(Last Updated On: )
انسان جب اس عالمِ وجود میں آیا تو اس نے ایک ہرے بھرے ماحول کو اپنے گردوپیش میں پایا۔اور اس ماحول میں ہی اس نے زندگی کو جینے کا سلیقہ اور ہنربھی سیکھا۔عہد قدیم کا انسان ہو یادور جدید کاہر لمحہ وہ ماحولیات سے فیض یاب ہوتا رہا ہے۔یہاں تک کہ جب وہ لکھنا،پڑھنا اور بولنا نہیں جانتا تھا تو اپنے اطراف کے ماحول کو دیکھتا اور مشاہدہ کرتا تھااور اپنے خیالات کا اظہار ماحول کے ذریعے سے کرتا تھا۔اس بات کے شاہد آثارِقدیمہ کے وہ دستاویز ہیںجس میں اس نے پتھروں اور چٹّانوں پر اپنے ماحولیاتی نظام کی تصویر کشی کی ہے۔لیکن جب اس نے لکھنا،پڑھنا اور بولنا سیکھ لیا تو وہ ماحول کی ان چیزوں کواپنی زبان و کلام میں باخوبی استعمال کرنے لگا۔اس کے ثبوت وہ محاورے اور الفاظ ہیںجو اس نے ماحول سے اخذ کئے ہیں۔
گویا انسان نے جو کچھ سیکھا ،سمجھا یا دریافت کیا ہے وہ سب اس کو اپنے ماحول سے فراہم ہوا ہے۔
اردو شاعری کا جہاں تک تعلق ہے تو اس میں کوئی ایسی صنفِ سخن نہیں جس میں ماحولیات کی کیفیت اور اس کی ترجمانی نہ ملتی ہو۔قصائد کی بات کریں تو اس میںمناظرِقدرت کے اشعار ملتے ہیں،مرثیہ بھی ایک پھول کے مضمون کو سورنگ سے پیش کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے ،مثنویوں میں بھی قدرت و فطرت کی بھر پور عکاّسی ملتی ہے ۔اُس میںبہار و خزاں،گرمی و سردی ،صبح و شام ،جنگل یا بیابان ،کوہ و صحرا،سبزہ زار وغیرہ کے مناظر صاف طور سے نظر آتے ہیں۔غزلوں کادامن بھی اس سے اچھوتا نہیں ہے اس میں بھی تشبیہات ،تلمیحات ،حسنِ تعلیل ،علامتوںاور استعاروں کے آئینے میںماحولیات کی ترجمانی ملتی ہے ۔بی الخصوص دورِ جدیدکی غزلوں نے تو اس کو اپنا اوڑھنا،بچھونا بنا رکھا ہے۔در اصل شاعر و ہی تحریرو تصنیف کرتا ہے جووہ اپنے گردو پش کے ماحو ل میں دیکھتا ہے۔
ہزاروں سالوں سے زمین انسان اور جانوروں کا مسکن بنی ہوئی ہے اورارتقاء کی بہت سی منزلوں سے گزرتے ہوئے آج کے ترقی یافتہ دورمیں پہنچ گئی ہے۔زمین کے ماضی کا مطالعہ کرنے سے ہم کوزمین پر آئی تبدیلیوں کے بارے میں پتا چلتا ہے۔
سائنسدانوںکے مطابق کائنات کا وجود ایک بڑے دھماکے(Big Bang)کے بعد وجود میں آیا۔دھماکے کے بعد ایک زور دار ہلچل ہوئی اور خلاء میں دور دور تک ملبہ پھیل گیا ۔ہمارا نظامِ شمسی بھی اسی طرح بنا ہے۔ماہرین کے مطابق سورج کے چکّر کاٹنے والے ہمارے نظامِ شمسی کے سیارے ـــ’’عطارد،زہرہ،زمین،مریخ،مشتری،زحل،یورینس،نیپچون،پلاٹوــ‘‘ بھی سورج کے ہی ٹکڑے ہیں جو ایک طاقت ور ہلچل کے سبب ٹوٹ کر سورج سے نکلے ہیں۔ہماری زمین نظامِ شمسی کا ایک انوکھا سیّارہ ہے۔اس کا انوکھا پن یہ ہے کہ اس میںذی حیات کی زندگی کے لئے مناسب حالات موجود ہیں۔ہمارا ماحول فطری طور سے تبدیل ہوتا رہتا ہے۔ہمارے ماحول میں چاروں طرف جاندار اور غیر جاندار چیزیں شامل ہیں اس کے علاوہ اس میں طبعی عوامل مثلاً روشنی،درجہ حرارت،دبائو،پانی،رطوبت(نمی)،ہوا ،بارش اور موسم وغیرہ بھی شامل ہیں۔اس لئے ہمارے اطراف کی طبعی اور حیاتی دنیا ہی ہمارا ماحول کہلاتی ہے۔یعنی جو بھی جاندار اور بے جان نباتات و حیوانات سے متعلق چیزیں ہیں،ان سب کا مجموعی نام ماحول (Environment) ہے۔
زمین پر مختلف قسموں کے جانداروں کی ارتقاء (Evolution) اور بقا (Survival) کے لئے مناسب حالات پائے جاتے ہیں۔زمین کا درجہ حرارت نہ زیادہ گرم ہے اور نہ زیادہ سرد جتنا کہ زہرہ اور عطارد پر اور مشتری اور دوسرے سیّاروں پر ہے۔
ہمارا زمینی ماحول کے چار بنیادی عناصر کرۂ باد(Atmosphere) ، کرۂ جمادات(Lithoshphere) ،کرۂ آب(Hydrosphere) ،اورکرۂ حیات(Biosphere)پر مشتمل ہے۔
کرۂ باد(Atmosphere) زمین کے اطراف میں پائے جانے والا گیسوں کاایک غلاف ہے جس نے زمین کو چاروں طرف سے گھیر رکھا ہے جوزمین کوسورج کی الٹراوائلٹ کرنوں سے حفاظت کرتاہے۔یہ ایک اہم کُرہ ہے کیوں کہ موسم میں تبدیلیاں اسی کُرہ کے سبب ہوتی ہیں۔ماحول کے چاروںعناصر میںاس کا شمار سب سے زیادہ تغیر پزیر عناصر میں ہوتا ہے۔ کرۂ باد میں طرح طرح کی گیسیں پائی جاتی ہیںجس میںسب سے زیادہ نائٹروجن کا حصہ ہے۔یہ زمین سے 20کلومیٹر کی بلندی پر ہے۔
کرۂ جمادات(Lithoshphere) زمین کی سب سے اوپری پرت کو کہتے ہیں۔یہ سلیکن اور المونیم سے مل کربنا ہوتا ہے۔اس سے ملا ہوا نیچے کا حصہ سلیکن اور میگنیشیم سے مل کر بنا ہوا ہوتا ہے۔اس میں ہی مختلف قسم کے ایندھن کے ذخیرے پائے جاتے ہیں۔اس کی مختلف پرتوں میں مختلف چٹانیں ہیں۔جب کہ زمیں کے اوپر یہ پتلی پرت کی شکل میںنظر آتاہے۔
کرۂ آب(Hydrosphere) :زمین کے گرد پانی کا ایک بہت بڑا گھیرا ہے جوسمندر،دریا،جھیل اوردوسرے آبی ذخیروں سے مل کر بنا ہے جس کوکرۂ آب(Hydrosphere) کہا جاتا ہے۔زمین کا 70فی صد حصہ پانی سے بھرا ہوا ہے۔جس کا اثر موسم کی تبدیلیوں اور جانداروں کی زندگی پر بھی ہوتا ہے۔
ؑ
کرۂ حیات(Biosphere) کوسب سے بڑا ماحولیاتی نظام (Eco-System) کہا جاتا ہے۔در اصل ماحولیات کے مختلف موضوعات کا تعلق در حقیقت کرۂ حیات سے ہی ہے۔ کیوں کہ اس کا مطلب زندگی دینے والا کرہ ہے۔کرۂ حیات کے سبب جاندار اور بے جان عوامل کے درمیان مسلسل تعاملات کی وجہ سے غذا اور توانائی کی منتقلی ہوتی رہتی ہے۔ ہمارا زمینی کرۂ حیات کرۂ جمادات(Lithoshphere) ،کرۂ آب(Hydrosphere) اور کرۂ باد(Atmosphere) پر مشتمل ہے۔ان سب کروں میں زندگی کا وجود موجود ہے اور ان کے اندر جاندار پائے جاتے ہیں۔ ماحول میں یہ اہم ترین عنصر ہے۔زمین کے علاوہ دوسرے کسی سیارے پر کرۂ حیات کے امکانات نہیں ملتے ہیں۔کیوںکہ وہاں پر نہ تو پانی ہے اور نہ ہی ہوا کا وجود ہے۔اسی کے سبب وہاں کرۂ آب اور کرۂ باد کا بھی وجود نہیں ملتا ہے۔زمین پر موجود تمام جاندار زندہ رہنے کے لئے اپنے ارد گرد کے ماحول پر بھروسہ کرتے ہیں اس میں حیاتی (Biotic) اور غیر حیاتی (Abiotic) سب ہی چیزیں شامل ہیں۔یہ وہ فطری ماحول ہے جس میں جاندار اپنے اطراف کی چیزوں کے ساتھ ہم آہنگی اور تعلق قائم کرتے ہیں۔
لیکن افسوس کا مقام یہ ہے کہ انسان اپنے مفاد کی خاطراس قدرتی ماحول کے ساتھ کھلواڑ کر رہا ہے۔انسانی اعمال کے نتیجہ میں ہزاروں سال سے مخلوقات کی پرورش کرنے والی یہ زمین آج بربادی کی راہ پر گام زن ہے۔اس زمین کی پرتیں ڈھیلی ہوتی جارہی ہیں،مٹّی کی زرخیزی ختم ہوتی جارہی ہے۔ہوائیں لطیف سے کثیف ہوتی جارہی ہیں،دریا اور سمندر کاپانی آلودہ ہوتا جا رہا ہے،بہت سے پرندے،جانور اور نباتات کا وجود ختم ہوتا جارہا ہے۔
ماحولیات کے عناصر میںبڑی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔کرۂ جمادات،کرۂ آب،کرۂ باداورکرۂ حیات آلودہ ہو چکے ہیں۔کرۂ باد میںشگاف ہو چکا ہے جس کے سبب سورج کی مضر کرنیں زمین تک آرہی ہیں اور زمیںکی درجہ حرارت میں اضافہ ہو رہا ہے۔
برج نرائن چکبستؔکا یہ شعرمکمل طور سے ماحولیات کے ماضی ، حال اور مستقبل کی تبدیلوں کی ترجمانی کرتا ہوا نظر آتا ہے۔
؎ زندگی کیا ہے عناصر میں ظہورِ ترتیب
موت کیا ہے ان ہی اجزاء کا پریشاں ہونا
ہمارا ماحول زمین،پانی اور فضا سے مل کر بنا ہے اس لئے اچھا ماحول وہی ہے جس میں یہ تینوں حصّے صاف اور اپنی قدرتی حالت میں ہوں۔اس ماحولیاتی نظام میں کسی زیادتی یا کمی کے سبب اگر کوئی بگاڑ پیدا ہوتا ہے تو اسے ’’ماحولیاتی آلودگی‘‘ کہا جاتا ہے۔انسان اپنے مفاد کی خاطر قدرت کے ساتھ کھلواڑ کر رہا ہے۔یہ ماحول کو شہر بسانے،صنعت اور زرعت کے لئے استعمال کر کے اس میں ناگزیرنقصانات پہنچا رہا ہے۔جنگلی جانوروں کے اندھا دندھ شکار سے کچھ جانور ختم ہوگئے ہیں اور کچھ جانور ختم ہونے جارہے ہیں اس وجہ سے مٹّی کے کٹائو میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ساتھ ہی ہرے بھرے علاقے ریگستانوں میں تبدیل ہونے لگے ہیںمثال کے طو رپر سہار ا ریگستان بننے کی ممکنہ وجوہات رومن لوگوں کے ذریعے شیروں کو پکڑنا یا شکار کرنا ہے جس کے سبب وہاں سبزی خور جانوروں کی تعداد بڑھنے سے وہاں جنگلات ختم ہونے لگے اور وہ علاقہ ریگستان میں تبدیل ہو گیا۔
احمد فرازؔ اس ماحولیاتی آلودگی کو کچھ اس طرح بیان کرتے ہیں
ؔ ؎ اب وہاں خاک اڑاتی ہے صبا
پھول ہی پھول جہاں تھے پہلے
سائنس اور ٹکنالوجی کی ترقّیوں نے جہاں ہمارے لئے آسانیوں کی راہ ہموار کی ہے وہی اس کے مضر اثرات بھی رونما ہوئے ہیں جس نے ہمارے ماحول اور ہماری صحت کو بربادی کی راہ پر لا کر کھڑا کر دیا ہے۔فیکٹریوں سے نکلنے والی زہریلی گیسوں،سڑکوں پر آنے جانے والی موٹر گاڑیوں نے فضائی آلودگی کی موجب بنی ہیں۔اس فضائی آلودگی کے لئے ’’کاربن مانو آکسائیڈ،گندک،نائٹروجن کے آکسائیڈس،ہائیڈروکاربن‘‘ کے اجزا ذمہ دار ہیں۔اس آلودگی کے سبب بہت سی بیماریاں پیدا ہوئی ہیں
مثلاً پھپھڑوں،اور خون کی بیماریاں،سانس کی بیماریاں،سردی،کھانسی اور الرجی۔کاربن مانو آکسائیڈ کے خون میں شامل ہونے سے انسانی دل و دماغ پر مضر اثرات پڑتے ہیں اس سے انسان کند ذہن،سست اور تھکا ہوا رہتا ہے۔سلفر ڈائی آکسائیڈ کے سبب حلق میں خراش،آنکھوں میں جلن اور سانس میں گھٹن محسوس ہونے لگتی ہے۔نائٹروجن ڈائی آکسائیڈ فلو،سانس کی نالیوں اور پھپھڑوں میں ورم جیسی بیماریاں پیدا کرتی ہے۔فضاء میں آلودہ ہائیڈرو کاربن کینسر کی بیماری کے موجب بنتے ہیں۔
اس آلودگی کے سبب ہم نے اپنی زمینی اوزون کی پرت کو متاثر کیا ہے۔کلورفلورو کاربن کی وجہ سے اوزون کی پرت میں کمی واقع ہوئی ہے۔جس کے سبب سورج کی مضر شعاعیں براہِ راست زمیں پر آنے سے جلدی کینسر کی بیماریاں رونما ہوئی ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ تیزابی بارش نے بھی برے اثرات پیدا کئے ہیں۔جو بارش کے پانی میں ان زہریلی گیسوں کے ملنے سے وجود میں آئی ہے۔
اسی بارش سے سبزیاں،انسان،پیڑ پودے،مچھلیاں بھی متاثر ہوئی ہیں۔
اس ماحولیاتی آلودگی کے سبب انسان کی زندگی بری طرح متاثر ہوئی ہے،جس کی وجہ سے انسان اپنی جوانی کی طاقت کھوتا جا رہا ہے وہ کم عمری اور نوجوانی میںبوڑھانظر آنے لگا ہے اور اس کی زندگی سمٹ کر چھوٹی ہو گئی ہے۔ایک حسّاس شاعر بھلا کیسے اپنے ماحول سے بے خبر رہ سکتا ہے۔سازؔدہلوی اپنی غزل کے ایک شعر میںاس ماحولیاتی آلودگی کی ترجمانی کچھ اس طرح کرتے ہیں۔
؎ زندگی کم ہے جوانی تو بہت ہی کم ہے
اس پہ آلودہ ہوا کس کو جواں چھوڑتی ہے
پانی قدرت کی طرف سے عطا کیا گیا ایک انمول تحفہ ہے ۔تمام تر مخلوقات کی زندگی کا دار و مدار پانی پر منحصر ہے ۔جب ہم تاریخ کے اوراق پلٹ کر دیکھتے ہیں تو پتا چلتا ہے کہ بڑی ،بڑی قومیں(Civilisations) ندیوں اور سمندروں کے کنارے آباد تھیں جس سے پانی کی اہمیت کے بارے میں پتا چلتا ہے۔
سمندر کا پانی آفتاب کی گرمی سے بھاپ بن کر بلندی پہ جاکر بادل بن جاتا ہے۔اور ہوا کی نمی میں بھی اضافہ کرتا ہے۔اگر WATER CYCLE" "کا یہ نظام قائم نہ ہو تو بادل تشکیل نہ ہوں اور نہ ہی ہوا کی نمی میں اضافہ ہو۔
اس عمل کے بغیر نہ توبادل بن سکتے ہیں اور نہ ہی بارش ہو سکتی ہے اور موسم کی تبدیلی کا خیال بھی نہیںکیا جاسکتا ہے۔انسانات،نباتات،حیوانات، کی زندگی بھی متاثر ہوگی۔
الغرض سمندر کا وجود اگر زمین پر نہ ہو تو پوری ہری بھری دنیا ایک ویران اور بے جان صحرا میںتبدیل ہو کر رہ جائے گئی۔
احمد فرازؔ اس سائنسی حقیقت کو کچھ اس طرح بیان کرتے ہیں۔
؎ دل کو کیا روئیں کہ جب سوکھ گئی ہوں آنکھیں
شہر ویراں ہے کہ دریائوں میں پانی کم ہے
شاعر کہتا ہے کہ شہر کی ویرانی کا سبب کہیں دریائوں میںپانی کم ہونے کی وجہ سے تو نہیں ہے۔اسی ضمن میں غالبؔ کچھ اس طرح شعر کہتے ہیں۔
؎ گھر ہمارا جو نہ روتے بھی تو ویراں ہوتا
بحر ،گر بحر نہ ہوتا،تو بیاباں ہوتا
شہری پھیلائو (Urbanization) ، بڑھتی ہوئی آبادی اور صنعتی نظام نے ماحولیات کی آلودگی کے ساتھ ساتھ سمندر،اور زیرِزمین موجود پینے کے پانی کے ذخیروں کو بھی متاثر کیا ہے۔جس کے سبب آج پینے لائق پانی کی دستیابی کا مسئلہ در پیش ہے۔ہمارے ملک ہندوستان کی حکومتیں بھی اس کے لئے بڑے اقدامات کر رہی ہیں ساتھ ہی 2015-16 کو پانی کے تحفظ (Water Conservatio) سال کے طور پر منانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔یہ بات ہم کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ پینے کے پانی کا تحفظ کرنا زندگی کے لئے بہت لازم ہے۔دنیا میں تین چوتھائی اور تقریباً 70 فی صد حصّے میں سمندر ہونے کے باوجود اس کے کھارے ہونے کی وجہ سے اس کے پانی کو پینے کے لئے استعمال نہیں کیا جا سکتا ہے۔
شہروں میں لوگوں کو مجبور ہو کرپینے کے پانی کے لئے ایک اچھی خاصی رقم خرچ کرنی پڑھ رہی ہے۔
بشیر بدرؔ بڑے ہی انوکھے انداز میں سمندر اور پینے کے پانی کے درمیان موجود فرق کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کچھ اس انداز میں کہتے ہیں
؎ میری اپنی بھی مجبوریاں ہیں بہت
میں سمندر ہوں پینے کا پانی نہیں
جھیلوں میں مچھلیوں کی آبادی میں تیزی سے کمی واقع ہونا اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ وہاں پر ہونے والی بارش میں تیزابیت زیادہ ہے۔کیوں کہ تیزابی بارش کی صورت میں مچھلیوں میں انڈے دینے کی اور ان کے بچوں کے زندہ رہنے کی صلاحیت کافی گھٹ جاتی ہے۔
فیکٹریوں اور ملوں سے ٹھوس اور سیال مادے جب نالیوں کے ذریعہ دریائوں میں جا ملتے ہیں یا زرعی مقاصد کے لئے ڈالی گئی کھاد،چھڑکائو کی ہوئی جراثیم کش دوائیاں اور فضا میں پائے جانے والے مرکبات بارش کے پانی کے ساتھ بہہ کر دریائوں میں شامل ہوتے ہیں تو ان کا پانی آلودہ ہو جاتا ہے۔
یہ پانی نہ شہریوں کے استعمال کے لائق رہتا ہے اور نہ اس کو آبپاشی اور دیگر صنعتوں کے لئے کام میں لایا جاسکتا ہے۔اگر آلودہ پانی کو پینے کے استعمال میں لایا جائے تو کئی بیماریاں لاحق ہوتی ہیں جن میں ہیضہ،ٹائفائیڈ،جگر اور پیٹ کی بیماریاں قابلِ ذکر ہیں۔اس پانی میں مچھلیوں کے علاوہ آبی پودوں اور جانوروں کا زندہ رہنا بھی دشوار ہوجاتا ہے۔تحقیق کی روشنی میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ پچھلے پچاس برسوں میں سمندری پانی کے آلودہ ہونے کی وجہ سے دنیا بھر میں تقریباً ایک ہزار آبی پودوں اور جانداروں کی نسلیں ناپید ہو چکی ہیں۔
یورپی ماہرین کے مطابق پانی کے جہازوں سے نکلنے والی گندک پر مشتمل دھواں آئے دن تیزابی بارش برسانے کی وجہ بنتا ہے۔سائنس دانوں نے اس بات کا پتہ لگایا ہے کہ فضاء میں میتھین(Methane) گیس سے متاثر ہونے والی تیزابی بارش گہرائی میں پائے جانے والے کئی جانداروں کے ناپید ہونے کا سبب بنی ہے۔غزل کا یہ شعر اس حقیقت کی عکّاسی کرتا ہوا نظر آتا ہے
؎ مچھلیوں میں زہر کیسے آرہا ہے رات دن
آج پانی میں ذرا اُترا تو اندازہ ہوا
(وفاؔ نقوی)
آبادی میں اضافہ ہونے کے سبب شہروں کی وسعت میں بھی اضافہ ہوا ہے۔جیسے جیسے آبادی بڑھتی گئی شہرخوب پھیلتے گئے اور جنگلات سمٹنے لگے ۔پیڑ پودوں کی بے تحاشہ کٹائی ہونے لگی۔لیکن انسان یہ نہیں سمجھ سکاکہ وہ پیڑوں پر نہیں بلکہ اپنے پیروں پر کلہاڑی چلا رہا ہے۔اپنے قدرتی ماحول اور زندگی کو بربادی کی راہ پر گام زن کر رہا ہے۔افسوس کا مقام ہے کہ اس نے اپنے لالچ کی خاطر پیڑ پودوں کے مفاد کو در کنارکر دیا۔اس نے جس تیزی سے جنگلات کاخاتمہ کیا اتنی رفتار سے پیڑ پودوں کو نہیں لگایا۔ماحول سے آلودگی دور کرنے کے لئے آج زیادہ سے زیادہ درخت لگانے کی ضرورت ہے۔کیوں کہ ماحولیاتی توازن برقراررکھنے کے لئے جنگلات بے حد لازمی ہیں۔در اصل جنگلات ایک ایسا قدرتی سرمایا ہے جس سے انسان کو فائدہ ہی فائدہ ہے۔پھر بھی ترقی اور جدیدیت کی حمایت کرنے کا دعوہ کرنے والے افراد آج اس کی کٹائی کر رہے ہیں۔
ایک وقت ہوا کرتا تھا جب زمین کا 70 فی صد رقبہ 12ارب 80کروڑ ہیکٹیر جنگلات سے بھرا ہوا تھا جو آج سکڑ کر صرف 16 فی صد 2ارب ہیکٹیر ہی رہ گیا ہے۔ماہرین کے مطابق جنگلات کی اندھا دھن کٹائی کے سبب بارش کی مقدار،زیر زمین پانی کی سطح اور پانی کے دیگر قدرتی ذخیروں میں کمی آئی ہے۔جس کے نتیجے کے طور پر سیلاب،خشک سالی،زمین کا کھسکنا(Land Slide) جیسے حالات رونما ہونے لگے ہیں۔
ماہرینِ نباتات و جنگلات کے مطابق 50ٹن وزن کا ایک صحت مند درخت اگر50سال تک زندہ رہتا ہے تو وہ 2لاکھ 50ہزار روپوں کی قیمت کی آکسیجن،20ہزار روپوں کی پروٹین،2لاکھ 5ہزار روپوں کے برابر مٹّی کا تحفظ،3 لاکھ روپوں کے برابرآبی کنٹرول 2لاکھ50 ہزار کے برابر پرندوں کی حفاظت اور ساتھ ہی کیڑوں،پتنگوں کو بھی محفوظ کرتا ہے۔اگر درخت سے حاصل شدہ پھل،پھول،لکڑی اورجڑی بوٹیوںسے حاصل شدہ آمدنی کا اندازہ لگایا جائے تو ایک درخت ہم کو تقریباً 18لاکھ روپوں کا فائدہ پہنچاتا ہے۔
اردو غزل کے ایک شاعر نے درختوںکے اس نقصان اور ماحول کی بربادی کو ایک عظیم حادثہ سے منسوب کیا ہے۔
؎ اک حادثہ عظیم ہوا ہے زمین پر
کیسا گھنا درخت گرا ہے زمین پر
(ہلالؔ نقوی)
اس بات کی وضاحت یہ شعر بھی کرتا ہوا نظر آتا ہے۔
ؔ ؎ درخت کاٹنے والوں نے یہ نہیں سوچا
کہ اپنی موت کا سامان کر رہے ہیں ہم
(وفاؔ نقوی)
درخت زمین کے محافظ ہوتے ہیں ان کی جڑیں پانی کو جزب کر لیتی ہیں اور وہ دور ،دور تک پھیل کر مٹّی کے کٹائو کو روکتی ہیں۔اور وہ مٹّی کی زرخیزی کو برقرار رکھتے ہیں۔جس زمین پر پیڑ پودے اور ہریالی نہیں ہوتی اس کی زرخیزی میں کمی واقع ہونے لگتی ہے ساتھ ہی سیلاب اور بارش کے پانی کے سبب مٹّی کے کٹائو کے امکانات بڑھنے لگتے ہیں۔
وفاؔنقوی اپنے ایک شعر میں اس کی ترجمانی کچھ اس طرح کرتے ہیں۔
؎ تودۂ خاکِ بدن آبِ رواں خوب ہوا
اب کے برسات میں مٹّی کازیاں خوب ہوا
آج درختوں کی کٹائی کے سبب ہمارا قدرتی ماحول بربادی کی دہلیز پر کھڑا ہوا نظر آتا ہے۔کرۂِ ارض مسلسل گرم ہوتا جا رہا ہے۔ماحول کی آلودگی کے سبب کاربن ڈائی آکسائیڈ اور دوسری خطرناک گیسیں سورج کی کرنوں سے پیدا ہونے والی گرمی کو کرۂِ ارض تک لانے کا سبب بنی ہیں اور وہ اس گرمی کو واپس Atmosphere میں جانے سے روک لیتی ہیں۔
جس کہ نتیجہ میںزمین کا درجہ حرارت بڑھنے لگتا ہے۔اس عمل کو Global warming کہتے ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ ــــ’’ال نینو‘‘کے اثرات بھی ظاہر ہوئے ہیں۔ـ’’ال نینو‘‘ کے اثرات سمندر کے درجۂ حرارت میں اضافہ ہونے سے پیدا ہوئے ہیں۔جو موسم کی تبدیلی کا باعث بنتے ہیں۔جس کے نتیجہ میں بارش کا کم ہونا،قحط یا خشک سالی ہونا بڑے مسائل ہیں۔
ناصرؔ کاظمی اور عباس تابشؔکے یہ اشعار ماحولیات کی ان دشواریوں کو پیش کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
پیاسی دھرتی جلتی ہے
سوکھ گئے بہتے دریا
(ناصرؔ کاظمی)
زمیں لوگوں سے خالی ہو رہی ہے
یہ رنگِ آسماں دیکھا نہ جائے
(ناصرؔ کاظمی)
بھری برسات خالی جارہی ہے
سرِابرِرواں دیکھا نہ جائے
(ناصرؔ کاظمی)
ہم ہیں سوکھے ہوئے تالاب پہ بیٹھے ہوئے ہنس
جو تعلق کو نبھاتے ہوئے مر جاتے ہیں
(عباس تابشؔ)
اس کے علاوہ بشیر ؔبدر اس موضوع کو کچھ اس طرح پیش کرتے ہیں۔
زمیں سے آنچ زمیں توڑ کر نکلتی ہے
عجیب تشنگی ان بادلوں سے برسی ہے
(بشیرؔ بدر)
خاک ہو جائے گی زمیں اک دن
آسمانوں کی آسمانی میں
(بشیرؔ بدر)
الغرض آج ہم جس دور میں اپنی زندگی گزر بسر کر رہے ہیں اس میں ماحولیاتی آلودگی کی زیادتی ایک اہم مسئلہ ہے اور کوئی بھی حساس طبیعت یا شاعر اس موضوع سے گریز نہیں کر سکتا۔
کتابیات
(۱)ماحولیات (محمد شمس الحق) قومی کونسل برائے فروغ اردوزبا ن نئی دہلی
(۲)ماحولیاتی سائنس (ماحولیات کے بنیادی تصورات)ڈاکٹر شازلی حسن خاں(ایجوکیشنل بُک ہائوس علی گڑھ)
“