ملٹی ٹاسکنگ اصلاً کمپیوٹر سے متعلق ایک اصطلاح ہے جس کا استعمال ایسے پروگرام کے سلسلے میں کیا جاتا ہے جو بیک وقت کئی کام انجام دیتا ہے، اور اس طرح وقت اور محنت کی کفایت کے ذریعہ اپنے ”اسمارٹ“ ہونے کا دعویٰ کرتاہے۔ ظاہر ہے یہ ہماری تکنیکی ترقی کا بیّن ثبوت بھی ہے۔ لیکن جیسا کہ مشہور ہے مشینیں مشینیں ہی رہیں گی، وہ جتنا بھی اسمارٹ اور ان ٹیلی جنٹ کیوں نہ ہو جائیں، انسانوں کی ہم سری کا دعویٰ نہیں کرسکتیں کیوں کہ مشینیں بہرحال مخلوق ہیں اور ہم اس کے خالق!
مشینوں نے صدیوں پہلے اپنا سفر ہتھوڑے اور پہیے سے شروع کیا تھا۔ایک نہایت طویل سفر کے بعدآج کمپیوٹر کے دَور میں آکر وہ ملٹی ٹاسکنگ کا دعویٰ کرنے کے قابل ہوئی ہیں۔جب کہ ہم انسانوں نے ہر دَور اور ہر عمر میں ملٹی ٹاسکنگ کے نادر نمونے پیش کئے ہیں۔ بلکہ ماں کی گود سے قبر کی گود تک ملٹی ٹاسکنگ کی وہ مثالیں قائم کی ہیں کہ اگر مشینیں جذبات سے عاری نہ ہوتیں تو شرم سے پانی پانی ضرور ہو جاتیں!
ہماری زندگی میں ملٹی ٹاسکنگ کی ابتدا شیر خواری کے ساتھ ہوتی ہے جب ہم دودھ پیتے پیتے ماں کے کپڑے یا بستر گیلا کرنے ، بلکہ بعض اوقات ”چِپ چِپا“ کرنے، کا بھی کام بیک وقت انجام دیتے ہیں۔ پھر جب اسکول جانے کے قابل ہوجاتے ہیں تو ملٹی ٹاسکنگ کا کلاسیکل نمونہ پیش کرتے ہیں۔ملٹی ٹاسکنگ کو بروئے کار لاتے ہوئے ٹی وی دیکھنے اور کھانا کھانے کے اوقات کو ایک میں ضم کر دیتے ہیں۔اس طرح ہر نوالہ چھوٹا بھیم کے لڈوؤں کی طرح بلا روک ٹوک حلق سے نیچے اُترتا رہتا ہے، اور دیکھتے ہی دیکھتے پلیٹ اس طرح صاف ہو جاتی ہے جیسے ڈوریمون ڈورا کیک کھاتے وقت اپنی تھالی صاف کر دیتا ہے!اِدھر ماں بھی خوش کہ کھانے کی طشتری لیےبچے کے تعاقب میں جیری کے پیچھے ٹام کی طرح بھاگ دوڑ نہیں کرنی پڑتی۔
بعض اوقات ہم لاشعوری طور پر ملٹی ٹاسکنگ انجام دے رہے ہوتے ہیں۔مثلاً نماز میں قیام کے دوران روز مرہ کےچھوٹے موٹے حساب کتاب بآسانی نپٹائے جاتے ہیں۔اگر امام صاحب نے سورۃ لمبی کھینچ دی تو کیا کہنے! کاروبار کے روزانہ کے خرید و فروخت کاتخمینہ اور نقصان و منافع کا اندازہ بغیر کاغذ قلم کے بہت حد تک مکمل ہو جاتا ہے۔
ہم ٹیچر لوگ جس چابکدستی سے ملٹی ٹاسکنگ انجام دیتے ہیں ،دوسرے پیشے سے متعلق لوگ شاید ہی دے پائیں۔بلیک بورڈ پر کوئی مشکل سوال، یا ڈرائنگ ہی ،دے کر بآسانی اخبار کی سُرخیوں پر نظریں دوڑائی جاسکتی ہیں،یا پھر موبائل سے پیغام رسانی یا کال کئے جاسکتے ہیں۔
سیاست داں بلا شبہ ملٹی ٹاسکنگ کے ماہر کہے جاسکتے ہیں جن کی تعریف میں نوجوان شاعر نسیم عزیزی نے کیا خوب شعر کہا ہے
عجیب بات ہے وہ جس نے قتلِ عام کیا
اسی نے ماتمی جلسوں کا اہتمام کیا
رئیس آنولوی بھلا کہاں پیچھے رہنے والے تھے
میرے زخم کے لہو سے میرا زخم دھو رہے ہیں
میرا گھر جلانے والے میرے ساتھ رو رہے ہیں
ایک اور شاعرنے ملٹی ٹاسکنگ کواپنے شعر میں یوں باندھا ہے
رات کو خوب ہی پی صبح کو توبہ کر لی
رند کےرند رہے ہاتھ سے جنت نہ گئی
موبائل فون کی مقبولیت نے ازدواجی رشتوں میں ملٹی ٹاسکنگ کو فروغ دینے میں نہایت اہم رول نبھایا ہے۔
پارک کے ایک سنسان گوشے میں شوہر جیسے ہی محبوبہ کی جھیل سی آنکھوں میں اترتا ہے اچانک بیوی کی کال آجاتی ہے۔ سرابھار کر کال ریسو کرتا ہے اور دانت پیستے ہوئے بڑی لگاوٹ سے کہتاہے: ”یس ڈارلنگ…“
”آپ ہیں کہاں؟ ابھی تک راشن لے کر نہیں لوٹے؟“
”ارے بیگم، کیا بتاؤں۔ کافی بھیڑ ہے راشن دکان پر۔“ پھر محبوبہ کی مخروطی انگلیوں کو اپنی ہتھیلیوں میں دبا کر آنکھ مارتے ہوئے یوں گویا ہوتا ہے ”کافی دیر سے قطار میں کھڑا ہوں۔ دیکھو کب تک باری آتی ہے۔“
”اوہ…. میں یہ کہہ رہی تھی کہ میں ریحانہ بیگم کے یہاں چلی آئی ہوں۔ مجھے لوٹنے میں دیر ہو سکتی ہے۔ آپ سارا سامان کچن میں ہی رکھ دیں۔“
پھر فون ڈسکنکٹ کرتے ہی بیوی کھلکھلا کر ہنس پڑتی ہے۔ساتھ ہی اس کا عاشق ریحان بھی قہقہہ لگا تے ہوئے اس کی گود میں اپنا سر رکھ کر کہتا ہے: ”تم نے تو بیٹھے بیٹھائےمیرا سیکس چینچ کر دیا۔“
مشینی دَور میں انسان اس قدر”مشنوف“ہو گیا ہے کہ ملٹی ٹاسکنگ کے بغیر ٹائم منجمنٹ ممکن ہی نہیں۔
ابھی کل ہی شام کو جب میں گھر سے نکلنے لگا تو بیگم نے پوچھا: ”کہاں جارہے ہیں؟“
”بتایا تو تھا کہ آج شاکر صاحب کے دولت کدے پر ایک ادبی نشست ہے…“
”ان کا مکان تو چاندنی چوک کے راستے میں ہی پڑتا ہے ناں؟…منّے کا آخری نیپی آج استعمال ہو جائے گا۔ خیال سے ایک بڑا پیکٹ لے لیجئے گا۔“
”ٹھیک ہے۔“میں نے دروازے سے قدم نکالا ہی تھا کہ وہ پھر گویا ہوئیں:
”یہ مِکسَر گرائنڈر کا چھوٹا جار کئی روز سے خراب پڑا ہوا ہے۔میں بار بار آپ سے کہنا بھول جا رہی تھی۔ اچھا ہوا یاد آگیا…“
”بہت اچھے وقت پر یاد آیا۔“ میں بڑبڑایا۔
”کیا کہا؟“
”میں نے کہا اچھا ہوا یاد آگیا۔ جار تو دیں۔“
پھر جار تھامے سیڑھیوں سے نیچے اُترنے لگا کہ انہوں نے پھر آواز دی:
”شاکر صاحب کے گھر سے دو قدم کی دوری پر ہی تو پھوپھی کا گھر بھی ہے۔بےچاری کئی دنوں سے بسترِ علالت پر پڑی ہوئی ہیں۔ لوٹتے وقت عیادت کر لیجئے گا۔“
”وہ تو آپ فون پر بھی مزاج پُرسی کر سکتی تھیں؟“
”تو کیانارنگیاں یا سیب بھی فون لائن سے ہی بھیج دیتی ؟“ بیگم نے اُلٹے سوال جڑ دیا۔
کاش، مجھے بھی فون سے بھیج سکتیں… میں بدبداتا ہوا نیچے اترا۔ لیکن کمپاؤنڈ میں ابھی دو قدم ہی آگے بڑھا تھا کہ بالکنی سے بیگم نے ہانک لگائی:
”نکّڑ کی بلقیس ٹیلرس کے یہاں میرے کپڑے دئیے ہوئے ہیں سِلنے کے لئے…اگر ہو گئے ہوں تو لیتے آئیے گا لوٹتے وقت۔“
میں نے انہیں دیکھ کر سر ہلایا اور تیز قدموں سے لمبے لمبے ڈگ بھرتا ہوا اس طرح کمپاؤنڈ کے گیٹ کی طرف لپکا گویا کسی بدروح سے پیچھا چھڑانا مقصد ہو۔
پھرمکسر کا جار مرمّت کے لئے دکاندار کو دے کر مڑا ہی تھا کہ موبائل کی گھنٹی بجی۔دیکھا تو اسکرین پر ”جی کا جنجال کالنگ“ لکھا ہوا تھا۔میں نے فورا کال ریسو کی اور فون کان سے لگاتے ہی بول اُٹھا:
”انڈے؟ تیل؟صابن؟…یا دوائیں؟“
”ارے نہیں، چاندنی چوک کے دہی بڑے کھائے بہت دن ہو گئے ہیں۔ جب آپ اس طرف جاہی رہے ہیں تو پھر آتے وقت لے لیں۔“
اور میں سوچنے لگا مشینیں بہر حال مشینیں رہیں گی، ملٹی ٹاسکنگ کے معاملے میں بھی انسانوں، خصوصاً بیگم زدہ انسانوں، کی ہم سری کا دعویٰ کبھی نہیں کر سکتیں !!
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...