جب سے انسان کا وجود اس روئے زمین پر ہے اس نے مختلف مواقع پر بہت سی قدرتی آفات کا سامنا کیا ہے گویا کہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ انسان اور قدرتی آفات کا تعلق بہت پرانہ ہے۔جب انسان اس دنیا میں آیا اور اپنے ماحول سے آشنا ہوا تو اس نے اپنے اطراف میںہونے والی تبدیلوں کا تجزیہ کیا تو قدرتی آفات کے باعث رونما ہونے والی تبدیلیوں نے اسے حیرت و تجسس کے دریا میں غوطہ زن ہونے پر مجبور کردیا۔
ماہرین کے مطابق صدیوں سے وقتاً فوقتاً رونما ہونے والی قدرتی آفات انسان اور اس کے گرد و پیش کے لئے خطرناک ثابت ہوئی ہیں۔دراصل قدرتی آفات کسی بھی قدرتی خطرے جیسے سیلاب،طوفان،آتش فشاں،زلزلے،جنگل میں آگ،باڑ،سنامی وغیرہ جیسے اثرات کا نام ہے،جو ہمارے قدرتی ماحول پر اس طرح اثر انداز ہوتے ہیں کہ جس سے نہ صرف ہمارے قدرتی وسائل کو نقصان پہنچتا ہے بلکہ جان و مال کی بھی بربادی دیکھنے کو ملتی ہے۔اس لیے انسان کے لئے ضروری ہے کہ وہ ان اقدام کے بارے میں سوچے جن کے باعث وہ خود کو اور کائنات کو ان قدرتی آفات سے محفوظ رکھ سکے یا کم سے کم ان کے نقصانات ہوں۔
ہر سال دنیا بھر میں 8اکتوبر کا دن قدرتی آفات کے طورپر منایا جاتا ہے تاکہ لوگوں میںاس سے متعلق معلومات فراہم کراتے ہوئے یہ شعوربیدار کیا جائے کہ کسی بھی مشکل یا قدرتی آفات کے موقع پر ایک انسان کیا عمل انجام دے اور جان و مال کی کس طرح حفاظت کر سکے۔دنیا بھر کے سائنسدانوں نے اس پر تحقیق کر کے ان آفات کی وجوہات کے بارے میںمعلومات حاصل کی ہے اور لوگوں کو اس سے آشنا کرایا ہے۔اسی طرح ہر بڑا ادیب اور شاعر جو انسانیت کا محافظ ہوتا ہے اور ماحول اور معاشرے کا ترجمان ہوتا ہے وہ بھی اپنے کلام کے ذریعہ لوگوں کو ان قدرتی آفات سے واقف کراتا ہوا معلوم ہوتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ دینا کے ہر ادب میںان آفات کی حقیقی ترجمانی دیکھنے کو ملتی ہے۔اگر ہم اردو غزل کی بات کریں تو اس کے دامن میں بہت سے ایسے اشعار دیکھنے کو ملتے ہیں جن میں واضح طور پر ان آفات کا ذکر ملتا ہے۔مثال کے لئے کچھ قدرتی آفات کا ذکر پیش کیا جاتا ہے جنھیں شعراء نے اپنی شاعری میں جگہ دی ہے۔
زلزلہ (Earth quake )
دنیا کے وجود میں آنے سے لے کر دور حاضر تک زلزلہ آنے کا سلسلہ جاری ہے۔ہماری زمین مختلف سطحوں سے مل کر بنی ہے ۔زلزلہ زمین کی سطح کے اچانک ہل جانے سے پیدا ہوتا ہے۔زلزلہ کے دوران زمین میں دراریں پڑجاتی ہیں اور تیز جھٹکے محسوس ہوتے ہیں۔سائنس دانوں کے مطابق زمین کے آخری حصے کے اندر گرمی کی وجہ سے وزن والی چیز زمین کے نیچے جاتی ہے اور جس چیز کا وزن کم ہوتا ہے وہ زمیں کے اوپر آجاتی ہے جیسے اگر پانی کے اوپر تیل ڈالا جائے تو وہ پانی کی سطح پر آتا ہے۔اسی طرح جب کوئی چیز زمین کے نیچے جاتی ہے تو اس کی وجہ سے ایک کرنٹ پیدا ہوتا ہے اور اس کی وجہ سے زمین کی پلیٹیں آپس میں ٹکراتی ہیں جس کی وجہ سے زلزلے آتے ہیں ۔اس کے ساتھ ساتھ زمینی سطح پر بہت سی تبدیلیاں بھی رونما ہوتی ہیں۔مثلاًزمین میںشگاف پیدا ہونا،مٹی کا دھسنا،یا پہاڑوں کی تشکیل ہونا۔ہمارے ملک کے ہمالیہ اور دیگر پہاڑی سلسلے ہندوستان کی پلیٹ چین اور یورپ کی بڑی پلیٹوں سے ٹکرانے کے سبب وجود میں آئے ہیں۔زلزلے کی شدت کو ناپنے کے لئے Seismograph" " کا استعمال کیا جاتا ہے۔زلزلہ آنے سے گھر،مکان،عمارتیں،پل،سڑک ٹوٹ جاتے ہیں،عمارتوں میں دبنے سے ہزاروں لاکھوں لوگوں کی موت ہو جاتی ہے۔26جنوری 2001میں گجرات میں زبردست زلزلہ آیا جس میں20000 سے زیادہ لوگوں کی جانیں گئیں۔اپریل 2015میں نیپال میں زبردست زلزلہ آیا جس میں 8000سے زیادہ لوگ مارے گئے اور2000 سے زیادہ زخمی ہوئے۔
زلزلہ آنے سے انسانی ماحول،اس کی زندگی اور نفسیات پر بھی گہرا اثر مرتب ہوتا ہے۔اور جب کوئی حساس شاعر اس تکلیف سے دوچار ہوتا ہے تواس کی ترجمانی اپنی تخلیقات میں کرتا ہے۔اردو غزل میں زلزلہ سے متعلق اشعار دیکھیں:
زلزلہ آیا تو دیواروں میں دب جائوں گا
لوگ بھی کہتے ہیں یہ گھر بھی ڈراتا ہے مجھے
(اختر ہوشیارپوری)
تم جسے بانٹ رہے ہو وہ ستم دیدہ زمیں
زلزلہ آئے گا کچھ ایسا کہ پھٹ جائے گی
(عارفؔ عبدالمتین)
زندگی جس کی اجڑ جاتی ہے اس سے پوچھو
زلزلہ شہر میں آتا ہے چلا جاتا ہے
(ہاشم ؔرضا جلال پوری)
زلزلہ آیا مکاں گرنے لگا
نیند میں اک خواب داں گرنے لگا
(شمائلہ بہزادؔ)
آتش فشاں (Volcano)
آتش فشاں میں زمین کے اندر سے گرم لاوا،راکھ،گیس نکلتی ہے۔یہ زور دار آواز کے ساتھ اوپرآتا ہے۔یہ ایک ایسا نظام ہے جو دھیرے دھیرے بھی ہو سکتا ہے اور تیزی سے بھی عمل میں آسکتا ہے۔
آتش فشاں کے پھٹنے کے بعد پرندوں اور جانوروں کے زندگی بھی متاثر ہوتی ہے،پرندے اس سے نکلنے والی آگ،دھوئے اور گرمی سے مرجاتے ہیں۔جنگلات میں آگ لگ جاتی ہے۔انسانی بستیاں برباد ہو جاتی ہیں۔اردو غزل میں آتش فشاں سے متعلق بہت سے اشعار دیکھنے کو ملتے ہیںمثلاً:
ٹھٹھر گیا ہے بدن سب کا برف باری سے
دہکتا کھولتا آتش فشاں تلاش کرو
(اسعدؔ بدایونی)
جانے لاوا سلگ اٹھے کس وقت
دل کہ آتش فشاں ہے کھیل نہیں
(شفیقؔ دہلوی)
پھٹا مجھ میں پھٹا آتش فشاں پھر
ہیں سینے میں دھماکوں پر دھماکے
(شمیم ؔعباس)
یہ خوف ہے کہیں آتش فشاں نہ بن جائے
ہمارے پائوں کے نیچے دبا ہوا ساکچھ
(راشدؔ جمال فاروقی)
غم کا اک آتش فشاں تھا اور میں
دور تک گہرا دھواں تھا اور میں
(کبیر اجملؔ)
کیا جانے کس مقام سے لاوا ابل پڑے
آتش فشاں زمیں پہ سفر کر رہے ہیں ہم
(ناصرؔ شکیب)
جنگل کی آگ (WildFire)
جنگل کی آگ وہ آگ ہے جو جنگل کے درختوں یا کسی غیر آبادی والے ہرے بھرے علاقے میں قدرتی طور پر بھڑکنے لگے۔ایسا دیکھنے کو ملتا ہے کہ عام طور پر گرمی کے موسم میںجنگلوں میں بہت خطرناک آگ لگ جاتی ہے۔اس کے پیچھے انسانی اور قدرتی عوامل دونوں ہوسکتے ہیں۔کئی بار انسان کی لاپرواہی سے بھی جنگل میں آگ لگتی ہے ۔جب انسان جنگل کے اطراف میں کہیں آگ جلاتا ہے اور اس کو بجھانا بھول جاتا ہے جس کے سبب دھیرے دھیرے جنگل میں آگ پھیل جاتی ہے اور وہ ایک خطرناک روپ اختیار کر لیتی ہے۔اور کبھی ایسا بھی دیکھنے کو ملتا ہے کہ سورج کی گرمی کی وجہ سے سوکھی پتیوں میں آگ لگ جاتی ہے اور پورا جنگل اس کی گرفت میں آجاتا ہے۔ہمارے ملک ہندوستان کے اترا کھنڈ صوبے میں واقع چیڑ کے جنگلات میں اسی قسم کی آگ دیکھنے کو ملتی ہے۔جنگل کی آگ کے بہت برے اثرات دیکھنے کو ملتے ہیں۔جس سے ہمارا قدرتی ماحول بھی بری طرح متاثر ہوتا ہے۔گذشتہ کئی صدیوں میں یہ ایک بڑی تباہی کے طور پر ابھر کر سامنے آئی ہے۔اس طرح کے واقعات دنیا بھر میں دیکھنے کو ملے ہیں۔مثلاً ’انٹار کٹکا‘ اور دیگر براعظم میں پیش آئے واقعات اس کی ترجمانی کرتے ہیں۔اس کے سبب ہمارے قدرتی ماحول ،انسانی جان و مال،جنگلی جانوروں،پرندوں،پیڑ پودوںکے تباہ ہونے کا خطرہ کافی بڑھ جاتا ہے۔اردو غزل کے منفرد اشعار میں اس کی بڑی دلچسپ ترجمانی دیکھنے کو ملتی ہے:
آبادیوں کی خیر منانے کا وقت ہے
جنگل کی آگ پھیل رہی ہے ہوا کے ساتھ
(سرشارؔ صدیقی)
ڈھونڈیں گے اب پرندے کہاں شام کو پناہ
جنگل کی آگ کھا گئی سب ڈالیاں درخت
(پروین کمار اشکؔ)
تیرے گھر تک آچکی ہے دور کے جنگل کی آگ
اب ترا اس آگ سے ڈرنا بھی کیا لڑنا بھی کیا
(وزیر آغاؔ)
تمام شہر میں جنگل کی آگ ہو جیسے
ہوا کے دوش پہ اڑتی ہوئی خبر تھا میں
(جمنا پرشاد راہیؔ)
کون اس کو جلانے والا تھا
اپنی ہی آگ میں جلا جنگل
(شین کاف نظامؔ)
بجلی گرنا یا برق کا گرنا (Lightening)
اکثربجلی بارش کے موسم میں آسمان سے زمیںپر گرتی ہے۔ماہرین کے مطابق ہر سال دنیا بھر میں 24000 لوگ آسمانی بجلی گرنے سے موت کے شکار ہوجاتے ہیں۔آسمان میں مخالف سمتوں میں جاتے ہوئے بادل جب آپس میں ٹکراتے ہیں تو رگڑ پیدا ہوتی ہے جس سے بجلی بنتی ہے ۔اردو غزل میں بجلی گرنے کے عمل سے متعلق بہت سے اشعار دیکھنے کو ملتے ہیں:
قفس میں مجھ سے روداد چمن کہتے نہ ڈر ہم دم
گری ہے جس پہ کل بجلی وہ میرا آشیاں کیوں ہو
(غالبؔ)
برق کا آسماں پر ہے دماغ
پھونک کرمیرے آشیانے کو
(مومن خاں مومنؔ)
کیا نہیں یاد برق کا گرنا
پھر بناتا جو آشیاں ہوں میں
(میر مہدی مجروحؔ)
ظالم خدا سے ڈر کہیں بجلی نہ گر پڑے
مشکل بہت ہے گرنا اگر آسمان کا
(اطہر ؔنادر)
بلا سے برق گری میرے آشیانے پر
اندھیری رات کے رہرو کو روشنی تو ملی
(اولاد علی رضوی)
برق تھی بیتاب میرے آشیانے کے لئے
ابر سے بھی بیشتر آئی جلانے کے لئے
(خواجہ محمد وزیرؔ لکھنوی)
برق تھی گر گئی شخص تھا جل گیا
دیر تک راکھ سے آنچ آتی رہی
(گل افشاںؔ)
برق گرتی ہے تو خرمن کو جلا جاتی ہے
کب اسے محنت دہقاں کی خبر ہوتی ہے
(انوار الحسن انوارؔ)
آندھی (Storm)
گرم اور خشک موسم کے دوران میدانی علاقوں میں بڑی ہی طوفانی اور تلاطم خیز ہوائیں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ایسی ہوائوں کو آندھی کہا جاتا ہے۔لیکن جب یہ اپنے ساتھ گرد و غبار لے کر چلتی ہیں تو ان کے لئے انگریزی میں ایک خاص قسم کی اصطلاح Dust Storm کا استعمال کیا جاتا ہے۔جب یہ سیاہ رنگ کے گرد وغبار کے بادل لے کر چلتی ہیں تو اس کو ’سیاہ آندھی‘ کہا جاتا ہے۔اور جب زرد رنگ کے گردو غبار کے بادل کے ساتھ چلتی ہے تو’زرد آندھی‘ کہتے ہیں۔’سیاہ آندھی‘ آنے پر سب جگہ گھنا اندھیرا چھا جاتا ہے اور’زرد آندھی ‘آنے پر ماحول زرد رنگ میں رنگا نظر آتا ہے ۔ہوائوں کی رفتار بہت تیز ہوجاتی ہے۔ہر جگہ ریت ہی ریت نظر آتا ہے۔ایسی آندھی آنے سے درخت جڑ سے اکھڑ جاتے ہیں،فصلیں برباد ہوجاتی ہیں،بجلی کے تار اور کھمبے ٹوٹ جاتے ہیں،مکانات اور عمارات کو بھی نقصان پہنچتا ہے۔بڑے پیمانے پر لوگوں کو جان و مال کا خطرہ اٹھانا پڑتاہے۔یہ طوفانی ہوائیںبڑے طویل فاصلے طے کرتے ہوئے چلتی ہیں۔ماہرین کے مطابق یہ فاصلے دو سے ڈھائی ہزار میل تک ہو سکتے ہیں۔مغربی افریقی ممالک میں چلنے والی خشک اور ریتلی آندھی کو ’ہرمٹن ‘ (Harmattan) کہا جاتا ہے۔یہ آندھی دنیا کے سب سے بڑے ریگستان ’سہارا‘ کے اطراف میںچلتی ہے۔عام طور سے یہ آندھیاں نومبر کے آخر سے شروع ہوکر مارچ کے مہینے تک دیکھنے کو ملتی ہیں۔یہ آندھیاں اپنے ساتھ بڑے باریک مٹی کے ذرات لے کر چلتی ہیں جن کا حجم 0.5سے10 مائیکرومیٹر تک ہوتا ہے۔ان طوفانی ہوائوںکے اثرات انسانی بصارت کو متاثر کرتے ہیں۔کئی دن تک سورج کی روشنی زمین تک نہیں آپاتی ہے۔اس کے علاوہ انسان اور جانور ایک خاص قسم کی الرجی سے متاثر نظر آتے ہیں۔اب اس سے متعلق اشعار ملاحظہ فرمائیں:
آندھیاں تند درختوں کو اڑ لے جائیں گئیں
بس وہی شاخ بچے گی جو لچک جائے گی
(نامعلوم)
ہوئے ہیں سیہ بخت برباد لاکھوں
اٹھیں آندھیاں بارہا کالی کالی
(قدرؔ بلگرامی)
آندھیاں بجلیاںشجر کمزور
بچ نہ پائے گا آشیاں تنہا
(رشیدؔ الظفر)
آندھیاں ہی اکھاڑتی ہیں اسے
آندھیوں میں ہی پیڑ پلتا ہے
(سیماؔ شرما میرٹھی)
ایک تنکا بھی نہ چھوڑا گھر میں
تیز آندھی سی چلی ہو جیسے
(وجدؔ چغتائی)
آئی تھی جس حساب سے آندھی
اس کو سوچو تو پیڑ کم ٹوٹے
(سور یاؔ بھانوگپت)
مالک یہ دیا آج ہوائوں سے بچانا
موسم ہے عجب آندھی کے آثار ملے ہیں
(حکیم ناصرؔ)
طوفان (Cyclone )
ہمارے ملک ہندوستان میں طوفان بنگال کی کھاڑی میں دیکھنے کو ملتے ہیں۔یہ سمندر کی سطح پر ہوائی دبائوں کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے۔تیز ہوائیں بارش کے ساتھ گھیرا بنا کر چلتی ہیں۔جو سمندری کناروں پر تباہی کی باعث بنتی ہیں۔ان کی رفتار280 km/h سے زیادہ ہو سکتی ہے۔ہمارے ملک ہندوستان میں1737 ء میں"Hooghly River Cyclone" آیا جس کے برے اثرات بنگلہ دیش اور کلکتہ میں دیکھنے کو ملے۔اس طوفان کے سبب تقریباً تین لاکھ افرادکی موت واقع ہوئی۔اس کے بعد 25نومبر 1839 ء میںآندھراپردیش میں آئے"Koring Cyclone" میںبیس ہزار سے زیادہ افراد کی موت ہوئی۔1999ء اڑیسہ میں آئے 05B کے طوفان میں 15000سے زیادہ لوگوں کی جانیں گئیں۔ان شواہد سے ثابت ہوتا ہے کہ جب بھی کہیں وسیع پیمانے پر کوئی طوفان آتا ہے تو اس کے برے نتائج ہمارے معاشرے کو جھلنے پڑتے ہیں۔ان حالات کا پروردہ شاعر اپنی غزل میںطوفان کے موضوع کو اس طرح بیان کرتا ہے:
طوفان کر رہا تھا میرے عزم کا طواف
دنیا سمجھ رہی تھی کہ کشتی بھنور میں ہے
(نامعلوم)
مٹّی کے گھر ہی صرف نہیں باعث ملال
طوفان کی حدوں میں ہیں پکّے مکان بھی
(عزیزخیر آبادی)
ایک ندی ہے کہ رکتی ہی نہیں
ایک طوفان اترتا جائے
(شین کاف نظامؔ)
کوئی سناٹا سا سناٹا ہے
کاش طوفان اٹھادے کوئی
(ناصرؔ زیدی)
وہ نہیں دیکھتے ساحل کی طرف
جن کو طوفان صدا دیتا ہے
(سیف الدین سیفؔ)
مدو جزر(Tides)
چاند اور سورج کی ثقلی قوتوں اور زمین کی گردش کے مجموعی اثرات کی وجہ سے سمندر ی سطح کا اتار چڑھائو ہوتا ہے۔جس کے سبب مدوجزر پیدا ہوتے ہیں۔اسے عام زبان میں جوار بھاٹا بھی کہا جاتا ہے۔اس کے اثرات صرف سمندروں پر ہی مرتب نہیں ہوتے بلکہ ان سبھی چیزوں پر اس کا اثر ہوتا ہے جن پر وقت اور مقام کے ساتھ قوت ثقل لگتی ہے۔زمین،چاند،اور سورج کی قوت ثقل مدو جزر پیدا ہونے کی اہم وجہ ہیں۔اردو غزل میں اس موضوع سے متعلق اشعار دیکھیں:
دریا کے مدوجزر بھی پانی کے کھیل ہیں
ہستی ہی کے کرشمے ہیں کیا موت کیا حیات
(فراقؔ گورکھپوری)
مہتاب تو نکلا ہی نہیں ڈوب کے فاخرؔ
لیکن مرے دریا میں وہی مدوجزر ہے
(احمد فاخرؔ)
مجھ کو بھی علم ہے سب مدو جزر کا
میں بھی تو سب کے ساتھ انہیں پانیوں میں ہوں
(محسنؔ زیدی)
بگولہ(Tornado)
طوفان گرد و باد یا بگولہ ہوا کے طوفان کو کہتے ہیں یہ طوفان جو چکر کھاتے ہوئے بڑھتے ہیںاور کالے با دل کی طرح گھومتے ہوئے زمین کی طرف اترتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔اس میں ہوا کی رفتار 300 میل فی گھنٹہ تک پہنچ جاتی ہے۔اردوغزل کے شعراء نے اس موضوع کو بھی منفرد ادنداز میں پیش کیا ہے:
جو دیکھیے تو بگولہ ہے ریگ آوارہ
جو سوچئے تو یہی آبروئے صحرا ہے
(رفعت سروشؔ)
میں اک انساں ہوں یا سارا جہاں ہوں
بگولہ ہے کہ صحرا جارہا ہے
(احمد ندیمؔ قاسمی)
ترا غبارزمیں پر اترنے والا ہے
کہاں تک اب یہ بگولہ تھکن چھپائے گا
(احسان دانشؔ)
اب مری تنہائی کم ہو جائے گی
اک بگولہ مل گیا ہے دشت میں
(بلوان سنگھ آذرؔ)
یک بیک ہوگیا اوجھل وہ نظر کے آگے
دھند کا ایک بگولہ سا اُٹھا تھا کیا تھا
(حسرتؔ دیوبندی)
بھنور(Whirlpool)
عام طور سے بھنور سمندر میں مدو جزر پانی کا ایک چکردار حصہ ہوتا ہے۔زیادہ تر بھنور زور دار نہیں ہوتے ہیں۔لیکن اگر کبھی بہت شدید اور زوردار بھنور آتا ہے تو اس کے لئے انگریزی میںMaelstroms کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہیں جو عمومی طور سے کم ہی آتے ہیں۔بھنور آنے پرسمندر میںبڑی اتھل پھتل دیکھنے کو ملتی ہے۔اس دوران ملاح جن کی زندگی کا دارومدار سمندر کی مخلوقات پر ہوتا ہے بری طرح متاثر ہوتے ہیں ان کی کشتیاں اور پانی کے جہاز اس بھنور میں پھنس کر ڈوب جاتے ہیں۔جس سے ان کو جان و مال کا نقصان اٹھانا پڑ تاہے۔اردو غزل میں بھنور سے متعلق اشعار دیکھیں:
یوں تو آیا ہے تباہی میں یہ بیڑا سوبار
پر ڈراتی ہے بہت آج بھنور کی صورت
(الطاف حسین حالیؔ)
بھنور سے لڑو تند موجوں سے الجھو
کہاں جارہے ہو کنارے کنارے
(نامعلوم)
مرے اندربھنور اٹھنے لگے تھے
سمندر سے بڑی وحشت ہوئی تھی
(یاسمین حبیبؔ)
بھنورکا حکم ہے دریا پہ جاری
کنارے نائو سے کترا رہے ہیں
(ظفرؔ صہبائی)
آکہ دکھلائوں رقص پانی کا
اک بھنور اب بھی ناچتا ہوگا
(فیصل سعید ضرغامؔ)
سیلاب (Flood)
کسی علاقے پر جب اچانک سے بہت زیادہ بارش ہو جاتی ہے تو پانی جگہ جگہ بھر جاتا ہے۔ایسے حالات میں سڑکیں،راستے،کھیت،ندی،نالے،سبھی جگہ پانی بھر جاتا ہے جس کے سبب سے سیلاب آتا ہے۔سیلاب آنے سے نشیبی حصے میں رہنے والے لوگ اپناگھر چھوڑنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔فصلوںکو بہت نقصان ہوتا ہے۔زیادہ سیلاب آنے سے پرندے اور جانور پانی میں ڈوب کر مر جاتے ہیں۔لوگوں کاجینا دشوار ہو جاتا ہے۔2009 میں ممبئی میں خطرناک سیلاب آیا جس میں 5000 لوگ مارے گئے۔اردو غزل کے شعراء نے سیلاب کے موضوع کو اپنے کلام کے ذریعے اس طرح پیش کیا ہے:
بارش کا لطف بند مکانوں میں کچھ نہیں
باہر نکلتے گھر سے تو سیلاب دیکھتے
(شہریارؔ)
ساحل کی بستیوں کا سارا گھمنڈ ٹوٹا
سیلاب نے طمانچہ جب تان کر دیا ہے
(فرحت احساسؔ)
اس طرف شہر ادھر ڈوب رہا تھا سورج
کون سیلاب کے منظر پہ نہ رویا ہوگا
(انور مسعودؔ)
بستی کے گھروں کو کیا دیکھے بنیاد کی حرمت کیا جانے
سیلاب کا شکوہ کون کرے سیلاب تو اندھا پانی ہے
(سلیم ؔاحمد)
بہا کر لے گیا سیلاب سب کچھ
فقط آنکھوں کی ویرانی بچی ہے
(شہزادؔ احمد)
کھیت جل تھل کردئے سیلاب نے
مرگئے ارمان سب دہقان کے
(افضلؔ ہزاروی)
سنامی (Tsunami)
سنامی یعنی ’’بندر گاہوں کی لہریں‘‘ سمندر کی سطح پر ہل چل، زلزلہ،زمینی درار پڑنے،زمینی کی پلیٹیں ہلنے سے سنامی کی بے حد خطرناک لہریں پیدا ہوتی ہیں اس لہر کی رفتار 400 km/h تک ہوسکتی ہے۔لہروں کی اونچائی 15 m سے زیادہ ہو سکتی ہے۔سنامی کے وجہ سے بھاری جان و مال کا نقصان ہوتا ہے۔آس پاس کے علاقوں،سمندری کناروں،بندرگاہوں اور انسانی بستیوں کو یہ برباد کر دیتی ہے۔
26 دسمبر2004 میں آئی سنامی نے نہ صرف ہندوستان بلکہ انڈونیشیا،شری لنکاکے ساتھ 14 ممالک کو متاثر کیا جس میں 2 لاکھ 30 ہزار لوگوں کی موت ہوئی۔
زلزلے آرہے ہیں دریا میں
خوف ہے پھر ہمیں سنامی کا
(ڈاکٹر ہلال ؔنقوی)
کبھی بھنور تھی جو ایک یاد اب سنامی ہے
مگر یہ کیا کہ مجھے اب بھی تشنہ کامی ہے
(شمیم ؔعباس)
شور کرتا ہے آج دریاکیوں
آگئی پھر یہاں سنامی کیا
(عادل ؔفراز)
دو بدن آب آب کرنے کو
ایک سنامی اٹھی محبت کی
(وفا ؔنقوی)
قحط (Famine/Drought)
قحط کے دوران کسی مقام پر کئی مہینوں سالوں تک بارش نہیں ہوتی ہے۔جس کی وجہ سے زیرِ زمین پانی کی سطح تیزی سے نیچے گرنے لگتی ہے۔اس کے وجہ سے پیڑ پودے سوکھنے لگ جاتے ہیں،فصلیں برباد ہو جاتی ہیں،پینے لائق پانی کے کمی ہوجاتی ہے،درجہ حرارت میں اضافہ ہونے لگتا ہے۔پرندوں اور جانوروں کی زندگی بھی دشوار ہوجاتی ہے اور ان کی موت واقع ہونے لگتی ہے۔ایسے دشوار کن حالات میں کھانے پینے کے اشیاء کی کمی ہونے کی وجہ سے انسان بہت سی بیماریوں کا شکار ہوجاتا ہے۔ماہرین کے مطابق جنگلات کے کٹائی،بارش کا نہ ہونا،زیر زمین پانی کا حد سے زیادہ استعمال،ماحولیاتی آلودگی،قحط پڑنے کے اہم اسباب ہیں۔اردو شعراء نے قحط کے موضوع کو اپنے اشعار میں بڑے پر اثر طریقے سے پیش کیا ہے:
سب کے سوکھے ہوئے ہیں پیمانے
ہر طرف قحط آب ہو جیسے
(ڈاکٹر ہلال نقوی)
ہر طرف قحط آب تھا لیکن
ایک طوفان میرے اندر تھا
(شریف منورؔ)
جو چاروں سمت گرانی کی ہے فراوانی
تو قحط بھی اسی بہتات سے نکلتا ہے
(ظفرؔ اقبال)
قحط نے سارے گھر اجاڑ دئیے
ایک جو بچ گیا ہے خالی ہے
(انعام کبیرؔ)
الغرض اردو غزل میںقدم قدم پر منفرد انداز میںقدرتی آفات کا بیان دیکھنے کو ملتا ہے ۔کیوں کہ یہ وہ موضوع ہے جس سے انسان کی زندگی ہر صدی میں متاثر ہوتی رہی ہے۔جب سے اس زمین کی تخلیق ہوئی ہے اور دور حاضر تک ان قدرتی آفات کا سلسلہ جاری و ساری ہے۔اور خاص طور سے انسان کی بد عملیوں نے ان خطرات کے ہونے کے امکانات کو اور بڑھا دیا ہے۔انسان اپنے مفاد کی خاطر قدرتی ماحول سے کھلواڑ کر رہا ہے۔جس سے ہمارے ماحول میں نا گزیر تبدیلیاں واقع ہو رہی ہیںاور جو کہیں نہ کہیں قدرتی آفات کے آنے کا سبب بنی ہیں۔ہمیں آج اس موضوع پر غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے کہ کس طرح ہم ان خطرات کے آنے کے امکانات کو کم کر سکتے ہیں۔اور کس طرح ان آفات سے خود کو محفوظ رکھ سکتے ہیں جس سے انسانی جان و مال کا خطرہ کم ہوسکے۔
انجینئر محمد عادل
ہلال ہائوس4/114
نگلہ ملّاح سول لائن علی گڑھ
علی گڑھ یوپی
“