وکی پیڈیا صاحب فرماتے ہیں کہ اردو ہندی ہی کی طرح ہندوستانی زبان کی ایک شکل ہے۔ اردو اور ترکش نے عربی اور فارسی سے ادھار پکڑا اور کام چلایا۔
ورلڈ ڈیجیٹل لائبریری والے بتاتے ہیں کہ گیارہویں صدی میں ترک اور فارسی حملہ آووروں کے انڈین برصغیر میں آمد کے بعد ترکی اور فارسی زبانوں کے مقامی زبانوں سے ملاپ سے اردو وجود میں آئی۔ دہلی سلطنت (1526-1858) کے تین سو سالوں میں یہ لشکری زبان پروان چڑھی۔
ایک اور صاحب جنکا نام معلوم نہ ہوسکا، اطلاع دیتے ہیں کہ بارہویں صدی میں شمالی بھارت میں بولی جانے والی کھری بولی میں ترکی اور فارسی کے الفاظ ملا کر بنائی جانے والی زبان دھیرے دھیرے اردو میں ڈھل گئی۔
خیر کان جدھر سے بھی پکڑیں پتہ آپکو یہی چلے گا کہ اردو کسی مخصوص خطے، قوم، مذہب، وقت یا قبیلے کی زبان نہیں تھی۔ یہ شائد واحد زبان ہے جو مختلف قوموں کے آپسی میل جول کے دوران سہولت کار زبان کے طور پر وجود میں آئی۔ دنیا جو گلوبل کلچر کا سامنا آج کر رہی ہے، اردو زبان بارہویں صدی سے اسکی ایک مثال کے طور پر زندہ چلی آ رہی ہے۔
مختلف زبانوں سے بننے والی زبان کا نام اردو بھی خود اردو زبان کا نہیں ہے، ہو بھی نہیں سکتا تھا۔
اردو کے طریقہ پیدائش سے عقلمندوں کا اندازہ ہوجانا چاہیے تھا کہ یہ زبان سرحدوں سے ماورا ہے۔ سب کی ہے اور سب کے لیے ہے۔ سب زبانوں کے لفظ لے لیتی ہے، اپنا رنگ چڑھاتی ہے اور بلاجھجک استعمال کرتی ہے۔ نئے الفاظ و آہنگ ہی اس زبان کی خوراک ہیں۔ یہ پھلتی پھولتی، بڑھتی چڑھتی ہی نئی زبانوں کی میزبانی سے ہے۔
مگر انسانی فطرت کا کیا کیا جائے کہ چاند کو بھی تالاب میں قید کرنا چاہتی ہے۔ ہواؤں کو بازوؤں میں اور ریت کو مٹھی میں دبوچنے کی ضد کرتی ہے۔ کم فہموں نے ہر دور میں اردو کو بھی دیگر زبانوں کی طرح کھونٹے چڑھانے کی کوشش کی ہے۔ مگر زندہ زبانیں پابندیاں قبول نہیں کرتیں۔ اور اردو تو زبانوں کی زبان ہے۔ ایسی تمام پابندیاں طاقوں میں گرد میں دفن ہوجاتی ہے۔ اور زبان آگے بڑھ جاتی ہے۔
تحریک نفاذ اردو کے نام پر جب بھی اردو کو مبہم، ادق، ثقیل، اور خوامخواہ کے بھاری الفاظ کا جامہ پہنانے کی کوشش کی گئی ہے، اس کا مذاق ہی بنا ہے۔ اب بھی ایسا ہی ہورہا ہے۔
میرا سادہ سے مشورہ یہ ہے کہ اردو کو خود ہی اپنا آپ نافذ کرنے دیجیے، وہ آپ جیسوں کی محتاج کبھی تھی نہ ہے۔ بالی ووڈ میں ہندو توا کے تعصبی ہدائیتکاروں اور لکھاریوں نے ایڑی چوٹی کا زور لگا لیا کہ ہندی کے نام پر سنسکرت کو انڈین فلموں کی بولی بنا دیا جائے، مگر اردو کی سلاست و روانی نے خود آگے بڑھ کر اپنا آپ ثابت کردیا۔
اردو دنیا میں بولی جانے والی چوتھی بڑی زبان ہے۔ کروڑوں لوگ اردو بولتے ہیں۔ یہ کسی ملک یا قبیلے کی زبان نہیں ہے۔ (جب بھی آپ کو اسکا وہم ہو اسکا طریقہ پیدائش ضرور ذہن میں لائیے گا )۔
رہی بات دفتروں اور کاغذوں میں اردو لکھنے بولنے کی۔ تو ست بسم اللہ۔ مگر اس کے لیے تھرما میٹر کو حرارت پیما کہنے کی قطعاً ضرورت نہیں، تھرما میٹر ہی کہیے۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
معذرت : اس پوسٹ سے جن نستعلیق طبعیتوں کا مثلہ ہوا ہے، ان کا دل دکھانے کی معذرت مگر حقیقت اور روح عصر یہی ہے، نہ بھی مانیں تو دریا تو بہتا ہی رہے گا