"اردو کے ہندو مرثیہ گو شعراء" :::
اردو مرثیہ نگاری میں ہندوستان کے ہندو شعرا کی خدمات کو فراموش نہیں کیا جاتا۔ شاید اس کی ایک وجہ یہ ھے کہ اردو ایک سیکولر زباں ھے۔ اوریہ اردو ادب و زباں کے سیکولر ھونے کا سب سے بڑا ثبوت ھے۔ مرثیہ اس نظم کو کہتے ہیں جس میں کسی مذہبی یا قومی پیشوا یا کسی محبوب شخصیت کی موت پر اظہار غم والم کیا گیا ھو۔ ہندو مرثیہ گوئی نے اردو ابان و ادب کو غیر متعصب اور غیر فرقہ وارانہ فضا قائم کی۔ جس کو محص " شوق تحسین" نہیں کیا جاسکتا۔جیسے محیط ارض بشری ایجاب حاصل ھوچکا ھے۔مرثیے میں ہندوستانی تہذیب کی عکّاسی نہ صرف اودھ اور لکھنوی تہذیب کی مرہونِ منّت ہے بلکہ اس سے پہلے اور بعد میں بھی ہندوستان کے ہر خطے کے مرثیہ نگاروں کے یہاں اس روایت کی کارفرمائی دکھائی دیتی ہے۔ ہندوستان میں اردو مرثیہ نگاری کے ہر عہد میں مرثیے پر یہاں کی تاریخی، سیاسی اور تہذیبی فضا کی چھاپ دیکھی جا سکتی ہے۔
شیعت کی تاریخ پڑھنے والے واقعہ کربلا اور اس کے اسباب سے بخوبی آگاہ ہیں – کربلا کے خونین حادثے میں کتنے باوفا اصحاب نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا اور کن حالات میں یہ قافلہ مدینہ سے روانہ ہو کر مکہ اور پھر مکہ سے نکل کر کربلا پہنچا سے ہر تاریخ پڑھنے والا آگاہ ہے-
امام حسین {رض} کی قربانی اور بعد از کربلا اس کو حاصل ہونے والی اہمیت اس قدر بلند ہے کہ ہر مذہب و ملت اور ہر قوم نے خود کو کسی نہ کسی طریقے سے امام حسین کی ذات اقدس اور اس واقعہ سے منسلک کرنے کی کوشش کی ہے-
واقعہ کربلا اپنی نوعیت کا ایک ایسا واحد المیہ ہے کہ جس کا رد عمل آج 1400 سال گزرنے کے بعد بھی ختم نہیں ہوا- کربلا آج بھی ویسے ہی تر و تازہ ہے – کربلا آج بھی اتنی ہی معجز نما ہے – کربلا آج بھی اتنی ہی سحر آفریں ہے- کربلا آج بھی اتنی ہی عظیم ہے –
اھل ھند کی خانوادہ رسول (ص) سے عقیدت اور خاص طور پر شہید کربلا (رض) سے عشق اور محبت کی ایک وجہ تو یہ ھے کہ خود ھندو مذھب کی چند بہت قدیم ویدوں میں سرکار ختمی مرتبت (ص ) اور ان کے والدین سے متعلق ، انکے ناموں کے ساتھ پیش گوئ موجود ھے۔ نیز حسینی برھمن بھی کربلا کے حوالے سے اپنی ایک تاریخی حیثیت کے دعویدار ھیں ۔۔۔ اس کے بارے میں اب تک بہت تحقیق ھو چکی ھے ۔اور بہت سے تاریخی شواھد حسینی برھمنوں کے جد میں سے ایک شخص راہب دت کی داستان کی تائید کرتے ھیں ۔۔
ذیل میں ہم کربلا بارے ہندو معاشرے اور ہندو ادب میں شامل اور جا بہ جا مستعمل روایات کو آپ کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں تاکہ اندازہ ہو کہ ''حسین سب کا'' ہے-
معروف ہندو شاعر رام پرکاش ساحر کہتے ہیں:
ہے حق و صداقت مرا مسلک ساحر
ہندو بھی ہوں شبیر کا شیدائی بھی
اسی طرح رائے بہادر بابو اتاردین کی خیالات ملاحظہ کیجیے:
وہ دل ہو خاک نہ ہو جس میں اہل بیت کا غم
وہ پھوتے آنکھ جو روئی نہ ہو محرم میں
۱۹۱۸ء میں ہندو شاعر دلو رام کوثری نے ایک مرثیہ بعنوان ’’قرآن اور حسینؓ‘‘ کہا تھا‘ اس کے چند اشعار ملاحظہ ہوں:
قرآن اور حسینؓ برابر ہیں شان میں
دونوں کا رتبہ ایک ہے دونوں جہان میں
کیا وصف ان کا ہو کہ ہے لکنت زبان میں
پیہم صدا یہ غیب سے آتی ہے کان میں
قرآں کلام پاک ہے شبیرؓ نور ہے
دونوں جہاں میں دونوں کا یکساں ظہور ہے
پنڈت ایسری پرشاد پنڈت دہلوی کہتے ہیں!
نکلیں جو غمِ شہ میں وہ آنسو اچھے
برہم ہوں جو اس غم میں وہ آنسو اچھے
رکھتے ہیں جو حسینؓ سے کاوش پنڈت
ایسے تو مسلمانوں سے ہندو اچھے
حکیم چھنومل دہلوی نے امام عالی مقامؓ کے حضور سلامِ عقیدت یوں پیش کیا ہے:
سلامی کیا کوئی بیکار ہے جی سے گزر جانا
حیاتِ جاوداں ہے شاہ کے ماتم میں مرجانا
نہ آتا جنہیں راہ حقیقت سے گزر جانا
حسینؓ ابن علیؓ سے سیکھ لیں وہ لوگ مرجانا
غم آل نبیؐ ممکن نہیں دل سے اتر جانا
نہ بھولیں گے کسی کا ہم جواں ہوتے ہی مرجانا
مٹانے سے کسی کے نام مٹ جائے ابھی کیونکر
ابھی تو رنگ لائے گا شہ بیکس کا مرجانا
سرکش پرشاد کے قلم سے حسین ابن علیؓ کے حضور سلام کا نذرانہ اس طرح تخلیق ہوا:
حسین ابن علیؓ ہیں فرد یکتا
کوئی مظلوم ایسا تھا نہ ہوگا
دیا سر آپ نے راہ خدا میں
کیا دین نبیؐ کو دین اپنا
جگر بند علیؓ و فاطمہؓ ہے
رسول اللہ کا پیارا نواسا
کیا آل نبیؐ کو قتل صد حیف
مسلمانو! کیا یہ ظلم کیسا؟
ولائے سبط پیغمبرؐ ہے نعمت
یہ نعمت ہو عطا ہر اک کو مولا
ایک اور ہندو شاعر منشی لچھمن داس مرثیہ گوئی میں منفرد مقام رکھتے ہیں ان کا ایک قطعہ ملاحظہ ہو:
کم جس کی خیالیں ہوں‘ وہ تنویر نہیں ہوں
بدعت سے جو مٹ جائے وہ تصویر نہیں ہوں
پابند شریعت نہ سہی گو لچھمن
ہندو ہوں مگر دشمن شبیرؓ نہیں ہوں
بھارت کی امام بارگاہوں میں بالعموم 60-70 فیصد تعداد ہندؤں کی ہوتی ہے۔ خواجہ معین الدیں چشتی کے مزار پر یہ تعداد 90 فیصد سے زیادہ ہوتی ہے۔ مہاتما گاندھی نے کہا تھا کہ میں سب سے زیادہ متاثر امام حسین سے ہوں۔ مین اُن ہی کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے قربانیاں دونگا اور ان قربانیںوں کے ذریعہ انگریز کو ہندوستان سے نکالونگا۔ جنگ نہیں کرونگا۔ ہندؤں میں ایک فرقہ حسینی برہیمن ہے جنکا دعوہٰ ہے کہ اُن کے 11 لڑکے کربلا میں امام حسین کے ساتھ شہید ہوئے تھے اور یہ کہ امام حسین ہند آکر تبلیغ کرنا چاہتے تھے۔ ہندؤں میں قطب علی شاہ کے دور سے آب تک بڑے بڑے مرثیہ نویس شاعر پیدا ہوئے ہیں۔ ہندو شاعروں میں منشی دیشو پرشاد ماتھر لکھنوی کو اہل بیت اطہار بالخصوص حضرت سید الشہداء امام حسینؓ کی مدح سرائی کی وجہ سے بڑی شہرت حاصل ہے وہ کہتے ہیں:
انسانیت حسین (رض) تیرے دم کے ساتھ ہے
ماتھر بھی اے حسینؓ تیرے غم کے ساتھ ہے
یہی شاعر دوسری جگہ یوں اظہارِ خیال کرتے ہیں:
مسلمانوں کا منشاء عقیدت اور ہی کچھ ہے
مگر سبطِ نبی سے میری نسبت اور ہی کچھ ہے
ان کا ایک قطعہ عزاداریِ سید الشہداء کو کس طرح ایک فطری عمل قرار دیتا ہے۔
ملاحظہ کیجیے:
یہ آہ نہیں ہے بجلی ہے‘ یہ اشک نہیں موتی ہے
جو چیز ہے فطرت میں شامل وہ بھی کہیں بدعت ہوتی ہے
انساں کی اولادت اور قضا دونوں ہی میں غم ہے جلوہ نما
آتا ہے تو وہ خود روتا ہے‘ جاتا ہے تو دنیا روتی ہے۔
ہنود شعرا میں ایک اہم نام دلگیر کا ہے۔ جو پہلے ہندو تھے۔ بھر انھوں نے شعیت قبول کرلی تھی۔ چنو لال دلگیر کے بھائی راجو لال بھی شہدا کربلا کے بارے میں بہت عزت اور گہرے جذبات رکھتے تھے – ٹھاکر گنج میں ان کا بنوایا گیا امام بارگاہ آج بھی ان کی اس وابستگی کی دلیل ہے – انھوں نے شہرہ آفاق مرثیہ ” گھبراۓ گی زینب ” ایک ہندو شاعر منشی چنو لال دلگیر نے لکھا ہے – منشی چنو لال دلگیر میر انیس سے بھی پہلے چار سو سترہ مرثیے لکھ چکے تھے – یوں تو مرثیہ ” گھبرایے گی زینب ” لکھنو کی مجالس میں طویل عرصے تک پڑھا جاتا رہا لیکن مرحوم ناصر جہاں کے منفرد انداز نے اِسے ایک نئی شکل عطا کی اور اب اُن کے فرزند نے بھی اپنے والد کے ہی انداز میں اس مرثئے کو پڑھتے رہے ہیں۔ چنو لال نے بطور شاعر رومانویت اور غزل لکھنے سے آغاز کیا لیکن مرثیہ نگاری شروع کرنے کعد بعد انہوں نے غزل وغیرہ لکھنا چھوڑ دیا اور اپنی تمام لکھی ہوئی غزلیں موتی جھیل میں پھینک کر خود کو صرف مرثیہ لکھنے کے لئے مخصوص کر دیا – تاریخ میں یہ بات بھی موجود ہے کہ منشی چنو لال مشہور شاعر ناسخ کے شاگرد تھے اور مرزا فصیح اور میر خالق کے ہم عصر تھے – شاعر مصحفی نے ان کی تعریف میں یہ بات بھی بیان کی ہے کہ چنو لال کا تخلص ترب تھا – جب کہ حقیقت حال یہ ہے کہ چنو لال نےترب کا تخلص صرف اس وقت تک استعمال کیا جب تک وہ غزلیں لکھتے تھے – مرثیہ لکھتے ہوے انہوں نے ہمیشہ دلگیر کا تخلص استعمال کیا۔ ان کی خاندانں سادات سے قلبی لگاو اور یوپی کی ادبی اور معاشرتی فضا کی خوشبو اور کربلا کے واقعہ کی خون میں لتھڑے واقعات کی جس انداز یں منظر کشی کی وہ انیس اور دبہر سے کسی طور پر کم نہیں۔ مگر اردو کے " ناقدین مرثیہ" نے اس کرکبھی سنجیدگی سے توجہ نہیں دی، منشی چنو لال کے فنِ مرثیہ نگاری پر عبور کا اندازہ اس شعر سے لگایا جا سکتا ہے
اکبر ہے نا قاسم ہے نا عباس دلاور –
یہ میری رہائی تو ہے اب قید سے بد تر –
اردو کے چند ہندو مرثیہ گو شعرا کے نام مندرجہ ذیل ہیں۔ { فہرست نامکمل ہے}
پنڈٹ ایسری پرشاد‘ پنڈت دہلوی‘ حکیم چھنو مل نافذ دہلوی‘ مہاراجہ بلوان سنگھ راجہ‘ منشی چنّو لال، دلگیر (گھبرائے گی زینب)‘ دلو رام کوثری‘ رائے سندھ ناتھ فراقی‘ نتھونی لال دھون وحشی‘ کنور سین مضظر‘ بشیشو پرشادمنور لکھنوی‘ نانک چند کھتری نانک‘ لال رام، پرشاد روپ کماری کنور‘ بشیشور پرشادس منور لکھنوی، ماتھر لکھنوی، لبھو رام جوش ملسیانی‘ گوپی ناتھ امن‘ باوا کرشن گوپال مغموم‘ نرائن داس طالب دہلوی‘ کشن بہاری نور لکھنوی،دگمبر پرشاد جین گوہر دہلوی‘ کنور مہندر سنگھ بیدی سحر‘ رام راؤ، سیوا وشوناتھ پرشاد ماتھر لکھنوی‘ سوامی پرشاد، اصغر شری مکھن داس چند بہاری لال ماتھر‘ راجہ مہرا صبا جے پوری‘ گورو سرن لال‘ ادیب‘ پنڈت رگھو ناتھ سہائے امید‘ گردھاری لال، جوش ملیسانی، نانک چند عشرت، الفت لکھنوی، شفیق کرت پوری، نرائن داس طالب پانی پتی، راجہ بلون سنگھ، راجہ امر چند قیس‘ راجندر ناتھ شیدا‘ تکِّا رام رام پرکاش ساحر‘ بالاجی تسامباک، تارا مہرلال سونی ضیا فتح آبادی‘ کالی داس گپتا رضا جاوید و ششت‘ رائے بہادر بابو اتاردین اور درشن سنگھ دُگل وغیرہ۔
معروف ہندو شاعر رام پرکاش ساحر کہتے ہیں:
ہے حق و صداقت مرا مسلک ساحر
ہندو بھی ہوں شبیر کا شیدائی بھی
اسی طرح رائے بہادر بابو اتاردین کی خیالات ملاحظہ کیجیے:
وہ دل ہو خاک نہ ہو جس میں اہل بیت کا غم
وہ پھوتے آنکھ جو روئی نہ ہو محرم میں
۱۹۱۸ء میں ہندو شاعر دلو رام کوثری نے ایک مرثیہ بعنوان ’’قرآن اور حسینؓ‘‘ کہا تھا‘ اس کے چند اشعار ملاحظہ ہوں:
قرآن اور حسینؓ برابر ہیں شان میں
دونوں کا رتبہ ایک ہے دونوں جہان میں
کیا وصف ان کا ہو کہ ہے لکنت زبان میں
پیہم صدا یہ غیب سے آتی ہے کان میں
قرآں کلام پاک ہے شبیرؓ نور ہے
دونوں جہاں میں دونوں کا یکساں ظہور ہے
پنڈت ایسری پرشاد پنڈت دہلوی کہتے ہیں!
نکلیں جو غمِ شہ میں وہ آنسو اچھے
برہم ہوں جو اس غم میں وہ آنسو اچھے
رکھتے ہیں جو حسینؓ سے کاوش پنڈت
ایسے تو مسلمانوں سے ہندو اچھے
حکیم چھنومل دہلوی نے امام عالی مقامؓ کے حضور سلامِ عقیدت یوں پیش کیا ہے:
سلامی کیا کوئی بیکار ہے جی سے گزر جانا
حیاتِ جاوداں ہے شاہ کے ماتم میں مرجانا
نہ آتا جنہیں راہ حقیقت سے گزر جانا
حسینؓ ابن علیؓ سے سیکھ لیں وہ لوگ مرجانا
غم آل نبیؐ ممکن نہیں دل سے اتر جانا
نہ بھولیں گے کسی کا ہم جواں ہوتے ہی مرجانا
مٹانے سے کسی کے نام مٹ جائے ابھی کیونکر
ابھی تو رنگ لائے گا شہ بیکس کا مرجانا
سرکش پرشاد کے قلم سے حسین ابن علیؓ کے حضور سلام کا نذرانہ اس طرح تخلیق ہوا:
حسین ابن علیؓ ہیں فرد یکتا
کوئی مظلوم ایسا تھا نہ ہوگا
دیا سر آپ نے راہ خدا میں
کیا دین نبیؐ کو دین اپنا
جگر بند علیؓ و فاطمہؓ ہے
رسول اللہ کا پیارا نواسا
کیا آل نبیؐ کو قتل صد حیف
مسلمانو! کیا یہ ظلم کیسا؟
ولائے سبط پیغمبرؐ ہے نعمت
یہ نعمت ہو عطا ہر اک کو مولا
ایک اور ہندو شاعر منشی لچھمن داس مرثیہ گوئی میں منفرد مقام رکھتے ہیں ان کا ایک قطعہ ملاحظہ ہو:
کم جس کی خیالیں ہوں‘ وہ تنویر نہیں ہوں
بدعت سے جو مٹ جائے وہ تصویر نہیں ہوں
پابند شریعت نہ سہی گو لچھمن
ہندو ہوں مگر دشمن شبیرؓ نہیں ہوں۔۔۔۔۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔