آج کے ’’ہندی زدہ‘‘ یا ’’انڈین ٹی وی زدہ‘‘ اردو گو فرد کے لیے یہ بات یقینا حیرت کا باعث ہو گی کہ ’’پریم‘‘ سے بھی کوئی بحث ایسے جنم لے سکتی ہے کہ ایک صدی کے بعد تک ختم نہ ہو۔ جی ہاں، یہ بحث کہ اردو رسم الخط ناموزوں ہے، تبدیل کر دیا جائے، للّو لال جی کی تصنیف ’’پریم ساگر‘‘ کی اردو نستعلیق کے بجائے، دیونا گری رسم الخط میں شائع ہونے سے شروع ہوئی۔ یہ کتاب کوئی دو سو سال قبل فورٹ ولیم کالج کے زیرِ اہتمام شائع ہوئی تھی۔ اردو کی ترویج میں اس ادارے کا نمایاں کردار ناقابلِ فراموش تھا، مگر یہ حقیقت بھی ناقابلِ تردید ہے کہ اس طرح کے اِقدامات سے انگریز سرکار نے ’’ہندی۔اردو‘‘ اور ’’ہندو۔مسلم‘‘ تنازع اور لسانی منافرت کی بنیاد رکھی۔ تمہید میں ’’پریم ساگر‘‘ کا ذکر یوں آیا کہ اردو رسم الخط پر اعتراضات اور پھر مختلف مباحث کی ابتدا اسی سے ہوئی تھی۔ اردو کی پیدائش، آغاز و ارتقاء کے بارے میں کچھ عرصہ قبل روزنامہ ’’ایکسپریس‘‘ میں راقم کا ایک مضمون شائع ہو چکا ہے۔ لہٰذا اس تفصیل کا خلاصہ دہرائے بغیر، یہ عرض کرتا چلوں کہ اردو دنیا کی واحد زبان ہے جس کے وطن کا تعین اور بنیادی ماخذ، نیز لسانی گروہ سے تعلق کی بحث بہت پیچیدہ ہے۔ جب اس سے تعلق کے اتنے دعوے دار ہیں تو اس کے رسم الخط (یا ہندی میں ’لپی‘) کے حوالے سے ایسے بُودے اعتراض کیوں؟
اگر بلاتعصب اور بالتحقیق جائزہ لیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ اردو رسم الخط پر کیے جانے والے اعتراضات میں سے کوئی بھی منطقی، عقلی اور سائنسی بنیاد پر درست نہیں۔ آئیے ان اعتراضات کا سرسری جائزہ لیتے ہیں:
الف) اردو رسم الخط میں حروفِ تہجی کی تعداد دوسری زبانوں کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے، اس لیے اُن کا سیکھنا (خصوصاً بچوں اور غیراہلِ زبان کے لیے) اور سکھانا (اساتذہ کے لیے) مشکل کام ہے۔
جواب: اردو کے حروفِ تہجی سینتیس (۳۷) ہیں اور بعض ماہرینِ لسانیات کے خیال میں ’ھ‘ کے ملاپ سے بننے والی آوازوں کو بھی شامل کر لیں تو یہ تعداد پچاس یا اکیاون بنتی ہے۔ ادھر صورت حال یہ ہے کہ:
۱۔ پشتو میں پینتالیس (۴۵) حروفِ تہجی ہیں۔
۲۔ سندھی میں باون (۵۲) حروفِ تہجی ہیں۔
۳۔ کمبوڈیا یا کمپوچیا کی سرکاری زبان روتوکاس میں چوہتّر (۷۴) حروفِ تہجی ہیں جو ایک ریکارڈ ہے۔
۴۔ چینی رسم الخط، حروف کے بجائے کئی ہزار اشکال (انگریزی میں Characters) پر مشتمل ہے، اس لیے اسے دنیا کی مشکل ترین زبان سمجھنا چاہیے۔
۵۔ جاپانی زبان کا قدیم رسم الخط بھی چینی سے مستعار تھا۔ اہلِ جاپان نے اسے محض دو ہزار اشکال تک محدود کیا، پھر ضرورت کے تحت مزید دو رسم الخط جاری کیے گئے۔ آج صورت حال یہ ہے کہ جاپانی میں ایک نام اور اس کے سابقے، لاحقے لکھنے کے لیے تین رسم الخط (کانجی یعنی چینی، ہیرا گانا اور کاتا کانا) ملا کر لکھنا ناگزیر ہے، جب کہ گنتی انگریزی کی ہی استعمال ہو رہی ہے۔
۶۔ انگریزی میں حروفِ تہجی تو چھبیس (۲۶) ہیں، مگر اس کے تکنیکی مسائل، اردو سمیت کسی بھی بڑی زبان سے کہیں زیادہ ہیں۔
اب کہیے کیا خیال ہے؟
ب) اردو کے حروف کی شکلیں بدلتی رہتی ہیں۔ کبھی پورا یا آدھا حرف لکھا جاتا ہے تو کبھی اس کا چہرہ۔ اس طرح الفاظ کی لکھائی سیکھنا، سکھانا مشکل ہے۔
ج) اردو میں ’’ہم صوت‘‘ یعنی ایک جیسی آواز والے حروف کئی ایک ہیں، جیسے الف اور عین، ح اور ہ، ت اور ط، ث، س اور ص، ذ، ز، ض اور ظ۔ اس سے املا کی اغلاط بھی سرزد ہوتی ہیں۔
د) اردو میں اعراب یعنی زیر، زبر، پیش لگانے میں دشواری ہوتی ہے۔ تلفظ اور املا دونوں ہی مشکل ہیں۔
ہ) اردو میں بہت سے الفاظ میں ’’ساکن‘‘ (Silent) حروف شامل ہیں، جو لکھے جاتے ہیں مگر پڑھے نہیں جاتے۔ اس طرح بھی املا اور تلفظ میں مشکل ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر خواب (تلفظ: خاب)، خواہش (خاہش)، عبدالرئوف (عبدُر رئوف) اور اس جیسے دیگر لاتعداد الفاظ۔
و) ٹائپ اور طباعت میں بھی متعدد مشکلات، دشواریاں اور تکنیکی مسائل حائل ہیں۔
جواب: یہ تمام اعتراضات عربی اور فارسی پر بھی عائد ہوتے ہیں جو اردو کی مائوں میں شامل ہیں، نیز اُن سے استفادہ کرنے والی، خطے کی بہت ساری زبانوں پر بعینہٖ یہی اعتراضات وارد ہوں گے۔ مثال کے طور پر پاکستانی زبانوں میں کون سی بڑی زبان اس سے مبرّا ہے؟ عربی اور فارسی کے ماہرین نے تو کبھی اس قسم کے مباحث پر خامہ آرائی نہیں کی۔ اہلِ زبان عرب یا ایرانی اپنی زبان میں اعراب (عموماً) نہیں لگاتے۔ ساکن حرف کی بحث ہم الگ سے شروع کریں گے۔ یہاں بہت اختصار سے کام لیتے ہوئے یاد دلاتے چلیں کہ انگریزی زبان میں ایک حرف کی مختلف جگہوں پر مختلف آوازیں اور ساکن حروف کا (خصوصاً لاطینی، فرینچ، جرمن الفاظ کے ضمن میں) اچھا خاصا ذخیرہ بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ یہاں ایک بڑی عوامی سی مثال ازراہِ تفنن پیشِ خدمت ہے: لفظ آنسٹی (Honesty) جُہلا کے نزدیک ہونسٹی ہے۔ شاید اسی لیے ’’خریداری مرکز‘‘ (Shopping Centre) کا نام ہونسٹی رکھا گیا ہے۔ (ویسے ہمارے یہاں تو ایک مشہور مثال لفظ وراثت (Heirship) کی ہے۔ وکلا سمیت اکثر لوگ اسے ہیرشپ بولتے ہیں، جبکہ ‘H’ حرفِ ساکن ہے)۔
ٹائپ کے حوالے سے مشکلات یقینا پوری طرح ختم نہیں ہوئیں، مگر ذرا سوچیے کہ آیا اردو، دنیا کی واحد زبان ہے جس کو یہ مسئلہ درپیش ہے؟
اگر آپ یہ کہیں کہ جناب اردو کا کوئی متفق علیہ ٹائپنگ / کمپوزنگ سسٹم موجود نہیں اور کمپیوٹر خصوصاً انٹرنیٹ کے استعمال میں مشکلات پیش آتی ہیں، تو اس کا جواب نکتہ وار یہ ہے:
۱۔ اردو کا مکمل اور مضبوط کمپیوٹر نظام، راقم کی اطلاع کے مطابق، کچھ سال قبل، مقتدرہ قومی زبان نے Microsoft کے تعاون سے تیار کر کے جاری کر دیا ہے اور آج کل زیرِ استعمال ہے۔ اس میں خاص طور پر MS-Office شامل ہے۔
۲۔ اردو کے Unicode Keyboard متعدد Websites پر دستیاب ہیں۔ اس میں صرف ایک نظر دیکھ کر الفاظ ٹائپ کرنے ہوتے ہیں۔ جہاں تک رفتار کا سوال ہے تو اس کا تعلق مشق اور مسلسل مشق سے ہے۔ اگر ہم Urdu Inpage پر اور اس کے مماثل دوسرے کلیدی تختوں (Keyboards) پر تیزی سے ٹائپ کر لیتی ہیں تو اس کی وجہ بھی یہی ہے۔
۳۔ مقتدرہ قومی زبان اور Microsoft کے مشترکہ MS-Word میں براہِ راست اردو ٹائپ ممکن ہے، جبکہ Unicode Keyboard کی مدد سے کی گئی ٹائپنگ بھی MS-Word میں کارآمد (Copy+Paste=Use) ہے۔
۴۔ اردو میں عام استعمال کے لیے تو نستعلیق رائج ہے، جبکہ مندرجہ بالا کلیدی تختوں (Keyboards) میں نسخ استعمال ہوتا ہے جس سے نوآموز افراد کو الجھن ہوتی ہے۔ اس مسئلے کے حل کے لیے پاکستان میں تو بظاہر کوئی کوشش نہیں ہوئی (اگر ہوئی ہے تو براہِ کرم سامنے لائی جائے)، البتہ ہندوستان اور امریکا میں مقیم بعض ہندوستانی حضرات کی جانب سے متبادل Fonts تیار کیے گئے ہیں۔ عین ممکن ہے کہ یہ مسئلہ جلد حل کر لیا جائے۔
۵۔ آخری نکتہ معترضین کے لیے اس خاکسار کی طرف سے ہے، یعنی یہ کوئی اعتراض نہیں، بلکہ شکوہ ہے۔ ایک مقامی فرم نے کچھ سال قبل اردو کی برقی گفتگو (Internet Chat) کے لیے ایک Messenger (پیغام رساں) تیار کر کے، بازار میں پیش کیا تھا۔ افسوس مجھے ایسے ایک دو افراد ہی مل سکے جو اس اہم ایجاد سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہوں۔ ہم غلط سلط انگریزی اور لاعلمی میں رومن رسم الخط کے ذریعے اچھی خاصی آسان بات کو مہمل بنانا پسند کرتے ہیں۔ یہ بھی نہیں دیکھتے کہ جو ہجے انگریزی میں پہلے سے رائج کسی اور لفظ کے موجود ہیں، انہیں اردو لفظ کے لیے استعمال کرنے سے اشتباہ ہوتا ہے۔
اردو میں حروف کی کثرت اور تلفظ کے اختلافات، اس کی خامی نہیں، خوبی ہے۔ اس لیے کہ ہم اسی خصوصیت کی بدولت، دنیا کی کسی بھی زبان سے کہیں زیادہ، کثیر تعداد میں الفاظ (اور اکثر بڑی حد تک درست تلفظ میں) ادا کرنے اور لکھنے پر قادر ہیں۔ جسے یقین نہ آئے، ان نکات کو غلط ثابت کر دے:
۱۔ عربی میں پ، ث، چ، ڈ، ڑ، ژ، گ کی غیرموجودگی سے بے شمار الفاظ لکھے نہیں جاسکتے۔ خالص عربی لب و لہجہ ان آوازوں کے ادا کرنے سے قاصر ہے۔ البتہ نجد کے لوگ ’غ‘ کو ’گ‘ بولتے ہیں، یمن کے لوگ ’ض‘ کو اردو کی طرح ’’ضاد‘‘ بولتے ہیں، جبکہ ایران کے اثر سے بحرین میں ’ک‘ کی جگہ ’چ‘ بولنا بھی عام ہے۔
۲۔ فارسی میں ٹ، ڈ، ڑ نہیں ہیں اور چھوٹی ’ی‘ کا تصور الگ سے موجود نہیں۔ ’ق‘ کا ’غ‘ سے بدلنا بھی عام ہے، جیسے لفظ ’’آقا‘‘ کا ’’آغا‘‘ ہو جانا۔
۳۔ پشتو، پختو میں خیبر پختون خوا (اس لفظ کے آخر میں ’’ہ‘‘ نہیں ہے) سے لے کر بلوچستان تک جو اختلافات، تلفظ یا بجائے خود الفاظ کے رائج ہیں، اُن سے قطع نظر، پشتون، پختون، بعض آوازوں کی ادائی سے قاصر ہیں۔ مثلاً ’ہ/ھ‘ (بھائی کی جگہ بائی) ’ف‘ (اکثر ’پ‘ بولتے ہیں)۔
۴۔ سندھی اور پنجابی کا ’ق‘ ادا نہ کر پانا ایک الگ بحث ہے، جب کہ گجراتی، خصوصاً اس کی بولی میمنی میں ’غ‘ کو ’گ‘، ’ق‘ کو ’ک‘ بوننا عام بات ہے، مگر اس میں استثنیٰ ان کو حاصل ہے جو زبان و ادب یا دینی تعلیم سے شغف رکھتے ہیں۔
۵۔ جاپانی میں حرف ث، ڈ، خ اور ’ل‘ کی آوازیں موجود نہیں۔ ’ل‘ کو ’ر‘ سے بدل دیتے ہیں، جیسے کہنا ہو Actually تو کہتے ہیں: ایک تُواَری۔
۶۔ انگریزی میں مشرقی زبانوں کے الفاظ خصوصاً مخصوص آوازوں کی ادائی کا کوئی انتظام موجود نہیں۔ اس کی تفصیل ایک الگ مضمون کا تقاضا کرتی ہے۔
۷۔ افریقی زبانوں کے کئی نام اس قدر عجیب ہوتے ہیں کہ انگریزی ہجے ان کی درست ادائی سے معذور ہیں۔
۸۔ فرینچ زبان میں ’ہ‘ (H) کی آواز موجود نہیں۔ مثال کے طور پر سہیل (Sohail) کو ’’سوایل‘‘ (So’ail) کہتے ہیں۔ ’ر‘ کی آواز پیرس کی فرینچ (خالص زبان) [Parsian French] میں نہیں، یہ اکثر ’غ‘ تو کبھی ’خ‘ کی آواز سے بدل جاتی ہے۔ کسی کا نام رشید ہو تو یہ کہیں گے: ’’غاشید‘‘۔ (البتہ افریقی فرینچ میں کہیں کہیں ’ر‘ موجود ہے)۔ اس کے علاوہ اس زبان میں ’ج‘ سے زیادہ ’ژ‘ کی آواز رائج ہے۔ دیگر مسائل علاوہ ہیں۔
۹۔ ترکی زبان کا عربی رسم الخط ختم ہونے کے بعد (رومن رائج کرنے کے سبب) دیگر مسائل کے علاوہ، خالص عربی آوازیں ختم ہو گئیں۔ ’خ‘ کے بجائے ’ح‘ (خالد کی جگہ حالد)، بعض جگہ ’ک‘ کے بجائے ’چ‘، ’غ‘ جن ناموں میں آتا ہے، اب حرفِ ساکن ہو گیا، جیسے نام ہے ’’اوغلُو‘‘ تو پڑھتے ہیں: اول لُو۔
۱۰۔ ہندی میں عربی آوازیں موجود نہیں، اس لیے وہ ’خ‘ کے بجائے ’کھ‘ اور ’ق‘ کے بجائے ’ک‘ اور ’غ‘ کی جگہ ’گ‘ بولتے ہیں۔
ان تمام مثالوں کے بعد یہ دعویٰ ناقابلِ تردید ہے کہ اردو، دنیا کی واحد زبان ہے، جس میں ہر زبان کے الفاظ لکھنے، ادا کرنے اور (اہلِ زبان کی طرح درست تلفظ) بولنے یا پڑھانے کی صلاحیت بدرجۂ اتم پائی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ اس کا ذخیرۂ الفاظ پینتیس (۳۵) سے زائد زبانوں، بولیوں سے مستعار ہے جو ظاہر ہے اپنی مثال آپ ہے۔
اوپر ہم نے حرفِ ساکن کا ذکر کیا۔ اردو میں مشہور ترین مثالیں تو ’خواب‘ اور ’خواہش‘ ہیں جن کا وائو بولا نہیں جاتا اور ’’وائو معدولہ‘‘ کہلاتا ہے۔ دوسری مثالیں ان ناموں کی ہیں جن میں ’ل‘ استعمال ہوتا ہے اور بولا نہیں جاتا۔ یہ مسئلہ بہت آسانی سے حل ہو سکتا ہے، اگر طالب علم کو ابتدا ہی میں یہ بتا دیا جائے کہ عربی میں حروفِ قمری اور حروفِ شمسی کے سبب ایسا ہوتا ہے۔ مندرجہ ذیل حروف قمری ہیں اور ان کی ترکیب سے نام لکھا جائے تو ’ل‘ بولا جائے گا:
ا، ب، ج، ح، خ، ع، غ، ف، ق، ک، ل، م، و، ہ، ی
(قمری مثالیں: عبدالاحد، ابوالباقر سے لے کر الیافث تک بے شمار)۔
جبکہ مندرجہ ذیل حروف شمسی ہیں، ان کی ترکیب سے نام لکھا جائے تو ’ل‘ نہیں بولا جائے گا:
ت، ث، د، ذ، ر، ز، س، ش، ص، ض، ط، ظ، ن
(شمسی مثالیں: ابوالتمیم، ابوالدرداء سے لے کر عبدالنبی تک لاتعداد)۔
یہ بحث کہ اردو املا میں حروف کی شکلیں بدلتی رہتی ہیں۔ جزوی طور پر درست ہے، مگر محض ان حروف کو بنیادی شکلیں قرار دے کر حروف سازی آسانی سے سکھائی جاسکتی ہے:
(۱)الف (۲)ب، پ، ت، ٹ، ث (۳)ج، چ، ح، خ (۴)د، ڈ، ذ (۵)ر، ڑ، ز، ژ (۶)س، ش (۷)ص، ض (۸)ط، ظ (۹)ع، غ (۱۰)ق (۱۱)ک، گ (۱۲)ل (۱۳)م (۱۴)ہ (۱۵)ی
اب اس میں خیال رہے کہ ا، د، ڈ، ذ، ر، ڑ، ز، ژ، ط، ظ، اور ’و‘ ایسے حروف ہیں جن میں شکل نہیں بدلتی۔
اردو زبان کی ہمہ جہت صفات کی بات کی جائے تو سَر ولیم جونز کا یہ قول محض اسی پر صادق آتا ہے کہ ’’مکمل زبان وہ ہے جس میں انسانی ذہن میں آنے والا ہر خیال، صفائی سے اور بھرپور طریقے سے کسی مخصوص لفظ کے ذریعے ظاہر کیا جاسکے۔ خیالات سادہ ہوں تو الفاظ سادہ اور اگر خیالات دقیق ہوں تو الفاظ بھی۔ اس طرح مکمل رسم الخط وہ ہے جس میں اس زبان کی ہر آواز کے لیے ایک مخصوص نشان ہو۔‘‘
اردو رسم الخط اور املا پر کیے جانے والے اعتراضات کا ماہرین بڑی محنت سے رَدّ (Counter) کر چکے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ ہمارے نیم خواندہ (Semi-Literatre) معاشرے میں دین اور دنیا کے ہر موضوع پر، ہر کَس و ناکَس اظہارِ خیال کرتا ہے، خواہ اس بارے میں سِرے سے مطالعہ ہی نہ کیا ہو۔ اس ضمن میں اکثر اعتراضات، اردو کی طرح، بلکہ اس سے کہیں زیادہ، انگریزی پر وارد ہوتے ہیں۔ اگر یہ نکتہ اعتراض دیکھا جائے کہ اردو میں کئی حروف ایک جیسی آوازیں ہونے کے سبب مسائل پیدا کرتے ہیں (مثلاً ۱، ع، ت، ط، ث، س، ص، ذ، ز، ض، ظ) لہٰذا انہیں کم کر کے ایک آواز کے لیے ایک حرف مقرر کر دیا جائے۔ اس کے دو واضح جوابات ہیں:
۱۔ مختلف آوازوں کو مماثل سمجھنا علمی غلطی ہے، اگر ایسا مان بھی لیا جائے، تو لاتعداد الفاظ (خصوصاً عربی) ہجے بدلنے سے اپنے معانی کھو بیٹھیں گے۔ مثال کے طور پر عدل کو ادل، بدعت کو بدأت، عالِم کو آلِم۔ علاوہ ازیں دو زبانوں کے ایک جیسے الفاط مثلاً عنبر (عربی) بمعنی خوشبو کی ایک قسم اور امبر (ہندی) بمعنی آسمان، ان کے ہجے بدلنے سے کیا فائدہ حاصل ہو گا؟
۲۔ انگریزی رسم الخط، املا، قواعد غرض ہر لحاظ سے اعتراضات کا نشانہ بنتی رہی ہے۔ بیسویں صدی کے عظیم ڈراما نگار جارج برنارڈشا نے سات سو (۷۰۰) الفاظ گھڑ کر بغرضِ اصلاح پیش کیے کہ اس طرح حروف اور آوازیں شامل کی جائیں تو یہ زبان ترقی کر سکتی ہے۔ اس پر عمل نہیں ہوا۔ یہی فاضل مصنف تھے جنہوں نے انگریزی کو ’’پاگل آدمی کی زبان‘‘ قرار دیا۔ اس پر یہ اعتراض کیا تھا کہ اس عجیب زبان میں But، بَٹ ہے تو Put، پَٹ کیوں نہیں؟ انہی نے یہ لطیفہ گھڑا تھا کہ اگر مَیں چاہوں تو لفظ Fish (مچھلی) اس طرح بھی لکھ سکتا ہوں: GHOTI (دلیل یہ ہے کہ ‘GH’، Rough, Tough جیسے الفاظ میں آتا ہے تو ‘F’ کی آواز دیتا ہے۔ ‘O’ جب Women میں آتا ہے تو ‘I’ کی آواز دیتا ہے اور ‘TI’ جب Nation اور Ration میں آتے ہیں تو ‘SH’ کی آواز نکلتی ہے)۔
جو حضرات بغیر کسی مطالعے اور دلائل کے یہ چاہتے ہیں کہ اردو کا رسم الخط رومن کر دیا جائے: انہیں ہرگز خبر نہیں کہ زبان کا رسم الخط سے تعلق کیسا ہوتا ہے۔ فرینچ اور انگریز ماہرینِ لسانیات کے اقوال نقل کیے بغیر، خلاصہ کرتا ہوں کہ اگر صدیوں سے رائج کسی زبان کا رسم الخط اچانک تبدیل کر دیا جائے تو وہ زبان اپنے گراں قدر علمی سرمائے، تہذیبی اور ثقافتی پس منظر سے یکسر محروم ہو جاتی ہے۔ اس کی نمایاں ترین مثال ترکی ہے، جس کی ہزاروں کتب آج موضوعات کے تنوع اور اہمیت سے قطع نظر، بیکار ہو چکی ہیں۔
(چینی ترکستان یعنی سنکیانگ(چینی تلفظ میں شن ژی یانگ) کی زبان ’’اویغور‘‘ [Ouighur] شاید واحد زبان ہے جو آج بھی ترکی کے قدیم (عربی) رسم الخط میں لکھی جاتی ہے۔)
اپنے ارد گرد نظر دوڑائیں تو پتا چلے گا کہ ہماری بعض زبانیں فنا کے خطرے سے دوچار ہیں (بقاء کی جنگ لڑ رہی ہیں، مگر بقاء کے خطرے سے دوچار کہنا غلط ہے) یعنی اگر اُن کے لکھنے پڑھنے اور اصل رسم الخط کی تعلیم کا سلسلہ کم ہوتے ہوتے، ختم ہو گیا تو یہ زیادہ عرصے زندہ نہ رہیں گی، مثلاً گجراتی (پاکستان کے حوالے سے)۔ اپنی موجودہ نسل کو گجراتی رسم الخط سے دور ہوتا دیکھ کر بوہری برادری نے اپنا مذہبی مواد ایک جدید عربی رسم الخط میں منتقل کر دیا ہے۔
دنیا میں دو قومیں اس اعتبار سے بہت منفرد نظر آتی ہیں کہ انہوں نے مردہ زبان کو زندہ کر دیا: یہودی جنہوں نے عبرانی (Hebrew) کو زندہ کر کے ہر سطح پر رائج کیا اور ترقی دی۔ ہندو جنہوں نے محض تعصب کی بناء پر اردو میں (رسم الخط کی تبدیلی کے بعد)، مردہ زبان سنسکرت (Sanskrit) کے الفاظ لغات سے نکال نکال کر، ہندی زبان رائج کی۔ قدیم ہندی اس سے بہت مختلف تھی اور اس کی طرح ’’مصنوعی‘‘ زبان ہرگز نہ تھی۔ ایک ہم ہیں کہ پہلے ZeeTV کی نقل میں ۱۹۸۰ء کی دہائی میں سرکاری ٹی وی نے اردو اور انگریزی کا عجیب و غریب ملغوبہ ایجاد کیا، بقول شاعر:
ایک ہم ہیں کہ لیا اپنی ہی صورت کو بگاڑ
ایک وہ ہیں جنہیں تصویر بنا آتی ہے
پھر یہ غلط سلط زبان رائج ہوئی تو نوبت بہ ایں جا رسید کہ آج بزرگ اہلِ قلم میں بھی ایسے فضلاء موجود ہیں کہ کسی تقریب میں خطاب کرتے ہوئے گنتی کے لیے انگریزی کا سہارا لیتے ہیں، نیز غیرضروری انگریزی دانی کا مظاہرہ، نامعقول مخلوط زبان بول بول کر گویا علمیت کا رعب ڈالتے ہیں۔ بات ایک قدم آگے بڑھی تو آسان آسان الفاظ لکھنا، پڑھنا اور پڑھانا بھی محال اور بوجھل قرار پایا۔
اردو کی ترقی کی راہ میں حائل سب سے بڑی رکاوٹ ہم خود ہیں، جو مندرجہ بالا تمام نکات کے علاوہ، اردو کو حقیر جانتے ہیں اور اسی خوش فہمی میں مبتلا ہیں کہ انگریزی ذریعۂ تعلیم ہو اور ہر سطح پر، ہر جگہ رائج ہو تو بطور قوم ہماری کوئی حیثیت ہو جائے گی۔ اہلِ مغرب نے اردو کی اہمیت کے پیشِ نظر اس کی ابتدائی ترقی میں بھرپور کردار ادا کیا اور آج جب اعداد و شمار کی روشنی میں یہ دنیا کی دوسری (یا بہ اختلاف تیسری) زبان مانی جاتی ہے، تو ہم ازخود، اس کی تباہی کے در پے ہیں۔ راقم نے کوئی نو سال پہلے پاکستان کے سب سے بڑے انگلش میڈیم اسکول میں عارضی طور پر تدریس کے فرائض انجام دیتے ہوئے ایک طالبہ کو یہ کہہ کر شرمسار کر دیا تھا کہ (ترجمہ): ’’روئے زمین پر سب سے بڑا رشتہ ماں کا ہے، سو مَیں بالیقین سمجھتا ہوں کہ مادری زبان، دنیا کی عظیم ترین زبان ہے۔ اگر آپ اپنی مادری زبان سے نفرت کرتی ہیں تو مطلب یہ ہوا کہ آپ کو اپنی ماں سے نفرت ہے!‘‘