اس عالمِ آب و گل میں بے شمار مخلوقات کاوجود پایا جاتا ہے۔سائنس کے مطابق کرۂ ارض پر انسان کی خلقت سے پہلے بھی لا تعداد مخلوقات پائی جاتی تھیں۔یہ نظامِ قدرت ہے کہ کچھ مخلوقات انسان کے وجود کے بعد معدوم ہو گئیں اور کچھ اس کے ساتھ ساتھ ہی اس روئے زمین پر اپنی اپنی زندگی کی کائنات میں سانس لے رہی ہیں۔با الفاظِ دیگر یہ کہ صرف انسان ہی اس عالم وجود کا حصہ نہیں بلکہ اس کی دلکشی و دلفریبی اور جاذبیت کا باعث دیگر مخلوقات بھی ہیں۔اور ان دیگر مخلوقات میں حشرات الارض بھی ہیں ۔
حشرات الارض کو یوں تو حقیر مخلوق سمجھا جاتا ہے اور ان کو پیروں تلے پامال بھی کیا جاتا ہے لیکن یہ بھی حق ہے کہ یہ حشرات الارض انسان کی زندگی میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔سائنسدانوں کے مطابق کوئی ایسی مخلوق نہیں جس سے انسان کو فیض حاصل نہ ہوتا ہو۔ تحقیق سے ثابت ہوا کہ یہ حقیر اور ادنیٰ سمجھے جانے والے حشرات الارض بھی انسانی وجود کو بر قرار رکھنے میں مددگار ہوتے ہیں۔
حشرات الارض میں کچھ ایسے ہیں جو بہت چھوٹے ہیں جن کوہم اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھ سکتے ہیں ۔جن کا مشاہدہ کرنے کے لئے ہم کو خوردبین کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ان میں کچھ ایسی مخلوقات بھی ہیں جو ہمارے آس پاس رینگتی ہوئی نظر آتی ہیں۔جب کے کچھ ایسی ہیں کہ جن کے یہاں’’پر‘‘(Wings) پائے جاتے اور یہ اُڑنے کی بھی صلاحیت رکھتی ہیں۔سائنس دانوں نے جہاں ان کی طویل فہرست تیار کی ہے وہیں ہمارے اردو ادب کے شاعروں نے بھی ان کا ذکر اپنے کلام میں جا بہ جا کیا ہے۔اس مختصر سے مضمون میں اردو غزل کے ایسے اشعار پیش کئے گئے ہیں جن میں حشرات الارض کا ذکر ملتا ہے۔لیکن اس انداز سے کہ جہاں وہ اپنے وجود اپنی عادات و خصائل کا مظاہرہ کرتے ہیں وہیں استعارے اور علامتوں کی بھی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔
آپ اپنے گھر کی در ودیوار پر رینگنے والی چھپکلی سے ضرور آشنا ہوں گے ۔یہ وہ کیڑا ہے جو کہیں نہ کہیں موجود ہی رہتا ہے۔اس کی مختلف اقسام پائی جاتی ہیں سائنسدانوں کے مطابق یہ مخلوق انسان کے وجود میں آنے سے پہلے بھی اس دنیا میں موجود تھی۔ان کا یہ خیال ہے کہ ڈایناسور(Dinosaur) کاتعلق بھی اس کے خاندان سے تھا۔یہ انڈے دیتی ہے۔جس سے دوسری چھپکلیاں پیدا ہوتی ہیں۔کیوں کہ شاعر اپنے ماحول کا عکاس ہوتا ہے جو کچھ اپنے آس پاس دیکھتا ہے اس کے ترجمانی اپنے کلام میں کرتا ہے پھر یہ کیسے ممکن تھا کہ اس کے کلام میں اس مخلوق کا ذکر نہ ہوتا۔مثلاً یہ اشعار دیکھیں:
کھا گیا کیڑے مکوڑے اک غبار
چھپکلی کھولے ہوئے منھ رہ گئی
(وفاؔ نقوی)
زندگی کا لطف لینا ہے اگر
ڈھونڈلو اک چھپکلی برسات میں
(ڈاکٹر رضی ؔ امرہووی)
سب مکیں گھر کے ہمارے جاچکے
چھپکلی اک رہ گئی دیوار پر
(ڈاکٹر ہلالؔ نقوی)
ایک پتنگا دیکھ کر دیوار پر
چھپکلی کے جسم میں جنبش ہوئی
(نادمؔ بلخی)
چھپکلی کے علاوہ ہمارے گھر میں پائی جانے والی دوسری مخلوق مچھر کی ہے۔اس کا ذکر بھی ہماری اردو شاعری میں کافی دیکھنے کو ملتا ہے۔کبھی اس کو شاعری میں تلمیح کے طور پر استعمال کیا گیا کبھی طنزو مزاح کے پیرہن میں پیش کیا گیا۔یہ مخلوق بھی بہت عجیب و غریب ہے اور انسانوں کی ایک پرانی ساتھی ہے۔دیکھنے میں تو یہ ایک ادنیٰ سا کیڑا ہے لیکن ہر وقت انسان کا خون پینے پر آمادہ رہتا ہے۔اور ایسا درد دیتا ہے کہ انسان تڑپ جاتا ہے۔تو یہ کیسے ممکن ہے کہ شاعر درد اور کرب کا تو ذکر کرے اور اس کا ذہن مچھر تک نہ پہنچے۔کچھ اشعار دیکھیں:
کالا نہ سہی لال سہی تل تو بنا ہے
اچھا ہوا مچھرنے ترے گال پہ کاٹا
(ضیاء الحقؔ قاسمی)
سامنے نمرودیت کی لاش ہے
ایک مچھر کی صدا سنتا ہوں میں
(وفا ؔ نقوی)
ایک دن تاریخ اپنے آپ کو دہرائے گئی
پھر کسی نمرود کو مچھر اُڑا لے جائے گا
(نامعلوم)
آپ لاریب سہی زودسخن
کیا میں تنقید کا مچھر بھی نہیں
(راہی فدائیؔ)
مچھروں کی جماعت کے ساتھ ہی مکھیاں بھی اپنے وجود کا لوہا منواے میں پیش پیش رہتی ہیں۔ان کا بھی انسان کی زندگی میں بڑا عمل دخل ہے۔ انسان کی بول چال،حکایات،مثالوں اورمحاوروں میں کثرت سے ان کا استعمال دیکھنے کو ملتا ہے۔مثلاً’’مکھی پرمکھی مارنا‘‘،’’دودھ کی مکھی سی نکال کر پھینک دینا‘‘،’’مکھی ناک پر بیٹھنے نہیں دینا‘‘ وغیرہ وغیرہ ۔شعراء نے بھی وقتاً فوقتاً مکھی کا ذکر اپنے کلام میں کیا ہے مثلاً:
مکڑی کہیں مکھی کو گرفتار نہ کرلے
وہ شوخ نگاہوں سے مجھے بھانپ رہے ہیں
(آلِ احمد سرورؔ)
مکھی پر مکھی بٹھلاتے رہتے ہیں
بیتے لمحوں کو دہراتے رہتے ہیں
(عادل ؔمنصوری)
جانے کیا معاشرے کی حرکت ہے
شور گھر گھر ہوا ہے مکھی کا
(عادل فرازؔ)
جہاں جہاں مکھیوں کا وجود ہوتاہے وہاں وہاں مکڑیاں انھیں شکار کرنے کے لئے موجود رہتی ہے۔کیوں کہ یہ ان کو غذا کے طور پر استعمال کرتی ہیں۔یہ مکانات اور گھروں میں جالا بنا کر رہتی ہیں۔یہ جالا ان کے لعاب سے بنتا ہے۔شاعروں نے اپنی غزلوں میں مکڑیوں اور ان کے جالے کو بھی بڑے دلکش انداز میں پیش کیا ہے مثال کے لئے اشعار دیکھیں:
جسم زار قیس کا پوچھا جو حال
رکھ دیا مکڑی نے جالا تان کر
(شادؔ لکھنوی)
مکڑی نے پہلے جال بنا میری گرد پھر
مونس بنی رفیق بنی پاسباں ہوئی
(وزیر آغاؔ)
روح کو قید کئے جسم کے حالوں میں رہے
لوگ مکڑی کی طرح اپنے ہی جالوں میں رہے
(شاہد کبیرؔ)
اس کے علاوہ دوسرے رینگنے والے حشرات الارض مثلاًچیونٹی،سانپ ،بچھو، وغیرہ کاذکر بھی شاعری میں آتاہے ۔
چیونٹی کی مثال دیکھیں:
بڑے سے بڑے جانداروں میں بھی
ہے چیونٹی کے منہ کا نوالا کوئی
(غلام مرتضی راہیؔ)
دے رہی ہے اجل انہیں آواز
چیونٹیوں کے بھی پر نکلنے لگے
(مہدی ؔپرتاپ گڈھی)
سانپ بھی اردو غزلوں میں جگہ جگہ دیکھنے کو ملتا ہے ۔مثلا کبھی شاعر محبوب کی زلفوں تو کبھی اس کے چلنے کے انداز کو سانپ سے تشبیہ دیتا ہے۔ جدید غزل میں یہ ایک علامت اور استعارے کے طور پر ابھر کر سامنے آتا ہے اشعار ملا حظہ فرمائیں:
آج احساس میں اک سانپ چھپا بیٹھا ہے
پھول سے ہاتھ ملاتے ہوئے ڈر لگتا ہے
(ڈاکٹر بشیر بدرؔ)
آستینوں میں سانپ پالے تھے
دودھ خود ہی انھیں پلایا تھا
(لئیق اکبر سحابؔ)
سانپ کے ساتھ ساتھ بچھو بھی اردو شاعری میں نظر آتا ہے۔ اشعار دیکھیں:
زہر الفاظ ہوگئے میرے
ایک بچھو سے دوستی کرکے
(وفاؔ نقوی)
تمھیں نے سوچ کے بچھو لگا کے رکھے تھے
نہیں تو زخم تمھارا ہرا بھرا کیوں ہے
(عبید ؔحارث)
ناگ بیٹھے ہوئے ہیں مسند پر
ہوگئے رہنما سبھی بچھو
(ڈاکٹرہلال ؔنقوی)
الغرض ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہماری اردو غزلوں میں حشرات الارض کی ایک دنیا آباد ہے اورہماری اردو شاعری میں مختلف اقسام کے جانوروں اور کیڑے مکوڑوں کا ذکر ملتا ہے جن کا احاطہ ایک مختصر سے مضمون میں کرنا ممکن نہیں۔ہماری کلاسیکی شاعری سے لے کر جدید اور مابعد جدید غزلوں میں اب بھی شاعر ان کو قلم بند کر رہے اور یہ سلسلہ یوں ہی رواں دواں رہے گا کیوں کہ یہ ہماری زندگی کا حصہ ہے جو ہم کو قدرت سے تحفے میں ملا ہے۔
“