قصیدہ نگاری کی ابتداء عربی زبان میں ہوئی ۔ اہل عرب عکاظ کے میلہ میں جمع ہوتے اور اپنے لکھے ہوئے قصائد سناتے ۔ ان قصیدوں میں سے 7 قصائد کو چن کر کعبہ شریف کی دیوار پر چسپاں کیا جاتا تھا ۔ اقوام عالم کی زبانوں میں عربی کو فصیح اور بلیغ زبان تصور کیا جاتا ہے ۔ اسی لئے آخری صحیفۂ آسمانی بھی اسی زبان میں اتارا گیا ۔ عرب شعراء بڑے قادرالکلام ہوا کرتے تھے ۔ وہ گھوڑے کی پشت پر سوار ہو کر دس ، بیس میل کی مسافت طے کرتے اور اسی دوران قصیدہ کے اشعار مکمل کرلیتے تھے ۔ عرب خود کو بولنے والا اور دیگر تمام ممالک کو عجمی یعنی گونگا کہا کرتے تھے ۔ جب عکاظ کے میدان میں لوگ قصیدے لکھ کے لاتے اور چیدہ قصیدوں کو کعبہ کی دیوار پر لٹکادیا جاتا تھا جس کا مقصد یہی تھاکہ اس سے بہتر کلام پیش کرنے کی صلاحیت والوں کو چیلنج کیا جائے ۔
عربی سے قصیدہ کی صنف فارسی میں اور فارسی سے اردو ادب میں مقبول ہوئی ۔ قصیدہ عربی کے لفظ قصد سے مشتق ہے ۔ قصد کے معنی ارادہ کے ہیں اور قصیدہ بالارادہ لکھی جانے والی شاعری ہے ۔ قصیدہ ایسی صنف سخن کو کہا جاتا ہے جو کسی کی تعریف میں بالارادہ لکھی جائے ۔ اگر تعریف میں قصیدہ لکھا جاتا ہے تو وہ مدحیہ قصیدہ کہلاتا ہے اور اگر مذمت میں لکھا جائے تو ہجویہ قصیدہ کہلاتا ہے ۔ قصیدہ میں پرشکوہ الفاظ کا استعمال کیا جاتا ہے اور عام طور پر الفاظ معرب اور مفرس استعمال کئے جاتے ہیں ۔ مبالغہ قصیدہ کا لازمی جزو قرار دیا جاتا ہے ۔ غالب نے بہادر شاہ ظفر کی مدح میں قصیدہ لکھا تھا جس سے مبالغہ کا اندازہ کیا جاسکتا ہے ۔
تم سلامت رہو ہزار برس
ہر برس کے ہوں دن پچاس ہزار
قصیدہ کے اجزائے ترکیبی میں تشبیب ، گریز ، مدح اور دعا کو بڑی اہمیت حاصل ہے اور انہیں فنی طور پر قبول کیا جاتا ہے ۔
تشبیب : تشبیب میں۲ ، ۴ ، ۶ یا ۸ یا اس سے بھی زائد بند لکھے جاتے ہیں ۔ قصیدہ کے پہلے حصے یعنی تشبیب میں حسن کی تعریف و توصیف کی جاتی ہے ۔ تشبیب لفظ شباب سے نکلا ہے عام طور پر قصائد میں بہاریہ تشبیب یا پھر چاند اور چاندنی رات کی تشبیب باندھی گئی ہے ۔
گریز : قصیدہ کا دوسرا حصہ گریز ہے جس میں تشبیب سے پرہیز کرتے ہوئے ممدوح کی تعریف کی جانب توجہ دی جاتی ہے جس سے قصیدے میں نیا موڑ پیدا ہوتا ہے ۔ عام طور پر گریز کے دوران ہی مدح کا وسیلہ تلاش کیا جاتا ہے ۔ گریز کے دوران ۲ تا ۴ بند پر اکتفا کیا جاتا ہے ۔
مدح : قصیدہ کا یہ حصہ عام طور پر ممدوح کی تعریف پر مشتمل ہوتا ہے اور قصیدہ نگار مبالغہ کے دریا بہاتا ہے ۔ قصیدہ میں مبالغہ کی وجہ سے دلکشی پیدا ہوتی ہے ۔ قصیدہ کے پہلے جز یعنی تشبیب کے پڑھنے سے قصیدہ کے معیار کا پتہ چلتا ہے اور مدح کے ذریعہ شاعر کی کلام پر دسترس کا اندازہ ہوتا ہے ۔ غرض قصیدہ میں گریز کے بعد کا مرحلہ مدح سے وابستہ ہے ۔
دعا : مدح کے بعد یا قصیدہ کے دوران شاعر اپنا مدعا ظاہر کرتا ہے اور آخر میں ممدوح کے حق میں دعا کرتا ہے ۔اس طرح دعا اور حسن مدعا بھی قصیدہ کے ایک جزو کا مرتبہ رکھتے ہیں ۔
قصیدہ چاہے کسی بھی ملک میں لکھا جائے اس کو شاہی اور جاگیر شاہی نظام کی دین تصور کیا جاتا ہے ۔ ایران ہو یا ہندوستان ، جہاں بھی بادشاہت تھی وہاں کے شعراء نے ان بادشاہوں کی تعریف میں قصیدے لکھے جس کا مقصد حصول انعام و اکرام رہا ۔ بادشاہ ، نواب ، نواب زادے اور جاگیردار حضرات نے ان شعراء کی مالی امداد کے لئے نہ صرف وظائف مقرر کئے بلکہ مختلف انداز میں شعراء کو نوازا ۔ اس طرح شاعری میں قصیدہ کو عروج حاصل ہوا ۔
قصیدہ کے اقسام : قصیدے کو دو اقسام میں تقسیم کیا جاتا ہے ۔ ایک تمہیدیہ اور دوسرا خطابیہ ۔
تمہیدیہ : ایسا قصیدہ جس میں ممدوح کی تعریف سے پہلے تمہید کے طور پر تشبیب اور گریز ہو وہ تمہیدیہ قصیدہ کہلاتا ہے ۔
خطابیہ : ایسے قصیدے جس میں تشبیب اور گریز نہیں ہوتے بلکہ قصیدہ کا آغاز ہی ممدوح کی تعریف سے شروع ہوتا ہے وہ خطابیہ قصیدہ کہلاتا ہے ۔ قصیدوں کو مضمون کے اعتبار سے چار قسموں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے ۔ مدحیہ ، ہجویہ ، وعظیہ اور بیانیہ ۔ اردو شاعری میں سوداؔؔ کو قصیدہ گوئی میں اولیت کا شرف حاصل ہے ۔ قصیدہ میں ان کے مدحیہ قصائد اور ہجویہ قصائد اہمیت کے حامل ہیں۔ مصحفیؔ نے سوداؔ کو ’’قصیدہ کا نقاش اول، زبان کا حاکم اور ہجو کا بادشاہ‘‘ بتایا ہے اور محمد حسین آزاد نے ان کی قصیدہ گوئی کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے لکھا ہے ’’اول قصائد کا کہنا پھر اس دھوم دھام سے اعلی درجے اور فصاحت پر پہونچانا ان کا پہلا فخر ہے ۔ وہ اس میدان میں فارسی کے نامی شہہ سواروں کے ساتھ عنان در عنان ہی نہیں بلکہ اکثر میدانوں میں آگے نکل گئے ہیں ۔ ان کے کلام کا زور و شور انوری و خاقانی کو دباتا ہے اور نزاکت مضمون میں عرفی و ظہوری کو شرماتا ہے‘‘ ۔سودا نے قصیدہ کو اجزائے ترکیبی سے وابستہ کیا ۔ اگر شاعری میں کسی کی شخصیت پر لعن طعن کی بات ہو تو ایسے قصیدہ کو ہجویہ قصیدہ کہتے ہیں ۔ ہجویہ قصیدہ کے ساتھ ہی سودا کے ملازم خاص غنچہ کا تصور ذہن میں آجاتا ہے جو ہمیشہ سودا کے ساتھ قلم دان لئے پھرتا تھا ۔ اگر سودا کسی سے خفا ہوجاتے چاہے وہ کتنا ہی صاحب ثروت و ذی اثر آدمی کیوں نہ ہو ۔ کچھ ہی دیر میں سودا اس کے تعلق سے ہجو لکھ دیتے تھے اور چند ہی گھنٹوں میں اس ہجو کی سارے شہر میں گشت ہونے لگتی تھی ۔
سودا نے رثائی کلام پر بھی خصوصی توجہ دی ۔ مرثیہ کے لئے انہوں نے مسدس کی ہیئت تجویز کی چنانچہ آج تک بھی مرثیہ اسی ہئیت میں لکھا جاتا ہے ۔ جاگیردارانہ نظام میں بادشاہ کی حیثیت ایک درخت جیسی تھی اور اس کے نواب ، جاگیردار وغیرہ اس کی شاخیں تھیں ۔ جب یہ درخت ہی اکھڑ گیا تو سارا نظام درہم برہم ہوگیا ۔ جب ممدوح نہ رہے تو مدح کس کی کی جائے گی ۔ اس طرح صنف قصیدہ روبہ زوال ہوئی لیکن ہمارے ادب کا یہ قیمتی اثاثہ ہے ۔
قصیدہ گوئی میں سودا کے بعد جو اہم نام سامنے آتے ہیں ان میں غالب اور ذوق کو بڑی اہمیت حاصل ہے ۔ دور حاضر میں ہجویہ قصائد میں صدق جائسی نے اپنے فن کا لوہا ہے