(Last Updated On: )
زبانوں کے لئے یہ بے حد ضروری ہوتا ہے کہ وہ زمانے کی رفتار کے ساتھ ہم آہنگی بنائے رکھیں، ورنہ وہ وقت کے گزرنے کے ساتھ مردہ ہوتی چلی جاتی ہیں۔ یونیسکو نے ۲۰۱۱ کے اپنی ایک رپورٹ میں ایسی ڈھائی ہزار زبانوں کو نشان زد کیا ہے جو یا تو مردہ ہو چکی ہیں یا پھر پانچ سو سے کم بولنے والوں کی تعداد کے ساتھ مردہ ہونے کے قریب ہیں۔ ہماری اردو کو ابھی تقریباً آٹھ سو سال ہو رہے ہیں، اگر اسے مزید آٹھ ہزار سالوں تک زندہ رکھنا ہے تو جدید ٹیکنالوجی کے ساتھ اس کا رشتہ مضبوط کرنا پڑے گا. اس کے لیے آج کی سب سے بڑی ضرورت یہ ہے کہ اردو کے عظیم ذخیرے کے ڈیجٹلائزیشن کی طرف سنجیدگی سے قدم آگے بڑھایا جائے. ڈیجٹلائزیشن کی رفتار کی سست روی کی وجہ سے ہمارے تعلیمی اداروں میں جن مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، کوشش کی گئی ہے کہ اس مقالے میں ان کو سامنے لایا جائے اور اپنی ناقص سمجھ کے مطابق اس کا حل پیش کیا جائے۔
معروف غیر سرکاری ادارہ پَرتھَم نے جب اثر (ASER) کے نام سے اپنی سالانہ تعلیمی رپورٹ ۲۰۱۷ جاری کی تو ایک چونکانے والی حقیقت سامنے آئی. 18 سال کے نوجوانوں میں 82 فیصد ایسے تھے جو 4G سم استعمال کرتے ہیں. ان 4G سم استعمال کرنے والے نوجوانوں کا 90 فیصد ڈیٹا انٹرٹینمنٹ ویڈیوز دیکھنے میں صرف ہوتا ہے. وہیںآٹھویں کلاس کے بچوں کا حال یہ ہے کہ وہ درجہ دوم اور سوم کی کتابیں پڑھنے میں نااہل تھے. اس کا ایک سیدھا مطلب تو یہ ہے کہ ہمارے نوجوانوں کو ڈیجٹل دنیا تو پسند آرہی ہے لیکن فارمل یا روایتی تعلیمی نظام میں اس کی دلچسپی ختم ہوتی جارہی ہے. اس چیز کو ASER کی اس نشاندہی سے بھی بہتر سمجھا جا سکتا ہے کہ چودہ سال کی عمر کے بچوں کے داخلے کی شرح جہاں 70 فیصد ہوتی ہے، وہیں 18 سال کی عمر تک آتے آتے یہ شرح صرف 60 فیصد ہی رہ جاتی ہے. اس سے یہ آشکارا ہوتا ہے کہ ہمارے نوجوانوں کا دھیان فارمل تعلیمی نظام سے دھیرے دھیرے ہٹتا چلا جا رہا ہے. وجہ اس کی صرف اتنی ہے کہ ان کے اندر ہمارا تعلیمی نظام دلچسپی برقرار نہیں رکھ پا رہا ہے. تو کیوں نا اس کی طرف سنجیدگی سے سوچا جائے کہ فارمل یا روایتی تعلیمی مواقع کو پر کشش بنانے کے ساتھ ساتھ ہمارے نوجوانوں کو ڈیجٹل دنیا میں اس طرح کے مواد فراہم کرائے جائیں، جس سے ان کے پاس آپشنز زیادہ ہوں اور وہ اپنے موبائل ڈیٹا کا استعمال انٹرٹینمنٹ ویڈیوز دیکھنے کے بجائے اپنی شخصیت کے مجموعی ارتقاء کے لیے استعمال کر سکیں. یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ ہمارے موجودہ تعلیمی نظام کے بارے میں ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام نے کہا تھا کہ :
Indian Education Framework Needs to Change Completely''ــ‘‘
یعنی انڈیا کے ایجوکیشن سسٹم کو پوری طرح سے بدلنے کی ضرورت ہے. ڈاکٹر اے پی جے نے یہ بات اس لیے بھی کہی تھی کہ ہمارا نصاب تخلیقی صلاحیتوں اور ہنرمندیوں کو ابھارنے کے بجائے چیزوں کو رٹ لینے کی طرف زیادہ مرکوز ہے. اس کی وجہ سے اس تعلیمی نظام کے فارغین کی بڑی تعداد سماج کے لیے پیداواری نہیں رہ جاتی ہے. Assochame کی 2017 کی رپورٹ کہتی ہے کہ ہمارے طلبہ کی 93 فیصدی تعداد انڈر ایمپلائمنٹ (under employment) یا اَن ایمپلائمنٹ (unemployment) کی مار جھیل رہی ہوتی ہے. کہنے کی ضرورت نہیں کہ ایسا صرف ہمارے غیر مؤثر نظام تعلیم اور بطور خاص ناقص نصاب تعلیم کی وجہ سے ہو رہا ہے. جبکہ ترقی یافتہ ممالک جیسے امریکہ کی ہارورڈ اور اسٹینفرڈ یونیورسٹیوں میں نصاب تعلیم کا 80 فیصد حصہ کیس اسٹڈی، 10 فیصد حصہ پروجیکٹ ورک، 5 فیصد حصہ لیکچرز اور 5 فیصد حصہ بقیہ سرگرمیوں کے لیے مختص ہوتا ہے. یہ اس لیے بھی ممکن ہوتا ہے کہ انہوں نے اپنے نصاب تعلیم اور تدریسی مواد کے سارے ہی اجزاء کو ڈیجٹلائز کر رکھا ہے اور ساتھ ہی آڈیو، ویڈیو کی شکل میں تدریسی مواد ہر وقت طالب علم کی ایک کلک پر دستیاب رہتا ہے. 9 اکتوبر 2015 کو زی نیوز نے ڈی این اے ٹیسٹ کے نام سے چل رہی سیریز کی اپنی ایک گراؤنڈ رپورٹ میں بتایا کہ یو ایس اے نے پرائمری اسکول کے بچوں کو بستے کے بوجھ سے آزاد کررکھا ہے اور ہوم ورک کے ساتھ ساتھ سارا کام ایک بچہ ڈیجٹلی انجام دیتا ہے. جبکہ ہمارے یہاں کے نصاب تعلیم کا سب سے بڑا حصہ لیکچرز پر ہی مشتمل ہوتا ہے اور مشکل سے 10 فیصد اسائنمنٹ اور پروجیکٹ کے لیے چھوڑا جاتا ہے. ان سب کا انتظام ابھی تک مینولی (manually)ہی ہو رہا ہے، جس کی وجہ سے اسائنمنٹ اور پروجیکٹ کو بھی نقل در نقل کے سہارے کسی طرح سر پر آئی بلا کی طرح ٹالنے کی کوشش کی جاتی ہے. ایسے میں ہمارے نوجوانوں کے اندر تخلیقی صلاحیتیں اور پیداواری ہنرمندیاں کہاں سے آئیں گی! یہی وجہ ہے کہ 30، 30 سال کے نوجوان بھی فراغت کے بعد سرکاری نوکریوں کی آس میں اپنی جوانیوں کو برباد کر رہے ہوتے ہیں. یہ انتہائی قابل غور ہے کہ ہمارے ملک کے نوجوان اتنی عمر کو پہنچنے کے بعد بھی والدین کے خرچ پر منحصر رہتے ہیں۔
اس گفتگو کا حاصل یہ ہے کہ اگر ہم اردو کے طلبہ کو بین الاقوامی معیار پر لا کھڑا کرنا چاہتے ہیں تو ضروری ہے کہ بین الاقوامی سطح کی تحقیقات کے ذریعے فراہم ہوئے جدید نظام تعلیم و نصاب تعلیم کی مدد سے ان کی تربیت پر توجہ دی جائے۔ اس کے لیے سب سے پہلی چیز جس کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ جدید ہتھیاروں یعنی جدید ٹیکنالوجی کے ساتھ ان کو میدان میں اتارا جائے ۔ طلبہ کے لیے کتابیں اور آڈیو، ویڈیو مواد ہی ہتھیاروں کے کام آتے ہیں، اس لیے اردو کی تمام کتابوں کو پی ڈی ایف اور یونیکوڈ ورزن میں تبدیل کرنے کی طرف تیزی سے پیش قدمی کرنی ہوگی. ساتھ ہی آڈیو ویڈیو مواد کے ذخیرے کو بڑھانا ہوگا تاکہ ان کو کسی بھی جگہ پر تعلیم سے جڑے رہنے کی طرف راغب کیا جا سکے.
آج اردو کے تعلیمی اداروں کا حال یہ ہے کہ وہ صرف اس بات کی فکر کرتے ہیں کہ جب فزیکلی کوئی طالب علم ان کے دربار میں حاضری دے گا تبھی اس کو اردو کی تعلیم دی جائے گی ورنہ نہیں. بلاشبہ اردو کی ابتدائی تعلیم کے حصول کے لیے ریختہ فاؤنڈیشن نے " آموزِش" کے نام سے ایک آن لائن کورس شروع کیا ہے. جس کی طرف نشاندہی کرنے کی وجہ سے کم از کم میرے دو ساتھیوں نے اردو سیکھ لی ہے۔ اسی کے ساتھ خواجہ اکرام الدین صاحب کی سرپرستی میں بھی ایک ویب سائٹ www.onlineurdulearning.com کے نام سے چل رہا ہے، لیکن کہنے کی اجازت دیجئے کہ یہ دونوں ہی کوششیں ابھی ابتدائی مراحل میں ہی ہیں۔ اردو کی تعلیم اور اردو ذریعہ تعلیم سے دیگر علوم کی ڈیجٹلی تعلیم دینے کی باضابطہ اور منظم کوشش مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے ایک چھوٹے سے یوٹیوب چینل’’آئی ایم سی مانو‘ــ‘(IMC MANUU)کے علاوہ اور کہیں نظر نہیں آتی۔ اس لئے اہل اردو بشمول ہم سب پر لازم ہے کہ اس طرف خصوصی توجہ دیں. اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہماری اردو گلوبل لینگوا فرینکا کی حیثیت اختیار کرے اور انگریزی اور دیگر عالمی زبانیں اردو کو نگل نہ لیں تو ضروری ہے کہ ہم اپنے دل کو ذرا کشادہ کریں. کچھ نہ ہو سکے تو کم از کم کلاس روم لیکچرز کو ہی یوٹیوب جیسے آن لائن پلیٹ فارم پر اپلوڈ کر دیں. اس سے نہ صرف ہمارے طلبہ دوبارہ کلاس روم کی باتوں کا استحضار کر سکیں گے اور ان کے علم میں گہرائی آسکے گی بلکہ ہمارے اساتذہ بھی لیکچر کی پوری تیاری کر کے آئیں گے. کیوں کہ ڈاکٹر کے کستوری رنگن کمیٹی برائے نیشنل ایجوکیشن پالیسی کا احساس تھا کہ ہمارے ایجوکیشن سسٹم کی سب سے بڑی کمی یہ ہے کہ ٹیچنگ پروفیشن میں عام طور سے وہ لوگ آتے ہیں جن کو اپنی پہلی پسند کی نوکری نہیں ملی ہوتی ہے، اس لیے وہ آدھے ادھورے من سے کلاس روم آکر کسی طرح اپنا فرض نبھا لے جانے کے فراق میں رہتے ہیں. ایسے میں اردو کے طلبہ کو کس طرح کی محرومیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اس کے تصور سے بہرحال اردو کا مستقبل خوشگوار نظر نہیں آتا۔
کلاس روم لیکچرز کو اپلوڈ کرنے کا دوسرا بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ وہ لاکھوں، کروڑوں طلبہ جو اردو سیکھنے، پڑھنے اور اردو شعر و ادب کے رموز سے واقف ہونا چاہتے ہیں، لیکن فزیکلی اردو کے تعلیمی اداروں میں حاضر نہیں ہو پاتے، وہ بھی اس بے بہا علم سے مستفید ہو سکیں گے. ہم نے پچھلی سطروں میں دیکھا کہ ہمارے نوجوانوں کا 90 فیصد موبائل ڈیٹا صرف انٹرٹینمنٹ ویڈیوز دیکھنے میں صرف ہوتا ہے. ایسے میں اگر ہم مشاعروں اورسیمیناروں کی پروسیڈنگ کے ساتھ ساتھ کچھ نہ ہو تو کم از کم کلاس روم لیکچرز ہی اپلوڈ کر دیں تو یقیناً اردو کے شائقین کی دلی مراد بر آئے گی اور اردو کی طبعی عمر میں توسیع ممکن ہو سکے گی. آئی آئی ٹی سے فارغ ایک نوجوان ہریش ایئر نے فلنٹ (Flinnt) کے نام سے اسی طرح کا ایک موبائل ایپ بنا کر تعلیمی نظام میں ایک انقلاب برپا کر دیا ہے ۔ساتھ ہی اپنی پوری ٹیم کو مالی لحاظ سے مستحکم بھی کیا ہے. کیا اردو کے لیے اسی طرح کی کوشش ہم میں سے کوئی نوجوان نہیں کر سکتا؟ ایجوکیشن میں ٹکنالوجی کا کتنا استعمال ہونا چاہئے، اس پر ابھی بھی ڈبیٹ چل رہی ہے. حالانکہ اپنی ناقص فہم سمجھتا ہوں کہ یہ بڑا ہی مضحکہ خیز ہے کہ آج جبکہ ہماری زندگی کے تقریباً ہر شعبے میں ٹکنالوجی کا استعمال ہو رہا ہے اور اسے آسان اور دلچسپ بھی بنایا ہے ایسے میں صرف ایجوکیشن جیسے کار آمد شعبے کو ہی ٹکنالوجی کی دسترس سے باہر رکھنے کی بات ہو رہی ہے !! حالانکہ یہ خوش آئند ہے کہ حکومت ہند کی وزارت ترقی انسانی وسائل نے SWAYAM کے نام سے ایک مستقل کوشش اس سمت میں شروع کر دی ہے۔ اس اسکیم میںاردو مضامین کی شمولیت کے لئے اہلِ اردو کو تگ و دو ضرور کرنی چاہیے۔
اردو کے ڈیجٹل نہ ہونے سے ہماری یونیورسٹیوں میں جو دوسرا سب سے بڑا مسئلہ پیدا ہو رہا ہے، وہ یہ ہے کہ ریسرچ کا معیار بلند نہیں ہو پا رہا ہے. اگر اردو کی ساری کتابیں پی ڈی ایف اور یونیکوڈ ورزن میں دستیاب رہیں تو کتابوں کی مقبولیت میں اضافے کے ساتھ ساتھ گوگل سرچ کی سہولت ہونے سے سابقہ تحقیقات کی تفصیلات بھی ایک کلک کے ساتھ ہی آنکھوں کے سامنے ہوگی. اس کی مدد سے ایک نیا محقق کم وقت میں اور آسانی کے ساتھ اپنی تحقیق کے ڈیزائن میں رد و بدل کر کے اسے مفید تر بنا سکے گا. اس کے علاوہ علمی سرقے (plagiarism) کو پکڑنا بھی آسان ہو جائے گا. یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ ایک عام خیال یہ بنتا جا رہا ہے کہ ہماری یونیورسٹیوں کے اندر ہونے والی تحقیق کا معیار بارہا پولیس کی انویسٹیگیشن رپورٹ اور صحافیوں کی گراؤنڈ زیرو رپورٹ سے بھی کم تر ہو جاتا ہے. اس کی ایک بڑی وجہ میں سمجھتا ہوں کہ اردو کی کتابوں کا ڈیجیٹل فارم میں نہ ہونا ہے. اگر ہم اپنی تحقیق کا معیار بلند بنانے میں سنجیدہ ہیں تو لازماً ہمیں نئی ٹیکنالوجی کے ثمرات سے استفادہ کرتے ہوئے اپنے علمی ذخیرے کو پی ڈی ایف اور یونیکوڈ ورزن میں منتقل کرنا پڑے گا. ورنہ کتابیں لائبریریوں میں بوسیدہ ہوتی رہیں گی اور ہماری تحقیقات کا دائرہ شخصیات کے فکر و فن کے اردگرد ہی گھومتا رہے گا. اس سے آگے بڑھ کر وقت سے ہم آہنگ ہو کر سماج کے لیے مفید تر ثابت ہونے میں ناکام رہیں گی. نتیجے میں نوجوان سرکاری نوکریوں کے آسرے اپنی بیش قیمت جوانی برباد کرتے نظر آئیں گے. یہاں پر مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اپنے ایک مطبوعہ مضمون کا ایک اقتباس پیش کر کے اپنی بات ختم کروں جو سہ ماہی تزئین ادب کے تحقیق و تنقید نمبر میں شائع ہوا تھا :
’’عا م کتب کے ساتھ ایک بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ طباعت کے زیور سے آراستہ ہونے کے با وجود ایک قاری کی رسا ئی ان تک مشکل سے ہو پاتی ہے۔کیوں کہ اردو ناشرین جدید مارکیٹنگ کے اصولوں کو اب تک اپنا نہیں سکے ہیں۔ دیگر زبانوں کے ناشرین کی طرح ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ کتاب کی ہارڈ کاپی کے ساتھ ساتھ وہ سافٹ کاپی کی تجارت کو بھی اپنا ئیں۔اس سے جہاںقاری کے لیے اپنے مطلوبہ مواد تک جلد رسائی ممکن ہوپاتی وہیںکاغذ کی بچت اور طباعت کے خرچ کے کم ہونے سے ناشر اور قاری دونوں کی جیب پر بوجھ بھی کم پڑتا اور علم کو فروغ حاصل ہو پاتا۔ ساتھ ہی کاغذ کی تیاری میں ہزاروں پیڑ کٹنے سے بچ جاتے جو ظاہر ہے ما حولیات کے تحفظ کی راہ کو آسان بناتا۔ہارڈ کاپی کی فروخت کے روایتی طریقے کو ہی اردو ناشرین اپنا ئے ہوئے ہیں۔ یعنی کتب فروش کی دکا ن پرجسمانی طور سے لازما پہنچا جائے ۔ اگر کوئی ناشر بہت فراخدل ہے تو وہ وی پی پارسل بھیجنے پرآمادہ ہو جاتا ہے بس ۔امیزون ، فلپ کارٹ،پے ٹی ایم جیسے آن لائن مارکیٹنگ پلیٹ فارم کے ذریعے اردو ناشرین کب اپنی مطبوعات کو فروخت کرنے کا سلسلہ شروع کریں گے ، یہ کہنا مشکل ہے۔اگر کسی وجہ سے وہ ان پلیٹ فارم کو اپنانا نہیں چاہتے ہیںتو نہ اپنائیں۔لیکن کم از کم اپنی ویب سائٹ کو ڈیو لپ کرکے اس کے ذریعے آن لائن فروخت کرنے کا سلسلہ تو شروع کر سکتے ہیں۔جس میں ادائیگی بینک اکائونٹ سے ہو جائے لیکن اتنا بھی نہیں ہو سکا۔ مثال کے طور پہ ایجو کیشنل پبلشنگ ہائوس اور مکتبہ جامعہ جیسے مؤقر ناشرین کے تازہ کیٹلاگ بھی آن لائن دستیاب نہیں ہیں ۔پھر بھی شکایت ہے کہ اردو کتابیں بکتی نہیں ہیں۔مارکیٹنگ کے جدیدطریقے آج نہیں توکل ہما رے ناشرین کو اپنانے ہی پڑیں گے۔ورنہ ان کے ادارے کو بند ہونے سے کوئی نہیں بچا سکتا۔ پی ڈی ایف یا سافٹ کاپی کا نہ ملنااردو تحقیق کی رفتا ر کو بیحد سست کیے ہوا ہے۔بلا شبہ قومی اردو کونسل نے اپنی چند مطبوعات کی مفت ڈاؤن لوڈنگ کی سہولت دے رکھی ہے۔لیکن اندازہ لگا ئیے کہ کونسل کے ڈیڑ ھ ہزار ٹائٹل میں اس کا تناسب کیا ہے؟ کیا چیز مانع ہے کونسل کو ساری مطبو عات کی سافٹ کاپی مہیاکرانے میں؟ قوت فیصلہ میں کمی یا ذہنی پستی ،اس کے سوا کیا سبب ہو سکتا ہے ؟ ریختہ فاؤنڈیشن نے تقریبا ساٹھ ہزار کتب کو اپنی ویب سائٹ پر ضرور اپلوڈ کیا ہے لیکن ڈاؤن لوڈنگ کی سہولت نہ ہونے سے وہ بھی بہت زیادہ معاون ثابت نہیں ہو رہی ہیں ۔ ’اردو چینل‘ نے اس سلسلے کو شروع کیا ہے اس کا خیر مقدم کیا جانا چائیے۔لیکن وسائل کے فقدان کے سبب ان کی اپلوڈ کردہ کتب کو انگلیوں پرگنا جا سکتا ہے۔وہ تو بھلا ہو پاکستان کی نو جوان نسل کے چند باہمت افراد کا کہ وہ ہندوستانی مطبوعات کو ممکنہ حد تک منگوا رہے ہیں اور اسے فری ڈاؤن لوڈ کے لیے اپنی ویب سائٹ پر اپلوڈ کر رہے ہیں ۔ جس سے ہندوستانی محققین کا کام آسان سے آسان تر ہو رہا ہے۔معلوم نہیں یہی کام قومی اردو کونسل ،انجمن ترقی اردو، مکتبہ جامعہ ،ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس اور ریختہ فاؤنڈیشن جیسے ادارے کب انجام دیں گے‘‘۔ ( سہ ماہی تزئین ادب، اپریل تا جون 2018، مضمون: تحقیق کے مواد کی فراہمی میں درپیش مسائل و مشکلات. ص:165)
اس پوری تفصیل سے ایک بات واضح ہو جاتی ہے کہ ساری دنیا میں تعلیم و تعلًم کا نظام ڈیجٹلائز ہو رہا ہے۔ ایسے میں اگر اردو کو بڑے پیمانے پر عوام میں مقبول اور کارآمد بنائے رکھنا ہے تو ضروری ہے کہ اس کے اثاثے کو ڈیجٹلائز کرنے کی رفتار کو تیزتر کیا جائے۔ورنہ عالمی زبانوں کے بیچ اردو کو آخری سانس لیتے ہوئے دیکھنے پر ہماری آنکھیں مجبور ہوںگی۔ ٭٭٭