اس بات کو دلیل کے ساتھ پیش کیا جاسکتا کہ سائنس کی ترقیات کے سبب ہی ہماری زندگی کے ہر شعبہ میں حیرت انگیز تبدیلیاں رونماہوئی ہیں۔دورحاضر میں سائنس اور ٹیکنالوجی نے انسان کو ایک نئی ترقی کی راہ پر گامزن کیاہے۔اور خاص طور سے گزشتہ بیس سالوں میں سائنس کے میدان میں ایسی ایجادات دیکھنے کو ملی ہیں جتنی ایجادات سو برسوں میں بھی نہیں ہوسکی تھیں۔لہذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ دور سائنس کی ترقیات اور ٹیکنالوجی کے نقطہ نظرسے بہت اہم ہے اور آنے والا مستقبل مزید سائنس کے میدان میں اپنے کمالات پیش کرے گا۔
دور حاضر میں جہاںزندگی کے ہر شعبہ پر سائنس کے اثرات واضح طور پر نظر آرہے ہیں ۔تو پھر یہ کس طرح ممکن ہے کہ ادب اس سے متاثر نہ ہو سکے۔اس لئے ہم کو بدلتی ہوئی صورت حال کے عین مطابق اپنے ادب کو سائنس کے نقطۂ نظر اور زاویہ سے ازسر نو دیکھنے اور پرکھنے کی ضرورت ہے۔کیوں کہ ہماری آنے والی نسلیںسائنسی ماحول میں آنکھیںکھول رہی ہیںاور سائنسی فکر کے ساتھ ہر لمحہ پروان چڑ ھ رہی ہیں ۔ہمارے ادیبوں اور شاعروں کو ادب سائنسی زاویوں کے عین مطابق تحریر کرنا ہوگا کیوں کہ یہ وقت کی ضرورت ہے۔اس کے علاوہ ہم اپنے کلاسکی ادب کو بھی سائنس کے نقطہ نظر سے جانچ اور پرکھ کر نئے زاویہ سے پیش کرسکتے ہیں۔اس مختصر سے مضمون میںاردو غزل کی تلمیحات کو سائنس کے زاویہ سے دیکھنے کی کوشش کی گئی ہے کہ کس طرح ہماری تلمیحات دور حاضر میں اپنے مفاہیم پیش کررہی ہیں اور حقیقت میں اپنے جلوے بکھیرتی ہوئی دکھائی دے رہی ہیں۔
یہ بات وضاحت طلب نہیں کہ آج سائنس اور ٹیکنالوجی کی بدولت انسان اپنے بہت سے کام بڑی آسانی کے ساتھ انجام دے رہا ہے۔سائنس کی ایجادات کے سبب انسان نے کافی تیزی کے ساتھ ترقیات کی منزلیں طے کی ہیں۔ اس بات کو پورے وثوق کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ دور جدید کی ترقیات کا دارومدار ان ایجادات پر انحصار کرتا ہے جن کو انسان نے قدیم دور میںدریافت کیا تھا۔اس لئے ہم اس بات کو تسلیم کرسکتے ہیں کہ انسان کے اس روئے زمین پر قدم رکھنے کے وقت بھی سائنس اور ٹیکنالوجی موجود تھی۔اور ہمارے اسلاف بھی نئی نئی چیزوں کی کھوج میں لگے رہتے تھے۔کیوں کہ ضرورت ایجاد کی ماں ہے ۔اس لئے لوگوں نے پتھروں سے اوزار بنائے،ہل اور پہیہ کی دریافت کی جس کی بنیاد پر آج کی سائنس اتنی ترقیات کر سکی کہ دنیا محوِ حیرت ہے۔ یعنی دور حاضرکی تمام تر ایجادات کا دارومدار انسان کی ہزاروں برسوں کی کوشش اور خواہشات کا نتیجہ ہیں جس کا خواب انسان صدیوں سے دیکھتا رہا ہے۔مثلاًداستانوں اورکہانی قصوں میں آنے والے اُڑن کھٹولے آج کے دور کے ہوائی جہازوں کی شکل اختیار کرچکے ہیںاور کچھ خواب ایسے بھی ہیں جو شرمندۂ تعبیر ہونے جارہے ہیں۔
آئیے کچھ اسی طرح کی تلمیحات کا جائیزہ لیتے ہیں جو دور حاضرمیں بھی سائنس اور ٹیکنالوجی کے مطابق حقیقت میں نظر آرہی ہیں یا سچ ہونے جارہی ہیں۔
(جامِ جمشید ؍جام جم؍جام جہاں نما)
جب ہم اردو غزل کا مطالعہ کرتے ہیںتو ہمیں جگہ جگہ منفرد اشعار میں جام جمشید ؍جام جم؍جام جہاں نما
کی تلمیح دیکھنے کو ملتی ہے ۔خاص طور سے کلاسیکی غزل میں شاعروں نے اس تلمیح کو بہت استعمال کیا ہے۔یہ بات بھی بڑی دلچسپ ہے کہ دنیا کی منفرد زبانوں اور تہذیبوں کے ادب میںجام جمشید کا تذکرہ دیکھنے کو مل جاتا ہے۔کہیں اس کو جام جہاں نما کہا گیا تو کہیں اس کو جام جہاں آراء کے نام سے موسوم کیا گیا ۔ماہرین اور مورخین کے مطابق یہ کہا جاتا ہے کہ یہ تقریباً ایک ہزار قبل مسیح ایران کے مشہور و معروف بادشاہ جمشید کے پاس موجود تھا۔یہ ایک حیرت انگیز اور جادوئی پیالہ تصور کیا جاتا ہے۔جس کے ذریعے بادشاہ دنیا بھر کے حالات ایک جگہ بیٹھ کر معلوم کر لیتا تھا۔دور حاضر میں اگر ایسے واقعات کو سائنسی فکشن تصورکیا جاتا ہے۔لیکن یہ بات بھی بڑی دلچسپ ہے کہ آج جام جمشید حقیقت بن چکا ہے ۔کیوں کہ آج سائنس اور ٹیکنالوجی اپنے عروج پر ہے اور سائنس نے ایسے آلات ایجاد کر لئے ہیںجن کے بدولت ہم دنیا جہان کی معلومات گھر بیٹھے حاصل کر سکتے ہیں۔مثال کے طور پر کمپیوٹر،لیپ ٹوپ،ٹیبلیٹ،اسمارٹ موبائل فون وغیرہ وغیرہ۔ان سب آلات کو انٹرنیٹ کے ذریعے دنیا بھر کے دوسرے مقامات کے آلات سے منسلک کیا جاتا ہے۔یہ ایک ایسا جال ہے جو پوری دنیا کو اپنی گرفت میں لئے ہوئے ہے۔انٹرنیٹ کی طاقت اور ان آلات کی مدد سے آج کا انسان اتنا قابل ہوگیا ہے کہ وہ ایک مقام پر بیٹھے بیٹھے دوسرے مقام کے لوگوں سے لمحہ بھر میںملاقات کر سکتا ہے۔اپنی آواز،اپنی تصویر اوڈیو اور ویڈیو فائل کی شکل میں ایک دوسرے کو منتقل کر سکتا ہے۔اپنی تحریر کو ایک دوسرے کو بھیج سکتا ہے۔زمین و آسمان کے بارے میں معلومات حاصل کر سکتا ہے۔مختلف شہروں کے نقشے اور مقام اور صحیح راستے کی جانکاری چند لمحات میں حاصل کرسکتا ہے۔موسم کے بدلنے اور درجہ حرارت سے بھی آشنا ہو سکتا ہے۔الغرض ہم کہہ سکتے ہیںکہ جام جمشید کی یہ تلمیح دور حاضر میںسائنس کی ترقیات کے سبب حقیقت میں تبدیل ہوچکی ہے۔اور آج یہ جام جہاں نمااسمارٹ فون کی شکل میں ہر چھوٹے بڑے شخص کے ہاتھ کا کھلونابنا نظر آتا ہے۔اب دیکھئے کہ اردو غزل کے شعرا جام جم کو اردو غزل میں کس طرح منفرد انداز میںپیش کرتے ہیں:
اور بازار سے لے آئے اگر ٹوٹ گیا
ساغر جم سے مرا جام سفال اچھا ہے
مرزا غالبؔ
ہمیں چشم بینا دکھاتی ہے سب کچھ
وہ اندھے ہیں جو جام جم دیکھتے ہیں
داغ ؔدہلوی
نظر آیا تماشائے جہاں جب بند کیں آنکھیں
صفائے قلب سے پہلو میں ہم نے جام جم پایا
حیدر علی آتشؔ
سارا جہان دیکھو نقطے میں آگیا ہے
اسمارٹ فون کیا ہے جامِ جہاں نما ہے
وفا ؔنقوی
جمشید بھی جو دیکھے حیرت میں ڈوب جائے
جام جہاں نما ہے اسمارٹ فون میرا
ڈاکٹر ہلال ؔنقوی
جام جم تھا جوداستانوں میں
آج اسمارٹ فون میں آیا
ذوالفقار زلفیؔ
(مہ نخشب)
نخشب وسط ایشیا کے ایک خطے ترکستان کے ایک شہر کا نام ہے۔جہاں حاکم بن ہاشم ابن مقنع نے ایک کنوئیں سے ایک مصنوعی چاند نکالا تھا۔ اس لئے اس مناسبت سے اس چاند کو مہ نخشب کہا گیا۔مہ نخشب کی تلمیح ہماری اردو شاعری میںمنفرد انداز میں دیکھنے کو ملتی ہے۔اس سے جڑا ہوا واقعہ بہت ہی دلچسپ ہے کہتے ہیںکہ ابن مقنع علم کیمیا کا علم رکھتا تھا۔ اس نے شہر کے باہر ایک کنواں تعمیر کروایا جس میں سے ایک مصنوعی چاند نکلتا تھاجو رات کے اندھیرے میں اپنی روشنی بکھیرتا تھا۔یہ چاند اندھیری رات میں آسمان پر معلق ہوجاتا اور بالکل اصلی چاند کے مانند دنظر آتا ۔اس کی مدد سے تقریباً پندرہ میل کی مسافت تک روشنی پھیل جاتی تھی۔لیکن جب اس کی وفات ہوئی تو یہ راز بھی اس کے ساتھ دفن ہوگیا کہ کیسے اس نے کنوئیں سے یہ چاند نکالا تھا۔لیکن آج دور حاضر میںحکیم ابن مقنع کا یہ چاند پھر سے حقیقت بنتا ہوا نظر آرہا ہے۔ابھی حال ہی میں چین سے ملنے والی خبروں کے مطابق چین مصنوعی چاند کے پروجیکٹ پر کام کررہا ہے۔وہ اپنا یہ پروجیکٹ 2020کے آخر تک مکمل کرلے گا۔اور 2022تک اپنے تیار کردہ مصنوعی چاندخلاء میںبھیج سکتا ہے۔ایسا تصور کیا جارہا ہے کہ یہ چاندشیشے کی طرح بنے ہوں گے اور سورج کی روشنی کو منعکس کر کے روشنی بکھیریں گے۔چین کے سائنسدانوں کی مطابق اس چاند کو زمین سے 35786 کلومیٹرز کی اونچائی پر جیو اسٹیشنری مدار(Geostationary orbit) میں قائم کیا جائے گا۔جس کی مدد سے چین کے چینگڈو (Chengdu) شہر اور اس کے آس پاس کے علاقے کو روشن کیا جائے گا۔اس کے بعدان شہر کے علاقوں میں اسٹریٹ لائٹ کی ضرورت نہیں پڑے گی۔اور بجلی کی کھپت میں بھی کمی واقع ہوگی۔اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ ابن مقنع کا یہ چاند از سر نو نمودار ہو کر چین کے مصنوعی چاند کی شکل میں روشنی بکھیرتا ہوا نظر آئے گا۔اردو غزل میں اس تلمیح سے متعلق اشعار ملاحظہ کریں:
نکلا مہ نخشب کہ گرا چاہ میں یوسف
یا حوض کے اندر مہ گل رنگ ہے ہولی
حاتم علی مہرؔ
چھوڑا مہ نخشب کی طرح دست قضا نے
خورشید ہنوز اس کے برابر نہ ہوا تھا
مرزا غالبؔ
چاہ میں اس مہ نخشب کے شب و روز ہیں غرق
قاز جس کا مہ کنعاں سے شبانی مانگے
سید محمد عبدالغفور شہباز
جو روز ہے رخ توزلف ہے شب ذقن ہے مانند چاہ نخشب
یہ حال ہے بچپنے میں یارب تو ہوگا عہد شباب کیسا
حبیب موسوی
اس نے تصویر جب بنائی تری
ماہ نخشب مجھے دکھائی دیا
ڈاکٹر ہلالؔ نقوی
چاند پھر ڈوبنے لگا میرا
ماہ نخشب کوئی بنائے نیا
عادلؔ فراز
(آب حیات)
آب حیات کی تلمیح بھی ہماری اردو غزل کے دامن میں جگہ جگہ دیکھنے کو ملتی ہے۔ایساتصور کیا جاتا ہے کہ یہ ایک ایسا پانی ہے جس کو پینے کے بعد انسان کی زندگی طویل ہوجاتی ہے اور وہ امر ہوجاتا ہے ۔اس لئے آب حیات کو آب بقا بھی کہا گیا ہے۔اس سے متعلق ایک داستان مشہور ہے جس کے مطابق یہ کہا جاتا ہے کہ حضرت خضر علیہ السلام اورسکندر اعظم اس پانی کی تلاش میں نکلے تھے اور حضرت خضرؑنے یہ پانی پی لیا تھاجس کے سبب ان کی زندگی طویل ہوگئی۔بہرحال اس داستان کی چاہے جو بھی حقیقت ہو لیکن دور حاضر کی جدید میڈیکل سائنس آج اتنی ترقی کر چکی ہے جس کے مطابق یہ دعوہ کیا جارہا ہے کہ ماہرین ایسی دوا ایجاد کرنے میں کافی حد تک کامیاب ہوچکے ہیں جن کی مدد سے انسان کی زندگی کو طویل کیا جاسکتا ہے۔اگر یہ دوا بن کر منظر عام پر آجاتی ہے تو انسان کی زندگی میں اہم تبدیلیاں رونما ہو سکتی ہیں۔جس طرح آب حیات پینے کے بعد انسان جوان ہوجاتا تھا۔اور اس کا شباب برقرار رہتا تھا وہ کبھی بوڑھا نہیں ہوتا تھا۔اسی طرح اس دوا کا استعمال کرنے سے انسان اپنے بڑھاپے کو کافی حد تک کم کرسکے گا۔گذشتہ سال ایسی خبریںدیکھنے کو ملی ہیں کہ کینڈا کے ملک ماسٹر یونیورسٹی میں کام کرنے والے سائنسدانوں نے ایسی دوا بنانے میں کافی حد تک کامیابی حاصل کر لی ہے جو انسان کے شباب کو برقرار رکھنے میں معاون ثابت ہوگی۔ماہرین کے مطابق وہ ایسی دوا کی دریافت میں لگے ہیں جس کے استعمال سے الزائمر،ڈیمنشیا اور دیگر بڑھاپے کی بیماریوں سے انسان کو نجات مل سکے گی۔سائنسدانوں نے اپنی تیار کردہ دوا کا تجربہ چوہوں پر کر کے دیکھا ہے۔اس دوا کوچوہوں کی خواراک میں ملا کر دینے کے بعد اس کے مثبت نتائج ملے ہیں۔اس کے استعمال سے ان کے دماغ پر الزائمر کے اثرات کم ہوئے ہیں جس سے اس بات کی امید قائم ہوئی ہے کہ اس کے مثبت نتائج انسانوں میں بھی دیکھنے کو ملیںگے۔ایسا دعوہ کیا جارہا ہے کہ اس دوا کے استعمال سے خلیوں کی تباہی کے عمل میں بھی بہت حد تک کمی واقع ہوگی۔اس تحقیق سے وابستہ پروفیسر جینیفر لیمن نے اس بات کی وضاحت کی ہے کہ اس کے استعمال سے بہت سی مہلک بیماریوں کے علاج میں مدد بھی ملے گی۔ان سب باتوں کی روشنی میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ انسان آنے والے مستقبل میںکافی طویل عمر گزارے گایعنی وہ امر ہو جائے گا۔اور میڈیکل سائنس کی دریافت دوائیں اس کے لئے آب حیات کا کام کریں گی۔آئیے اب اردو غزل میں اس سے متعلق اشعار دیکھتے ہیں:
آب حیات خضرؑو سکندر کو چاہئے
ساقی فقط شراب کے ہیںاک پیاسے ہم
حاتم علی مہرؔ
زلف عرق فشاں تری جاں بخش کیوں نہ ہو
ترکیب اس نے پائی ہے آب حیات کی
میرحسن
آب حیات کی سی ساری روش ہے اس کی
پر جب وہ اٹھ چلے ہے ایک آدھ مر رہے ہے
میر تقی میرؔ
تشنہ کامان محبت سے کہو صبر کریں
موت ہاتھوں میں لئے آب حیات آتی ہے
شمیم ؔ کرہانی
ہے وہی عشق زندہ و جاوید
جسے آب حیات بھی سم ہے
فراقؔ گورکھپوری
قدم قدم ترے آب حیات کے چشمے
روش روش تری جوئے خرام کا دھارا
خلیل الرحمٰن اعظمی
پی لیا کیا ستم نے آب حیات
خوف سے بند ہر زباں کیوں ہے
احمد شاہد خاں
(تختِ سلیمان)
حضرت سلیمانؑ اللہ تعالی کے ایک بڑے برگزیدہ نبی گزرے ہیں۔اللہ نے دنیا کی ہر شے کو آپ کے لئے مسخر کردیا تھا اور آپ کی حکومت ہر مخلوق پر قائم تھی۔حضرت سلیمانؑ کا تختِ شاہی اللہ کی عظیم نعمتوں میں سے ایک تھا۔جو بغیر کسی مشینی طاقت کے ہوائوں کے دوش پر بجلی کی تیزی کی طرح پرواز کرتا تھا۔اس کی مدد سے آ پ چند لمحات میںطویل مسافتیں طے کر لیتے تھے۔آج کے جدید سائنسی دور میںایجاد ہونے والے اور برق کی رفتار سے چلنے والے ہوائی جہازوں نے تختِ سلیمانی کی بہت سی خصوصیات کو از سر نوزندہ کر دیا ہے۔آج انسان کے پاس اتنے تیز رفتار طیارے ہیں جن کی مدد سے نہ صرف اس نے ہوائوں کو مسخر کیا ہے بلکہ خلائوں میںبھی اپنے قدم جمانے جارہا ہے۔ اردو غزل میں منفرد اشعار دیکھنے کو ملتے ہیں جس میں تخت سلیمان اور اورنگ سلیمان کی دلچسپ ترجمانی ملتی ہے۔شعر ملاحظہ ہوں:
ہوا سے اڑ کے پہونچا اُس پری پیکر کے کوچے میں
وہ مجنوں ہوں جسے تخت سلیماں ناتوانی ہے
آتشؔ
بلقیس سے کہو کہ سربارگاہِ ناز
پریاں کھڑی ہیں تخت سلیماں لئے ہوئے
جوشؔ
جہاں چلتا نہ تھاکچھ زور اب واں ریل چلتی ہے
میسر خاکساروں کو بھی اب تخت سلیماں ہے
اکبر ؔ الہ بادی
کہاںکی سیر نہ کی توسنِ تخیل پر
ہمیں تو یہ بھی سلیماں کے تخت ایسا تھا
شکیب ؔجلالی
بہت حقیر ہے لیکن تجھے عطا کر کے
میںدل کو تخت سلیمان کرنا چاہتا ہوں
قمر رضا شہزاد
(دیوار قہقہہ)
ایک دیوار ہے جس کو سدے سکندری بھی کہتے ہیں۔جس کو سکندر ذوالقرنین نے تعمیر کروایا تھا۔جب سکندر ذوالقرنین کی حکومت مشرق و مغرب تک قائم ہوچکی تو وہ شمال کی طرف پہنچا وہاں پر دو پہاڑ دیکھے ایک قوم جو دامن کوہ میں بسی ہوئی تھی اس نے ذوالقرنین سے پہاڑوں کی دوسری طرف رہنے والی دو قوموں یاجوج و ماجوج سے بچنے کے لئے مدد مانگی۔ذوالقرنین نے ایک 60 گز چوڑی دیوار دونوں پہاڑوں کی چوٹیوں تک بلند کر دی۔پگھلا ہوا تانبا گارے کے بجائے کام میں لیا گیا۔اس دیوار سے ان مفسد قوموں کی راہ بند ہوگی۔ اس کے علاوہ اس تلمیح سے متعلق یہ بھی خیال ہے کہ اگر کوئی شخص اس پر چڑھ جاتا ہے توہنستے ہنستے دوسری طرف گر جاتا ہے۔ اس لئے اس دیوار کو دیوار قہقہہ بھی کہا جاتا ہے۔
اگر دیورا قہقہہ کو سائنس کے نقطہ نظر سے دیکھیں تو ہم پائیں گے آج کی سائنس نے ایک ایسی گیس کی دریافت کر لی ہے جس کو لافنگ گیس کہتے ہیں جوامونیم نائٹریٹ کو 270 ڈگری سینٹی گریڈ درجہ حرارت پر گرم کرنے سے حاصل ہوتی ہے۔یہ گیس بے رنگ ہوتی ہے ۔تاہم ایک امتیازی خوشبو سے اس کی شناخت کی جاسکتی ہے۔اس گیس کی چپیٹ میں آنے پر انسان بے اختیار ہنسنے لگتا ہے۔یہ گیس انسان کے نروس سسٹم پر اثر انداز ہوتی ہے۔اس کو بے ہوش کرنے کے لئے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔اور اس کی زیادہ مقدار انسان کو موت کے منھ میں بھی دکھیل سکتی ہے۔ان سب باتوں کے مدے نظر ہم کہہ سکتے ہیں کہ دیوار قہقہہ کے ارد گرد یقینا کسی ایسی ہی گیس کا وجودرہا ہو گا جس کی چپیٹ میں آنے کے بعد انسان قہقہے لگانے لگتا ہوگا اور بے ہوش ہو کر دوسری طرف گر جاتا ہوگااورپھر زیادہ مقدار ہونے پر اس کی موت بھی واقع ہو جاتی ہوگی۔اسی وجہ سے اس دیوار کو لوگوں نے دیوارقہقہہ کہنا شروع کردیا ہوگا۔ہمارے اردو غزل کے شعرا نے اس تلمیح کو بڑے ہی پر اثر انداز سے پیش کیا ہے۔اشعار دیکھیں:
گئے تھے لوگ تو دیوار قہقہہ کی طرف
مگر یہ شور مسلسل ہے کیسا رونے کا
شہریارؔ
مرے ہنسنے پہ وہ کہتے ہیں ایسا بھی نہ ہوے خود
کہ کوئی آدمی سے قہقہہ دیوار بن جائے
حبیب موسوی
ایک دیوار قہقہہ مجھ میں
روز اٹھتی ہے غم دبانے کو
ہلال ؔنقوی
(آئینہ سکندری)
سکندراورایران کے بادشاہ دارا کے درمیان جنگیں ہوا کرتی تھیںلیکن سکندردارا کی حکمت عملی اور تدبیروں کی وجہ سے ہمیشہ شکست کھا جاتا تھا۔ دارا جام جہاں نما کی مدد سے سکندرکی تمام نقل وحرکت اورتیاریوں سے بخوبی آگاہ ہوجاتاتھا اورسکندرکے تمام حربے کار ثابت ہوجاتے تھے۔ آخرکاراس نے اپنے استاد ارسطو ،حکومت کے مشیروںاورسائنس دانوں کی مدد سے شہراسکندریہ کے ساحل پرایک آئینہ بنانے میں کامیابی حاصل کرلی، جو لوہے کی سطح کو صیقل کرکے بنایا گیا تھا۔اب اس کی مدد سے وہ دشمن کی نقل وحرکت اورتدبیروں سے آگاہی حاصل کرسکتا تھا۔ یہ آئینہ سکندری ایک اونچے مینارپرنصب کرایا گیاتھا جس کی مدد سے دشمن کی نقل وحرکت کا اندازہ سومیل کی مسافت سے بھی بخوبی ہوجاتا تھا۔بہر حال آئینہ سکندری کی حقیقت جو بھی رہی ہو لیکن دور حاضر میں سائنس کی ترقیات کے سبب آج کے شیشے سے بنے ہوئے آئینے اتنے جدید ہو گئے ہیں کہ چیزوں کی صاف و شفاف عکس کو منعکس کر کے با آسانی دیکھ سکتے ہیں۔اس کے علاوہ سائنسی ایجادات میں عدسہ(Lens) کی ایجاد بھی کافی اہم تصور کی جاتی ہے۔آج عدسوںکی مدد سے انسانی بسارت کو بڑھانے کے لئے عینکیں ،Binoculars ،اور تصویر کھیچنے والے کیمرے بنائے جا رہے ہیں۔اس کی مدد سے سائنسدانوں نے بڑی بڑی دوربینوں(Telescopes) اور سیٹلائٹ کو ڈیزائن کیا ہے ۔اور آج وہ اس قابل ہو گئے ہیں کہ آسمانی ہلچل اور اجرامِ فلک کا مشاہدہ بھی با آسانی کر سکتے ہیں ۔آئینہ سکندری تو صرف سومیل کی مسافت تک ہی دیکھ سکتا تھا۔لیکن دور حاضر کے یہ آئینہ نہ صرف ہزاروں لاکھوں میل دور ستاروں اور سیارںپر ہونے والی ہلچل کو بخوبی دیکھ سکتے ہیں بلکہ ان کی صاف و شفاف تصویر بھی قید کر نے میں کار آمد ثابت ہوئے ہیں۔آج کی سائنسی ایجادات نے آئینہ سکندری کے تصور کو نہ صرف سچ کر دکھایا ہے بلکہ اس کے خیال کو مزید وسعت عطا کی ہے ۔اس تلمیح کا استعمال ان اشعار میں دیکھئے:
سکندر کیوں نہ جاوے بحر حیرت میں کہ مشتاقاں
تمہارے مکھ اگے درپن کوں درپن کر نہیں گنتے
ولیؔ دکنی
خاک آئینہ سے ہے نام سکندر روشن
روشنی دیکھتا گردل کی صفائی کرتا
ذوقؔ
میری دوربینیں ہیں لاکھ اس سے بہتر
سکندر کا کیوں آئینہ ڈھونڈتے ہو
عین الحسنؔ نقوی
(کشتی نوحؑ)
حضرت نوح کواللہ نے نبی بنا کربھیجا تھا۔ وہ اپنی قوم کونوسوسال سے زیادہ عرصے تک خداکی طرف بلاتے رہے اورایک خدا کی عبادت کی دعوت دیتے رہے لیکن ان کی قوم نے ان کی بات نہیں مانی اورنافرمانی کرتی رہی۔ بالآخرنوح نے اپنی قوم کی نافرمانیوں سے تنگ آکر ان کے لئے خدا سے عذاب کی دعا کی، ان کی دعا قبول ہوئی اورعذاب یقینی ہو گیا۔ اللہ نے نوح کو ایک کشتی بنانے کا حکم دیا تاکہ نوح اوران پرایمان لانے والے لوگ خدا کے عذاب سے محفوظ رہ سکیں۔ نوح نے کشتی بنانی شروع کردی، کفارنے ان کا مذاق اڑایا۔ کشتی تیارہوگئی اورقوم نوح پرنازل ہونے والے عذاب کا وعدہ قریب آگیا۔ ناگاہ حضرت نوح نے دیکھا کہ زمین کی تہ سے پانی ابلنا شروع ہوگیا آسمان سے تیز بارش ہونے لگی۔ پانی کے ایک بھیانک سیلاب نے قوم نوح کوگھیرلیا۔ خداکی وحی آئی، نو ح نے اپنے خاندان کے ان افراد جو ان پرایمان لاچکے تھے انھیں اورہرذی روح مخلوق کے ایک ایک جوڑے اورمومنوں کی مختصر سی جماعت کواس میں سوارکر لیا۔ اس طرح مومنین خدا کے عذاب سے محفوظ رہے اور کفارپانی میں غرق ہوگئے۔اس واقعہ کا ذکر تورات،انجیل اور قرآن تینوں آسمانی کتابوں میں ملتا ہے۔بائبل میں اس کشتی کو ’آرک‘ کہا گیا ہے۔روایات کے مطابق اس کشتی کو تیار ہونے میں ایک سو برس لگے۔اس کشتی کا طول 300 ہاتھ ،عرض 50 ہاتھ اور انچائی 30ہاتھ تھی۔اور اگر ایک ہاتھ کی لمبائی 22 انچ تصور کی جائے تو یہ کشتی لگ بھگ 547فٹ لمبی91فٹ چوڑی اور 47فٹ اونچی رہی ہوگی۔قدیم سمیری داستانیںجو مٹی کی تختیوں پر رقم کی گئی ہیںاس میں بھی کشتیٔ نوح کا ذکر دیکھنے کو ملتا ہے۔ان داستانوں کے مطابق اس کشتی میں چھ منزلیں اور سات درجے تھے اور ہر منزل کے نو حصے تھے۔ان روایات کی بنا پر ہم کشتیٔ نوح کی بناوٹ کے بارے میں کافی حد تک اندازہ لگا سکتے ہیں کہ یہ کتنی بڑی رہی ہوگی۔آج کے جدید سائنسی دور نے کشتیٔ نوح کو دوبارہ شکل و صورت عطا کر دی ہے۔اور آج کا انسان اس قابل ہو گیا ہے کہ وہ بڑے بڑے بحری جہاز بنانے میں لگا ہوا ہے۔مثال کے طور پر ٹائی ٹینک جہاز جو انسان کا بنایا ہوا ایک شاہکار نمونہ تصور کیا جاتا ہے یہ 269میٹر لمبا اور 53.3میٹر اونچا تھا جو اپنے پہلے سفر کے دوران 1912ء میں برف کے تودے سے ٹکرا کر شمالی بحر اوقیانوس میں ڈوب گیا تھا۔بی بی سی نیوز کی خبروں کے مطابق مغربی فرانس میں ’آہنگ بحری‘ نامی دنیا کے سب سے بڑے بحری جہاز کا تجربہ شروع کیا گیا ہے۔جس میں چھ ہزار مسافروں کی گنجائش ہے۔ جو 70 میٹر لمبا ہے اس کروز جہاز کو آزمائش کی غرض سے سمندر میں اتارا گیا ہے۔ یہ تقریباً ایک ارب کروڑ ڈالر کی لاگت سے تیار ہورہا ہے۔توقع ہے کہ 120,000 ٹن وزنی ہوگاجس میں16منزلیں ہوں گی۔اس شواہد کی بنا پر ہم کہہ سکتے ہیںکہ آج کے انسان نے کشتیٔ نوح کی تلمیح کو از سر نو زندہ کر دیا ہے۔جو سائنس کی ترقیات کے سبب ہی ممکن ہو سکا ہے۔
ان اشعار میں اس تلمیح کا استعمال دیکھیے:
گردش دوراں سے مردان خدا بے باک ہیں
نوح کی کشتی کو اندیشہ نہیں گرداب میں
آتشؔ
ہاں نوح کی کشتی کی تقدیر ملے تجھ کو
اس بحر سیاست کے بپھرے ہوئے طوفاں میں
جوشؔ
زمین آگ اگلتی ہے آسماں بارش
ہماری رات ہے کشتی ٔنوح سے خائف
وفا ؔنقوی
پھر سے سیلاب آنے والا ہے
کشتیٔ نوح بنا ئے گی دنیا
عادل فرازؔ
(پارس پتھر)
پارس ایک خیالی پتھر ہے جس کا ذکرمختلف زبانوں کے قدیم قصے کہانیوں اور داستانوں میں بھی دیکھنے کو ملتا ہے۔اس سے متعلق یہ بات مشہور ہے کہ اگر یہ پتھر لوہے سے چھو جائے تو اسے سونا بنا دیتا ہے۔گرچہ اس بات کی صداقت ثابت نہیں ہوئی ہے لیکن پھر بھی اس پتھر سے متعلق بہت سے واقعات اور قصے کہانیاں مشہور ہیں۔چین کی مانیٹرنگ ڈیسک کے قصہ کہانیوں میں بھی لوہے کو سونے میں بدل دینے کی طاقت رکھنے والے ایک عجیب و غریب پتھر کا ذکر ملتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ چین کے سائنسدانوں نے اس پتھر کی ایجاد میں دن رات ایک کر ایسی تکنیک دریافت کی ہے جس کی مدد سے وہ تانبے کو ایک ایسے مٹیریل میں بدل سکتے ہیں جو لگ بھگ سونے جیسی خصوصیات رکھتا ہے۔جریدے ’’جرنل سائنس ایڈوانسز‘‘ میں شائع ایک تحقیق کے مطابق ڈالیان انسٹیٹوٹ آف کیمیکل فزکس کے سائنسدانوں نے یہ کامیابی حاصل کی ہے۔اس میٹریل کی مدد سے مہنگی اور نایاب دھاتوں کا کارخانوں میں استعمال کافی حد تک کم کیا جاسکے گا۔ماہرین کے مطابق تانبے کے نانو میٹر کی کیٹالیٹک کار کردگی سونے جیسی ہوتی ہے اور صدیوں سے کیمیائی ماہرین تانبے کو سونے میں بدلنے کا خواب دیکھتے آرہے ہیں۔مشاہدات کے بعد پتہ چلا ہے کہ اس مٹیریل کے کثافت عام تانبے جیسی ہی ہے ۔مگر یہ چینی صنعتوں کے لئے کافی اہم ثابت ہوگاکیوں کہ اس کے استعمال سے برقی آلات کے پرزوں میں قیمتی دھاتوں جیسے سونا،چاندی جیسی دھاتوں کا استعمال کافی کم ہو جائے گا۔
مجھ سے پتھر کو کردیا سونا
لمس تیرا بھی جیسے پارس ہے
وفا ؔ نقوی
پارس اسی دھرتی نے دئے سارے جہاں کو
مٹّی سے تری سونا بنانے کا وقت ہے
عادل فرازؔ
ان کے قدموں کی دھول ہے پارس
مال و زر اب ہمیں قبول نہیں
ڈاکٹر ہلال ؔنقوی
(باغ ارم / بہشت شداد)
حضرت داود کے عہد نبوت میں شداد ایک جابرو ظالم بادشاہ تھا۔ حضرت داود نے اسے ایک خدا کی عبادت کی طرف بلایا اوراس تک خدا کا پیغام پہنچایا لیکن اس کی ہٹ دھرمی کی انتہا یہ ہوئی کہ اس نے نہ صرف یہ کہ حضرت داود کی نبوت اورخدا کی یکتائی کا انکارکیا بلکہ اپنے خدا ہونے کا دعوی بھی کر دیا۔ اپنی خدائی کے ثبوت کے طور پراس نے زمین پرایک جنت بنوائی۔ شداد کی بنوائی ہوئی اس ارضی جنت میں وہ ساری آسائشیں، سہولتیں اور تکلفات موجود تھے جو اس نے حضرت داود سے خدا کی جنت کے بارے میں سن رکھے تھے یا جواس کے حاشیہ خیال میں آسکتے تھے۔ جب یہ جنت بن کرتیارہو گئی توشداد اسے دیکھنے کیلئے نکلا، ابھی وہ جنت تک پہنچ بھی نہ سکا تھا کہ راستے میں ہی اس کی روح قبض کر لی گئی، اس طرح شداد اپنی بنائی ہوئی جنت کے دیکھنے سے ہی محروم رہ گیا۔ شداد کا سلسلہ نسب شداد بن عاد بن عوص بن ارم بن سام بن نوح بتایا گیا ہے۔ تلمیحی نقطہ نظرسے باغ شداد یا باغ ارم کا اطلاق صاف ستھرے، خوب صورت اور کاریگری میں بے مثال ایسے محلات اور باغات پربھی ہوتا ہے جس میں انسانی تخیل میں آنے والی تمام، آسائشیں اور تکلفات موجود ہوں۔اکیسویں صدی کے اس دور کی جب سائنس اور ٹیکنالوجی اپنے پورے عروج پرہے تو انسان اس قابل ہو گیا ہے کہ بڑے بڑے عالی شان محلات، اور عمارت کی تعمیر کر سکتا ہے جو آسمان سے باتیں کرتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ آج کا انسان اس بات پر بھی قدرت رکھتا ہے کہ بیکار زمینوں پر سر سبز شاداب باغات لگا سکے۔آج کے دور کہ انسان نے تفریح اور سیاحی کے لئے ایسے ایسے مقام آباد کئے ہیں جو زمین پر جنت کا نمونہ پیش کرتے ہیںاور وہاں وہ تمام آسائشیں اور تکلفات دیکھنے کو ملتی ہیںجو شداد کی جنت میں موجود تھیں۔اس لئے یہ بات بالکل صداقت پر مبنی ثابت ہوتی ہے کہ آج کے انسان نے باغ ارم کو از سرِ نو تعمیر کرنے میںکامیابی حاصل کر لی ہے بلکہ وہ ان آسائش و تکلفات سے بھی کہیں آگے نکل گیا ہے جو باغ ارم میں موجود تھیں۔
ان تلمیحات کا استعمال ان اشعار میں دیکھیے۔
ترے مکھ کے گلستاں کی اگر حوراں میں شہرت ہو
تو ہر یک مست ہو کر چھوڑ گلزار ارم نکلے
ولی ؔدکنی
پانو جنت میں نہ رکھا تھا کہ نکلی تن سے روح
بے کسی نے رو دیا منہ دیکھ کر شداد کا
نامعلوم
کیا بنائی خاک جنت سیر خود نہ کر سکا
باغ کے مزدور بھی اچھے رہے شداد سے
نامعلوم
باغ ارم جو اپنے گھر کو بنا رہا ہے
لگتا ہے جیسے خود بھی شداد ہو گیا ہے
ڈاکٹر ہلالؔ نقوی
بڑی بڑی یہ عمارت یہ دلنشیں رستے
یہ لگ رہا ہے کہ باغ ارم ہے دلّی میں
وفا ؔنقوی
الغرض وہ تلمیحات جو ہمارے ادب کی دنیا میں سانس لے رہی تھیں آج سائنس کی بدولت ہماری نگاہوں کے سامنے از سرِ نو چلتی پھرتی نظر آتی ہیں اور جب ہم اپنے ادب اور خاص طور سے غزلوں کا مطالعہ کرتے ہیں تو ان کا حسن دو بالہ ہو جاتا ہے اور یہ بات بھی پائے ثبوت کو پہنچتی ہے کہ زندگی کا ہر شعبہ سائنس سے متاثر ہے۔