آج – 05؍فروری 1935
اردو کے ممتاز شاعر” عنوانؔ چشتی صاحب “ کا یومِ ولادت…
نام افتخار الحسن، ڈاکٹر اورتخلص عنوانؔ تھا۔وہ ٥؍فروری ۱۹۳۵ء، مینگلور، ضلع ہریدوار(اترا کھنڈ ) میں پیدا ہوئے۔ ایم اے (جغرافیہ) ایم اے (اردو) کے امتحانات پاس کیے۔ اور پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ۔جامعہ ملیہ اسلامیہ میں لکچرر،ریڈر، پروفیسر اور صدرشعبہ اردو رہے اور وہیں پر ڈین فیکلٹی کے منصب سے ۱۹۹۷ میں ریٹائر ہوئے۔ انھیں ابراحسنی گنوری سے تلمذ حاصل تھا۔ وہ یکم؍فروری ۲۰۰۴ء کو نوئیڈا میں انتقال کرگئے۔ انھوں نے تقریبا چالیس علمی اور ادبی کتابیں تصنیف کی ہیں۔ چند تصانیف کے نام یہ ہیں:
’ذوق جمال‘، ’نیم باز‘(شعری مجموعے)، ’عکس وشخص‘(شخصیات)، ’تنقیدی پیرائے‘، ’اردو شاعری میں ہیئت کے تجربے‘، ’اردو شاعری میں جدیدیت کی روایت‘، ’عروض اور فنی مسائل‘، ’تنقید سے تحقیق تک‘، ’مکاتیب احسن‘(مقدمہ وحواشی ۔جلد اول ودوم)، ان کو اردو اکادمی ، دہلی نے ۱۹۹۱ء میں اردو شاعری ایوارڈ سے نوازا۔ اس کے علاوہ ان کو مختلف اداروں ، انجمنوں اور اکادمیوں نے متعدد ایوارڈ عطا کیے۔ موصوف ایک دانشور، سیرت نگار، تنقید نگار، شاعر، ماہر عروض اور استاد شاعر کے طور پر جانے جاتے تھے۔ بحوالۂ:پیمانۂ غزل(جلد دوم)،محمد شمس الحق،صفحہ:303
✨ پیشکش : اعجاز زیڈ ایچ
፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤
ممتاز شاعر عنوانؔ چشتی کے یوم ولادت پر منتخب کلام بطور خراجِ عقیدت…
عشق پھر عشق ہے آشفتہ سری مانگے ہے
ہوش کے دور میں بھی جامہ دری مانگے ہے
ہائے آغاز محبت میں وہ خوابوں کے طلسم
زندگی پھر وہی آئینہ گری مانگے ہے
دل جلانے پہ بہت طنز نہ کر اے ناداں
شب گیسو بھی جمال سحری مانگے ہے
میں وہ آسودۂ جلوہ ہوں کہ تیری خاطر
ہر کوئی مجھ سے مری خوش نظری مانگے ہے
تیری مہکی ہوئی زلفوں سے بہ انداز حسیں
جانے کیا چیز نسیم سحری مانگے ہے
آپ چاہیں تو تصور بھی مجسم ہو جائے
ذوق آذر تو نئی جلوہ گری مانگے ہے
حسن ہی تو نہیں بیتاب نمائش عنواںؔ
عشق بھی آج نئی جلوہ گری مانگے ہے
●━─┄━─┄═•✺❀✺•═┄─━─━━●
رہنے دے تکلیف توجہ دل کو ہے آرام بہت
ہجر میں تیری یاد بہت ہے غم میں تیرا نام بہت
بات کہاں ان آنکھوں جیسی پھول بہت ہیں جام بہت
اوروں کو سرشار بنائیں خود ہیں تشنہ کام بہت
کچھ تو بتاؤ اے فرزانو دیوانوں پر کیا گزری
شہر تمنا کی گلیوں میں برپا ہے کہرام بہت
شغل شکست جام و توبہ پہروں جاری رہتا ہے
ہم ایسے ٹھکرائے ہوؤں کو مے خانے میں کام بہت
دل شکنی و دل داری کی رمزوں پر ہی کیا موقوف
ان کی ایک اک جنبش لب میں پنہاں ہیں پیغام بہت
آنسو جیسے بادۂ رنگیں دھڑکن جیسے رقص پری
ہائے یہ تیرے غم کی حلاوت رہتا ہوں خوش کام بہت
اس کے تقدس کے افسانے سب کی زباں پر جاری ہیں
اس کی گلی کے رہنے والے پھر بھی ہیں بدنام بہت
زخم بہ جاں ہے خاک بسر ہے چاک بداماں ہے عنواںؔ
بزمِ جہاں میں رقصِ وفا پر ملتے ہیں انعام بہت
●•●┄─┅━━━★✰★━━━┅─●•●
عنوانؔ چشتی
انتخاب : اعجاز زیڈ ایچ