا ہوا اور یہ تمام تر جزئیات کے ساتھ مجھے یاد ہے‘‘۔
اپنے باپ اوراپنے بچپن کی یادیں تازہ کرتے ہوئے بولے
’’میری پہلی درس گاہ مسجد تھی لیکن اُس مسجد کے متشدد مولانا صاحب نے مجھے مذہب سے خاصا دور کردیا تھا،جب وہ حج پر گئے توتشدد سے جان چھٹی۔ ایک دن مولانا نے ہم بچوں کو بتایا کہ دنیا کے تمام مسلمان جنت میں اور تمام کافر جہنم میں جائیں گے، میں پریشان ہو گیا کہ کافر تو مسلمانوں سے زیادہ ہیں، اتنے کافروں کی خاطر تو اللہ پاک کو جہنم بنانے کے لیے بہت زیادہ اینٹیں، سیمنٹ اور سریا درکار ہوگا۔ والد صاحب ہم بچوں کی پریشانی فوراً بھانپ لیتے تھے۔
پوچھا تو میں نے بتایا، انہوں نے نصیحت کی کہ آج کے بعد جنت اور جہنم کے بارے میں نہیں سوچنا، بس یہ سوچنا ہے کہ تمہارے ہاتھ سے خلق خدا کو کوئی دکھ نہ پہنچے، میں اس نصیحت پر اس لیے پورا نہیں اترا کہ میں اپنے والد کی طرح غصے پر قابو پانے کی صلاحیت نہیں رکھتا، میری بیوی میرے بارے میں کہتی ہیں کہ اگر مجھ میں میرے والد صاحب کی عادات کا دس فی صد بھی آجاتا تو بڑے آدمیوں میں شامل ہو سکتا تھا‘‘۔
تارڑ کے بہ قول
’’تخلیقی واردات کو قلم بند کرنے کے لیے ماحول بنانے کی ضرورت نہیں، میں نے اپنی دکان میں پڑی بیجوں کی بوریوں پر بیٹھ کر بھی لکھا، اگر آپ میں لکھنے کی تڑپ ہے تو کوئی مشکل نہیں ورنہ آپ نتھیا گلی میں بھی نہیں لکھ سکتے۔ اب میں 75 برس کا ہو چلا ہوں، اب جا کر میں تھوڑا سا ماحول بنا کر لکھنے کا تکلف کرلیتا ہوں، موبائل فون نہیں سنتا، کمرے میں چائے، سگریٹ رکھ لیتا ہوں، موسم، غذا، رنگ، ماحول میرے لکھنے پڑھنے پر اثرنداز نہیں ہوتے، کبھی موسیقی مدد دے لیتی تھی لیکن اب وہ بھی بے اثرہوگئی‘‘۔
’’انسان کو اپنی حیثیت کا علم ہو جائے تو وہ پاگل ہو جائے یا فوراً مرجائے، یہ تو شیطان ہی ہے جوسمجھتا ہے کہ اس سا پھنے خان کوئی دوسرا نہیں، انسان تو مٹی کے ذرے سے بھی بے وقعت ہے، یوںسوچتا ہوں تومحسوس ہوتا ہے کہ میں سر پر قصے کہانیوں کا پٹارا رکھے انہیں بیچتا پھرتا ہوں اور مزے کی بات یہ ہے کہ یہ پٹارا بھی میرا نہیں ۔ جب میں ایسا کہتا ہوں تو لوگ سمجھتے ہیں میں کوئی باباجی ہوں، میں بابوں کو مانتا ہی نہیں، میں سمجھتا ہوں کہ ’’میتھوں ہورکون سیانا‘‘(مجھ سے زیادہ عقل مند کون)۔ میں خود کو انتہائی خوش نصیب سمجھتا ہوں۔
اللہ تعالیٰ نے مجھے میری اوقات سے زیادہ عطا کیا ہے۔
سال 2002 میں مجھے دوحہ قطر میں لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ دیا گیا، مجھ سے پہلے یہ ایوارڈناصرکاظمی، اشفاق احمد، قرۃالعین اور شوکت صدیقی کو ملا تھا،
ایوارڈ ملنے کے بعد مجھ سے میرا نظریۂ فن پوچھا گیا تو میں نے برملا کہا تھا کہ اوپر والے نے جج کر لیا تھا کہ اس پڑھاکو، خواب دیکھنے والے، آوارہ کو یہ نہ دیا تو بھوکوں مرے گا، نہ اس کے پاس جائداد ہے، نہ تعلیم اور نہ ہی کوئی معاشی اور معاشرتی مقام، اس نے سوچا ہوگا، چلو اس بے چارے کو تھوڑی سی عزت دے دیتا ہوں، میرے پاس بس یہ ہی سرمایا ہے۔‘‘
بشکریہ: غلام محی الدین
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بشکریہ خالد محمود