رسالے قوم کا ایک اہم اثاثہ اور ترجمان ہوتے ہیں جو بڑے وسیع پیمانے پرعلمی و ادبی،سیاسی و سماجی ،مذہبی و تہذیبی ،معاشرتی و ثقافتی اور اخلاقی و اقداری وغیرہ علمی ذخائرکا منبع اپنے اندر سمیٹ کے رکھیں ہوتے ہیں ۔یہ علمی ذخیرہ قوم کے ہر فرداور ہر طبقے ، خواندہ اور ناخواندہ، چھوٹے اور بڑے ،مرد اور عورت، امیر اور غریب غرض
ہر ایک کی بلواسطہ یا بلاواسطہ ،بلا تفریق اور تمیزکے رہنمائی اور ترجمانی کرتا ہے۔ رسالے عوام کے جذبات و احساسات اور خیالات کی ترجمانی اور نمائندگی کرتے ہیں اور اسی بنا پر عوام کو رسائل وجرائد کے اندر پوشیدہ مواد کی پشت پناہی حا صل ہوتی ہے۔اس اعتبا ر سے ادبی جریدے قوم و فردکے معیار کو بڑھانے میں اہم رول ادا کرتے ہیں ۔ رسائل میں درج مواد کی حیثیت اور وقعت کسی سند سے کم نہیں۔رسائل و جرائد کی عمر سینکڑوں سالوں پر بھی محیط ہوسکتی ہے اور ایک سال یا ایک دو مہینے بھی یا اسے بھی کم۔رسائل و جرائد میں ایک کثیر تعداد میں مختلف النوع کے مضامین شائع ہوتے رہتے ہیں جو تنقید و تحقیق کے میدان سے تعلق رکھنے والے اہل علم حضرات اور محققین کے لئے راہ راست کا باعث بنتے ہیں۔ سینکڑوں قسم کے رسائل میں کسی خاص موضوع کوتلاش کرناآسان کام نہیں ۔ اس صورت میں صرف اشاریہ ہی ایک فرد کی صحیح رہنمائی اور رہبری کر سکتا ہے اور کئی دن ،مہینوں یا سالوں کی تحقیق و جستجو کے باوجود نہ ملنے والے مواد کی تلاش چند منٹو ں کی جا سکتی ہے۔ کس رسالے اور کس جگہ مواد دستیاب ہے بآسانی اس کا پتہ لگا یا جا سکتا ہے۔ ایک محقق اپنی تحقیق کو نقطہ آغاز سے انجام تک پہنچانے کے لیے کیسے کیسے دقیق مراحل سے گزرتا ہے،کس قدر عرق ریزی سے مواد مہیا کرتا ہے اور حوالہ جات کو تلاش کرنے نیز انہیں محفوظ کرنے کے لیے کتنی اور کیسی جاں توڑ محنت کرتا ہے کچھ اسی کو معلوم ہوتا ہے ۔ لیکن ایک اشاریہ اور اشاریہ ساز محقق کی مذکورہ دشواریوں کو نہ صرف آسان کر دیتا ہے۔ بلکہ اشاروں اشاروں میں ایک ایسی حوالجاتی دنیا بسا دیتا ہے جو محقق کے خوابوں کو تعبیر سے آباد ہونے میں غیر معمولی تعاون عطا کرتی ہے۔ یہی رسائل و جرائد کتب خانہ کی زینت بنتے ہیں، کتب خانے کو روشن کرتے ہیں اور ان کو محفوظ رکھنے کی ضمانت بھی کتب خانہ یا لائبریری ہی دے سکتا ہے۔کچھ وقت بعد یہ رسالے جلد شکستہ ہو جاتے ہیں ان کا کاغذ ٹوٹنے وپھٹنے لگتا ہے اس صورتِ حال میں اشاریہ ہی اہم ماخذ کی حیثیت رکھتا ہے وہ اس معنوں میں کہ اگر کسی کتب خانے میں دستیاب رسالہ بری یا بوسیدہ حالت میں ہیں یہاں تک کہ اس میں درج عبارت کو پڑھنا مُحال ہے تو اسی رسالے کے،اسی شمارے ،اسی مضمون یا اسی عبارت کو صرف اور صرف اشاریہ کی مدد سے ہی کسی دوسرے کتب خانے میں بآسانی اور بنا کسی پریشانی کے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اس لیے لازمی بنتا ہے کہ یونیورسٹیاں اور دیگر تعلیمی ادارے اپنے یہاں کتب خانوں میں بھی موجود رسائل و جرائد کے اشاریے تیار کرنے کا اہتمام کریں۔ صرف ایک مضمون کوقلم بند کرنے سے اتنے اچھے موضوع پر خامہ فرسائی اس بات کی گواہی نہیں دیتی کہ اس کی حق شناسی ادا ہو گئی بلکہ یہ اس کے ساتھ حق تلفی ہو گی۔ ابھی تک ہندوپاک میں جن اردو رسائل کے اشاریے تیار کیے گئے ہیں ان سبھی پر اور ان سب کی خدمات کو ایک مضمون میں لکھنا مناسب تو نہیں ہے تاہم راقم ا لحروف کو جن دستیاب رسائل کے اشاریوں سے سابقہ پڑا ان کی تفصیل ذیل میں پیش کی جارہی ہیں۔
1۔ اشاریہ ماہنامہ "تہذیب الاخلاق" (علی گڑھ)
تہذیب الاخلاق کو سر سید احمد خان نے 1870ء میں جاری کیا تھا۔ اس رسالے کے جاری کرنے کا مقصد مسلمانوں کی اصلاح کے ساتھ ساتھ ترقی تعلیم سے آگاہ کرنا تھابلا شبہ اس رسالے نے یہ مفید خدمت انجام دی ۔اس کے ساتھ اس نے مسلمانوں کے تہذیبی و تمدنی جلو ؤں کو پیش کرنے اور ان پر جو گرد اڑائی جا رہی تھی اسے صاف کرنے کی کوشش کی۔اردو زبان و ادب کی ترقی اور اس کے فروغ و اشاعت میں بھی اس کا نمایاں کردار رہا ہے۔
اس کا اشاریہ " مندرجات تہذیب ا لا خلاق"کے نام سے ڈاکٹر ضیا ء ا لدین انصاری نے مرتب کیا ، جو 1870ء کی اشاعتوں پر مشتمل ہے اس کی ترتیب عنوانات اور مصنفین کی الف بائی ترتیب پر ہے ، جا بہ جا نوٹ بھی فاضل مرتب نے لکھ کر اس سے استفادہ کو مزید آسان بنانے کی کوشش کی ہے، البتہ موضوعات کے لحاظ سے بھی اس کے مندرجات کی تفصیل ہونی چاہئے تھی ۔ اس سے گو ضخامت بڑھ جاتی ، لیکن استفادہ مزید آسان ہو جاتا۔ اس کے بعد علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے "رسالہ تہذیب ا لاخلاق کا توضیحی اشاریہ" کے نام سے آفتاب عالم نے 1991ء میں اس کا دوسرا اشاریہ 1870ء سے 1876ء تک ترییب دیا۔لیکن یہ سلسلہ یہی نہیں تھما بلکہ اس کے کچھ سال بعد ہی فرح تبسم نے"رسالہ تہذیب ا لاخلاق کا توضیحی اشاریہ" کے نام سے اس رسالے کا تیسرا اشاریہ1997ء میں 1879ء سے 1894 ء تک کے شماروں پر ترتیب دیا۔اوالذ کے بعد کے دونوں اشاریے غیر مطبوعہ حالت میں ہے ۔ضرورت اس بات کی ہے کہ انہیں سائنسی طریقوں اور اصولوں وضابطوں کے مطابق ترتیب دے کرشائع کر کے منظر عام پر لایا جائے۔تاکہ تحقیقی میدان سے وابستہ افراد مذکورہ اشا ریوں سے مستفید ہو جائیں۔
2۔ اشاریہ ماہنامہ "معارف" (اعظم گڑھ)
ماہنامہ" معارف" اعظم گڑھ اردو کا سب سے اہم اور معیاری علمی و تحقیقی رسالہ ہے ۔اِسے علامہ شبلی نعمانی کی خواہش کے مطابق سید سلیمان ندوی نے اپنی ہی ادارت میں دارالمصنفین،اعظم گڑھ سے جولائی1916ء/ رمضان1334ھ میں جاری کیا۔یہ ماہنامہ تب سے آج تک بڑی آب و تاب کے ساتھ مسلسل شائع ہو رہا ہے ۔ اس کی ایک طویل اور شان دار تاریخ ہے ۔ علم و فن کا شاید ہی کوئی ایسا گوشہ ہو جس پر معارف میں اظہار خیال نہ کیا گیا ہو ۔اس کی حیثیت علوم اسلامیہ کی ایک اردو انسائیکلوپیڈیاسے کم نہیں۔علامہ اقبال نے ایک خط میں لکھا تھاکہ " اس سے حرارت ایمانی میں تازگی پیدا ہوتی ہے" ۔ معارف کی ضرورت و افادیت کے پیش نظر اور اس کے محفوظ سرمایہ علم تک رسائی حاصل کرنے کے لیے اس کااشاریہ ترتیب دیا گیا ۔ اس سلسلے میں سب سے پہلی کوشش ڈاکٹر رضا بیدار نے کی ۔انھوں نے معارف کا 1916ء سے 1970 ء تک کا اشاریہ مرتب کر کے شائع کیا۔اس اشاریہ کی تقدیم و ترتیب ثانی شائستہ خان نے انجام دی۔ اس کی ترتیب موضوعاتی ہے۔ترتیب میں مندرجات کو 27 خانوں میں پھانٹ دیا گیا ہے اور ان کے عنوان دے دئیے گئے ہیں ان کی مزید ذیلی تقسیم بھی ہوئی ہے مگر یہ سرخیوں کے ساتھ نہیں ہے۔اشاریہ میں سب سے پہلے مقالہ کا عنوان ہے۔ پھر بریکیٹ میں مصنفین کا نام ، پھر رسالہ کی جلد اور شمارہ کا حوالہ۔ مقالہ کا عنوان اگر خود توضیحی نہیں ،تو نیچے ایک لکیر دے کر اس کے بارے میں مختصر سی وضاحت کر دی گئی ہے۔ مصنف کا نام نہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ یا تو وہ اداریہ ہے، یا مدیر ہی کا مقالہ۔ ماہ و سال اور صفحات کا اندراج نہیں کیا گیا ہے۔مذکورہ اشاریے میں اگر چہ سائنسی اصولوں کی مکمل طور پر پیروی نہیں کی کی گئی ہے لیکن اشاریہ ہر حالت میں محققین کو ٹھوکر کھانے سے محفوظ رکھ سکتا ہے۔
ماہنامہ معارف کا دوسرا اشاریہ محمد سہیل شفیق" تاریخ اسلام کراچی یونیورسٹی" نے مرتب کیا ۔ اس میں 1916ء سے 2005 ء تک کے مضامین کا احاطہ کیا گیا ہے ۔ ترتیب میں جولائی 1916ء سے جون 2005ء تک کے مقالات کے عنوانات اور مقالہ نگاروں کے نام زمانی ترتیب کے مطابق جلد ، شمارہ اور ماہ وسال کی تعیین کے ساتھ اور پھر موضوعات کے لحاظ سے ان کا اندراج کیا گیا ہے۔اس کے بعد اشارےۂ مصنفین ہے۔یہ اشاریہ گذشتہ اشاریہ کے مقابلے زیادہ مبسوط ہے۔لیکن اس میں بھی جدید اصول اشاریہ سازی کے لحاظ سے کمیاں راہ پا گئی ہیں۔معارف کا تیسرا اشاریہ ڈاکٹر جمشید احمد ندوی نے مرتب کیا ہے جو معارف کے جو لائی 1916ء سے دسمبر 2011 ء تک کے سبھی شماروں کا احاطہ کرتے ہیں۔یہ جلد اول با اعتبار مضامین ہے اس کی ضخامت 723 صفحات پر مشتمل ہے۔ اس اشاریہ کو مضامین ، مضمون نگار اور موضوعات کے عناوین کے تحت تقسیم کیا گیا ہے اور ہر عنوان کے لیے ایک جلد مختص کی گئی ہے۔ پہلے دونوں اشاریوں کی بہ نسبت اس اشاریہ کو سائنسی اصولوں کے مطابق ڈھالا گیا ہے۔مضمون ، مضمون نگار ، جلد ، شمارہ ، ماہ و سال اور صفحات سب چیزوں کا اندراج کیا گیا ہے۔
2016ء کا سال معارف کے قارئین کے لئے اس اعتبار سے بھی خوش آیند ہے کہ اسی سال اس کی ایک صدی(سنچری) یعنی سو سال پورے ہوجاتے ہیں۔ ان سو سالوں میں معارف میں کس کس نے لکھا؟کیا لکھا؟ کس جلد اور کس شمارے میں شائع ہوا؟ سنِ اشاعت یعنی ماہ و سال کیا تھا؟مضمون کی ضخامت کیا تھی؟ کن موضوعات پر لکھا گیا؟ غرض یہ ساری معلومات ہمیں ایک ہی جگہ "اشاریہ معارف" میں مل جاتی ہے۔تحقیق کو استحکام بخشنے اور ساتھ ساتھ دیرپا اور پائیدار بنانے میں یہ اشاریائی کتاب معاون ثابت ہوسکتی ہے۔
3۔ اشاریہ ماہنامہ "نگار" (لکھنؤ)
رسالہ "نگار" کا اجراء اردو ادب کے ایک ممتاز ادیب ،افسانہ نگار، شاعر،نقاد، دانشور، صحافی، انشائیہ نگاراور محقق جناب نیاز فتحپوری نے 1922ء میں لکھؤ سے کیا۔نیاز فتحپوری کی زندگی کا سب سے بڑا اور اہم کارنامہ "نگار"کو ہی شمارکیاجاتا ہے۔جو مسلسل چوالیس(44)برسوں تک ہندو پاک کی سر زمین کو شاداب وسیراب کرتا رہا۔رسالہ نگار کی عمر ہندوستان میں کافی طویل رہی۔جب کہ پاکستان میں اس کی عمر صرف چار سال رہی۔نگار کا سفر 1922ء سے 1966ء تک محیط ہے۔ جس میں چالیس سال ہندوستان اور چار سال پاکستان میں اس کی اشاعت ہوتی رہی۔لیکن یہ بات ذہن نشین کرنی لازمی ہے کہ آزادی 1947ء تک دونوں ممالک کے لوگ نگا ر سے مستفید ہوتے رہیں۔ پاکستان میں نگار کی اشاعت کی وجہ یہ تھی کہ نیاز فتحپوری 1962ء میں پاکستان ہجرت کرگئے تھے۔ نگار نے 1962ء تک کل 36 خاص نمبر شائع کیے جن میں مومن نمبر،بہادرشاہ ظفر نمبر،غالب نمبر،اردو شاعری نمبر،مصحفی نمبر،نظیر نمبر،انتقاد نمبر،افسانہ نمبر،حسرت نمبر، داغ نمبر ،اقبال نمبر وغیرہ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔نگار میں اردو ادب کی تقریباً ہر صنفِ ادب سے متعلق مضامین شائع ہوتے رہیں۔لیکن آج ادب کا ایک طالب علم جب کسی موضوع پرقلم اٹھا تا ہے کہ نگار کے اوراق پر اس کو ماضی کی تمام حکایتیں اور واقعات کی معلومات یکجا مل جاتی ہیں۔لیکن چالیس سال کی فائل یعنی تقریباً پونے پانچ سو شماروں سے اپنے مواد کو تلاش کرنا ریسرچ اسکالر کے لیے ناممکن نہیں تو دشوار ضرور ہے۔لہٰذا نگار کی علمی ، ادبی، لسانی اور مذہبی افادیت کے پیشِ نظرجناب ڈاکٹر عطا خورشید نے چالیس سال کے عرصے پر محیط نگار کاایک جلد میں "اشاریہ "تیار کیا ہے۔یہ ایک موضوعاتی اور وضاحتی اشاریہ ہے ۔جس میں انھوں نے مضامین کو موضوعات کے اعتبار سے تقسیم کر دیا ہے۔ہر اُس عنوان کو جس سے موضوع کی وضاحت نہیں ہوتی ہے ایک دو جملوں میں وضاحت کر دی گئی ہے۔موضوعات کی تقسیم سہل سے سہل تر بنانے کے لیے بنیادی موضوع کے تحت تمام عنوانات کو یکجا کر دیا گیا ہے پھر ان عنوانات کومختلف موضوعات کے تحت رکھا گیا ہے پھر اسے شاخوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔مثال کے طور پر تنقیدی موضوعات کو ذیلی عنوانات جیسے خصوصی تنقید اور عمومی تنقید میں تقسیم کر دیا گیا ہے۔شاعری میں تمام موضوعات کو الفبائی ترتیب سے پیش کیا گیا ہے۔ادب کو مشرقی ادب اور مغربی ادب کے حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے اور پھر ان کو بھی ذیلی عنوانات میں تقسیم کیا گیا ہے۔جن موضوعات کے تحت اشاریہ نگار کو ترتیب دیا گیا۔ ان میں چند درج ذیل ہیں جیسے۔۔۔ اخلاقیات، ادب، اسلامیات، اشتراکیت، اقتصادیات، انسانیات، پاکستان، تاریخ، تذکرے، تعزیرات، تعلیمات، تقویم، تنقید، جغرافہ، جفر، خیل، حیاتیات، دست شناسی، روحانیات، ریاضی، زراعت، سائنس، صحافت، لسانیات وغیرہ۔ اندراجات میں عنوان،مقالہ نگار کا نام اور ماہ و سال وغیرہ درج ہے جب کہ نمبر شمار،جلد نمبر اور صفحات کی نشاندہی نہیں کی گئی ہے۔
4۔ اشاریہ ماہنامہ "جامعہ" (دہلی)
رسالہ جامعہ کا شمار ہندوستان کے چندگنے چنے ماہناموں میں ہوتا ہے ۔اس ماہنامے کااشاعت 1923ء میں عمل میں آئی ۔ یہ رسالہ ذاکر حسین انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک اسٹڈیز، جامعہ ملیہ اسلامیہ کی وساطت سے آج بھی بڑی شان اور جاہ و جلال کے ساتھ نکلتا ہے۔اس طرح 93 سال سے استقلال کے ساتھ اردو علم و ادب کی خدمت انجام دینے میں پیش پیش ہے۔اس کا پہلا شمارہ جنوری 1923ء میں علی گڑھ سے نورالرحمٰن اور شریک مدیر ڈاکٹر یوسف حسین خان کی ادارت میں شائع ہوا۔اس کے بعد بھی "جامعہ" کی ادارت ہمیشہ اردو ادب کے بڑے بڑے لوگ سنبھالتے رہے ہیں۔ جن میں مولانا اسلم جیراجپوری، ڈاکٹر سید جمال الدین، ڈاکٹر صغرا مہدی،ڈاکٹر سید عابد حسین،پروفیسر ضیاء الحسن فاروقی، پروفیسر نورالحسن ہاشمی،پروفیسر یوسف حسین خاں وغیرہ حضرات شامل ہیں۔"جامعہ" نے اپنے علمی اور ادبی مضامین اور یادگار سالناموں کی بدولت بڑی شہرت و مقبولیت پائی ہے۔رسالہ جامعہ کا سب سے پہلا اشاریہ خدا بخش اورینٹل پبلک لائبریری ،پٹنہ نے 1995ء میں شائع کیا ۔اسے شعائر اللہ خاں نے اپنے دو رفقائے کار کی مدد سے مرتب کیا ہے ۔ اشاریہ دو حصوں پر مشتمل ہے ۔پہلا حصہ اشاریے کا متن ہے ۔ جس میں شماروں کے جملہ مندرجات کو ادب،اخلاقیات، تاریخ، تذکرہ، کتب خانے اور ہندوستانی مسلمان جیسی چند موضوعی سرخیوں کے تحت الفبائی ترتیب سے درج کیا گیا ہے۔ کسی ایک سرخی کے تحت مقالات، افسانے، کہانیاں وغیرہ کو الفبائی تسلسل میں درج کیا گیا ہے۔مضمون کی نشاندہی کے لئے جلد نمبر و شمارہ نمبر،سن و مہینہ کی تفصیل دی گئی ہے۔لیکن صفحات کے نمبر شمار نہیں دیے گئے ہیں۔ اشاریے کا دوسرا حصہ مصنف وار ہے جس میں مصنف کے نام کے سامنے متنِ اشاریہ میں اس کے مضمون کا نمبر درج کیا گیا ہے ۔
رسالہ جامعہ کا دوسر ا اشاریہ فرزانہ بی بی نے اپنے پی۔ ایچ ۔ ڈی تھیسس کے طور پر مرتب کیا ہے جس کا عنوان "رسالہ جامعہ کا تنقیدی اشاریہ "ہے ۔اس اشاریے میں انھوں نے متنِ اشاریہ کو آٹھ موضوعی عنوانات کے تحت تقسیم کیاہے۔ جیسے شذرات ، تعلیمی ، تاریخی ، تہذیبی ، سیاسی ، شخصی ، اور ادبی مضامین ہے۔ہر عنوان کے تحت پہلے مضامین عنوانات کی الفبائی ترتیب ہے اس کے بعد چند مضامین پر وضاحتی انداز سے چند سطری نوٹ ہیں۔اشاریہ میں مصنفِ اشاریہ نہ ہونے کی وجہ سے اس کی حوالجاتی افادیت کم ہو جاتی ہے۔موضوعی عنوانات بھی مضامین کی وضاحت نہیں کرتے ۔ مثال کے طور پر شذرات ، ادب ،سیاست ، تہذیب و تاریخ کسی بھی موضوع پر ہو سکتا ہے لیکن بذاتِ خود کوئی موضوع نہیں ہوسکتا ہے۔شخصی مضامین کو بھی سیاسی ، تاریخی ، ادبی مضامین وغیرہ کے عوانات کے تحت فرد کے دائرہ اختصاص کے مطابق درج کرنا زیادہ مناسب تھاجو کہ اس کے برعکس ہے۔ذکر کیے گئے دونوں اشاریے جامعہ کے دورِ اول یعنی 1923ء تا 1947ء تک شائع شدہ مندرجات کا احاطہ کرتے ہیں ۔ رسالہ جامعہ کا تیسرا اشاریہ محفوظ ا لرحمان خاں سابق ڈپٹی لائبریرین ڈاکٹر ذاکر حسین لائبریرین نے بھی مرتب کیا تھا جس میں 1989ء تک کے مندرجات کا احاطہ کیا گیا ہے ۔ لیکن کسی وجہ سے وہ اشاریہ شائع نہیں کیا جا سکا۔
رسالہ جامعہ کا تیسرا مطبوعہ اشاریہ " اشاریہ رسالہ جامعہ " کے عنوان سے جنوری 2012ء میں شائع ہوا۔یہ ضخیم اشاریہ پانچ جلدوں پر مشتمل ہے جس کے مرتب ڈاکٹر شہاب الدین انصاری ہیں اور اس کو شائع کرنے کا شر ف ذاکر حسین انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک اسٹڈیز کو حاصل ہے ۔ یہ اشاریہ پچھلے سبھی اشاریوں کے بہ نسبت مبسوط اور جدید اصولوں اور تقاضوں کے مطابق تیار کیا گیا ہے۔اشاریہ رسالہ جامعہ 1923ء تا 1947ء اور 1960ء تا 2008ء کے سبھی مطبوعہ شماروں کا احاطہ کرتا ہے۔اس اشاریے کو چار حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے ۔پہلا حصہ رسالہ جامعہ کی طباعتی تفصیلات جیسے جدول اشاعتی تفصیلات،رسالہ جامعہ کے خاص نمبر، رسالہ جامعہ کے خاص عنوانات ،رسالہ جامعہ کے مدیران اور ارکانِ مجلس مشاورت، رسالہ جامعہ کے مدیران مع مدتِ ادارت وغیرہ پر مشتمل ہیں۔ دوسرا حصہ مقالات، موضوعی اشاریہ مقالات،اشاریہ مترجمین و مرتبین مقالات، تیسرا حصہ اشاریہ اردو کلام،شعری تخلیقات اردو،اشاریہ فارسی کلام،تعلیمی دنیا و تعلیمی مسائل،اشاریہ احوال و کوائف جامعہ وغیرہ ، چوتھا حصہ ضمیمہ برائے اشاریہ 1994ء تا 2008ء پر مشتمل ہیں جس میں اداریے شمیم حنفی،مضامین،اشاریہ تخلیقی ادب،تبصرے، کتابیات،وغیرہ شامل ہیں۔اس کی ترتیب میں سائنٹفک اصولوں اور ضابطوں کو ملحوظ نظر رکھا گیا ہے۔
5۔ اشاریہ ہفتہ وار "سچ"(لکھنؤ)
مولانا عبد ا لماجد دریا آبادی نے 1925ء میں ہفتہ وار سچ جاری کیا۔مولانا صاحب کے ساتھ رسالے کی ادارت میں مولوی عبدالرحمٰن نگرامی اور حاجی ظفرالملک لکھنوی بھی تھے۔ لیکن بعد میں ان دونوں صاحبان نے رسالے سے اپنا تعلق منقطع کیا اور پھر مولانا نے رسالے کا بھار اکیلے کاندھوں پراُٹھایا ۔نو سال بعد جب 1933ء میں جب انھوں نے تفسیرقرآن کا منصوبہ بنایاتواسے پاےۂ تکمیل تک پہنچانے کے لیے سچ کو نکالنا بندکر دیا ۔ اس مختصر مدت کے باوجود سچ کا شمار ان رسائل میں ہوتا ہے جنھوں نے ایک بہت وسیع حلقے کو متاثر کیا ۔ ضرورت تھی کہ اس کا اشاریہ تیار کیا جائے ۔چنانچہ مولانا مرحوم کے عزیز جناب عبد ا لعلیم قدوائی نے یہ نیک کام انجام دیا ہے جس سے خدابخش اورینٹل پبلک لائبریری، پٹنہ نے2000ء میں شائع کیا ہے۔اس اشاریہ کی ضخامت 578 صفحات ہیں۔ اس میں عنوانات اور مصنفین کے لحاظ سے تفصیلات درج نہیں کی گئی ہیں۔تاہم فاضل مرتب نے توضیحی نوٹ کے ذریعے اس کی افادیت میں ضرور اضافہ کیا ہے۔ہفتہ وار سچ کا توضیحی اشاریہ اپنی نوعیت کے لحاظ سے یقیناً مفید ہے تاہم جدید اشاریہ سازی کے مقابلے میں اس کی افادیت کم تر ضرور ہے ۔ اگر توضیحات کے ساتھ عنوانات اور مصنفین کا بھی اشاریہ ہوتا تو اس کی افادیت دو چند ہوجاتی۔ فاضل مرتب نے موضوعات میں تنوع کے باوجود انتہائی محنت اور عرق ریزی سے یہ اشاریہ مرتب کیا ہے بالخصوص توضیحات و تشریحات میں انھوں نے جو کاوش کی ہے وہ لائق تحسین ہے۔
6۔ اشاریہ ہفتہ وار "صدق "(لکھنؤ)
سچ کے بعد مولانا عبد ا لماجد دریا بادی نے مئی 1935ء میں ہفتہ وار صدق جاری کیا ۔ یہ اصلاً سچ کا نقش ثانی تھا تاہم بنیادی طور پر یہ سچ سے جدا ایک اہم علمی ، ادبی اوراصلاحی پرچہ تھا ۔ "صدق"اگست 1950ء تک جاری رہا۔ اس کی سترہ سالہ زندگی میں ملکی اور سیاسی حالات میں بڑے نشیب و فراز آئے۔ملک تقسیم ہوا ، اردو غداروں کی زبان ٹھہری۔ لیکن مولانا اپنے مشن پر ثابت قدم رہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کا شمار ہندوستان کے اہم رسائل میں ہوتا ہے۔ جناب عبد ا لعلیم قدوائی نے سچ ہی کی طر ح صدق کا بھی تجزیاتی اورتوضیحی اشاریہ تیار کیا ہے ۔سچ کے اشاریہ کی طرح "صدق" کا اشاریہ بھی عبدالعلیم قدوائی نے ہی ترتیب دیا ہے۔اپنے پیش رو سچ کی طرح صدق بھی ایک نیم مذہبی،ادبی، علمی اور اصلاحی پرچہ رہا۔اس میں تمام اندراجات کوبنیادی طور پرموضوع کے اعتبار سے ترتیب دیا گیا ہے۔قدوائی صاحب نے اسے بڑی محنت اورژرف نگاہی سے تیار کیا ہے۔اس کی کماحقہ داد وہی حضرات دے سکتے ہیں جو اس فن سے واقفیت رکھتے ہیں اور اس کی باریکیوں کو سمجھتے ہیں۔ اس میں بھی فاضل مرتب نے موضوعات کی ایک طویل فہرست کے تحت مضامین و مقالات ، خبریں ، مراسلے ، تذکرے ، تبصرے علٰحیدہ علٰحیدہ درج کیے ہیں۔ مستقل عنوانات مثلاً سچی باتیں وغیرہ پر جو توضیحی نوٹ قلم بند کیے ہیں۔ موضوعات میں اخلاقیات،ادباء ،تذکرے، اردو ادب، اردو شاعری،اسلام اور دیگر مذاہب،اسلام تاریخ،اسلامیات،اسلامی ادارے وغیرہ کو بڑی خوبی سے ترتیب دیا گیا ہے۔نمبر شمار،عنوان،مضمون نگار،جلد نمبر،شمارہ نمبر اور صفحہ نمبر کے اندراج سے علماء و دانشور حضرات کے مقالات و نگارشات سے پوری آگاہی حاصل ہو جاتی ہے۔ جس سے یقیناً اشاریہ کی اہمیت دو چند ہوگئی ہے۔
7۔ اشاریہ ماہنامہ "برہان" (دہلی)
ماہنامہ" برہان" کی حیثیت بھی انسائیکلوپیڈیا سے کم نہیں۔اس کا پہلا شمارہ جولائی 1938ء میں سعید احمد اکبر آبادی کی ادارت میں شائع ہوا۔اس کے بعد مفتی عتیق الرحمٰن عثمانی اور مولوی محمد ظفر احمد خاں ادارہ برہان کے ساتھ وابستہ رہیں۔حالانکہ یہ رسالہ تقریباً 2001ء تک مسلسل شائع ہوتا رہا لیکن اس عرصہ میں اس نے علم و فن کی مختلف موضوعات پر بلند پایہ علمی و تحقیقی نگارشات شائع کیں۔موضوعات اور مستقل عنوانات میں اس میں اور ماہنامہ معارف میں بڑی حد تک یکسانیت پائی جاتی ہے۔ اہمیت اور افادیت کے پیش نظر خدا بخش لائبریری نے معارف کے بعد اس کا اشاریہ بھی مرتب کر کے اپنے جرنل (شمارہ 103، 1996ء) میں شائع کیا۔اس اشاریہ کوبعد میں تصحیح و ترتیب، متن میں ضروری اضافے اور اشاریہ مصنفین کتابی صورت میں مولانا آزاد لائبریری ، علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کی اُس وقت کی مہتمم ڈاکٹر شائستہ خان نے دوبارہ شائع کیا۔
اس اشاریہ کی ترتیب بھی اشارےۂ معارف کے طرز پر موضوعاتی ہے۔اس کے مختلف النوع موضوعات میں مذاہب،قرآنیات،حدیث،فقہ، اسلام، فلسفہ وکلام،متعلقاتِ اسلام، سیاسیاتِ ہندوستانی مسلمان، معاشیات،تعلیم، نفسیات، سماجیات،طب، صحافت، اردو ادب، شاعری،ابولکلام آزاد،اقبال،فارسی ادب، عربی ادب وغیرہ شامل ہیں۔اشاریہ کی ترتیب اس طرح ہے۔ پہلے مضمون کاعنوان ، پھر قوسین میں مقالہ نگار کا نام ، اس کے بعد جلد نمبر، اور آخر میں شمارہ نمبر کا اندراج کیا گیا ہے۔ ماہ و سال اور صفحات کی نشاندہی نہیں کی گئی ہے ۔ آخر میں اشاریہ مصنفین ہے جس میں مقالہ نگاروں کے نام الف بائی ترتیب پر دیے گئے ہیں اور نمبر شمار سے ان کا حوالہ دیا گیا ہے۔ اکثر عنوان خود توضیحی ہیں، لیکن جہاں جہاں کہیں ایسا نہیں ہے وہاں مختصراً مضمون کے بارے میں چند لفظوں میں وضاحت کر دی گئی ہے یعنی جابجا وضاحتی نوٹ بھی لکھے گئے ہیں جس میں مطلوبہ مواد بآسانی تلاش کیا جا سکتا ہے۔برہان کا یہ اشاریہ 1965ء تک کا ہے ۔ ضرورت ہے کہ اس اہم علمی و دینی مجلہ کا مکمل اشاریہ جدید اصولوں کے مطابق مرتب کیا جائے ۔
8۔ اشاریہ ماہنامہ "معاصر" (پٹنہ)
صوبہ بہار کے ادبی افق سے "معاصر" کے عنوان سے ایک ایسا ستارہ طلوع ہوا جو دیکھتے ہی دیکھتے انتہائی روشن اور تابناک بن گیا۔غالباً بہار میں فلک صحافت پر نمودار ہونے والے کہکشاں میں سب سے زیادہ درخشاں ستارہ ’معاصر‘ہی ہے۔جس کی ادارت ابتداء سے ہی اردو کے معروف قلمکاروں نے سنبھالی۔ اس کے پہلے مدیر ڈاکٹر عظیم الدین احمد تھے۔اُن کی وفات کے بعد اس کی بھاگ ڈور ڈاکٹر عبدالمنان بیدل نے سنبھالی۔ بیدل عظیم آبادی نے کافی عرصے تک مدیر کی حیثیت سے اس کے فرائض انجام دیے۔ جبکہ ان کی وفات کے بعد کلیم الدین احمد اس کے آخر یعنی 1983ء تک مدیر اعلیٰ رہے۔ اپنے اشاعتی سفر کے دوران اگر چہ رسالے کی اشاعت میں کئی بار رخنہ پڑا تاہم رسالہ ’معاصر‘ نے اردو ادب کے میدان میں جو خدمات انجام دی وہ قابلِ ستائش ہے اور اس بات کو فراموش بھی نہیں کیا جا سکتا ۔ رسالے کی اہمیت کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اس کا اشاریہ تیار کرنا لازمی بنتا تھا۔بہار کی نامور اور معروف علمی شخصیت ڈاکٹر نوراسلام نے پٹنہ کے اس انتہائی اہم رسالے کے مندرجات کا اشاریہ تیار کیا ہے جسے خدا بخش اورینٹل پبلک لائبریری کو شائع کرنے کا فخر حاصل ہے۔’معاصر‘ آج سے چھہتر(76) سال قبل نومبر 1940ء میں جاری ہوا تھا۔ یہ اصلاً دائرہ ادب پٹنہ کا ترجمان تھا۔ اس میں اعلیٰ معیار کے علمی و ادبی، تحقیقی و تنقیدی مضامین شائع ہوتے تھے۔ڈاکٹر نوراسلام نے ہر لحاظ سے ’معاصر‘ کا مکمل اور جامع اشاریہ تیار کیا ہے۔اشاریے کی ترتیب و تہذیب میں فاضل مرتب نے لائبریری سائنس کے اصول و قواعد کو پوری طرح ملحوط رکھا ہے۔ جس سے اردو کے اشاریائی ادب میں اِسے ایک منفرد مقام حاصل ہوگیا ہے۔یہ اشاریہ اول سے آخر تک ’معاصر‘ کے حوالے سے اہل قلم حضرات کی رہنمائی کرتا ہے۔رسالہ’ معاصر ‘کے اشاریہ کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے پہلے حصے میں تمام مندرجات کو موضوعات کے تحت درج کیا گیا ہے ان موضوعی عنوانات کو ابجدی ترتیب سے درج کیا گیا ہے ۔ان کے تحت مضامین وغیرہ کی ذیلی ترتیب بھی ابجد کے اعتبار سے ہے ۔ موضوعات کی الفبائی ترتیب میں دو مقامات پر اصول سے انحراف کیا گیا ہے ۔ایک اداریے کے اندراج میں اور دوسرے متفرقات کے مقام کے تعین میں ۔دوسرے حصے میں ان ہی تمام اندراجات کو مصنفین کے تحت درج کر دیا گیا ہے اور ذیلی ترتیب عنوانات کے تحت کی گئی ہے ۔ یہاں بھی تمام اندراجات کے لیے ابجدی ترتیب کو ہی پیشِ نظر رکھا گیا ہے ۔ یہ دونوں حصے مل کر ہی اشاریے کو مکمل اور قابل استفادہ بناتے ہیں۔باقی اگر مجموعی ترتیب پر ہماری نظر پڑھتی ہے تونمبر شمار، عنوان مضمون ، مضمون نگار، جلد، شمارہ ، ماہ و سال اور صفحات کی پوری تفصیل ’معاصر‘ کے اشاریے میں موجود ہیں۔ہر مضمون کے ساتھ ساتھ دو،چا ر چار سطور میں وضاحتی نوٹ بھی پیش کئے گئے ہیں جس سے مضمون کی صراحت ہو جاتی ہے۔
9۔ اشاریہ ماہنامہ "آجکل "(دہلی)
"آجکل" اردو کا ایک تاریخ ساز رسالہ ہے۔یہ رسالہ ادارہ"یونائیٹڈ پبلی کیشنزڈویژن" سے 5 مئی 1941ء کو منصۂ شہود میں آیا۔ابتدا میں یہ پشتو زبان میں "نن پرون" کے نام سے شائع ہوتا تھا ۔ لیکن بعد میں لوگوں کی دلچسپی کو دیکھتے ہوئے اس رسالے کا اردو ایڈیشن 10 جون 1942ء’آجکل‘ کے نام سے شائع کیا گیا۔جو کہ ’نن پرون‘ کا اردو ترجمہ ہے۔ (کچھ اہلِ قلم حضرات اس کا پہلا ایڈیشن 25 نومبر 1942ء لکھتے ہیں جو غلط ہے)۔پہلے یہ پندرہ روزہ جریدہ تھا اور ہر ماہ کی 10 اور 25 تاریخ کو جلوہ افروز ہوتا تھا لیکن بعد میں دسمبر 1949ء میں یہ رسالہ مستقل طور پر ماہنامہ ہوگیا۔’ آجکل ‘اب اپنے 75 ویں سال میں قدم رکھ چکا ہے جو کہ اس کی’ ڈائمنڈ جوبلی ‘کا سال بھی ہیں۔صحیح معنوں میں اس رسالے سے ادب کی جو خدمت ہوئی ہے اسے کبھی بھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ یہ رسالہ ادبی حلقے میں اپنی مکمل شناخت قائم کر چکا ہے۔مختلف اوقات میں اس کے ادارے سے آغا یعقوب دداشی، وقار عظیم،جوش ملیح آبادی،معین احسن جذبی،شان الحق حقی،جگن ناتھ آزاد، بلونت سنگھ، عرش ملسیانی،شہباز حسین،مہدی عباس حسینی اور راج نرائن راز، محبوب الرحمٰن فاروقی، حسن ضیاء، ابرار رحمانی وغیرہ جیسے ادیب، شاعر اور صحافی وابستہ رہے۔ جنھوں نے اس رسالے کو خوب سے خوب تر بنانے میں اپنا خونِ جگر صرف کیا ہے۔رسالہ آجکل میں اردو کی بیشتر اصناف سے متعلق موادشائع ہوتا ہے علم و ادب اور تحقیق کے موضوعات جتنے وسیع پیمانے پر آجکل کی زینت بنے وہ کسی اور رسالے کو میسر نہ ہو سکے جیسے مضامین، مقالے ،افسانے ، ڈرامے،ناول،خطوط، مزاحیہ،سفرنامے ، غزلیں، نظمیں وغیر ہ غرض اس کا دائرہ کار کااتناوسیع و عریض ہے جس کااحاطہ کرنا بہت مشکل ہے۔
’آجکل‘ جیسے معتبر اور مؤقرادبی جریدے کا اشاریہ ڈاکٹر جمیل اختر نے " اشاریہ آجکل" کے عنوان سے لکھا اور اردو اکاڈمی کے توسط سے 1988ء میں شائع کیا۔ اس کے مطابق 1988ء تک رسالہ آجکل سے کل75 خاص نمبر شائع ہوئے۔جس میں گاندھی نمبر، اردو نمبر، ابو الکلام آزاد نمبر،افسانہ نمبر،اقبال نمبر، امیر خسرو نمبر، بہادر شاہ ظفر نمبر،پریم چند نمبر ، حسرت موہانی نمبر،غالب نمبر،کشمیر نمبرعابد حسین نمبر،سجاد ظہیر نمبر،میر انیس نمبر،میر تقی میر نمبر وغیرہ وغیرہ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ اب تک اس کے خاص شماروں کی تعداد سو سے تجاوز کر چکی ہے۔ہندوستان میں کوئی رسالہ ایسا نہیں ہے جو آزادی کے پہلے سے اب تک اُسی آب و تاب سے نکل رہا ہو۔علم و ادب کے اس بیش قیمتی خزینے کا اشاریہ تیار کرنا یقینی بنتا تھا۔رسالہ آجکل کا اشاریہ تیار کرنے کا فریضہ ڈاکٹر جمیل اختر صاحب نے انجام دیا۔اس لیے اُن کے اس جستجوئے تحقیق کو سلام۔کیونکہ اب تک جتنے بھی اشاریے تیار کیے گئے تھے اُن میں کوئی نہ کوئی کمی ضرور پائی گئی۔یہاں تک کہ آج بھی یہ خامیاں اکثر اشاریائی کتابوں میں دیکھی جا سکتی ہے۔لائبریری سائنس کے اصولوں کو بروئے کا ر نہ لا کر کوئی بھی اشاریائی کتاب کامیابی کے زینے طے نہیں کر سکتی ۔ اس اشاریہ میں اگر چہ معتدد اصولوں کو ملحوظ رکھا گیا ہے تاہم کچھ کمیاں اس میں بھی رہ گئی ہیں۔ اشاریہ آجکل ابتداء سے 1986ء کے شائع شدہ 600 شماروں پر مشتمل ہے ۔اس میں ’آجکل‘ میں شائع شدہ مشتملات کو مختلف اصناف کے تحت تقسیم کر کے ان کے عنوانات کو حرفِ تہجی کے اعتبار سے مرتب کیا گیا ہے۔اس اشاریے میں مضامین کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے ۔ایک حصہ ادبی مضامین سے متعلق ہے اور دوسرا ادب کے علاوہ دیگر مضامین سے متعلق ہے ادبی حصے کا نام مقالے اور دوسرے کانام مضامین رکھا گیا ہے۔یہ جلد عنوانات کے اعتبار سے ترتیب دی گئی ہے۔’آجکل ‘جڑی ہر معلومات کو ترتیب کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔مدیران،نائب مدیران،سالنامے، خاص نمبرکی معلومات سے بھی مزین ہے۔عنوانات میں حصہ نثر، حصہ شعر، عالمی ادب(مختلف زبانوں کے افسانوی تراجم، ڈرامے، نظمیں،گیت)، علاقائی ادب(فلمیات، افسانے، ڈرامے، غزلیں، نظمیں، بچوں کا ادب)وغیرہ کو بڑی خوبی سے پیش کیا گیا ہے۔عنوانات میں درج اندراجات کو حروف تہجی کے اعتبار سے ترتیب دیا گیا ہے۔البتہ مدیران و نائب مدیران، اداریوں کو تاریخی اعتبار سے ترتیب دیا گیا ہے۔باقی ضروری اندراجات جیسے مضمون کا نام ، مضمون نگار، ماہ وسال اور صفحات کی تفصیل کو بھی پیش کیا گیا ہے۔لیکن جلد و شمارہ نمبر کا اندراج نہیں کیا گیا ہے۔جس کہ اس کی ایک کمی قرار دی جاسکتی ہے۔"اشاریہ آجکل‘ ‘کی دوسری جلد میں مشتملات کی ترتیب مصنف وار کی گئی ہے۔اس میں صرف اداریوں کا اشاریہ عنوان کے لحاظ سے نہیں ہے بلکہ جس طرح وہ ہر ماہ شائع ہوئے ، اُسی ترتیب سے اشاریہ میں شامل ہیں۔دوسری جلد 2000ء میں منظر عام پر آئی۔"اشاریہ آجکل" ایک ایسی ڈائرکٹری ہے جس سے 46 سال کے دوران’آجکل‘ میں شائع شدہ ہر نوع کے مواد کی مفصل معلومات حاصل کی جاسکتی ہیں اور حوالے کی اس کتاب سے کئی تحقیقی کتابیں معرضِ وجود میں آسکتی ہیں۔ یہ اشاریہ ایک ایسا آئینہ خانہ ہے جس میں مختلف النوع نظم و نثر اور ان کے مصنفین کے چہرے زیادہ روشن نظر آتے ہیں، اور ان کی شناخت بے حد آسان ہوجاتی ہے۔ ادب کا کوئی قاری اس اشاریہ سے صرفِ نظر نہیں کر سکتا۔
10۔ اشاریہ ماہنامہ "شاہراہ"(دہلی)
رسالہ "شاہراہ" دہلی سے شائع ہونے والا ایک معیاری رسالہ تھا بیسوی صدی کی نصف دہائی یعنی جنوری ،فروری 1949ء میں اس کا پہلا شمارہ شائع ہوااور 1960ء تک مسلسل شائع ہوتا رہا۔ترقی پسند تحریک کی حمایت کرنے والے اس رسالے کو ''ترقی پسند اردو مصنفین کا ترجمان ''سمجھا جا تا رہا ہے۔ترقی پسند تحریک کے زیراثرتخلیق ہونے والے ادب کی اشاعت کا ذمہ بھی رسالہ شاہراہ کے ہی سر تھا جس کو اس نے بخوبی نبھایا بھی۔ یہ ایک ترقی پسند رسالہ تھا جس کے ابتدائی شماروں کے سرورق پر''ترقی پسند مصنفین کا دو ماہی ترجمان''درج ہوتا تھا ۔ اس رسالے میں چند اہل قلم ایسے بھی تھیں جنھوں نے پہلی بار قلم اٹھایا اور ادبی دنیا میں اپنی گہری چھاپ چھوڑی۔اس مستند ،معتبر اور پُر وقار رسالے کا اشاریہ ترتیب دینے کا فخرنوشاد منظر کو نصیب حاصل ہوا۔جو پچھلے سال یعنی 2014ء کو منظر عام پر آیا ۔اس کی اشاعت ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس دہلی سے ہوئی۔اشاریے کو دو ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے۔پہلے با ب کا نام" شاہراہ کے مشمولات کا تجزیاتی مطالعہ" رکھا گیا ہے اوراس کے دوسرے باب میں "رسالہ شاہراہ کا اشاریہ "ترتیب دیا گیا ہے۔
رسالہ "شاہراہ" میں شائع ہونے والے مشمولات کو تخلیق کاروں کے نام سے حروف تہجی کے لحاظ سے مرتب کیا گیا ہے۔پہلے باب ہی میں شاہراہ کے مشمولات کا تجزیاتی مطالعہ بھی پیش کیا گیا ہے۔ ان مشمولات کو ضمنی عنوانات میں تقسیم کیا گیا ہے جیسے اداریے، مضامین ، نظمیں غزلیں، رباعیاں، افسانے،ناولیں اور تراجم نظمیں ۔کتاب کا دوسرا حصہ شاہراہ کا اشاریہ ہے۔ اس حصے میں اداریے ، مضامین نظمیں ، غزلیں، افسانے ، ناول ، ڈرامے وغیرہ کو کئی ضمنی حصوں میں تقسیم کرتے ہوئے اشاریہ تیار کیا گیا ہے۔ فہرست کو مصنف کے ناموں سے حروف تہجی کے اعتبا ر سے ترتیب دیا گیا ہے۔بہر حال نوشاد منظر صاحب نے اشاریہ رسالہ" شاہراہ "مرتب کر کے اردو ادب میں فنِ اشاریہ کے تئیں اپنی دلچسپی کا ثبوت پیش کر کے ایک عمدہ اور قابلِ تقلید کارنامہ سرانجام دیا۔موصوف کی اس خدمت کو سنہرے لفظوں میں یاد کیا جائے گا۔
11۔ اشاریہ ماہنامہ "تحریک"( دہلی)
ماہنامہ" تحریک" دہلی کی اشاعت کا آغاز مارچ 1953ء میں ہوا۔ او ر یہ رسالہ اس کے بانی مدیر گوپال متل کی سربراہی میں نکلنا شروع ہوا۔اور مسلسل سنہ 1981 ء تک نکلتا رہا۔رسالہ "تحریک"کا شمار اردو کے معتبر اور بلند پایہ رسالوں میں ہوتا ہے۔اس رسالے نے لگاتار 29 سال تک اردو ادب کی خدمت کی۔اور آخر کا ر 1981ء میں اس کی اشاعت کا سلسلہ مستقل طور پر منقطع ہوگیا۔ماہ نامہ" تحریک" میں مدیران کے فرائض اس کے بانی،ادیب ، صحافی اور شاعر جناب مرحوم گوپال متل نے ابتداً انجام دی۔ان کے بعد مخمور سعیدی، تمکین کاظمی اور پریم گوپال متل صاحب کے نام آتے ہیں۔رسالہ" تحریک" کو شہرت اور مقبولیت عطا کرنے میں اس کے مدیروں نے اپنا خونِ جگر صرف کیا ہے۔ماہنامہ" تحریک" دہلی نے کل 15 خاص نمبر شائع کیے۔ جن میں جگر نمبر، غالب نمبر، اقبال نمبر، بسمل سعدی نمبر،سلور جوبلی نمبر وغیرہ خصوصیت کے ساتھ قابلِ ذکر ہیں۔"تحریک" میں شائع ہونے والی نگارشات اور تخلیقات اس اعتبار سے خاص اہمیت کی حامل ہیں کہ وہ نہ صرف اپنے زمانے میں اپنے ہونے کا جواز رکھتی تھی بلکہ آج بھی علم و ادب سے سروکار رکھنے والوں کو سیراب کر رہی ہیں۔ اس اعتبار سے ماہ نامہ" تحریک" کا اشاریہ ترتیب دینااردو ادب سے وابستگان کے لیے ایک احسان تھا۔یہ فریضہ مطیع ا للہ خاں نے بڑی خوش اسلوبی کے ساتھ انجام دیا۔یہ اشاریہ 2011ء میں موڈرن پبلشنگ ہاؤس سے شائع ہو کر منظر عام آیا۔ماہ نامہ" تحریک" میں شائع ہونے والے مواد کو موضوعات کے اعتبار سے تقسیم کیا گیا ہے۔اشاریہ مصنف کے نام سے حروف تہجی کے اعتبار سے مرتب کیا گیا ہے۔ 431 صفحات کی یہ کتاب مکمل طور پر اردو ادب کی بیشتر اصناف سے متعلق تحریریں جیسے افسانے، ڈرامے، خاکے، رپوتاژ، نظمیں،غزلیں،رباعیات،قطعات،گیت،نوح، انشائیے وغیرہ کو منظر عام پر لانے میں کامیاب ہوا ہے۔اشاریہ میں مدیران ، خاص نمبر اور اداریے کی تفصیل زمانی اعتبارسے ترتیب دی گئی ہے۔جب کہ مضامین کو مصنف کے ناموں سے الفبائی ترتیب سے پیش کیا گیا ہے۔ اندراجات میں پہلے نمبر شمار، پھر مضمون نگار کا نام، ، عنوان ، ماہ و سال اور صفحہ نمبر کی ترتیب ہے۔غرض" اشاریہ ماہ نامہ تحریک" اردو ادب کی خدمت میں پیش پیش ہیں۔
12۔ اشاریہ ماہنامہ "نیا دور"(لکھنؤ)
ماہنامہ "نیادور" کا شمار ہندوستان کے صفِ اول کے رسائل میں ہوتا ہے۔یہ ملک کے چند مایہ ناز اور اہم ادبی رسائل کی فہرست میں شامل ہیں جن کی خدمات کو اردو زبان و ادب اور صاف ستھری و بے داغ صحافت کے لیے ہمیشہ یاد کیا جائے گا ۔ ’نیا دور ‘میں شروع سے ہی ملک کے ان قابل قدر ادیبوں اور شاعروں کی نگارشات شائع ہوتی رہی ہیں جن کے تذکرے کے بغیر اردو ادب کی تاریخ مکمل نہیں ہو سکے گی۔
’نیا دور‘ کو ملک کے نامور مجاہدِ آزادی ، ادیب ، صحافی اور کئی اہم سرکاری عہدوں پر کام کرنے والی شخصیت علی جواد زیدی نے اپریل 1955ء میں شائع کیاتھا۔’نیا دور ‘کی خشتِ اول اتنی شاندار تھی اور زیدی صاحب کا جذبہ اتنا بے لوث تھا کہ رسالہ’ نیا دور‘ آج بھی اسی شان و شوکت سے شائع ہو رہا ہے اور علم و ادب کی خدمت میں مصروف عمل ہے۔علی جواد زیدی کے بعد سید امجد حسین،امیر احمد صدیقی،نجیب انصاری،وضاحت حسین رضوی وغیرہ اس کے مدیران رہے ہیں۔نیا دور اترپردیش سرکار کا ترجمان ہونے کے باوجود نہایت اعلیٰ ادبی معیار کا حامل رسالہ ہے۔ کیو نکہ اس کے اب تک کے سبھی مدیران نہایت اعلیٰ خوبیوں والے افرد رہے ہیں ۔’ نیا دور‘ ایک ایسا رسالہ ہے جس کا ماضی ایسا تابناک حال، اتنا درخشاں اور مستقبل اس قدر روشن ہے کہ صدیوں تک اردو کے تئیں اس کی بے لوث خدمت کو یاد کیا جائے گا۔اس میں ادبی، سیاسی، سماجی، تہذیبی اور مختلف النوع مضامین شائع ہوتے تھے۔ اس کا اشاریہ بھی اسی اعلیٰ معیار کے ساتھ تیار ہونا چاہیے تھا اور اس کا فریضہ بے مثال انجام پایا۔ ’نیا دور‘ کا اشاریہ ڈاکٹر اطہر مسعود خاں نے ترتیب دیا ۔ جو رام پور رضا لائبریری سے 2009ء میں شائع ہو کر منظر عام آیا ۔ اس اشاریے میں 1955ء سے 2001ء تک کے سبھی شماروں کا احا طہ کیا گیا ہے۔اس اشاریہ کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اس عرصے کے دوران کی سبھی تصاویرکی ایک تاریخ بھی مرتب کی گئی ہے۔اداریوں کی توضیح بھی کی گئی ہے۔ 561 شماروں کا اشاریہ 800 صفحات پر نہایت جامع انداز میں پیش کیا گیا ہے۔اس اشاریہ کا پہلا حصہ اصناف وار اور دوسرا حصہ مصنف وار اشاریہ پر مشتمل ہے۔اس کی اندراجات میں عنوان کا نام ،مضمون نگار، ماہ و سال اور صفحہ نمبر کا اندراج کیا گیا ہے۔ لیکن جلد نمبر اور شمارہ نمبر کے اندراج کی کمی قاری کو ضرور کھٹکتی ہے۔لیکن محققین کو اپنے مطلب کی چیز تلاش کرنے میں کسی پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ غرض ’نیا دور‘ کا اشاریہ ہرلحاظ سے قابلِ اعتبار اور مبسوط کارنامہ ہے۔
13۔ اشاریہ سہ ماہی" فکرو نظر "(علی گڑھ)
اس علمی و تحقیقی مجلہ کا اجرا جنوری 1960ء میں ڈاکٹر یوسف حسین خان نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے کیا ۔ بہت جلد اس نے اہلِ علم کی توجہ حاصل کر لی اور اپنی مختلف النوع نگارشات سے ایک معیار ی رسالہ قرار پایا۔ یوسف حسین خان کے بعد مسلم یونیورسٹی کے متعدد اہل قلم حضرات جن میں فضل الرحمٰن، پروفیسر مسعود حسین خاں، پرفیسر خورشید الاسلام، پرفیسر عتیق احمد صدیقی، پرفیسر نورالحسن نقوی، پروفیسر شہریار، پروفیسر سید محمد ہاشم وغیرہ جیسے صاحبان اس کے ساتھ بحیثیتِ مدیر وابستہ رہے۔ادب کے ساتھ ساتھ اس میں اخلاقیات،تاریخ و تنقید، افسانہ، اردو زبان، اردو شاعری،ارضیات، اسلامیات،اردو لغات، انسانیات، سر محمد اقبال، انگریزی ڈراما، تاریخ نگاری، ترکی،تعلیم، تلگو ادب، بنگالی ادب، سائنس، سر سید احمد خاں وغیرہ وغیرہ جیسے موضوعات پر مضامین شائع ہونے لگے۔اس مجلہ میں 1960ء سے 1990ء تک شائع ہونے والے مضامین کا اشاریہ ڈاکٹر محمد ضیاء الدین انصاری نے مرتب کیا ہے جو خدا بخش لائبریری جرنل، پٹنہ (80، 1992ء) میں شائع ہوا ہے ۔ اس کی ترتیب موضوعاتی ہے۔مختلف موضوعات کو الف بائی ترتیب کے مطابق د