اب شہر کے اندر بھی تو ہر روز ہے ہجرت
کیا ایسے میں باندھا ہوا بستر کوئی کھولے
عرفان الحق صائم
تاریخ وفات:24 اکتوبر 2017ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اردو کے معروف شاعر عرفان الحق صائم 14 ستمبر 1951 میں کوئٹہ میں قاضی مظفر الحق ظفر کے ہاں پیدا ہوئے ابتدائی تعلیم بھی کوئٹہ ہی میں حاصل کی میٹرک 1968ء میں کیا شاعری آپ کو باپ دادا سے وراثت میں ملی آپ نے آغا صادق حسیں نقوی سے اصلاح لی پھر ان کی وفات کے بعد اخگر سہارنپوری سےبھی اصلاح لی آپ نے شناختی کارڈ کے محکمے سے عملی زندگی کا آغاز کیا اور ڈپٹی ڈائریکٹر کے عہدے پر ریٹائرمنٹ لی پھر صحافت کے میدان کو چنا آپ روزنامہ زمانہ کوئٹہ۔اس کے بعد روزنامہ جنگ کوئٹہ سے وابستہ ہو گئے تھے آپ کانعتیہ کلام دریائے نور 2011ء میں منظر عام پر آیا اسکے بعد دوسرا شعری مجموعہ جو غزلیہ شعری مجموعہ ہے سیل جنوں 2015ء میں شائع ہوا۔ آپ کی پہلی شادی 1971ء میں ہوئی اس شادی سے آپ کے چار بیٹے اور ایک بیٹی ہیں پہلی اہلیہ کی وفات کے بعد آپ نے دوسری شادی ممتاز شاعرہ تسنیم صنم صاحبہ سے کی آپ کو استاد الااساتذہ ہونے کا شرف بھی حاصل تھا۔ آپ پختہ گو شاعر تھے۔ حمد۔نعت۔غزل۔نظم۔رباعی۔گیٹ۔ ہائیکو جیسی اصناف سخن پر مکمل عبور حاصل ہونے کے ساتھ قطعہ تاریخ میں خصوصی مہارت حاصل تھی۔ ان کا انتقال24 اکتوبر 2017ء میں ہوا۔
غزل
۔۔۔۔۔
دیوار میں امکان کا اک در کوئی کھولے
اوجھل ہے جو آنکھوں سے وہ منظر کوئی کھولے
اب شہر کے اندر بھی تو ہر روز ہے ہجرت
کیا ایسے میں باندھا ہوا بستر کوئی کھولے
رقصاں ہو تو پھر نیند سے اٹھنے نہیں دیتی
اس بادِ صبا کی ذرا جھانجھر کوئی کھولے
جب ان سنی ہر بات کے ہونے کا یقیں ہو
کیوں اپنی شکایات کا دفتر کوئی کھولے
آسیب کے آجانے سے کچھ پہلے عزیزو
ممکن ہو تو اس دل کا ہر اک گھر کوئی کھولے
اب شہر کے ہر شخص کی خواہش ہے یہ صائمؔ
جو باندھ کے رکھا ہے سمندر کوئی کھولے
اک ستارہ تھا میں
ایک تو سفر کی تھکاوٹ، پھر تقریب میں شرکت کا طویل وقت، اور پھر تقریب سے رہائش گاہ تک کا...