وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
قابل اجمیری
3 اکتوبر 1962 یوم وفات
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اردو کے ممتاز شاعر قابل اجمیری 27 اگست، 1931ء کو چرولی، اجمیر شریف میں پیدا ہوئے اور صرف 31 برس کی عمر میں 3 اکتوبر 1962 کو حیدر آباد میں ان کی وفات ہوئی۔
قابل اجمیری کا اصل نام عبد الرحیم تھا۔ وہ سات سال کے تھے کہ ان کے والد تپ دق (ٹی بی) میں مبتلا ہو کر انتقال کرگئے۔ کچھ وقت یتیم خانے میں بسر ہوا۔ کچھ ہی دنوں بعد ان کی والدہ کا انتقال ہو گیا۔ پھر ان کی چھوٹی بہن فاطمہ بھی دنیا سے چلی گئی۔ 1948 میں اپنے بھائی شریف کے ساتھ پاکستان آ گئے اور حیدر آباد، سندھ میں رہائش پزیر ہوئے۔ قابل نے چودہ سال کی عمر میں شاعری کی ابتدا کی۔ ان کی شاعری کو نکھارنے اور سنوارنے میں مولانا مانی اجمیری کا بڑا ہاتھ ہے۔ ان کو حیدرآباد میں دوستوں کا ایک بڑا حلقہ ملا۔ وہ ادبی جریدے “نئی قدریں” کے مدیر اختر انصاری اکبر آبادی کے خاصے قریب رہے۔ قابل حیدرآباد کے روزنامے “جاوید” اور ہفت روزے ” آفتاب” میں قطعات بھی لکھتے رہے۔
والدین کی طرح تپ دق سے وہ بھی نہ بچ سکے۔ 1960ء میں کوئٹہ (بلوچستان) کے سینیٹوریم میں داخل ہوئے۔ وہاں ان کی ملاقات ایک مسیحی نرس نرگس سوزن سے ہوئی۔ کچھ ہی دنوں بعد نرگس سوزن نے اسلام قبول کرکے قابل سے شادی کرلی، جن سے ان کے صاحبزادے ظفر اجمیری نے جنم لیا۔ نرگس سوزن 2 اگست 2001 تک زندہ رہیں۔
’’کلیات قابل اجمیری‘‘ میں شہزاد احمد نے لکھا “قابل اجمیری کی ذاتی زندگی ایک طویل المیہ تھی لوگ تو یہاں تک کہتے ہیں کہ جب ڈاکٹر نے انہیں سیب کھانے کے لیے مشورہ دیا تھا تو ان کے پاس سیب خریدنے کے لیے پیسے نہیں تھے۔ مگر اس کے باوجود اس ظالم دنیا میں ایک خاتون ایسی ضرور موجود تھی جس نے کوئٹہ کے سینی ٹوریم میں قابل کی شریک حیات بننے کا فیصلہ اس وقت کیا جب اسے معلوم تھا کہ ان کے پاس زیادہ وقت نہیں ہے۔ پھر اس خاتون نے قابل اجمیری کے لیے ترک مذہب کر کے اسلام بھی قبول کیا تھا۔”
اس خاتون کے سبب ہی قابل اجمیری کے دو شعری مجموعے ’’رگ جاں‘‘ اور’’ دیدہ بیدار‘‘ شائع ہو سکے۔ ورنہ شاید قابل کا نام کہیں اوراق میں گم ہو چکا ہو تا۔ کیونکہ وہ اپنے مجموعہ کلام شائع کرانے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتے تھے۔ بعد میں سلیم جعفری نے 1992 میں”کلیات قابل‘‘شائع کی۔
ایک صحافی توصیف چغتائی نے بیگم قابل اجمیری کا انٹرویو لیا تھا۔ جس میں انہوں نے لکھا: ’میں نے جگہ جگہ انہیں تلاش کیا اور آخر کار میں نے انہیں ملٹری ہسپتال میں پا ہی لیا۔ اس لمحہ میرا جی چاہا کہ میں ان سے کہوں، مادام آپ بہت عظیم ہیں آپ نے سب کچھ جانتے ہوئے بھی اپنے ہاتھ لہو میں بھر لیے ایک شاعر اور وہ بھی اردو ادب کا پھر ٹی بی کا مریض اور اس کے لیے اتنی عظیم قربانی! سب کچھ جانتے ہوئے بھی آپ نے اسے کیوں اپنا لیا ؟ لیکن میں ان سے کچھ نہ کہہ سکا دراصل وہ قابل کے ذکر میں ایسی کھوئی ہوئی تھیں کہ میں سنتا رہا اور وہ کہتی رہیں۔‘
قابل صاحب سے ان کی ملاقات ریلوے کے سینی ٹوریم میں سنہ 1960 میں ہوئی تھی جب انہوں نے محسوس کیا کہ شاعر یاس و آس کا شکار ہے اور اس کے حالات نازک ترین ہیں تب انہوں نے شاعر کو موت کے منہ سے بچانے کا پورا عزم کیا اور دن رات اس کی صحت یابی کی کوشش کرتی رہیں یہاں تک کہ شاعر نے کروٹ لی اور محسوس کیا کہ اس کا کھویا ہوا اعتماد پھر واپس آگیا ہے اور یہ کہ زندگی بہت حسین ہے اور اسے جینا چاہیئے۔
’میں نے محسوس کیا کہ قابل بے حد دکھی انسان ہیں۔ ایسے دکھی جن کے پاس غم اور فکر دوراں کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ اسی لیے میں نے سوچا کہ شاید میرا سہارا ان کی معذور زندگی میں نیا خواب بکھیر دے چنانچہ میں نے ان سے شادی کر لی۔ ہم لوگ کوئٹہ سے حیدرآباد چلے آئے قابل صاحب کو میں نے گھر ہی پر رکھا اور علاج برابر جاری رہا۔‘
ایک ایسا شاعر جس کی پوری زندگی المیہ رہی ہو اس سے درد و کرب کے علاوہ اور کسی چیز کی کیا توقع کی جا سکتی ہے لیکن ان سب کے باوجود قابل زمانہ میں رونما ہونے والے تغیرات سے بے خبر نہیں تھے۔ جن کی باز گشت ان کے اشعار میں سنائی دیتی ہے۔ قابل نے درد و کرب کی کہانیاں تو بیان کی ہی ہیں، اس کے ساتھ ساتھ دنیا کے تغیرات کو بھی اپنی گرفت میں لیا ہے۔ اسی لیے قابل کی شاعری آج بھی زندہ ہے اور شاید وقت گزرنے کے ساتھ اس کی معنویت میں اضافہ ہوتا جائے گا۔
قابل اجمیری کی وفات کے 58 برس بعد حیدر آباد کی بلدیہ اعلیٰ نے شہر کا ایک اہم چوک ان سے منسوب کردیا۔
قابل کے چند اشعار
جی رہا ہوں اس اعتماد کے ساتھ
زندگی کو مری ضرورت ہے
تم نہ مانو مگر حقیقت ہے
عشق انسان کی ضرورت ہے
رنگِ محفل چاہتا ہے اک مکمل انقلاب
چند شمعوں کے بھڑکنے سے سحر ہوتی نہیں
راستہ ہے کہ کٹتا جاتا ہے
فاصلہ ہے کہ کم نہیں ہوتا
ہم بدلتے ہیں رخ ہواؤں کا
آئے دنیا ہمارے ساتھ چلے
اب یہ عالم ہے کہ غم کی بھی خبر نہیں ہوتی
اشک بہہ جاتے ہیں لیکن آنکھ تر نہیں ہوتی
زمانہ دوست ہے کس کس کو یاد رکھو گے
خدا کرے تمہیں مجھ سے دشمنی ہوجائے
رکا رکا سا تبسم، جھکی جھکی سی نظر
تمہیں سلیقہ بے گانگی کہاں ہے ابھی
سکونِ دل کی تمنا سے فائدہ قابل
نفس نفس غمِ جاناں کی داستاں ہے
تضادِ جذبات میں یہ نازک مقام آیا تو کیا کرو گے
میں رو رہا ہوں تو ہنس رہے ہو میں مسکرایا تو کیا کرو گے
مجھے تو اس درجہ وقتِ رخصت سکوں کی تلقین کر رہے ہو
مگر کچھ اپنے لیے بھی سوچا، میں یاد آیا تو کیا کرو گے
کچھ اپنے دل پر بھی زخم کھاؤ مرے لہو کی بہار کب تک
مجھے سہارا بنانے والو، میں لڑکھڑایا تو کیا کرو گے
ابھی تو تنقید ہو رہی ہے مرے مذاقِ جنوں پہ لیکن
تمہاری زلفوں کی برہمی کا سوال آیا تو کیا کرو گے
ابھی تو دامن چھڑا رہے ہو، بگڑ کے قابل سے جا رہے ہو
مگر کبھی دل کی دھڑکنوں میں شریک پایا تو کیا کرو گے
تم نے مسرتوں کے خزانے لٹا دیے
لیکن علاجِ تنگیِ داماں نہ کر سکے
حیرتوں کے سلسلے سوزِ نہاں تک آ گئے
ہم نظر تک چاہتے تھے تم تو جاں تک آ گئے
نامرادی اپنی قسمت، گمرہی اپنا نصیب
کارواں کی خیر ہو، ہم کارواں تک آ گئے
انکی پلکوں پر ستارے اپنے ہونٹوں پر ہنسی
قصہٴ غم کہتے کہتے ہم کہاں تک آ گئے
اپنی اپنی جستجو ہے اپنا اپنا شوق ہے
تم ہنسی تک بھی نہ پہنچے ہم فغاں تک آگئے
زلف میں خوشبو نہ تھی یا رنگ عارض میں نہ تھا
آپ کس کی آرزو میں گلستاں تک آ گئے
خود تمھیں چاکِ گریباں کا شعور آ جائے گا
تم وہاں تک آ تو جاؤ، ہم جہاں تک آ گئے
آج قابل میکدے میں انقلاب آنے کو ہے
اہلِ دل اندیشہٴ سود و زیاں تک آ گئے
کچھ غم زیست کا شکار ہوئے
کچھ مسیحا نے مار ڈالے ہیں
رہ گزار حیات میں ہم نے
خود نئے راستے نکالے ہیں
مجھی پہ ختم ہیں سارے ترانے
شکست ساز کی آواز ہوں میں
کوئے قاتل میں ہمی بڑھ کے صدا دیتے ہیں
زندگی، آج ترا قرض چکا دیتے ہیں