کردار
جہانگیر : شہنشاہ جہانگیر
دھوبی : ایک دھوبی
وزیر،دربان، داروغہ : جہانگیر کے درباری
وزیر اعظم : جہانگیر کا وزیر اعظم
منظر: شہنشاہ جہانگیر کے دربار کا منظر، درمیان میں ایک بڑا سا گھنٹہ لٹک رہا ہے اس سے بندھی ڈور دائیں جانب کی کھڑکی تک گئی ہے۔ تخت خالی ہے ایک دوپہریدار آپس میں باتیں کر رہے ہیں۔ اچانک گھنٹہ زور زور سے بجنے لگتا ہے
پہریدار : (چونک کر) گھنٹے کی آواز! یعنی کوئی فریادی بادشاہ سلامت کے دربار میں فریاد کرنا چاہتا ہے۔ لیکن یہ فریاد کا وقت ہے؟ بادشاہ سلامت تو اس وقت دوپہر کا کھانا کھاکر آرام فرما رہے ہوں گے۔
گھنٹہ مسلسل بجتا ہے
پہریدار : اف کیسا بد تمیز فریادی ہے۔ اسے فریاد کے آداب کا بھی پتہ نہیں ہے۔ فریاد کے لیے ایک گھنٹہ کا صرف تین بار بجانا ہی کافی ہے۔ لیکن یہ بد تمیز فریادی مسلسل گھنٹہ بجا رہا ہے۔ اس بد تمیز پر تو بادشاہ سلامت کو طیش آجائے گا۔ وہ اس کی فریاد سننے کی بجائے اس کی اس گستاخی پر اس کو سزا دیں گے۔
جہانگیر دوتین وزیروں کے ساتھ دربار میں داخل ہوتا ہے۔ گھنٹہ مسلسل بج رہا ہے
جہانگیر : دربان! کون فریادی ہے؟ کس نے ہمارے عدل کا امتحان لینے کی کوشش کی ہے۔ کس نے ہم سے انصاف مانگا ہے اس کو فوراً ہمارے سامنے پیش کیا جائے۔
وزیر : اسے عدل تو ملے گا۔ لیکن اس نے عدل مانگنے کے آداب کے خلاف ورزی کی ہے اور بد تمیزی سے مسلسل گھنٹہ بجارہا ہے۔ اسے اس گستاخی کی سزا بھی ضرور دی جانی چاہئے۔
جہانگیر : پہلے پتہ تو چلے کہ فریادی کون ہے؟ دربان کھڑکی سے دیکھو کون فریا دی ہے؟ اور اسے اس طرح مسلسل گھنٹہ بجانے سے منع کرو۔
(دربان کھڑکی کے پاس آتا ہے اور زور زور سے ہنستا ہے)
جہانگیر : دربان! یہ کیا گستاخی ہے۔ ہم نے تمہیں فریادی کو دیکھنے کے لیے کہا اور تم ہنس رہے ہو۔ یہ گستاخی نہیں ہے؟
دربان : حضور میں نے کوئی گستاخی نہیں کی ہے ۔ میں نے آپ کے حکم کی تعمیل کی ہے فریادی کو دیکھنے کے لیے کھڑکی تک آیا ہوں۔ مگر فریادی کو دیکھ کر میری ہنسی چھوٹ گئی ہے ۔
جہانگیر : یہ تمہاری گستاخانہ حرکت ہے کوئی ہمارے دربارمیں عدل کے لیے فریاد کررہا ہے اور تمہیں فریادی کو دیکھ کر ہنسی آرہی ہے ۔
دربان : گستاخی معاف عالی پناہ! آپ فریادی کو دیکھیں گے یا اس کے بارے میں سنیں گے تو آپ کو بھی ہنسی چھوٹ جائے گی۔
جہانگیر : نہیں۔ ہم اپنے فریادی کو دیکھ کر نہیں ہنستے ہیں۔ اس کی فریاد غور سے سن کر اس کے ساتھ انصاف کرتے ہیں۔ یہ ہمارا اصول ہے۔
دربان : لیکن میرا دعویٰ ہے عالم پناہ۔ اس فریادی کو دیکھ کر آپ کی ہنسی نکل جائے گی۔
جہانگیر : ٹھیک ہے یہ ابھی پتہ چل جائے گا۔ فریادی کو دیکھ کر ہماری ہنسی چھوٹ جائے گی یا پھر ہمارا عدل جوش میں آئے گا۔ سپاہیوں سے کہو وہ فوراً فریادی کو ہمارے سامنے پیش کریں جو بھی فریادی ہو … جیسا بھی ہو…
دربان : ٹھیک ہے عالم پناہ۔(زور سے نیچے آواز دیتا ہے)بادشاہ سلامت نے حکم دیا ہے کہ فریادی کو فوراً دربار میں پیش کیا جائے۔
جہانگیر کی طرف مڑ کر
دربان : عالم پناہ میں نے پہرے داروں کو پیغام دے دیا ہے وہ ابھی فریادی کو لیکر آپ کے پاس آئیں گے۔
جہانگیر : لیکن تم پہلے یہ جواب دو تم فریادی کو دیکھ کر کیوں ہنسے؟
دربان : عالم پناہ۔ میں فریادی کو دیکھ کر کیوں ہنسا اس کا جواب آپ کو ابھی مل جائے گا۔ پھر بھی آپ کو محسوس ہو کہ مجھ سے کوئی گستاخی ہوئی ہے تو آپ مجھے سزا دے سکتے ہیں۔
جہانگیر : ٹھیک ہے ٹھیک ہے…
دو سپاہی ایک گدھے کو لے کر دربار میں حاضر ہوتے ہیں
جہانگیر : (غصے سے) یہ کیا۔ یہ گدھا ہمارے دربار میں کیسے آگیا۔ پہرے دارو!تم نے اس گدھے کو ہمارے دربار میں گھسنے کیوں دیا۔ اسے روکا کیوں نہیں؟ تمہیں تمہاری اس لاپرواہی کی ضرور سزا ملے گی۔
دربان : عالم پناہ! پہرے داروں نے گدھے کو دربار میں داخل ہونے سے نہ روکا۔ بلکہ خود اسے دربار میں لے آئے۔
جہانگیر : مگر کیوں؟
دربان : اس لیے عالم پناہ کہ یہ گدھا خود فریاد ہے؟
جہانگیر : (حیرت سے) یہ گدھا فریادی ہے؟
دربان : جی ہاں عالم پناہ۔ یہ گدھا ہی مسلسل آپ کے عدل کا گھنٹہ بجا رہا تھا۔
جہانگیر : لیکن کس طرح؟
دربان : شاید اس نے گھنٹے کی لٹکتی رسی کو اپنے منہ میں پکڑ لیا اور اسے چبانے کی کوشش کررہا تھا اس لیے یہ گھنٹہ مسلسل بج رہا تھا۔
جہانگیر : اوہ… ایک گدھے نے عدل کا گھنٹہ بجایا ہے یعنی عدل کے لئے جہانگیر کے دربارمیں فریاد کی ہے ۔ ضرور اس کے ساتھ کوئی نا انصافی ہوئی ہوگی۔ تب ہی تو اس نے ہمارے حضور میں فریاد کی ، ہمارے عدل کا گھنٹہ بجایا۔ لیکن یہ گدھا شہنشاہ جہانگیر سے کیا چاہتا ہے؟
دربان : اب یہ تو بتانا بہت مشکل ہے۔
پہلا وزیر : یہ گدھا کچھ بول بھی تو نہیں سکتا ہے۔
جہانگیر : پھر کس طرح پتہ چلے گا اس گدھے نے ہمارے عدل کا گھنٹہ کیوں بجایا ہے۔ ہمارے دربار میں فریاد کیوں کی ہے ۔
وزیر اعظم : عالم پناہ! میں کچھ کچھ اس گدھے کی فریاد کو سمجھ رہا ہوں۔
جہانگیر : ہم بھی تو سنیں یہ گدھا ہم سے کیا انصاف چاہتا ہے۔
وزیر اعظم : عالم پناہ آپ نے دیکھا یہ گدھا کتنا دبلا پتلا ہے۔ جسم پر ہڈیاں ہی نظر آرہی ہیں۔
جہانگیر : جی ہاں وزیر اعظم آپ کی بات تو بالکل درست ہے۔
وزیراعظم : اس کا مطلب ہے اس کا مالک اس کو کھانے کو نہیں دیتا ہے۔ بھوکا رکھتا ہے۔ اس لیے یہ اتنا دبلا ہو گیا ہے کھانے کی تلاش میں وہ محل تک آیا ہوگا اور اس نے عدل کے گھنٹہ کی رسی کو سوکھی گھاس سمجھا ہوگا اور اپنی بھوک مٹانے کے لیے اس رسی کو گھاس سمجھ کر کھانے کی کوشش کررہا ہوگا۔ جس سے عدل کا گھنٹہ بج اٹھا ہے۔
جہانگیر : میں آپ کی بات سے بالکل متفق ہوں وزیر اعظم۔ اس کا مالک اس کو بھوکا رکھتا ہوگا۔ اسی لیے اس نے ہمارے دربار میں فریاد کی ہے ۔ اسے انصاف ملے گا اور ضرور ملے گا۔ فوراً اس گدھے کے مالک کو ہمارے دربار میں حاضر کیا جائے۔
دونوں پہر دار : جی حضور! ہم ابھی جاکر اس گدھے کے مالک کا پتہ لگاتے ہیں اور اسے آپ کی خدمت میں حاضر کرتے ہیں۔
جہانگیر : تب تک یہ گدھا دربار میں ہی رہے گا۔ یہ بھوکا ہے اسے فوراً پیٹ بھر کے ہری ہری گھاس کھانے کے لیے دی جائے۔
دربان : جی حضور!
دوپہرے دار جاتے ہیں اور ہری ہری گھاس لے کر آتے ہیں۔ وہ گھاس گدھے کے سامنے ڈالتے ہیں گدھا گھاس کھانے لگتا ہے
وزیر اعظم : دیکھا عالم پناہ۔ بیچارہ جس طرح گھاس کھارہا ہے اس سے تو ایسا لگتا ہے وہ کئی دنوں سے بھوکا ہے۔
جہانگیر : بالکل وزیر اعظم۔
سپاہی دھوبی کو پکڑ کر دربار میں لاتے ہیں
پہرے دار :عالم پناہ اس گدھے کا مالک یہ دھوبی ہے یہ ہمیں راستے میں ہی مل گیا۔ اپنے گدھے کو ڈھونڈتا اس طرف آرہا تھا۔
دھوبی : ارے یہ تو میرا گدھا ہے اس کو میں کئی گھنٹوں سے ڈھونڈھ رہا ہوںاور یہ یہاں ہے یہ دربار میں پہنچ گیا اور گھاس کھارہا ہے؟ لیکن یہ دربار میں کس طرح آیا۔
جہانگیر : فریاد لے کر۔
دھوبی : (گھبراکر) فریاد لے کر؟ اس نے کیا فریاد کی ہے؟
وزیر اعظم : اس نے فریاد کی ہے کہ تم نے اسے کئی دنوں سے بھوکا رکھا ہے۔ تم اسے کھانے کو نہیں دیتے ہو۔
جہانگیر : کیا اس کی فریاد درست ہے؟
دھوبی : (گھبراکر) بات تو درست ہے؟ لیکن عالم پناہ! اس نے کس طرح میرے خلاف آپ کو شکایت کی ہے؟
وزیر اعظم : عدل جہانگیری کا گھنٹہ بجا کر۔
دھوبی : کیا؟ اس نے عدل کا گھنٹہ بجا کر انصاف مانگا؟
وزیر اعظم : ہاں ۔ اس نے نہ صرف تمہاری شکایت کی ہے بلکہ بادشاہ سلامت سے انصاف بھی مانگا ہے ۔ اور اس کے ساتھ عدل کیا جائے گا۔
جہانگیر : اور اگر تم قصور وار ثابت ہوئے تو تمہیں اس کی سزا بھی دی جائے گی۔
وزیر اعظم : بولو۔ کیا یہ سچ ہے۔ کہ تم اس گدھے کو کھانے کو نہیں دیتے ہو اور اس کی وجہ سے یہ اتنا دبلا ہو گیا ہے؟
دھوبی : حضور! بھگوان کی سو گندھ! جھوٹ نہیں بولوں گا یہ سچ ہے کہ میں گذشتہ ایک ماہ سے اس گدھے کو کھانے کے لیے کچھ نہیں دے رہا ہوں۔
وزیر اعظم : اس لیے تو اس نے تمہارے خلاف در بار میں شکایت کی ہے اور بادشاہ سلامت سے انصاف مانگا ہے۔ اس لیے اس کے ساتھ انصاف ہوگا۔ اسے انصاف ملے گا۔
جہانگیر : اور تم جو اس معصوم جانور کے ساتھ نا انصافی کرتے ہو اس کی تمہیں سزا ملے گی۔
دھوبی : (ہاتھ جوڑ کر ) حضور جھوٹ نہیں بولوں گا۔ یہ سچ ہے میں اس بات کا اقرار کرتا ہوں کہ ایک مہینہ سے میں نے اس کو کھانے کے لیے کچھ نہیں دیا ہے۔
جہانگیر : پالنے والے کا یہ فرض ہوتا ہے کہ وہ جس کو پال رہا ہے اس کا اچھی طرح خیال رکھے۔ اسے وقت پر کھانا دے اور تم نے اپنا فرض پورا نہیں کیا ہے۔ اس لیے اس کی سزا تمہیں ملے گی۔
دھوبی : آپ جو سزا دیں گے مجھے منظور ہے۔
جہانگیر : ہمارا انصاف یہ کہتا ہے تم آج کے بعد اس معصوم جانور کو کبھی بھوکا نہیں رکھو گے۔ روزانہ اپنی اولاد کی طرح دو وقت اسے کھانے کے لیے دو گے۔
دھوبی : مجھے یہ منظور ہے سر کار۔ آج کے بعد میں کبھی اس گدھے کو بھوکا نہیں رکھوں گا۔
جہانگیر : اور تم نے اسے بھوکا رکھ کر کھانے کے لیے نہ دے کر اپنے فرض سے کوتاہی کی ہے اس کی تمہیں یہ سزا دی جاتی ہے کہ بھرے دربار میں تم کو دو کوڑے مارے جائیں تا کہ تمہیں یہ کوڑوں کی مار یاد دلاتی رہے کہ تم نے اپنا کون سا فرض پورا نہیں کیا تھا جس کی تمہیں سزامل رہی ہے۔
دھوبی : سرکار مجھے یہ بھی سزا منظور ہے۔ مجھے بھرے دربار میں دو کوڑے مار کر مجھے اپنے فرض سے غفلت برتنے کی سزا دی جائے لیکن میری بھی فریاد سنی جائے۔
جہانگیر : ہمارے دربارمیں ہر کسی کی فریاد سنی جاتی ہے۔ اس لیے تمہاری بھی فریاد سنی جائے گی۔ بولو کیا کہنا چاہتے ہو۔
دھوبی : اس گدھے کا پالنے والا میں تھا۔ میں نے اپنے فرض سے کوتاہی کی اس لیے آپ مجھے یہ سزا دے رہے ہیں۔
جہانگیر : بالکل۔
دھوبی : لیکن میرے پالن ہار نے بھی اپنے فرض سے کوتا ہی کی ہے میرے پالن ہار کو بھی اپنے فرض سے کوتاہی کی سزا ملنی چاہیے۔
جہانگیر : بالکل اگر تمہارے پالن ہار، پالنے والے نے تمہارے ساتھ کوئی نا انصافی کی ہے تو اسے بھی سزا ملنی چاہئے۔
دھوبی : بالکل سر کار۔
جہانگیر : بتائو تمہارا پالنے والا کون ہے اور اس نے تمہارے ساتھ کیا کوتاہی ، نا انصافی کی ہے۔
دھوبی : حضور چھوٹا منہ بڑی بات بولوں تو گستاخی ہوگی۔
جہانگیر : بے جھجک کہو یہ جہانگیر کا دربار ہے تمہارے لیے کوئی حد ادب مقرر نہیں ہے۔
دھوبی : سر کا رمیرے پالن ہار میرے پالنے والے تو آپ ہیں۔
جہانگیر : ہم صرف تمہاری ہی نہیں ہم اپنی ساری رعایا کی پرورش کرنے والے ہیں۔
دھوبی : جی ہاں سر کار اور اگر پالنے والا اگر اپنی رعایا کا خیال نہ رکھے تو اسے بھی وہی سزا ملنی چاہیے جو اس وقت آپ نے مجھے دی ہے؟
وزیر اعظم : دھوبی! اپنی اوقات میں رہو! تم کیا کہہ رہے ہو ۔ اس کا مطلب جانتے ہو؟ اس گستاخی کی سزا کے طور پر تمہاری گردن اڑائی جاسکتی ہے۔
جہانگیر : وزیر اعظم! وہ جو کچھ کہنا چاہتا ہے اسے کہنے دو۔ ہم یہاں عدل کے تخت پر بیٹھے ہیں۔ ہر کسی کی فریاد سنیں گے اور انصاف کریں گے۔
دھوبی : سرکار! میں نے اپنے گدھے کو ایک مہینہ سے کچھ کھانا کھانے کے لیے نہیں دیا آپ اس کی وجہ جاننا چاہیں گے؟
جہانگیر : ضرور! بتائو کیا وجہ ہے ۔
دھوبی : سرکار! ایک مہینہ سے میں اور میرے بال بچے بھوکے مررہے ہیں۔ کبھی کھانے کو ملا تو کھالیتے ہیں نہیں تو بھوکے سو جاتے ہیں۔ جب ہم کو کھانے کے لیے نہیں مل رہا ہے تو ہم اس بیچارے گدھے کو کھانے کے لیے کہاں سے کچھ دے سکتے ہیں؟
جہانگیر : ہماری سلطنت میں لوگ بھوکے مریں! ایسا کس طرح ہوسکتا ہے؟
دھوبی : ایسا ہی ہورہا ہے سر کار!
جہانگیر : لیکن اس کی وجہ؟
دھوبی : گستاخی معاف ہوتو عرض کروں۔
جہانگیر : بے خو ف کہو۔
دھوبی : اس کے ذمہ دار بھی آپ ہیں۔
جہانگیر : ہم کس طرح؟
دھوبی : سر کا رمیں ایک دھوبی ہوں۔ لوگوں کے کپڑے دھوکر اپنا اور اپنی بیوی بچوں کا پیٹ پالتا ہوں۔ ایک مہینہ پہلے تک مجھے شاہی محل سے کپڑے دھونے کے لیے ملتے تھے ان سے مجھے اتنا مل جاتا تھا کہ ہمارا خاندان اچھی طرح زندگی گذار لیتا تھا اس میں یہ گدھا بھی شامل ہے۔
جہانگیر : پھر کیا ہوا؟
دھوبی : ایک دن غلطی سے کسی وجہ سے ایک کپڑے پر داغ لگ گیا۔ اس وجہ سے سزا کے طور پر مجھے شاہی محل سے کپڑے دھونے کے لئے دینا بند کر دیا گیا ۔ میرا گذر بسر تو اسی پر ہوتا تھا۔ اس طرح بھوکوں مرنے لگے اور بھوکے مررہے ہیں۔ اگر مجھے شاہی محل سے کپڑے دھونے کے لیے ملتے رہتے تو میں اس گدھے کو کھانے کے لیے دیتا اور یہ آپ کے دربار میں آکر فریاد نہیں کرتا۔
جہانگیر : اوہ…! اگر ایسی بات ہے تو سچ مچ ان سب کے ذمہ دار ہم ہیں۔ ہماری وجہ سے یہ سب کچھ ہو اہے ۔ اور اس سزا کے مستحق بھی ہم ہیں۔
دھوبی : نہیں نہیں سرکار۔ میرے کہنے کا مطلب یہ نہیں ہے۔ میرا کہنا یہ تھا اگر مجھے روزی ملتی رہتی تو میری میرے گدھے کی یہ حالت نہیں ہوتی۔
جہانگیر : ٹھیک ہے ۔ ہم حکم دیتے ہیں تاحیات شاہی محل سے تمہیں کپڑے دھونے کے لیے دیئے جائیں۔
دھوبی : (سلام کرکے) بہت بہت شکریہ حضور!
جہانگیر : لیکن ابھی گدھے کا انصاف باقی ہے۔
دھوبی : انصاف تو مل گیا ہے حضور۔
جہانگیر : نہیں گدھے کو بھوکا رکھنے کے جرم میں ہم نے تم کو جو دو کوڑے مارنے کی سزا سنائی تھی اب یہ ثابت ہو گیا ہے کہ تم بے قصور ہو۔ اور اس کے ذمہ دار ہم ہیں ۔ اس لیے یہ سزا بھی ہمیں ملنی چاہیے۔ داروغہ ہم کو دو کوڑے مارے جائیں۔
دھوبی : نہیں حضور نہیں… اس سزا کا مستحق میں ہوں۔
جہانگیر : داروغہ حکم کی تعمیل ہو…
داروغہ : نہیں سرکار! ناچیز یہ گستاخی نہیں کر سکتا ہے ۔
جہانگیر : جہانگیر کے دربار سے کسی کو انصاف نہ ملے یہ عدل جہانگیری پر ایک داغ ہے جو تا قیامت رہے گا اور ہم اپنے عدل پر یہ داغ لگانا نہیں چاہتے ہیں۔ انصاف ہوگا۔ انصاف ہوگا۔ عدل ہوگا۔
داروغہ کے ہاتھ سے کوڑا چھین کر خود پر دو کوڑے مارتا ہے۔ سب سنّاٹے میں آجاتے ہیں
پردہ گردتا ہے