کردار:- ( کچڑا سیٹھ، کچڑا سیٹھانی، کچرا بابا، کوڑا " پاکباز"، یوسف بھائی)
پردہ اٹھتا ہے۔۔۔۔۔۔۔!
سامنے۔۔۔ کچرا پور نامی ایک گاؤں ہے۔ جس گاؤں میں کسی نے آج تک صاف پانی کا استعمال نہیں کیا! یہاں گندے پانی کا استعمال حد سے زیادہ ہوتا ہے۔ جگہ جگہ کچروں کا ڈھیر ہے۔ لوگوں کے لباس، گھر، وغیرہ سب گندے، بدبو کا یہ عالم تھا کہ کوئی شہری شہر سے یہاں آجاۓ تو بے ہوش ہی ہو جاۓ۔ کچرا پور گاؤں میں سب کے نام کے آخر میں کچڑا نامی (سر نیم) لگانا ضروری ہے۔ کچرا پور گاؤں کو یہاں کے کچڑا سیٹھ اور ان کی بیوی کچڑا سیٹھانی مل کر سنبھالتے تھے۔ وہ دونوں اسی گاؤں میں ایک بڑے گھر میں رہتے تھے۔ ان کا گھر کیا تھا، میل کچیل سے بھرا کوڑا دان، گاؤں کے گندے پانی کا راستہ ان کے گھر کے قریب ہی سے ہی گزرتا تھا۔ سیٹھ کے دو بیٹے بھی تھے۔ چھوٹا بیٹا جو کہ چھے برس کا تھا۔ اس کا نام کچڑا بابا تھا اور بڑے کا نام کوڑا تھا۔ جس کی عمر اب تیرہ سال کے قریب تھی۔
(کچڑا سیٹھ گندی سی راج گدی پر بیٹھے ہوئے)
کچڑا سیٹ:- اری سنتی ہو۔ (بلند آواز میں)
کچڑا سیٹھانی:- (دونوں بچوں کو زمین پر ایک گندہ سا کپڑا بچھاۓ سلاتے ہوئے راجا سے مخاطب ہو کر) کیا ہوا۔۔۔۔۔! کیوں اتنے زور سے چلا رہے ہو۔ بچے اٹھ جاتے نہ ابھی۔
کچڑا سیٹھ:- ارے بچوں کی ہی تو بات کرنی ہے۔
کچڑا سیٹھانی:- ہاں بتاؤ کیا کہنا ہے۔( دونوں ہاتھ دھرے زمین پر بیٹھ گئ)
کچڑا سیٹھ:- (گنجے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے) میں سوچ رہا تھا کہ ہمیں کوڑا کو شہر بھیج دینا چاہیے تاکہ وہ وہاں سے نئ نئ ٹکیالوجی سیکھ کر آۓ اور کچرا پور کی ترقی کے بارے میں سوچے۔ اور کچڑا بابا کو اپنے وہ کچڑا کمہار کے پاس پہلوان بنانے کے لئے بھیج دیتے ہیں۔
کچڑا سیٹھانی:- بات کاٹتے ہوئے، کیا۔۔۔۔ یہ وہی کچڑا کمہار تو نہیں ہے جو ایک جانا مانا پہلوان ہے۔ جس کسی کو پہلوان وہلوان بننا ہوتا ہے اسے وہ بچپن ہی سے سکھاتا ہے۔ سات برس کے اوپری بچوں کو وہ نہیں لیتا۔
کچڑا سیٹ:- ہاں۔۔ہاں۔۔ یہ وہی ہے میری بات ہوچکی ہے اس سے، ہم کل ہی ایک کو شہر اور دوسرے کو کمہار کے پاس روانہ کر دینگے۔
کچڑا سیٹھانی:- تو میں اچھی طرح ان کو تیار کر دیتی ہوں بڑے دھوم دھام سے انہیں یہاں سے الوداع کریں گے۔
(اگلے دن سورج جیسے ہی نمودار ہوا۔۔۔ کچرا پور کے سب بڑے اور بچے دھوم دھام سے کوڑا اور کچڑا بابا کو الوداع کرنے گاؤں کےسرے تک گئے) کچڑا بابا کچرا پہلوان کے پاس دو دن میں پہنچ گیا۔ اور کوڑا شہر پہنچ گیا جہاں جاتے ہی اس نے اپنا ایک اچھا دوست بنالیا۔ دوست کے والد ڈاکٹر تھے انہوں نے کوڑا کو سمجھایا، اسے تعلیم کی اہمیت بتائی اور صاف صفائی کے بارے میں بھی بتایا۔ کوڑے کو بات سمجھ میں آگئی۔ خوب دل لگا کر پڑھائی کی اور وہ ڈاکٹر بن گیا۔
(دوسرا سین)
(پردہ اٹھتا ہے۔ گیارہ سال بعد کا منظر)
(کوڑا اب ایک بڑا ڈاکٹر بن گیا تھا۔ اس کا نام اب پاک باز تھا۔ یہ نام اسے اس کے دوست یوسف بھائی نے دیا تھا جس نے کوڑا کو شہر آتے ہی اپنا دوست بنا لیا تھا۔ دونوں ایک ہی اسپتال میں ڈاکٹر تھے۔ ان دونوں کی کافی عزت تھی۔ پاک باز ایک دن یوسف بھائی سے مخاطب ہو کر۔)
پاکباز :- یوسف بھائ مجھے اب ایک بار اپنے گاؤں کا دیدار کرنا ہے۔ میرے والدین پتا نہیں کیسے ہوں گے کیا اب تک وہ گاؤں ویسا ہی ہے؟
یوسف:- ہاں ایک بار تمہیں جاکر دیکھ لینا چاہیئے۔
پاکباز:- ہاں۔۔۔۔ میں کل ہی روانہ ہو جاتا ہوں۔ آپ چلو گے یوسف بھائی میرے ساتھ۔۔۔
یوصوف:- بالکل ۔۔۔۔۔ چلوں گا ہمیں اسپتال سے کچھ دنوں کی چھٹیاں مل جائیں گی۔
پاکباز:- یوسف بھائی اگر وہ گاؤں پہلے جیسا رہا تو ہم اسے اچھا بناکر وہاں پر ایک اپنا اسپتال کھولیں گے۔
یوصوف:- ہاں کیوں نہیں۔۔۔ ضرور کھولیں گے اسپتال۔
(دونوں نے تیاری کی اپنے ساتھ ماکس، سینیٹاںٔزر اور میڈیکل کے آلات رکھے اور فجر کی نماز کے بعد کچڑا پور کی طرف روانہ ہوۓ۔ لگ بھگ تین دنوں کے سفر کے بعد کچرا پور آگیا۔ گاؤں کے باہر دروازے پر پہنچتے ہی۔۔۔
پاکباز :- یوسف بھائی! کچرا پور تو بالکل بھی نہیں بدلا۔
یوسف:- اب ہمیں تھوڑی محنت کر کے اسے کچڑا پور سے پاکیزآباد بنانا پڑے گا۔
(دونوں باتیں کرتے کرتے اندر داخل ہوئے۔انہوں نے اچھی طرح اپنے کپڑوں پر خوشبو لگا لی تھی۔ وہ کے اندر داخل ہوۓ ماکس سینیٹاںٔزر کا استعمال کرتے رہے۔ہر طرف گندگی اور بدبو پھیلی ہوئی تھی۔ وہ کسی طرح راجا کچڑا سیٹھ کے گھر تک پہنچے۔)
یوسف:- تم نے جیسا بتایا تھا سچ مچ ویسا کا ویسا ہی ہے تمہارا گاؤں۔
پاکباز :- چلو اب گھر کے اندر چلیں۔۔۔۔۔
(گھر میں داخل ہوتے ہی پاکباز اور یوسف کو پہلے گندگی اور بد بو سے رو برو ہونا پڑا۔ انہوں نے دیکھا کہ پاکباز کے والد بہت زیادہ بیمار ہیں۔ اور ایک پلنگ پر لیٹے ہوئے ہیں۔ ان کی والدہ اور ایک دبلا پتلا آدمی وہی بیٹھا ہے۔)
پاکباز:- (والد کے پاس جاکر) ابا جان کیا ہوا سب ٹھیک تو ہے نا۔۔۔ ۔
(پاکباز کی والدہ جھٹ سے اسے پہچان گئ اور بڑھ کر اسے گلے لگا کر رونے لگی۔)
کچڑا سیٹھانی:- ارے کوڑا بیٹا تو آیا ہے۔ اور یہ کیا حالت بنا رکھی ہے۔ یہ دیکھ تیرا بھائی کچڑا بابا۔ تیرے ابو کو کوئ کورونا نامی بیماری ہوئ ہے۔
(یہ سن کر پاکباز نے فوراً کہا۔)
پاکباز :- آپ دونوں ان سے دور ہو جائیں۔
(پاکباز نے دونوں کو دور کیا اور وہ اور یوسف کچڑا سیٹھ کے علاج کے لیے ان کے پاس آۓ مگر۔۔۔( کچڑا سیٹھ چلائے)
کچڑا سیٹھ:- مجھے صاف صفائی سے سخت نفرت ہے دور چلے جاؤ میری نظروں سے کوڑا۔۔۔
(پاکباز اور اس کے دوست یوسف نے خوب کوشش کی مگر وہ علاج کے لیے نہیں مانے۔۔۔)
کچڑا بابا:- گاؤں کے بہت سے لوگوں کو کرونا وائرس ہوا ہے۔
پاکباز:- کیا۔۔۔۔۔۔۔۔! حیران ہو کر۔۔ یا اللہ رحم کیجئے۔
(پاکباز، یوسف کے ساتھ اپنے میڈیکل کے آلات لے کر گاؤں کے لوگوں کے پاس گیا۔
پاکباز:- گاؤں والوں یہاں آؤ میں پاکباز ہوں آپ کا کوڑا۔۔۔
(سب گاؤں والے حیرت انگیز آنکھوں سے اسے دیکھنے لگے۔)
نعیم:- میں تم سب کا آج علاج کروں گا۔ یہ کرونا بڑی جان لیوا بیماری ہے۔ میں تمہیں کرونا وائرس سے بچنے کی تدبیر بتاؤں گا۔ تم سب میری بات مانوں اور سب اپنا علاج کرواؤ۔( سب نے علاج سے انکار کیا)
یوسف:- دیکھوں کرونا وائرس بہت خطرناک وائرس ہے۔ اس کی وجہ سے موت واقع ہو سکتی ہے۔
(موت کے خوف سے سب نے علاج کے لیے حامی بھر لی۔ پاکباز اور یوسف نے مل کر سب کے علاج کی شروعات کی جن کی حالت زیادہ نازک تھی انہیں شہر بھیجا۔ وہاں پاکباز کے والد کی طبیعت اور زیادہ خراب ہونے لگی۔ کچڑا سیٹھ اپنے لیۓ ایک حکیم کو اپنے ہی گاؤں سے بلایا مگر وہ ڈاکٹر کچھ نہیں کر سکا۔
پاکباز :- اب تو علاج کروا لو ابو جان، موت سے بچ جاؤ گے۔
کچڑا سیٹھ:- مجھے تم جیسے صفائی پسند آدمی بالکل نہیں پسند ہے۔میں علاج نہیں کرواؤں گا۔ چاہے موت ہی کیوں نہ آۓ۔
کچڑا سیٹھانی:-( ٹھنڈی سانس بھرتے ہوئے) ارے۔۔۔ کروا لو علاج کیا پتا ٹھیک ہو جاؤ گے۔
کچڑا بابا:- ہاں۔۔ ہاں۔۔ امی ٹھیک کہ رہے ہے۔
یوسف:- امی جان ہمارے علاج کے بعد وہ بالکل ٹھیک ہو جائیں گے، ہم نے ڈاکٹری کی بڑی ڈگری لی ہے۔
کچڑا سیٹھ:-( کھانستے ہوئے) بالکل نہیں۔۔۔۔۔۔۔ میں تم جیسوں سے کبھی بھی نہیں علاج کرواؤں گا اور نہ ہی کوئی ویکسین لگواوں گا۔۔
(کچڑا سیٹھ کو زور زور سے کھانسی آنے لگی اور دم زور زور سے پھولنے لگا۔)
(کورونا وائرس کے لئے کامیاب ویکسین تیار کی جا چکی تھی جسے لگاتے ہی مریض کو کچھ دیر میں راحت ہو جاتی تھی۔)
پاکباز:- ارے یوسف۔۔۔ فوراً کورونا وائرس کی ویکسین نکالو۔
(یوسف نے کالے بیگ سے جلدی سے ویکسین نکالا اور پاکباز کو دیا۔)۔
یوسف:- یہ لو۔۔۔۔۔۔۔۔ ویکسین
(یوسف نے کچڑا سیٹھ کو پکڑا اور پاکباز نے انہیں کووڈ کی ویکسین لگا دی۔ کچھ دیر بعد۔۔۔۔۔۔۔۔جب کچڑا سیٹھ کو کچھ آرام ہوا تب۔۔۔)
کچڑا سیٹھ:- تمہارا شکریہ کوڑا بیٹا۔۔ ( یوسف کی طرف دیکھ کر) اور ان کا نام کیا ہے؟
کچڑا بابا:- جوشیلی آواز میں ان کا نام یوسف بھائی ہے اور ہمارے بھائی کوڑے کا نام اب پاکباز ہے۔ان دونوں نے شہر سے ڈاکٹری کی بڑی ڈگری لی ہے۔
کچڑا سیٹھ:- آپ کا اور میرے بیٹے آپ کا بہت بہت شکریہ۔۔۔
اب میں اس گاؤں کو صاف کر کے اس کانام۔۔۔
یوسف:- (بات کاٹتے ہوئے) پاکیزآباد رکھ دیں اور ہم دونوں یہاں ایک اسپتال کھولیں گے۔ جس میں غریبوں کا مفت علاج ہو گا۔(یوسف نے ایک سانس میں ساری بات کہہ دی۔)
کچڑا سیٹھ:- واقعی تمہاری سوچ کافی اونچی ہے۔ اب میں بھی آپ دونوں کے ساتھ اس گاؤں کے ریتی رواج کو بدلنے کی کوشش کروں گا۔
(کچھ دنوں میں گاؤں کا نام، لوگوں کے نام وغیرہ سب بدل گۓ۔ کچرا پور کا نقشہ بدل گیا اور اب اس کا نام پاکیزآباد رکھ دیا گیا تھا۔ وہاں ایک بڑا اسپتال بھی بن گیا تھا۔)
کچڑا سیٹھ:-(ندامت سے) سچ میں صاف ستھری اور پاکیزہ زندگی کتنی خوبصورت اور خوش گوار ہوتی ہے۔ آپ دونوں کا پھر سے شکریہ۔۔۔۔۔۔
(پردہ گرتا ہے)
سیکھ۔۔۔۔۔
اللہ کی بارگاہ میں صفائی نصف ایمان ہے۔ ہمیں اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کی اور اپنے ماحول کی بھی صفائی کا خیال رکھنا چاہیے اور یہ خیال اور فکر ہمیں تعلیم سے حاصل ہوتی ہے۔
اللہ حافظ۔۔۔۔۔۔۔