فکشن پرمکالمہ ضروری ہے۔ میری ناقص رائے میں اب تک سنجیدگی سے فکشن پر مکالمے کی ضرورت کومحسوس نہیں کیا گیا۔ شروع سے میری دلچسپی تاریخ اور سیاست کے ساتھ ساتھ علم حساب اور علم ریاضی میں رہی ہے۔ علم ریاضی میں کسی نتیجہ پر پہنچنے سے قبل اکثر ہم کچھ فرض کرلیتے ہیں۔فرض کرلینے سے انجام تک یا کسی ایک نتیجہ پر پہنچنا آسان ہوجاتا ہے۔ادب میں ایسا کوئی طریقہ رائج نہیں۔فرض کیجئے کہ ایک شخص کو ایک پرانی عمارت کی جانچ کا کام سونپا گیا۔ اس نے ایک نوٹ تیار کیا جو ہر اعتبار سے عمدہ تھا اور پھر اس شخص کو علم ہوا کہ اس پرانی عمارت میں کچھ خفیہ سرنگیں بھی موجود ہیں، جس کا ذکر اس کی رپورٹ میں نہیں ہے۔ فکشن میں ہماری اب تک کی تنقیدکا رویہ کچھ ایسا ہی رہا ہے۔ یہاں عمارت کو دیکھنے کی کوشش ہی نہیں کی گئی اور ناقص مطالعہ کے طورپر بار بار اس طرح کی تحریریں سامنے آئیں کہ اردو فکشن کا منظرنامہ مایوس کن ہے۔یہ تنقیدی رویہ کچھ کچھ ان پانچ اندھوں کی یاد دلاتا ہے جوایک ہاتھی کے بارے میں الگ الگ رائے قائم کررہے تھے۔ اگر چاربُری کہانیوں کو پڑھ کر آپ اردو فکشن کے بارے میں کوئی غلط رائے قائم کرتے ہیں، تویہ مجموعی فکشن کے ساتھ انصاف نہیں ہے۔ میں اکثر یہ سوال اپنے آپ سے کرتا ہو ں کہ مغرب یا غیر اردو زبانوں میں ایسا کیا ہے، جو ہمارے پاس نہیں ہے۔کفکا، گراہم گرین،بالزاک، موپاساں، ایڈگرایلن پو،ملان کندیرا یا سال بیلو کو پڑھتے ہوئے بالکل ایسا محسوس نہیں ہوتا کہ ان کے سامنے ہماری حیثیت کچھ بھی نہیں یا ان سوبرسوں میں ہمارا فکشن کمزور رہا ہے۔ترقی پسند تحریک نے بھی کئی خوبصورت کہانیوں کا تحفہ دیا۔جدیدیت کے آغاز اور ۰۶ سے ۰۸ کی دہائی میں ایسا بہت کچھ لکھا گیا جو کسی بیش قیمت سرمائے سے کم نہیں اور ایسا نہیں کہ ٨٠ کے بعد یہ سلسلہ ختم ہوگیا ہے۔ہاں، مکالمے کی روایت بہت حد تک ختم ہوچکی ہے۔
۱۔ سوسال سے زیادہ عرصے میں اردو فکشن کا منظرنامہ کچھ ایسا مایوس کن بھی نہیں ہے۔…
۲۔تخلیقی ادب محض تنقیدی مفروضوں،ادبی رجحانات اور تحریکات کے بل بوتے پر اعلیٰ درجہ کا نمونہ نہیں پیش کرسکتا۔جینوئن فنکار نہ تو کسی نظریے کا اسیر ہوتا ہے، نہ محض ادبی رجحان کے بل بوتے پر آگے بڑھتا ہے۔
۳۔……محض ان کو تسلیم کیا گیا جو فکشن کے فن کے لئے لازمی طور پر کارآمد تھے۔
۴۔ چونکانے والے فنکار سامنے نہیں آرہے۔
یہ اقتباسات ابوالکلام قاسمی کی تحریرسے لئے گئے ہیں۔ میرا خیال ہے، ان امورپر بھی گفتگو ضروری ہے۔یہ قاسمی صاحب بھی تسلیم کرتے ہیں کہ اردو فکشن کا منظرنامہ کچھ ایسا مایوس کن بھی نہیں ہے۔ جب اردومیں افسانہ نگاری کا آغاز ہوا، اس وقت مغرب کے کئی شاہکار ہمارے سامنے آچکے تھے۔جان گالزوردی، موپاساں، چیخوف اور ایڈ گرایلن پو کی کہانیوں نے اردو زبان کے شروعاتی دور کے افسانہ نگاروں کو متوجہ کیا تھا۔ سجاد حیدر یلدرم اور سلطان حیدر جوش کی کئی کہانیاں ایسی ہیں، جن پر آپ محض روایتی ہونے کا فتویٰ نہیں دے سکتے۔ اس وقت کی کہانیوں میں ایڈ گرایلن پو، موپاساں اور چیخوف کا رنگ غالب تھا۔ اسی طرح بعد کے کچھ افسانہ نگاروں، خصوصی طورپر ترقی پسند تحریک سے متاثر افسانہ نگاروں پر روسی افسانہ نگار سوار تھے۔ جیسے اندنوں مارخیز، بورخیس اور میلان کندیرا کا اثر کچھ دوستوں کے افسانوں میں صاف نظر آرہا ہے۔ میری ناقص رائے میں فیشن زدہ روایات کا حصہ بننے سے کہیں بہتر ہے، کسی کے رنگ یا اثر کو قبول کرنا۔ آغاز سے ترقی پسند دور تک منٹو ہوں یا عزیز احمد کی کہانیاں، ان پر مغرب کے اثرات تو تھے لیکن ان کا اپنا رنگ بھی غالب تھا۔۰۶سے ۰۸تک جدیدیت کی لہر میں اوریجنلیٹی بہت حد تک مفقود تھی۔ یہاں فیشن زدہ جدیدیت کا اثرزیادہ تھا۔ نتیجہ ہر بھیڑ ایک ہی سمت دوڑ رہی تھی۔ لیکن ۰۶ اور ۰۸ تک مینرا، سریندر پرکاش، قمر احسن، اکرام باگ اور حسین الحق نے بھی ہماری زبان کو کئی عمدہ کہانیوں کی سوغات دی۔ رنگوں اور اثرات سے نہ شعری دنیا خالی ہے اور نہ فکشن کی دنیا۔ مغرب کو ہی لیجئے تو سارتر، گراہم گرین کا رنگ ایک جیسا لگتا ہے۔ اسی طرح موپاساں، چیخوف اوراوہنری کی کہانیاں بھی ایک جیسی لگتی ہیں۔ نجیب محفوظ سے اوہان پامک تک آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ اسلوب انفرادی شناخت رکھتا ہے۔۰۸ کے بعد اردو میں رجحانات اور تحریکات کے رنگ پھیکے پڑگئے۔ اس لئے قاسمی صاحب کی اس بات سے مکمل اتفاق ہے کہ محض ان تحریکات کے بل بوتے پر اعلی درجہ کا ادب پیش نہیں کیا جاسکتا۔جینوئن فنکار کے لئے یہ کہنا کہ وہ کسی نظریے کا اسیر نہیں ہوتا، یہ بات۰۸ کے بعد سامنے آئی۔ترقی پسند ہوں یا جدیدیت کا ادراک رکھنے والے، یہ دونوں ہی نظریات سے وابستہ تھے۔ ان میں کئی نام ایسے تھے جن کے جینوئن فنکار ہونے سے مطلق انکار نہیں کیا جاسکتا۔ ہاں، محض ادبی رجحانات کے بل بوتے کوئی ادب بڑا ادب نہیں ہوسکتا۔اس لئے تحریکات سے وابستہ جینوئن افسانہ نگاروں نے ایک علیحدہ لکیر کھینچنے کی بھی کوشش کی،جس کی وجہ سے ان کی شناخت میں آسانی ہوئی۔
اس کے علاوہ قاسمی صاحب نے ایک ایسامسئلہ اٹھایا ہے جس پر مکالمہ کرنا نہ صرف ضروری ہے بلکہ یہی وہ نکتہ ہے، جہاں اردو فکشن کو مخصوص اور محدود نظریے سے دیکھنے کی کوشش کی گئی اور محض ان کو تسلیم کیا گیا جو فکشن کے فن کے لئے لازمی طورپر کارآمد تھے۔یہاں اسلوب بیان اورزبان کے تجربے تومحض ہاتھی کے دکھانے والے دانت ثابت ہوئے۔ یہاں ماجرا کچھ اور ہے۔پہلا سوال تو یہ ہے کہ فکشن کا معیار کس نے قائم کیا؟ یعنی جو اس معیار پر کھرا نہیں وہ فکشن کے فن سے ناواقف؟ زبان کے مسئلہ اور تجربے کو فن پر اہمیت دی گئی۔ اور بہت ہوشیاری اور چالاکی سے ١٩٦٠سے اب تک مخصوص مکتبہئ فکر سے تعلق رکھنے والے کچھ بتوں کو کھڑا کردیا گیا کہ یہی ہمارے اصل افسانہ نگار ہیں۔حقیقت یہ کہ جنہیں تسلیم کیا گیا، وہ مخصوص رجحانات اور تحریکات کے بل بوتے پر آئے تھے اور انہیں پسند کئے جانے کی وجہ بھی یہی تھی۔اور اس لئے ان بیشتر ناموں کو ریجکٹ کرنے کی مہم چلی،جو اس تحریک سے وابستہ نہیں تھے۔ اس کا ایک پہلو یہ ہے کہ اگر آپ سارتر کو پسند کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ اسی عہد کے البیر کامو کو ریجکٹ کرنا آپ کے لئے ضروری ہو۔ اگر کفکا، سارتر، ورجینا ولف، مارخیز،بورخیس،ملان کندیرا کے مخصوص اسلوب پر آپ جان دیتے ہوں تو اس کا مطلب ہرگز نہیں کہ روسی افسانہ نگار، افسانہ نگار نہیں تھے۔وکٹرہیوگو، جارج آرویل، ہنری جیمس، سال بیلو کو آپ ریجکٹ کردیں۔لیکن اردو میں یہی تماشہ ہوا۔ یہ فکشن پر مخصوص تحریک کی تانا شاہی تھی کہ بیس تیس برسوں میں اپنی پسند کے چند ناموں پر مہر لگائی گئی اور باقی افسانہ نگاروں کی انفرادیت کو قبول کرنے سے انکار کیاگیا۔ نئی صدی کے ۶۱ برسوں میں تحریک بھی گئی اور تحریک پر چلنے والے بھی گئے۔ اس کے باوجود اپنے مطالعہ کی بناپر میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ اردو فکشن کا منظر نامہ کچھ ایسا مایوس کن بھی نہیں ہے۔
صرف ہندوستان کی بات کیجئے تو بیشتر جینوئن فنکاروں کے یہاں دو ایک کہانیاں ایسی ضرور مل جائیں گی، جنہیں آپ دنیا کے کسی بھی شاہکار کے سامنے رکھ سکتے ہیں۔
٨٠ سے قبل کا منظرنامہ یہ تھا کہ شب خون کے علاوہ جواز، نشانات، الفاظ، آہنگ جیسے بے شمار رسائل تھے جو نہ صرف کھیپ میں افسانہ نگار پیدا کررہے تھے بلکہ افسانہ نگاروں پر مسلسل گوشے اور مضامین شائع ہورہے تھے۔ انتظارحسین کو اصل مقبولیت اسی دور میں ملی۔اس دور میں بلراج منیرا، سریندرپرکاش اور قمر احسن کو ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔۰۸ کے بعد یہ سلسلہ ختم ہوگیا۔ اس لئے ۰۸ کے بعد کا افسانہ نگار اگر زندہ رہا اور زندہ ہے تومحض اپنے فن کی بدولت۔ ٨٠ کے بعد کسی بھی طرح کی تحریک سے انکار کرنے والوں کی ایک بڑی جماعت سامنے آئی۔ یہاں تازگی بھی ہے اور دہرانے کا عمل بھی۔ اور محض دہرانے کا عمل، کہنا بھی ایک سرسری ریمارک ہے۔در اصل جسے ہم دہرانا، کہہ رہے ہیں، کبھی کبھی وہاں بھی زندگی کا کوئی نیا فلسفہ، نیا پہلو،نیا رنگ پوشیدہ ہوتا ہے۔
اردوفکشن کی عمومی صورتحال بہتر ہے۔ ایک بات یاد رکھنے کی ہے کہ جب ہم اردو زبان کی بات کرتے ہیں تو اردوکا مطلب صرف ہندوستان نہیں ہوتا۔ پاکستان کے علاوہ بھی ایک عالمی بستی ہے جہاں اردو کے اچھے لکھنے والے موجود ہیں۔مصطفی کریم نے کئی اچھے ناول ہماری زبان کو دیئے۔ اشرف شاد، جیتندر بلو، نیلم احمد بشیر اور کئی ایسے نام ہیں، جنہیں توجہ سے پڑھنے کی ضررت ہے۔ اسی طرح مستنصر حسین تارڑ، رضیہ فصیح احمد، مرزا اطہر بیگ سے عاصم بٹ تک کئی اہم فکشن نگار ہمارے سامنے ہیں۔اسد محمد، خاں، زاہدہ حنا، آصف فرخی،فہمیدہ ریاض، طاہرہ اقبال جیسے کئی نام ہیں جو عمدہ لکھ رہے ہیں۔ اخلاق احمد،اقبال خورشید کی کئی کہانیاں ایسی ہیں جن میں سیاست اور سماج کے بلیغ اشارے موجود ہیں۔ پاکستان میں، نئی نسل میں بے شمار نام ہیں جو متوجہ کرتے ہیں۔ اگر ہندوستانی فکشن کی عمومی صورتحال پر غور کریں تو ظاہر ہے صورتحال مختلف ہے.٢٠٠٠ کے بعد اگر نئی نسل کی بات کیجئے تو صورتحال بھیانک ہے۔نئی نسل اردو نہیں جانتی۔مدرسوں سے نکلنے والے بچوں کے ہاتھ میں اردو کا مستقبل ہے۔کالج یونیورسٹیوں میں انہی بچوں کی تعداد زیادہ ہے۔ مدرسوں سے نکلنے والے زیادہ تر بچوں پر مذہب کا غلبہ ہے۔ جب تک اس غلبہ سے وہ خود کو آزاد نہیں کرتے، بہتر ادب کی تخلیق ممکن نہیں ہے۔یہاں ایک نفسیاتی نکتہ بھی ہے، جس کا اظہار ضروری ہے۔’جب آپ ریس میں ہوتے ہیں تو زیادہ تیز دوڑتے ہیں۔کل اردو رسائل کی بھیڑ تھی تو لکھنے والے بھی تھے۔ آج ہندوستان میں انگلیوں پہ شمار کئے جانے والے دو چند رسائل ہی رہ گئے ہیں۔ اس لئے موجودہ عہد میں جو فکشن رائٹر لکھ رہے ہیں، ان میں بیشتر ایسے ہیں جن کی عمر ساٹھ سے زائد ہوچکی ہے۔اس لئے تحریکات کی غیر موجودگی، رسائل کی کمی، قارئین کی خوفناک حد تک خاموشی نے بھی ادبی صورتحال کو متاثر کیا ہے۔سب سے اہم بات یہ ہے کہ آپ کسی بھی عہد کا جائزہ لیں، فکشن کی سلطنت میں زیادہ نام نہیں ہوتے۔ کچھ ہی لوگوں کی حکومت ہوتی ہے۔‘مارخیز کو کہنا پڑا۔ ایک ایسی حقیقت بھی ہے جو کاغذی نہیں، ہمارے اندر رہتی ہے۔ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ ایسے پابند اظہار یا ذریعے کی تلاش کا رہا ہے، جو ہماری زندگیوں کی حقیقت کو قابل یقین بنانے میں ہماری مدد کرسکے، یہی تنہائی کا عقیدہ ہے۔ اگر آپ کے پاس زندگی، سائنس،کائنات اور انسان سے وابستہ کوئی بڑا فلسفہ یا ویژن نہیں، تو آپ فکشن میں کامیاب نہیں ہوسکتے۔ نئی کہانی فنتاسی اور متھ کی سرنگ میں چلی گئی ہے۔ایبسٹریکٹ آرٹ کی طرح یہاں آڑی ترچھی لکیروں کی بھی ضرورت ہے کیونکہ حال اور مستقبل پر ابہام کی پرت چڑھ چکی ہے۔ فکشن میں ایک بار پھر ہم آہستہ آہستہ تجریدی رجحان کی طرف بڑھ رہے ہیں۔نیی صدی کے ٢۱ برسوں میں زندگی کے معیار اور معنی بدل چکے ہیں۔ انفارمیشن تکنالوجی اور صنعتی ترقی نے ادب کوبھی متاثر کیا ہے۔ ہمارا افسانہ بیانیہ اور کہانی پن سے بہت دور نکل آیا ہے۔طلسمی حقیقت نگاری، موہوم حقیقت نگاری کی اصطلاحات بھی سامنے آچکی ہیں۔سی طرح ٦٠ سے٨٠ تک تجریدیت کا نام بھی بار بار لیا گیا۔ بیشتر افسانہ نگار ایسے تھے جو خلا میں افسانہ لکھ رہے تھے اور تجریدی تجربے سے واقف نہیں تھے۔ کہانیوں کا لاسمت ہونا صحیح تھا، لیکن لایعنیت کو بھی محدود معنوں میں دیکھا جارہا تھا۔ اس لئےاس درمیان ابھر نے والے زیادہ تر ادیب غائب ہوگئے۔ مگر اس عہد کی کئی کہانیاں اب بھی ایسی ہیں، جو شاہکار کا درجہ رکھتی ہیں۔۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...