ڈاکٹرلدمیلاوسیلیواکی روسی زبان میں نئی کتاب ’’اردو غزل بحیثیت صنف کا آغاز اور تشکیل‘‘ کاخلاصہ
اردوترجمہ از عامر سہیل(ایبٹ آباد)
’’اردو غزل بحیثیت صنف کا آغاز اور تشکیل‘‘ ایک روسی محقق کی پہلی کاوش ہے جس میں اردو غزل کے ابتدائی دور کا تجزیہ کیا گیا ہے۔اس کتاب میں ازمنہ وسطیٰ کے ہندوستان میں ایک وسیع تاریخی، ثقافتی اور لسانی پس منظر میں اُن اہم مراحل کو زیر بحث لایاگیا ہے جس کا دورانیہ چار صدیوں کو محیط ہے ۔اس سارے عرصے میں اردو غزل کی تشکیل اور اس کی ابتدائی نشوونما ہوئی۔
مقامی زبان میں غزل کہنے ،لکھنے کے شعرا کے پہلے تجربات شمالی ہند میں۴ ۱ویں صدی میں ہوئے۔غزل کی بحیثیت صنف کی ہئیت کی اور غزل کی شعریات کی تشکیل جنوبی ہند میں پندرھویں صدی سے لے کر ۱۷ ویں صدی کے آغاز تک کے دور میں طے ہوتی رہی۔کلاسیکی دور کے آغاز تک یعنی ۱۷ صدی سے لے کر ۱۸ صدی کے وسط تک اردوغزل کی مزید نشوونما میں شمال میں جاری رہی۔
کتاب میں اردوغزل کے آغاز اور ارتقا کی عمیق اور کثیر الجہات تحقیق کی بدولت ادبی عوامل کے وہ بنیادی اصول عیاں ہوتے ہیں جو زیرِ بحث لائی گئی بین المتنی اور ماورائے متن کے روابط کی مختلف شکلوں میں منعکس ہوتے ہیں۔اردو غزل کے ابتدائی دور کے تجزیئے نے یہ بات ثابت کی ہے کہ اس صنف نے ایران کے ادبی نمونوں اورمقامی یعنی ہندوستان کی ادبی ثقافتی روایات سے کبھی اپنا رابطہ منقطع نہیں کیا۔
اس کتاب میں غزلوں کا ایک وسیع انتخاب،تراجم (مع اصل متن) اور تشریحات کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔
غزلوں کے شعری تجزیے کے ساتھ ساتھ غزل کی علامتوں اوراستعاروں کی تفصیل سے صراحت اور ان تہذیبی مشرقی اقدار کی وضاحت بھی کی گئی ہے جو اہلِ اردو قارئین کے لیے عام فہم اور قدرتی باتیں معلوم ہوتی ہیں لیکن جن سے مختلف اہلِ ثقافت قارئین نا آشنا ہیں۔یہ سب کچھ اردو ادب میں تاریخی اہمیت کے ساتھ ابتدائی اردو شاعری کی جمالیات کو بھی استناد مہیا کرتا ہے۔
اردو زبان پراور اس کے احوال پر خاص طور سے توجہ دی گئی ہے۔اس زبان کے ظہور اور ارتقا کاوسیع جائزہ نوآبادیات سے قبل مختلف ہندوستانی خطوں کے حوالے سے لیا گیا ہے۔اس بات پر توجہ دلائی گئی ہے کہ بر صغیر میں یہ زبان مختلف حصوں میں سفر کرتے ہوئے اپنے نام بدلتی چلی جاتی ہے۔جس کی وجہ سے اردو ادب میں اردو زبان کے مختلف نام ملتے ہیں۔
کتاب کے آخر میں ہندوستانی مشاعرے پر گفتگو کی گئی ہے۔مشاعرہ اور غزل لازم و ملزوم ہیں۔اردو مشاعرہ اردو غزل کی تاریخ اور ارتقا سے اٹوٹ طور پر وابستہ ہے۔
پیش ِ نظر کتاب کی فہرست ابواب مندرجہ ذیل ہے۔
تعارف:ہندوستان کے ادبی اور ثقافتی تناظر میں اردو غزل۔صنف کے اعتبار سے غزل کی خصوصیات اور ’’غزل کی دنیا‘‘ ۔مطالعہ غزل کی خبر۔
باب اول:وقت کی رَواور اُردو زبان:
اردو زبان کیا ہے؟جغرافیائی پھیلاؤ اور اردو زبان کا ارتقا۔شمال سے جنوب کی طرف اور واپس شمال کی طرف اردو کا سفر۔اردو لفظ کے معانی۔ اشعارمیں محفوظ ،تاریخی حافظہ۔ رسم الخط پرکچھ باتیں۔
یورپ والے اور اردو۔فورٹ ولیم کالج، جان گلکرسٹ اور اردو۔ہندی،ہندوستانی اور اردو۔دورِ حاضرہ اور اردو۔بھارت،پاکستان اور دنیا۔
باب دوم: اردو غزل کا ابتدائی دور:
گیارویں تا چودھویں صدی میں شمالی ہندوستان بطور ایک ثقافتی خطہ۔اردو غزل کے آغازسے متعلق:مفروضات۔امیر خسرو دہلوی۔ اردو غزل پرشعریات ِ امیر خسروکا اثر۔ریختہ غزل۔صدیوں پرانی بچ جانے والی ایک ابتدائی غزل۔اردو غزل کی’’ ماقبل تاریخ‘‘ کے بعض نتائج۔
باب سوم:اردو غزل کا بچپن
جنوب کی طرف سفر۔پہلے پہلے دکنی شعرا اور ان کی غزلیں۔فیروز بیداری،حسن شوقی،محمود دکنی،محمد قلی قطب شاہ۔
دکنی میں فارسی غزل کا پہلا ترجمہ۔یوسفِ گم گشتہ۔دکن میں درباری غزل۔بعض نتائج۔
باب چہارم: عبوری دور
۱۷ ویں صدی کے آخر میں اورنگ آباد، دکن کا ثقافتی مرکز۔ولیؔ نام کا ایک شاعر۔موجودہ غزل کا بنیاد گزار ولیؔ۔ابتدائی غزل کی دکنی صفات اور فارسی مثالوں کی روشنی میں ولیؔ کے شعری پیکروں میں آمیزش و اختلاط۔صوفیانہ غزل۔سراج اورنگ آبادی۔
باب پنجم:اردو غزل کا شباب
اورنگ زیب کی حکومت کا خاتمہ اور دہلی کے ادبی حلقے۔مرزا بیدل اور دوسرے ۔بعد ازولیؔکی دلّی۔محمد شاہ کا دور۔ریختہ شاعری کا دھماکہ۔ادبی استادی اورشاگردی کی روایت ۔خان ِ آرزو کا شیخ علی ہزین کے ساتھ ادبی معرکہ۔ایہام گوئی کی تحریک:آبروؔ اور دوسرے۔فیض دہلوی۔آرزو کی اصلاحات اور اردو معلی۔صاف گوئی۔مرزا جان جہاں مظہر۔کلاسیکی عہد کی آمد آمد۔
اختتامیہ۔ہندوستانی مشاعرہ:صوفیا کی خانقاہیں۔شاہی دربار۔شہر کے چوک۔
مشاعرہ کیا ہے؟تاریخ پر ایک سرسری نظر،عربوں کے قدیم زمانے سے ہندوستان کے عہدِ قدیم تک۔ہندوستان کے ابتدائی مشاعرے ۔کلاسیکی مشاعرے۔ایک ’’شاہی مشاعرہ‘‘۔بیسویں اور اکیسویں صدی میں مشاعرے۔ایک جدید جھلک۔آج کل کی غزل اور مشاعرہ۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔