پورا نام:قریشی غلام حیدر ارشد
قلمی نام:حیدرقریشی
تاریخ پیدائش:01 ستمبر 1953ء
۔ پیدائش سرکاری کاغذات میں
۔ 13 جنوری 1952ء
۔ (درست خاندانی روایت)
مقامِ پیدائش:چناب نگر
آبائی علاقہ:رحیم یا رخان، خان پور
تعلیم: ایم اے (اردو)
ادبی سفر کا آغاز: 1971ء
شادی:1971ء
حیدر قریشی نے شاعری میںغزل‘نظم‘ماہیامیں دلچسپی لی جبکہ نثر میں افسانہ، خاکہ، انشائیہ، سفر نامہ، یاد نگاری، تحقیق و تنقید،حالاتِ حاضرہ سارے میدانوں میں اپنی توفیق کے مطابق کام کیا۔ اردو ماہیا کے حوالے سے حیدرقریشی کا کام تحقیقی، تنقیدی اور تخلیقی ہر لحاظ سے بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔ ادبی معرکہ آرائیوں میں تلخ حقائق پر مبنی حیدر قریشی کا کام ادب کی تاریخ میں محفوظ رہنے والا ہے۔ حیدرقریشی کی تخلیقات میں اپنے قریبی عزیز و اقارب کا کثرت سے اور بڑی محبت سے ذکر ملتا ہے۔ اس لحاظ سے بھی ان کا کام قابلِ توجہ ہے۔ حیدرقریشی مجلسی سطح پر زیادہ دکھائی نہیں دیتے لیکن ان کے سارے ادبی کام کو یونیورسٹیوں میں بھی سنجیدگی اور علمی دلچسپی کے ساتھ دیکھا گیا۔ اور ادبی حلقوں میں بھی ان کی پذیرائی ہوئی۔ پی ایچ ڈی،ایم فل اور ایم اے کے دس مقالات حیدرقریشی کے ادبی کام کے مختلف زاویوں سے اب تک لکھے جا چکے ہیں جبکہ چھ مقالات میں جزوی مگر اہم ذکر کیا گیا ہے۔ ’’جدیدادب‘‘خان پور اور پھر’’جدیدادب‘‘جرمنی کا اجرا حیدرقریشی کی مدیرانہ حیثیت کا تعین کرتا ہے۔ 1994ء سے جرمنی میں مقیم ہیں اور اپنی ساری اولاد کے ساتھ وہیں آباد ہیں۔حیدر قریشی کی ساری کتب پڑھنے سے ہی ان کا پورا تعارف ہوسکے گا اور ان کتب کی تفصیل یوں ہے۔
۔ (1)اباجی اور امی جی
(والدین کے بارے میں)
۔ (2)حیاتِ مبارکہ حیدر
(اہلیہ کے بارے میں)
۔ (3) مبارکہ محل
(اہلیہ کے بارے میں)
۔ (4)بیماری یا روحانی تجربہ
شعری مجموعے:
۔۔۔۔۔۔۔۔
۔ (1)سلگتے خواب
۔ (2)عمرِ گریزاں
۔ (3)محبت کے پھول
۔ (4)دعائے دل
۔ (5)درد سمندر
۔ (6)زندگی
نثری مجموعے
۔۔۔۔۔۔۔
۔ (1)روشنی کی بشارت
۔ (2)قصے کہانیاں، (افسانے)
۔ (3)میری محبتیں (خاکے)
۔ (4)کھٹی میٹھی یادیں
۔ (5)قربتیں،فاصلے(انشائیے)
۔ (6)سوئے حجاز(سفرنامہ)
تحقیق و تنقید:
۔۔۔۔۔۔۔
۔ (1)حاصلِ مطالعہ
۔ (2)تاثرات
۔ (3)مضامین اور تبصرے
۔ (4)مضامین و مباحث
۔ (5)ستیہ پال آنند کی بودنی،نابودنی
۔ (6)ڈاکٹر گوپی چند نارنگ
اور مابعدجدیدیت
۔ (7) وزیر آغا عہد ساز شخصیت
ماہیا کے حوالے سے تحقیق و تنقید
۔۔۔۔۔۔۔۔
۔ (1)اردو میں ماہیا نگاری
۔ (2)اردو ماہیے کی تحریک
۔ (3)اردو ماہیے کے بانی
ہمت رائے شرما
۔ (4)اردو ماہیا
۔ (5)ماہیے کے مباحث
حالاتِ حاضرہ:
۔۔۔۔۔۔۔۔
۔ (1)منظر اور پس منظر
۔ (2)خبرنامہ
۔ (3)اِدھراُدھرسے
۔ (4)چھوٹی سی دنیا
حیدر قریشی کی مذکورہ بالا تمام کتابیں،الگ الگ کتاب کی صورت میںاس لنک پر دستیاب ہیں۔
http://my27books.blogspot.de/
حیدرقریشی نے اپنی کتب
۔۔۔۔۔۔۔۔
مختلف کلیات کی صورت میں بھی
۔۔۔۔۔۔۔۔
انٹرنیٹ پر شائع کر رکھی ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔
۔ (1)قفس کے اندر
چھ شعری مجموعے ایک جلد میں
۔ (2)میں’’خواب کے اندر خواب
افسانوں،خاکوں،یادوں،انشائیوں
اور سفر ناموں پر مشتمل
چھ نثری مجموعے ایک جلد میں
۔ (3)اردو ماہیا تحقیق و تنقید
اردو ماہیے کی تحقیق و تنقید پر
مشتمل پانچ کتابیں ایک جلد میں
۔ (4)ہمارا ادبی منظر نامہ
علمی و ادبی موضوعات پر
چھ تنقیدی مجموعے ایک جلد میں
۔ (5)عمرِ لاحاصل کا حاصل
پانچ شعری اور چھ نثری مجموعوں پر
مشتمل میگزین سائزکتاب
مذکورہ بالا کلیات کی صورت میں حیدر قریشی کی کتابیں اس لنک پر موجود ہیں۔
http://kuliat-library.blogspot.de/
حیدر قریشی سے متعلق
۔۔۔۔۔۔۔۔
اب تک ہونے والا
۔۔۔۔۔۔۔۔
یونیورسٹی سطح کا تحقیقی کام
۔۔۔۔۔۔۔۔
۔ (1)حیدر قریشی شخصیت اور فن
۔ منزہ یاسمین
۔ ( ایم اے اردو کا تحقیقی مقالہ
۔ سال 2000-2002ء)
۔ (اسلامیہ یونیورسٹی
۔ بہاولپور،پاکستان)
۔ (2)حیدر قریشی شخصیت
۔ اور ادبی جہتیں
۔ ڈاکٹرعبدالرب استاد
۔ (تحقیقی مقالہ برائے
۔ پی ایچ ڈی 2013ء)
۔ (گلبرگہ یونیورسٹی گلبرگہ
۔ کرناٹک،انڈیا)
۔ (3)حیدر قریشی
۔ حیات وخدمات
۔ نجم آراء(ایم فل کا مقالہ
۔ سال 2013ء)
۔ (کلکتہ یونیورسٹی
۔ کولکاتا،انڈیا)
۔ (4)حیدر قریشی کی ادبی خدمات
۔ عامر سہیل(تحقیقی مقالہ
۔ برائے ایم فل اُردو-2014ء)
۔ (ہزارہ یونیورسٹی
۔ مانسہرہ،پاکستان)
۔ (5)حیدر قریشی کی شاعری
۔ کا مطالعہ
۔ ہردے بھانوپرتاپ
۔ (ایم فل کا مقالہ
۔ سال 2014ء)
۔ (جواہر لال نہرو یونیورسٹی
۔ دہلی۔انڈیا)
۔ (6)حیدر قریشی کی
۔ افسانہ نگاری کا مطالعہ
۔ رضینہ خان
۔ (ایم فل کا مقالہ
۔ سال 2014ء)
۔ (جواہرلال نہرو یونیورسٹی
۔ دہلی،انڈیا)
۔ (7)حیدرقریشی کی شاعری
۔ کی روشنی میں
۔ بیرونی ممالک کی
۔ اردو شاعری
۔ ’’ تنقیدی مطالعہ اور ترجمہ‘‘
۔ شعرالمھجرعندحیدرقریشی
۔ ’دراسۃ تحلیلیۃ نقد یۃ۔ مع الترجمۃ‘‘
۔ احمد عبدربہ عباس عبدالمنعم
۔ (ایم اے کا مقالہ
۔ سال 2015ء)
۔ ازہر یونیورسٹی، قاہرہ، مصر
۔ یہ مقالہ عربی میں لکھا گیا ہے
۔ اور اس کے لیے حیدرقریشی
۔ کے چار شعری مجموعوں کا
۔ عربی ترجمہ بھی کیا گیا ہے
۔ (8)مجلہ ’’جدیدادب‘‘
۔ کی ادبی خدمات‘‘
۔ از:کنول تبسم
۔ (ایم فل کا مقالہ
۔ سال 2018ء)
۔ وفاقی اردو یونیورسٹی، اسلام آباد
۔ (9)رسالہ ’’جدیدادب‘‘
۔ کی ادبی خدمات
۔ تحقیقی و تنقیدی مطالعہ
۔ از محمد شعیب
۔ ہزارہ یونیورسٹی، مانسہرہ
۔ (ایم فل کا مقالہ-2018ء)
۔ (10)جدید ادب میں
۔ شائع ہونے والے مباحث
۔ شازیہ حمیرہ
۔ ایم اے اردو کاتحقیقی مقالہ
۔ سال2007-2009ء
۔ اسلامیہ یونیورسٹی، بھاولپور
۔ (11)حیدر قریشی
۔ بہ حیثیت محقق و نقاد
۔ صغریٰ بیگم
۔ ایم فل کا مقالہ-2016U
۔ وفاقی اردو یونیورسٹی، اسلام آباد
ادبی اعتراف
۔۔۔۔۔۔۔۔
حیدر قریشی کے بارے میں
۔۔۔۔۔۔۔۔
لکھی گئی ا ور مرتب کی گئی کتابیں
۔۔۔۔۔۔۔۔
۔ (1)حیدر قریشی فکر و فن
۔ مصنف: محمد وسیم انجم
۔ (مطبوعہ 1999ء)
۔ ناشر:انجم پبلشرز
۔ کمال آباد نمبر ۳،راولپنڈی،
۔ پاکستان
۔ (2)حیدر قریشی فن اور شخصیت
۔ مرتبین:نذیر فتح پوری اور
۔ سنجئے گوڑ بولے
۔ (مطبوعہ2002ء)
۔ ناشر:اسباق پبلی کیشنز
۔ پُونہ،انڈیا
۔ (3)حیدر قریشی کی ادبی خدمات
۔ مرتب:ڈاکٹرنذر خلیق
۔ (مطبوعہ 2003ء)
۔ ناشر:میاں محمد بخش پبلشرز
۔ خانپور،پاکستان
۔ (4)حیدر قریشی شخصیت اور فن
۔ منزہ یاسمین کا تحقیقی مقالہ
۔ کتابی صورت میں۔
۔ اسلامیہ یونیورسٹی بھاولپور
۔ سے ایم اے اردو کاتحقیقی مقالہ
۔ سال 2000-2002
۔ ناشر:میاں محمد بخش پبلشرز
۔ خانپور ۔پاکستان
۔ (5)حیدر قریشی سے لیے گئے انٹرویوز
۔ مرتب:سعید شباب
۔ (مطبوعہ 2004ء)
۔ ناشر:نظامیہ آرٹ اکیڈمی
۔ ایمسٹرڈیم۔ہالینڈ
۔ (6)ادبی کتابی سلسلہ عکاس
۔ حیدر قریشی نمبر
۔ مدیر ومرتب: ارشد خالد
۔ ناشر:عکاس پبلی کیشنز
۔ اسلام آباد (کتاب نمبر 4۔
۔ مطبوعہ اکتوبر 2005)
۔ (7)حیدر قریشی کی شاعری
۔ مرتب:ہردے بھانو پرتاپ
۔ ناشر:ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس
۔ دہلی۔(مطبوعہ 2013ء)
۔ (8)حیدر قریشی شخص و عکس
۔ مدیر و مرتب:ارشد خالد
۔ ناشر:عکاس انٹرنیشنل اسلام آباد
۔ (2014)
۔ (9)حیدر قریشی کا ادبی سفر
۔ عامر سہیل کا ایم فل
۔ کا تحقیقی مقالہ
۔ کتابی صورت میں
حیدر قریشی پر
۔۔۔۔۔۔۔۔
ترتیب دئیے گئے
۔۔۔۔۔۔۔۔
گوشے اور مطالعۂ خصوصی
۔۔۔۔۔۔۔۔
۔ (1)گوشۂ حیدر قریشی
۔ مطبوعہ ماہنامہ’’اسباق‘‘پونہ
۔ شمارہ:فروری تا اپریل1993ء
۔ ایڈیٹر: نذیر فتح پوری
۔ (2)حیدر قریشی
۔ (بطور افسانہ نگار)
۔ مطبوعہ ماہنامہ ’’شاعر‘‘بمبئی۔
۔ شمارہ مئی تا دسمبر 1997ء
۔ ہم عصر اردو ادب نمبر
۔ ایڈیٹر : افتخار امام صدیقی
۔ (3)اشاعتِ خصوصی
۔ ’’دنیائے ادب کا
۔ درخشاں ستارہ؍حیدر قریشی‘‘
۔ ہفت روزہ ہوٹل ٹائمز
۔ اسلام آباد
۔ 22 مئی تا 28 مئی1998
۔ مرتبین:اختر رضا کیکوٹی و محمد وسیم انجم
۔ (4)گوشۂ حیدر قریشی
۔ مطبوعہ سہ ماہی’’ادبِ عالیہ‘‘وہاڑی
۔ شمارہ مارچ 2002ء
۔ ایڈیٹرز:ریاض ہانس
۔ (5) خصوصی مطالعہ
۔ ’’مہرِامروز‘‘ مطبوعہ ماہنامہ کائنات
۔ شمارہ مئی 2004ء
۔ (urdudost.com)
۔ ایڈیٹر: خورشید اقبال
۔ (6)گوشۂ حیدر قریشی
۔ مطبوعہ ماہنامہ شاعر بمبئی
۔ شمارہ نومبر 2004ء
۔ ایڈیٹر: افتخار امام صدیقی
۔ (7)خصوصی مطالعہ
۔ سہ ماہی ادب ساز دہلی
۔ ( تقریباََ50 صفحات
۔ میگزین سائزپر مشتمل)
۔ شمارہ:6، 7
۔ جنوری تاجون2008ء
۔ ایڈیٹر: نصرت ظہیر
۔ (8)خصوصی مطالعہ
۔ ’’عمرِ لا حاصل کا حاصل‘‘
۔ مطبوعہ ادبی کتابی سلسلہ
۔ عکاس انٹرنیشنل اسلام آباد
۔ (کتاب نمبر ۱۰)
۔ مدیر: ارشد خالد
۔ (9)گوشہ بحیثیت محقق و نقاد
۔ مطبوعہ ،ادبی کتابی سلسلہ عکاس
۔ انٹرنیشنل اسلام آباد
۔ (کتاب نمبر 11 مئی 2-10ء)
۔ مدیر :ارشد خالد
۔ (10)مطا لعۂ خاص
۔ ایک کتاب
۔ ’’عمرِ لاحاصل کا حاصل‘‘
۔ مطبوعہ ادبی کتابی سلسلہ
۔ عکاس انٹرنیشنل، اسلام آباد
۔ کتاب نمبر 13 مارچ 2011ء
۔ مدیر و مرتب: ارشد خالد
۔ (11)ایک گوشہ حیدر قریشی کے لیے
۔ دو صفحات پر مشتمل
۔ روزنامہ پیغام دہلی
۔ شمارہ:10 مئی 2014ء
۔ ایڈیٹر:مطیع الرحمن عزیز
http://work-on-haiderqureshi.blogspot.de/
جرمنی میں پاکستان کا
۔۔۔۔۔۔۔۔
ادبی و تہذیبی سفیر
۔۔۔۔۔۔۔۔
حیدر قریشی
۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹرانور سدید ( لاہور)
۔۔۔۔۔۔۔۔
کن کا ایک لفظ اسیروں پہ کہیں سے اترا
آسماں ہوگئے تخلیق قفس کے اندر
یہ شعر اردو کے تازہ فکر شاعر حیدر قریشی کا ہے۔ جو انہوں نے اپنی غزلوں،نظموں،اور ماہیوں کی نئی کتاب کے سر ورق پر اپنی داخلی تخلیقی شخصیت کے تعارف کے لئے درج کیا ہے۔ اس کتاب کا عنوان ’’ قفس کے اندر‘‘ بھی اس شعر سے اخذ کیا ہے اور یہ معنوی طور پر اس بات کا استعارہ ہے کہ شاعر کا وجود وقت اور زنداں کا اسیر ہے۔اور شاعری انہیں اس زنداں سے رہائی نہیں دلاتی بلکہ ہفت افلاک بھی ان کے ساتھ محوِ اختلاط وکلام ہو جاتے ہیں۔ مضامین غیب سے خیال میں اترنے لگتے ہیں۔اور صریر خامہ نوائے سروش بن جاتا ہے۔
میںحیدر قریشی کو اس زمانے سے جانتا ہوںجب ان پر جوانی کا عالم طاری تھا اور ان کی شاعری کی کونپلیں پھوٹ رہی تھیں۔اس زمانے میں وہ خانپور کے قریب ایک شوگر فیکٹری میں ملازم تھے۔دن کو محنت اور مشقت کرتے، رات کی تنہائی میں شاعری کرتے۔ میں نے ان کی غزلیں ڈاکٹر وزیر آغاکے رسالے ’’ اوراق‘‘ میں پڑھیں تو میرا پہلا تاثر یہ تھا کہ حیدر قریشی آرائشی نقش و نگار پیدا کئے بغیر شعر کا داخلی اور خارجی حسن ابھارتے ہیں۔ چنانچہ میں نے ان کی شاعری پر اپنی رائے کا اظہار کیا تو یہ حقیقت بھی تسلیم کی کہ حیدر قریشی کی سادگی ہی ان کا حُسن ہے اور ان کی شاعری کی خوروئیدگی ہی ان کا وقار ہے۔ حیدر قریشی کی زندگی کا یہ دور معاشی آزمائشوں میں الجھا ہوا تھا۔ ایک طرف متوسط گھرانے کا یہ فرد اپنے معاشی حالات بہتر بنانے کے لیے زمانے سے نبرد آزما تھا تو دوسری طرف اپنے چینی کے کارخانے کے مزدوروں کے مستقبل کو سنوارنے کے لئے یونین کی تنظیمی سر گرمیوں میں مصروف تھا اور انہیں صنعتکاروں کی شدید مخالفت کا سامنا تھا۔ ادب کے افق پر وہ ایک روشن ستارے کی طرح طلوع ہوئے تھے۔ لیکن رسالہ ’’ اوراق‘‘ اور ڈاکٹر وزیر آغا سے رابطے نے یہاں بھی حیدر قریشی کو ادبی تنازعوں میں الجھا دیا تھا۔ لیکن میرا یہ مشاہدہ حقیقت پر مبنی ہے کہ انہوں نے وفاداری کو استواری سے مشروط کیا اور پھر زندگی کے ہر موڑ پر اسے ایمان کا درجہ دیا۔ خان پور میں حیدر قریشی نے اپنی زندگی کا تشکیلی دور گزارا اور اپنے آزادانہ اظہار کے لئے ایک رسالہ ’’ جدید ادب‘‘ جاری کیا ۔اس رسالے کا خمیران کے ادبی باطن سے اُٹھا تھا۔ اس لئے ’’ جدید ادب‘‘ ان کی زندگی کے سفر میں ہمیشہ ان کے ہم رکاب رہا۔
حیدر قریشی نے اپنے طالب علمی کے زمانے میں پڑھا تھا کہ ’’ سفر وسیلۂ ظفر ‘‘ ہوتا ہے اور’’ سر پھول وہ چڑھا جو وطن سے نکل گیا ‘‘ چنانچہ انہوں نے بھی خان پور سے نقل مکانی کی اور اندرونِ ملک سفر اختیار کیا۔ کچھ وقت چناب نگر فیصل آباد میں گزرا جو اس زمانے میں لائل پور کے نام سے موسوم تھا۔ پھر ایبٹ آباد چلے گئے جہاں ان کی ایم اے کی ڈگری کام آئی اور انہیں محکمہ تعلیم میں اعلیٰ ملازمت مل گئی، لیکن وہ عالم رنگ و بو کی حدود میں رہنے والے انسان نہیں تھے۔ ان کے سامنے چمن اور تھے تو آشیاںبھی اور تھے۔ اور وہ آسمانوں کے بدلتے رنگ دیکھنے کے بھی شیدائی تھے۔ ایک دن اچانک خبر آئی کہ حیدر قریشی جرمنی پہنچ گئے ہیں۔ میں نے ان کی آسودگی کا اندازہ ان کے رسالے ’’ جدید ادب ‘‘ سے لگایا جو اَب نہ صرف بین الاقوامی ادبی پرچہ بن چکا تھا بلکہ اس کی ضخامت بھی سینکڑوں صفحات تک جا پہنچی تھی۔ یوں سمجھئے کہ خان پور کا مختصر مقامی ’’جدید ادب‘‘ اب جرمنی جتنی وسعت اختیار کر چکا تھااور اس کے لکھنے والے پوری دنیا میں پھیلے ہوئے تھے اور خود حیدر قریشی کے اظہار میں وسعت پیدا ہوئی تو وہ غزل ، نظم اور انشائیے تک محدور نہ رہے بلکہ تحقیق و تنقید کی طرف بھی آئے، خاکہ نویسی کو منفرد معیار عطا کیا۔ یاد نگاری میں اپنی زندگی کے وہ نقوش پیش کئے جو پڑھنے والوں کو افسانوں سے زیادہ دلچسپ محسوس ہوئے
حیدر قریشی نے ادب کا آغاز ’’ دبستانِ وزیر آ غا‘‘سے کیا تھا۔ انہوں نے رسالہ ’’ اوراق‘‘ کی فکری جہت کو اپنا رہنما بنایا اور اپنی انفرادیت کو اس چراغ سے روشن کیا۔ تاہم میرا مشاہدہ یہ ہے کہ انہوں نے اپنی ادبی زندگی میں اس نصب العین کو بھی قائم رکھا جو رسالہ ’’ ادبی دنیا‘‘ میں مولانا صلاح الدین احمد کے پیشِ نظر تھا اور جسے توسیع ڈاکٹر وزیر آغا نے رسالہ ’’ اوراق‘‘ میں دی تھی۔ میرا خیال ہے کہ ڈاکٹر وزیر آغا کی قربت نے حیدر قریشی کے مزاج کوتحریکی بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ ڈاکٹر وزیر آغا نے جدید انشائیہ کے فروغ کی تحریک پروان چڑھائی تھی، حیدر قریشی نے پنجابی کی صنفِ شعر ’’ ماہیا‘‘ کی تحریک برپا کی اور اسے اتنا فروغ دیا کہ اب ’’ماہیا‘‘ اردو دنیا کے ہر گوشے میں تخلیق کیا جا رہا ہے۔ اور یہ بات نظر انداز نہ کی جائے کہ جس طرح وزیر آ غانے انشائیہ کے بانی ہونے کا سہرا اپنے سر نہیں باندھا ( حالانکہ جناب مشتاق احمد یوسفی نے تو یہ قول فیصل دے دیا تھا کہ وزیر آ غا ہی جدید اردو انشائیہ کے بانی اور منتہی ہیں ) اسی طرح حیدر قریشی نے بھی اردو ماہیا کے آغاز کی پگڑی ہمت رائے شرما کے سر پر رکھ دی ۔ دوسری بات یہ ہے کہ ڈاکٹر وزیر آ غا نے ’’ انشا ئیہ‘‘ کی تحریک کو کامیاب بنانے کے لئے رسالہ ’’ اوراق‘‘ جاری کیا تھا تو حیدر قریشی نے بھی اپنے رسالہ ’’جدید ادب‘‘ کی نشاۃ ثانیہ جرمنی سے کی تو اسے ماہیا کے فروغ کے لئے مختص کر دیا۔ میں وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ ’’ ماہیا تحریک‘‘ کے قافلہ سالار کی حیثیت میں اردو ادب کی تاریخ حیدر قریشی کو ہمیشہ یاد رکھے گی۔
حیدر قریشی کی ادبی زندگی کی یہ جہت خصوصی تذکرے کی متقاضی ہے کہ انہوں نے ادب میں آ لودگی کو کبھی قبول نہیں کیا۔ اور اس کا آئینِ ادب ’’ حق گوئی و بے باکی‘‘ ہے۔ چنانچہ ا نہیں اردو ادب کا قائدِ حزب اختلاف کہا جائے تو یہ بالکل درست ہو گا۔ ایک زمانے میں وہ ایسے جعلی ادیبوں کو منکشف کرنے میں کوشاں تھے جو خود نہیں لکھتے بلکہ پیسے دے کر دوسروں سے لکھواتے ہیں اور اپنے نام پر چھپواتے اور شہرت حاصل کرتے ہیں۔ پھر ان کا رخ ’’ سرقہ نگاروں‘‘ کی طرف ہو گیا جو مغرب کی زبانوں میں لکھی ہوئی کتابوں کو اپنی زبان میں ترجمہ کر کے چھاپتے ہیں اور اسے بلا حوالہ اپنی فکری کار گزاری شمار کرتے ہیں۔ ایسے جعل سازوں کو بھنڈر کرنے میں حیدر قریشی نے خصوصی خدمات انجام دی ہیں۔ انہوں نے ایسے دزونگاروں کو سر عام منکشف کیا ہے جن کے ہاتھ پر ادب کا چراغ رکھا ہے اور جن کی سرقہ شدہ روشنی قارئینِ ادب کو غیر ادبی، غیر فطری انداز میں متاثر کر رہی ہے۔ ادب کی نئی تاریخ حیدر قریشی کے انکشاف سے ہی استفادہ کرے گی۔
حیدر قریشی اپنے ذاتی حوالے سے ایک کثیر الجہت ادیب ہیں۔ ان کے ادبی سفر کا آ غاز ’’ اوراق ‘‘ کے دوسرے دور میں ۱۹۷۱ء سے شروع ہواتھا۔ بیس برس کے بعد ان کی شاعری کا پہلا مجموعہ’’ سلگتے خواب‘‘ ۱۹۹۱ء میں اسلام آباد سے شائع ہوا۔ مجروح سلطان پوری نے اسے شاعری میں تازگی لانے کی سعیٔ جمیل قرار دیا۔ ’’ عمرِ گریزاں‘‘ ،’’ محبت کے پھول‘‘ ،’’دعائے دل‘‘ اور ’’درد سمندر ‘‘ ان کی شاعری کے مزید مجموعے ہیں۔ تازہ ترین کتاب ’’ قفس کے اندر‘‘ ہے جس کے ایک شعر نے مجھے یہ مضمون لکھنے کی تحریک دی ہے۔ تخلیقی نثر میں انہوں نے سب سے پہلے افسانے میں قلم کاری کی ۔ ’’ روشنی کی بشارت‘‘ اور’’ قصے کہانیاں‘‘ اور ’’ایٹمی جنگ‘‘ ان کے افسانوں کے مجموعے ہیں جو انگریزی اور ہندی میں بھی ترجمہ ہو چکے ہیں۔ انشائیوں کے مجموعے کا نام ’’ فاصلے اور قربتیں ‘‘ ہے۔سفر نامہ کی صنف میں ’’ سوئے حجاز‘‘ خاکہ نگاری میں ’’ میری محبتیں‘‘ اور یاد نگاری میں ’’کھٹی میٹھی یا دیں ‘‘ کے نام سے کتابیں چھپ چکی ہیں۔ تحقیق و تنقید میں انہوں نے سب سے پہلے ’’ ڈاکٹر وزیر آ غا۔۔۔ عہد ساز شخصیت‘‘ میں اپنے ادبی محسن کو خراجِ تحسین پیش کیا اس کے بعد ’’حاصلِ مطالعہ‘‘ ’’ ڈاکٹر گوپی چند نارنگ اور ما بعد جدیدیت‘‘ ’’تاثرات‘‘ ’’ مضامین اور تبصرے‘‘ ’’ اردو میں ماہیا نگاری‘‘ ’’ اردو ماہیا کی تحریک‘‘ ’’ اردو ماہیا کے بانی ہمت رائے شرما‘‘ اور ’’ماہیے کے مباحث ‘‘ جیسی کتابیں شائع کیں۔ ان کے کالموں کے مجموعے ’’ اِدھر اُ دھر سے ‘‘ ’’ منظر اور پس منظر‘‘ ’’ خبر نامہ‘‘ اور ’’چھوٹی سی دنیا‘‘ کے عنوانات سے چھپ چکے ہیں۔ اور تالیفات میں ’’شفق رنگ‘‘ ’’ کرنیں ‘‘ اور سرائیکی غزل شامل ہیں۔
اہم بات یہ ہے کہ حیدر قریشی نے ادبی دنیا میںبہت پہلے اردو کی ادبی ویب سائیٹ جاری کی اور ان کی سب کتابیں انٹر نیٹ پر بھی دستیاب ہیں۔ حال ہی میں انہوں نے ’’ جدید ادب ‘‘ کا ’’ میرا جی ‘‘ نمبر شائع کیا جس پر تبصرے پوری اردو دنیا میں شائع ہو رہے ہیں۔
حیدر قریشی اردو ادب کے وسیع الجہات ادیب ہیں۔ پاکستان میں منزہ یاسمین نے ان کی شخصیت و فن پر ایم اے کا مقالہ لکھاہے۔ ہندوستان میں’’حیدر قریشی شخصیت اور ادبی جہتیں‘‘ کے عنوان سے ڈاکٹر عبدالرب نے تحقیقی کتاب لکھ کر گلبرگہ یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی(اب ایسے تحقیقی مقالات کی تعداد بہت زیادہ ہو چکی ہے۔)۔اور اب میں کہہ سکتا ہوں کہ حیدر قریشی بلا شبہ پہلے ’’ دبستانِ سرگودھا‘‘ سے وابستہ تھے لیکن اب خود شجر سایہ دار بن گئے ہیں۔ میں انہیں ’’ دبستانِ حیدر قریشی‘‘ کے نام سے موسوم کرتا ہوں جس نے جرمنی میں اردو ادب کا چراغ روشن کر رکھا ہے۔ وہ پاکستان کے تہذیبی اور ادبی سفیر ہیںاور انہیں قومی اعزاز ’’ پرائیڈ آف پرفار منس‘‘ سے سر فراز کیاجانا چاہئے۔ ان سے کم درجہ کے ادیب یہ اعزاز حاصل کر چکے ہیں۔
(بحوالہ ہفت روزہ ندائے ملت لاہور۔شمارہ:۹ تا ۱۵ جنوری ۲۰۱۴ء)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حیدرقریشی
۔۔۔۔۔۔۔۔
اور ’’جدید ادب‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔
افتخار عارف
ڈائریکٹر جنرل ادارۂ فروغ ِقومی زبان،اسلام آباد
۔۔۔۔۔۔۔۔
حیدرقریشی ہمارے ان نوجوان دوستوں میں ہیں جو بیرون ملک مقیم ہونے کے باوجود اَنتھک محنت،لگن اور انہماک سے اُردو زبان وادب کی خدمت میں لگے ہوئے ہیں۔میرا ان کا پہلا تعارف ’’اوراق‘‘ کے حوالے سے ہوا تھا۔ڈاکٹر وزیر آغا کے حلقے کے بیشتر لوگ جن میں غلام جیلانی اصغر،ڈاکٹر انور سدید،ڈاکٹر بشیر سیفی،جمیل آذر اور شاہد شیدائی حلقے کے نمایاں افراد میں تھے جنھیں احمد ندیم قاسمی کے دبستان ’’فنون‘‘کے مد مقابل سمجھا جاتا تھا۔عام طور پر تاثر یہ تھا کہ رسالہ’’فنون‘‘ترقی پسند مصنفین کے آدرشوں پر کاربند اہلِ قلم کی نمائندگی کرتا ہے اور ’’اوراق‘‘جدید ادب کی تحریکوں کی ترجمانی کا فریضہ انجام دیتا ہے۔
حیدرقریشی اپنے علمی وادبی سفر کے آغاز ہی سے بہت سنجیدہ،فعال اور متحرک شخصیت کے طور پرسامنے آئے تھے۔بعض ناگزیر وجوہ کے سبب انھیں وطن چھوڑ کر مغربی جرمنی میں سکونت اختیار کرنی پڑی۔اس دربدری نے ان کے جذبہ حب الوطنی اور ادب دوستی کو اور زیادہ جلا بخشی اور وہ اپنے وجود کی پوری توانائیوں کے ساتھ زبان و ادب کی خدمت میں مصروف ہو گئے۔برطانیہ میں اردو بولنے والوں کی تعداد بھی زیادہ تھی اور ایک طویل عرصے سے وہاں ایک تہذیبی ادبی روایت قائم تھی،چنانچہ دنیا کے نقشے پر لندن متعارف رہا۔اسی طرح جدہ،نیویارک،شکاگو اور اوسلو میں رہنے والے اردو دوستوں نے تازہ بستیوں کی بنیاد کی بنیاد گزاری کا فریضہ انجام دیا۔جرمنی کا تعارف ہمارے زمانے میں اردو دنیا کی ممتاز اسکالر ڈاکٹر این میری شمل کے توسط سے ہوا۔اردو کے ممتاز تخلیق کار منیرالدین احمد نے جرمن زبان کی بعض بے مثال تحریروں کو اردو میں ترجمہ کرکے زبان کو نئی دناؤں سے آشنا کرایا۔ہائیڈل برگ یونیورسٹی میں پروفیسر فتح محمد ملک اور کرسٹینا اوسٹر ہیلڈ اردو ورثے کی ترویج و فروغ میں پیش پیش رہے۔پروفیسر فتح محمد ملک نے اقبالیات کے فروغ میں انتہائی موثر اور دیر پا خدمات سر انجام دیں۔اس روایت کی توسیع میں حیدرقریشی نے بھی بہت اضافہ کیا۔جرمنی میں رہنے کے باوجود پاکستانی ادبی حلقوں سے اور نامور تخلیقی شخصیتوں سے ان کے روابط انتہائی مستحکم رہے۔خوش گوار بات یہ ہے کہ انھوں نے تعصبات سے بالا تر ہو کر ہر فکرونظر کے ادیبوں سے تعلقات استوار رکھے اور ان کی خدمات سے استفادہ کیا۔گروہ بندی کے اس دور میں حیدر قریشی کی فراخ دلی ایک مثالی حیثیت رکھتی ہے۔اپنے نظریے پر قائم رہنے اور دوسروں کے نظریے کا احترام کرنا ہمیشہ ان کے پیش نظر رہا۔جرمنی میں اردو حلقوں کے علاوہ انھوں نے مقامی جرمن آبادی میں بھی اردو زبان و ادب کو متعارف کرانے میں بڑا کردار ادا کیا اور اب ایک ایسا حلقہ مقامی باشندوں کا ہے ہے جو ہماری زبان اور ادب سے کسی حد تک آگاہی رکھتا ہے۔اداروں کے کرنے کا یہ کام ’’جدید ادب ‘‘کے ذریعے حیدرقریشی نے سر انجام دیا جس کے لیے ہمیں ان کا شکر گزار ہونا چاہئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
روزنامہ نوائے وقت لاہور۔اوورسیز پاکستانیز ایڈیشن۔۲۷ ستمبر ۲۰۱۹ء
انتخاب حیدر قریشی
۔۔۔۔۔۔۔۔
عجیب کرب و بلا کی ہے رات آنکھوں میں
سسکتی پیاس لبوں پر فرات آنکھوں میں
پھر اس کو دامنِ دِل میں کہاں کہاں رکھیں
سمیٹ سکتے ہیں جو کائنات آنکھوں میں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک لمحے میں کئی برسوں کے ناطے توڑ کر
سوچتے ہیں‘ اپنے ہاتھوں سے یہ کیا کر آئے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مِرے بدن پہ ترے وصل کے گلاب لگے
یہ میری آنکھوں میں، کس رُت میں کیسے خواب لگے
یہ میرے جسم پہ کیسا خمار چھایا ہے
تمہارے جسم میں شامل مجھے شراب لگے
ہمیں تو اچھا ہی لگتا رہے گا وہ حیدرؔ
بلا سے ہم اُسے اچھے لگے، خراب لگے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تھی کتنے موسموں کی مہک اُس کے جسم میں
سانسوں کی تیز آنچ میں ہم بھیگتے رہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہت چالاک ہوتے جا رہے ہو
بڑے بے باک ہوتے جا رہے ہو
تجاوز مت کرو حدّ گماں سے
یقیں، ادراک ہوتے جا رہے ہو
دلوں کا خون کرنے لگ گئے ہو
بڑے سفّاک ہوتے جا رہے ہو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اپنی کچھ نیکیاں لکھنے کے لئے بھی حیدرؔ
اپنے ناکردہ گناہوں سے سیاہی مانگوں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جہاں بھر میں ہمارے عشق کی تشہیر ہوجائے
اُسے کس نے کہا تھا دل پہ یوں تحریر ہو جائے
میں سچا ہوں تو پھر آئے مِری تقدیر ہوجائے
میں جھوٹا ہوں تو میرے جرم کی تعزیر ہوجائے
میں اپنے خواب سے کہتا ہوں آنکھوں سے نکل آئے
ذرا آگے بڑھے اور خواب سے تعبیر ہوجائے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کئی خوش نظر سے گماں لیے، گئے ہم بھی کاسۂ جاں لیے
پڑا واسطہ تو پتہ چلا وہ سخی بھی کتنا بخیل ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ جو حیدرؔ مِرے منکر تھے مِرے ذکر پہ اب
چونک اُٹھتے ہیں کسی سوچ میں پڑ جاتے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایسی عمروں کے پیار تو حیدرؔ
جسم و جاں سے لگان مانگتے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اُس کی چیخوں کی صدا آج بھی آتی ہے مجھے
میں نے زندہ ہی تری یاد کو دفنایا تھا
منزلوں نے تو مجھے ڈھونڈ لیا تھا حیدرؔ
پھر مِرا شوق سفر مجھ کو چُرا لایا تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اپنے جلتے ہوئے خوابوں میں اُتر کر حیدرؔ
اپنے ناکردہ گناہوں کی سزا ہو جاؤ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گھنی تاریکیوں میں روشنی کی آس باقی ہے
یہی دولت بہت ہے جو ہمارے پاس باقی ہے
تمہارے ہی لئے ہیں دل کے جتنے مل سکیں ٹکڑے
تمہارے واسطے ہے تن پہ جتنا ماس باقی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
طلوعِ صبح سے پہلے شگافِ نیل ہونا ہے
یہ منظر سامنے کا جلد ہی تبدیل ہونا ہے
گزرتی سرد اور لمبی اندھیری شب کے سینے میں
ابھی کچھ اور شمعوں کا لہو تحلیل ہونا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عشق کے قصے سبھی مجھ پہ ہوئے آکے تمام
کوئی مجنوں، کوئی رانجھا نہ ہوا میرے بعد
اس میں مل جائے گا جا کر مِرے اندر کاخلا
اور بڑھ جائے گا باہر کا خلا میرے بعد
ابھی ممکن ہی نہیں قرض چکانا تیرا
زندگی! قرض ترا ہوگا اَدا میرے بعد
روز طوفان اُٹھانے کی مشقت تھی اسے
دشت بے چارے کو آرام ملا میرے بعد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
درد اندر کے سب آنکھوں میں اُبھر آئے تھے
عشق میں جب ہمیں پانی کے سفر آئے تھے
شہر کی گلیوں نے چومے تھے قدم رو رو کر
جب ترے شہر سے یہ شہربدر آئے تھے
ایک سوہنی کی پذیرائی کی خاطر حیدرؔ
دل کے دریا میں کبھی کتنے بھنور آئے تھے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یونہی دیکھا تھا جسے چشمِ تماشائی سے
اب نکلتا ہی نہیں رُوح کی گہرائی سے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عشق میں اپنی ہی جب خاک اُڑالی ہم نے
پھر وہی خاک ترے پیار پہ ڈالی ہم نے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
داستاں گو کی ذات سے اُبھرے
جتنے کردار داستاں کے تھے
آج تو کُھل کے ہنس دیئے حیدرؔ
دل کے زخموں کے جتنے ٹانکے تھے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اعتبار اک دوسرے پر کب ہمیں تھا زندگی
جھُوٹی مُوٹی دوستی تھی اور نبھانی پڑ گئی
مُشک جیسی کوئی بھی شے کب چھُپانے سے چھپی
آپ کو پھر کس لئے صاحب چھُپانی پڑ گئی
خوب واقف تھے کسی کے پیار سے حیدرؔ مگر
آزمائی چیز پھر سے آزمانی پڑ گئی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب اُس نے خاک اُڑانے کا ارادہ کرلیا ہے
تو ہم نے دل کے صحرا کو کشادہ کر لیا ہے
حدیں وہ کر گیا ہے پار سب جورو ستم کی
سو ہم نے صبر پہلے سے زیادہ کر لیا ہے
نہیں، اس جیسی عیاری تو ممکن ہی نہیں تھی
زمانے سے ذرا بس استفادہ کر لیا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دریا کہ نہر میں ہوں
پر اپنی لہر میں ہوں
کہنے کو صرف پل بھر
اور سارے دہر میں ہوں
پتھر کے لوگ سارے
جادو کے شہر میں ہوں
یہ کون مہرباں ہے
یہ کس کے قہر میں ہوں
تریاق بن کے حیدرؔ
نفرت کے زہر میں ہوں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
روشنی کا استعارہ کر لیا
دل نے ہر آنسو ستارا کر لیا
بے وفا دنیا سے کچھ تو نبھ گئی
ساتھ کیا تھا بس گزارا کر لیا
گلستاں اُس نے کیا تھا آگ کو
ہم نے شبنم کو شرارہ کر لیا
کم نہیں ہم بھی ثمود و عاد سے
کیوں لحاظ آخر ہمارا کر لیا
تیری وحدت سے سمجھ پائے تجھے
اور کثرت میں نظارہ کر لیا
کون ہے پھر اب مِرے دُکھ کا سبب
خواہشوں سے تو کنارا کر لیا
آج حیدرؔ موڈ ہی کچھ اور تھا
سو غزل میں استخارہ کر لیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عروج کیا ہے، زوال کیا ہے
خوشی ہے کیا اور ملال کیاہے
یہ گردشِ ماہ و سال کیا ہے
زمانے! تیری یہ چال کیا ہے
بھلے ہو وقتی اُبال چاہت
مگر یہ وقتی اُبال کیا ہے
ہوس تو بے شک ہوس ہی ٹھہری
پہ جستجوئے وصال کیا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تم نے وہ منظر ہی کب دیکھے ہیں، جب
درد سمندر، دل دریا میں گرتے ہیں
یا آنکھوں میں خاک برستی تھی حیدرؔ
یا اب پیہم اَشک دُعا میں گرتے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ جو ابھی تک خاک میں رُلنے والے ہیں
سُچے موتیوں میں اب تلنے والے ہیں
اپنی ذات کے دروازے تک آپہنچے
بھید ہمارے ہم پر کھلنے والے ہیں
دودھ بدن ہے وہ تو مصری کوزہ ہم
سو اب اُس کے عشق میں گھلنے والے ہیں
واقفیت ہے اِن سے اپنی برسوں کی
دُکھ تو ہمارے ملنے جلنے والے ہیں
آنکھیں اس کی بھی ہیں اب برسات بھری
حیدرؔ مَیل دِلوں کے دُھلنے والے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم نے بھوگا ہے صرف اِسے حیدرؔ
ہم نے کب زندگی گذاری ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تجھے میں اپنے ہر دُکھ سے بچانا چاہتا ہوں
ترے دل سے اُتر جانا ضروری ہو گیا ہے
نئے زخموں کا حق بنتا ہے اب اِس دل پہ حیدرؔ
پُرانے زخم بھر جانا ضروری ہو گیا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رقص کناں ہے جس کے اندر ازل، ابد کا مور
وہ ہے اک بے انت خلا سا جس کی اور نہ چھور
اک دل کا پھیلا صحرا ، خاموشی سے معمور
اک کم ظرف سمندر ،جس میں خالی خولی شور
سارے حوالے برکت والے نور بھرے دربار
کوٹ مٹھن،اجمیر شریف اور دہلی ، اور لاہور
حال،دھمال سے تن من روشن،روشن ہو گئی جان
جگمگ کر اٹھی ہو جیسے ایک اندھیری گور
اپنی اڑانیں، ساری شانیں،تیرے دَم سے یار
تیرے ہاتھ ہوائیںساری تیرے ہاتھ میں ڈور
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وصل کی تفہیم،تفریقِ ہوس کرتے ہوئے
مان ہی جائے گا آخر پیش و پس کرتے ہوئے
آنکھ سے اوجھل کیا،اذنِ سفر دے کر ہمیں
اور دل میں رکھ لیا،دل کو قفس کرتے ہوئے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کُن کا اک لفظ اسیروں پہ کہیں سے اترا
آسماں ہو گئے تخلیق قفس کے اندر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ واقعہ ہوا اپنے وقوع سے پہلے
کہ اختتامِ سفر تھا ، شروع سے پہلے
نہیں تھی لذتِ سجدہ، رکوع میں لیکن
اک اور کیف تھا،کیفِ خشوع سے پہلے
نصوص کو بھی کبھی دیکھ لیں گے فرصت میں
ابھی نمٹ تو لیں’’مومن‘‘ فروع سے پہلے
معافی مانگنا پھر بعد میں خلوص کے ساتھ
گناہ کرنا خشوع و خضوع سے پہلے
اُسی کے پاس تو جانا ہے لوٹ کر آخر
سو خوب گھومئے ، پھرئیے ، رجوع سے پہلے
سپاہِ شب نے تو اندھیر کر دیا تھا بہت
سو آگیا ہوں میں وقتِ طلوع سے پہلے
یہ عید آئی ہے کس قتل گاہ میں حیدرؔ
سلام پھیر لیا ہے رکوع سے پہلے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پہنچائی گرچہ آپ نے ہر ممکنہ گزند
اک سرنگوں کو کر دیا مولا نے سر بلند
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تمام خواہشیں حیدرؔ کبھی کی چھوڑ چکے
کہو تو خود سے بھی اب ہم کنارا کرتے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیسے زنجیر کا دل ٹوٹا یہ اُس نے نہ سُنا
وقت نے قیدی کو بس فوری رہائی دی ہے
اک نئی لمبی مسافت کا زمیں زاد کو حکم
اور اس بار مسافت بھی خلائی دی ہے
اک عجب عالمِ برزخ میں ہی رکھا اس نے
نہ کبھی قرب ہی بخشا نہ جدائی دی ہے
کسی الزام کا اقرار بھی حیدرؔ نہ کیا
نہ بریت کے لیے کوئی صفائی دی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شدت کا رویہ ہی عادت سی رہی اس کی
نفرت بھی بلا کی تھی،چاہت بھی اشد کر دی
جب عشق کیا حیدرؔ معیار بنا ڈالا
اور ایسی محبت کی،دنیا میں سند کر دی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شور سنتے تھے بہت لیکن حقیقت اور ہے
ایک ہی تو سانس پر اٹکی ہوئی ہے زندگی
اور تھے حیدرؔ جو اس کی چاہ میں مرتے رہے
ہم نے الٹے ہاتھ سے جھٹکی ہوئی ہے زندگی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نہ جانے کیوں تمناؤں کی طغیانی میں رکھا ہے
ابھی تک دل نے خود کو عہدِ نادانی میں رکھا ہے
دیارِ حُسن میں خیرات کی خواہش نہیں رہتی
بخیلوں نے بخیلی کو فراوانی میں رکھا ہے
بہت سی بے نیازی اور اک یادوں بھری گٹھڑی
بڑا سامان اپنی خستہ سامانی میں رکھا ہے
یہاں سے رونقیں دکھ درد کی جاتی نہیں حیدرؔ
دکھوں کا ایسا میلہ اپنی ویرانی میں رکھا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عشق میں سب کچھ اک جیسا ہے،کیا پانا،کیا کھونا
لذت میں ملتا جلتا ہے ہنسنا ہو یا رونا
جن و ملک سب سے اُکتا کر رب نے بنایا،آخر
سانسوں کی چابی سے چلنے والا ایک کھلونا
سُن یارا! مت اُلجھ تُو اُس سے جس کی ایک نظر ہی
سونے کو مٹی کردے، مٹی کو کردے سونا
ڈر ہے رازوں کے افشا کا موجب نہ بن جائے
حیدرؔ بھید بھرے دل کا اب چھید بھرا دل ہونا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گیان،دھیان کے رستوں پر اب اور نہ مجھ کو رول
میرے مالک! مجھ پر میرا ساتواں دَر بھی کھول
ایک نئے آدم کی پھر تشکیل ہے میٹھے پانی!
جذب ہو میری مٹی میں یا مجھ کو خود میں گھول
دنیا کو سمجھائیں کیسے، آخر کیسے سمجھے
باتیں اپنی سچی،سیدھی اور دنیا ہے گول
قیمت اپنی کچھ بھی نہیںتھی، شان ہے اُس پیارے کی
یاروں نے بے مول کیا تھا، اُس نے کیا اَنمول
کب اپنی پہچان کے سارے بھید کھلے ہیں خود پر
جھانک ابھی کچھ اور بھی اندر،من کو اور ٹٹول
کتنی اور زمینیں تیرا رستہ دیکھ رہی ہیں
اس دھرتی سے آگے چل،اب اُڑنے کو پر تول
دُکھ اور سُکھ کے اتنے ہی میلے تھے بس قسمت میں
جیون کے اس کھیل میں اپنا اتنا ہی تھا رول
راضی ہوں تیری مرضی پر لیکن بھید کھلے بھی
تیری مرضی کیا ہے یارا، کچھ تو کھل کر بول
ہجر کی رُت میں بھی پیغام وصال کا آیا حیدرؔ
دیکھ! بُلاوا آیا ہے تو مت کر ٹال مٹول