سندھی اور اردو کی معروف شاعرہ محترمہ خالدہ منیر صاحبہ کا تعلق بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کے پیدائشی شہر اور سندھ کے ساحلی و تاریخی ضلع ٹھٹھہ سے ہے۔ وہ 4 جون 1972 کو قائداعظم محمد علی جناح کے پیدائشی شہر "جھرک" سے چند کلو میٹر کے فاصلے پر گائوں راجو نظامانی میں پیدا ہوئیں۔ وہ اس وقت اپنے والدین کی واحد اور اکلوتی بیٹی ہیں وہ اپنے والدین کی اولاد میں صرف 2 بیٹیاں تھیں جن میں سے شمع صاحبہ خالدہ صاحبہ کی بڑی بہن تھیں لیکن کچھ عرصہ قبل ان کا انتقال ہو چکا ہے۔ ان کے والد صاحب کا نام محمد عمر ہے جن کا تعلق سموں قبیلے سے ہے۔ ان کا جنم ایک ایسے ماحول میں ہوا جہاں ایک طرف تو تعلیمی سہولیات کا فقدان تو تھا ہی لیکن دوسری طرف وہاں لڑکیوں کو علم کے زیور سے آراستہ کرنے کے عمل کو ایک معیوب عمل سمجھا جاتا تھا مگر آفرین ہے ان کے والدین کو کہ انہوں نے اس دقیانوسی سوچ کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اپنی دونوں بیٹیوں کو تعلیم دلانے کا فیصلہ کیا۔ اپنے گاؤں میں تعلیم کے حصول کی سہولت نہ ہونے کے باعث ان کو پہلے جھرک میں اور اس کے بعد ٹھٹھہ کالج میں داخل کروایا جہاں سے خالدہ صاحبہ نے سوشل سائنس میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کی۔ ان کو بچپن سے ہی شاعری سے دلچسپی تھی۔ زمانہ طالب علمی میں نصابی کتب کے علاوہ ادبی کتب اور شاعری کا بھی مطالعہ کرتی تھیں اس دوران نویں جماعت میں انہوں نے سندھی زبان میں پہلی نظم کہی جسے ان کی ہم جماعت طالبات اور ٹیچرز نے بہت سراہا جس سے ان کی حوصلہ افزائی ہوئی۔ شاعری میں خطائی تھیبو صاحب سے اپنی شاعری کی اصلاح لی جس کے بعد دیگر مشہور شعراء اور شاعرات کی شاعری سے بھی رہنمائی حاصل کی۔ خالدہ صاحبہ کی 2007 میں ایک علمی خاندان کے فرد سماجی کارکن، قانون دان اور شاعر میاں گل منیر ولہاری صاحب ایڈووکیٹ سے شادی ہوئی اور ماشاءاللہ قدرت کی طرف سے انہیں میاں عبد اللہ منیر کی صورت میں ایک خوب صورت فرزند عطا ہوا ۔ خالدہ صاحبہ اردو میں غزل اور نظم جبکہ سندھی زبان میں غزل، نظم اور وائی کی صنف میں بھرپور طبع آزمائی کرتی ہیں۔ ان کی شاعری ویسے ہی خوب صورت ہے لیکن وہ نظم میں جس طرح عورت کے مسائل اور مشکلات کا عکس پیش کرتی ہیں وہ اس میں کمال کرتی ہیں ۔ انہوں نے اپنی ایک نظم "عورت اور جانور" میں جس طرح ایک عام دیہاتی عورت کا مشاہدہ بیان کیا ہے، میں نے آج تک عام دیہاتی عورت کی اس جیسی حقیقی تصویر کشی کسی اور کی شاعری میں نہیں دیکھی۔ خالدہ صاحبہ نے تعلیم کے حصول کے بعد سرکاری ملازمت کی بجائے اپنے بیٹے کی بہتر تعلیم و تربیت پر توجہ دینے اور سندھ کی خواتین کے سماجی اور معاشرتی مسائل، خواتین کے متعلق فرسودہ اور قبیح رسم و رواج پر لکھنے کو ترجیح دی ۔ وہ مشاعروں و دیگر علمی اور ادبی سرگرمیوں میں بھی فعال کردار ادا کر رہی ہیں۔ مشاعروں کی اہمیت کے متعلق ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ مشاعروں کی ہر دور میں اہمیت اور ضرورت رہی ہے۔ نئے لکھنے والوں کو مشاعروں میں اپنی تخلیقات پیش کرنے کا موقع ملتا ہے اور سینیئر شعراء سے سیکھنے کو بہت کچھ مل جاتا ہے۔ خالدہ صاحبہ اخبارات و رسائل اور جرائد میں اپنی شاعری کے علاوہ خواتین کے سماجی مسائل اور مشکلات کے متعلق لکھتی ہیں اور خواتین کے بارے میں فرسودہ رسم و رواج کے خلاف مضامین اور کالم وغیرہ بھی تواتر کے ساتھ لکھتی رہتی ہیں۔ خالدہ صاحبہ کا سندھی زبان میں پہلا شعری مجموعہ " تنھنجی شاعرہ" ( آپ کی شاعرہ ) 2007 میں سندھیا پبلیکیشنز حیدر آباد سندھ سے شائع ہوا ہے جسے ادبی حلقوں میں بہت پذیرائی حاصل ہوئی۔ ان کے مزید شعری مجموعے زیر طباعت ہیں جن میں ایک اردو اور ایک سندھی شاعری پر مشتمل ہے۔ خالدہ صاحبہ کی اردو شاعری سے عورت کے موضوع پر ایک خوب صورت نظم اور سندھی میں ایک بہترین " وائی " پیش خدمت ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عورت اور جانور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!
مویشیوں کے باڑے میں
گوبر سے بھری ہوئی ناوہ
اٹھاتے ہوئے اس کی کمر ٹیڑھی ہو گئی
بھاری ناوہ سر پر رکھنے کی
کوشش میں اس کی
ٹانگیں لڑ کھڑا گئیں اور وہ
توازن برقرار نہ رکھ سکی
ناوہ اس کے ہاتھ سے چھوٹ گئی
اس کا منہ اس گوبر بھرے ناوہ میں
دھنس سا گیا اور وہ
کراہتے ہوئے سیدھی ہوئی
اس کا پورا چہرہ مویشی کے گوبر سے
لت پت ہو گیا اور اس نے
اپنے دو پٹے کے پلو سے
چہرہ صاف کیا
پر صاف تو کیا ہوا
اس کی سانولی رنگت
سبزی مائل ہو گئی تھی
اس سبز چھرے والی عورت نے
جب اپنی آنکھیں اٹھائیں
تو میں دہک ہی گئی
میں نے زندگی میں پہلی بار
اتنی خالی آنکھیں دیکھیں
جن میں کوئی خواب نہیں تھا
جن میں امید کا کوئی بھی
آثار و عکس نظر نہیں آیا
اچانک باڑے میں مویشیوں نے ایک بچھڑے کو
سینگ مار کر زمین پر جو گرا دیا
اس عورت کی آنکھوں میں عجیب چمک آ گئی
میں خوفزدہ ہو گئی ان کی آنکھوں سے
کیوں کہ ان کی آنکھوں سے چیخ چیخ کر
وہ جیسے کہہ رہی تھی
میں اور جانور ایک جیسے ہیں
خالدہ منیر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وائي
هاڻي ڪر ملڻ جي پرين؛
وڃي نه زندگي جو سج لهي۔
رات ڪاڪ تي به ڏکي آئي آهي
مومل جي جلڻ جي پرين
وڃي نه زندگي جو سج لهي۔
پائي چندن هار پوءِ نه،
ڪئي ليلا کلڻ جي پرين
وڃي نه زندگي جو سج لهي۔
ٿا نيڻ ٻکين پون اهڙا
ڳالھ نه سلڻ جي پرين
وڃي نه زندگي جو سج لهي۔
جنهن ۾ قرار ناهي سا،
محفل پلڻ جي پرين
وڃي نه زندگي جو سج لهي۔
خالدہ منیر