سری نگر کے انٹرنیشنل ائیرپورٹ سے باہر آتے ہی بھوک سے نڈھال دونوں جرمن جوڈے ایک اچھے سے ریسٹورنٹ کی تلاش میں سرگرداں بلیوارڈ روڈ پہنچ گئے ۔ ڈل جھیل کے کنارے ایک معروف ریسٹورنٹ میں داخل ہوئے اور اپنا آرڈر پلیس کیا ۔ اب وہ کشمیر کے پُر آشوب حالات کے بارے میں گفتگو کرنے ہی لگے تھے کہ ایک ویٹر ان کے قریب آیا اور انہیں ایک پلے کارڈ دکھایا ۔ " یہاں سیاسی گفتگو کرنا منع ہے " پلے کارڈ پر لکھا تھا ۔ " اوکے او کے " ایک میز کے ارد گرد بیٹھے دو جرمن جوڑوں نے کہا اور اپنا سر اثبات میں ہلانے لگے ۔ اس دوران ایک ویٹر ان کے آرڈر کی تعمیل و تکمیل کرتا ہوا مطلوبہ اشیائے خوردونوش میز پر لگانے لگا ۔ یہ لوگ کھانے پینے میں لگے اور رومانٹک ہوتے ہوئے رومانی باتیں کرنے لگے ۔ جبھی پلے کارڈ والا ویٹر پھر نمودار ہوا ۔ اُس نے پھر ایک پلے کارڈ دکھایا ۔ " یہاں رومانس کرنا منع ہے " وہ کارڈ دکھا کر جانے لگا تو جرمن سیاح ہونقوں کی طرح اسے جاتے ہوئے دیکھتے رہے ۔ کھانے کے دوراں انہیں کچھ سردی سی محسوس ہوئی تو یہ یہاں کے موسم کے بارے میں اظہار خیال کرنے لگے جبھی ایک اور پلے کارڈ کی نمائش ہوئی " یہاں موسمیاتی بحث و تمحیص منع ہے " " پر کیوں ۔۔۔۔ ؟" اچانک ایک سیاح چیخا ۔
" کیوں کہ یہ صنم لوٹس کا ذاتی معاملہ ہے " پلے کارڈ دکھایا گیا ۔ " وہاٹ نان سینس ۔" اچانک ایک زنانہ سیاح چیخیں ۔ پھر سے ایک ڈسپلے ہوا ۔ " یہاں چیخنا چلانا منع ہے " او مائی گاڈ ۔۔۔ زنانہ ٹورسٹ زچ ہوکر چیِخیں اور رونی صورت بنا کر سر تھام کر بیٹھ گئیں ۔ پھر ڈسپلے ہوا " یہاں رونا دھونا منع ہے " " مگر کیوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔؟" اچانک وہ سب شدید غصے میں ایک ساتھ چلائے ۔ جبھی ایک جلی حروف میں لکھا ہوا پلے کارڈ نمودار ہوا ۔
" کیونکہ یہ کشمیر ہے !!!!!! "
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...