اگر میں غلط نہیں ہوں تو یہ غالبا" واجدہ تبسم کے ایک افسانے کا عنوان ہے۔ اس افسانے کی کہانی مختصر" یہ ہے کہ ایک امیر زادی کی ملازمہ جس نے ساری زندگی امیر زادی کی اترن پہنی اور ہتک آمیز زندگی گزاری ہے وہ امیرزادی کی شادی سے پہلے امیر زادی کے ہونے والے دولہا سے جسم کا رشتہ بنا کر یہ اطمینان بھری مسرت حاصل کرتی ہے کہ اس بار امیر زادی کو اس کی اترن ملے گی۔ میں یہاں واجدہ تبسم کے افسانے میں پیش کیے گئے خیال کی نفی یا اثبات کی بجائے اس نظم کے حوالے سے بات کروں گی جو ان چند دنوں میں میں نے فیس بک پر تواتر سے گردش کرتی دیکھی ہے۔ اس نظم کا عنوان بھی "اترن" ہے۔ یہاں نظم میں سابقہ محبوب کو اترن کہا گیا ہے اور نظم کا مفہوم یہ ہے کہ جس طرح انسان اپنے متروک کپڑوں اور اشیا کی فکر نہیں کرتا کہ وہ کس نے پہنے یا استعمال کیے اسی طرح "ترک کردہ" محبوب بھی وہ اترن ہے جس کی یہ فکر کیوں کی جائے کہ وہ کس کس کے زیرِ استعمال رہی۔ نظم چونکہ ایک لڑکی کے قلم سے لکھی گئی ہے اس لیے زیادہ تر لڑکیوں نے اسے ایک لڑکی کے باغیانہ، خوددارانہ انداز کی وجہ سے پسند کیا ہے۔
اب یہاں سے میرے سوال شروع ہوتے ہیں۔
۱۔ کیا سابقہ محبوب، محبوبہ، شوہر یا بیوی کو اترن یعنی شے سمجھنا مستحسن ہے؟ کیونکہ جو سابقہ ہے وہ کبھی دل و جان سے عزیز ہستی تھا/تھی۔ [میں ذاتی طور پر انسان کو شے سمجھے جانے والے تصور ہی کو رد کرتی ہوں]
۲۔ اگر یہ نظم کسی عورت کی بجائے مرد نے لکھی ہوتی اور سابقہ [بے وفا] محبوبہ کو اترن کہا ہوتا تو ہماری تانیثی سوچ کا کیا ردِ عمل ہوتا؟
۳۔ یہ تو ضروری ہے کہ عورت محبت کے ایک ناکام تجربے سے زندہ سلامت باہر نکلے، لیکن اس کے لیے یہ ضروری نہیں کہ وہ اپنی سابقہ محبت کو اترن کہہ کر انسان کو شے بنا/سمجھ کر ہی اپنے اعتماد کو سہارا دے۔
۴۔ پردرسری سماج نے عورت کو شے بنایا۔ جدید عورت کو اسی سوچ کے ساتھ آگے نہیں بڑھنا چاہیے۔ عورت کو اپنے اعتماد، خودداری اور آگے بڑھنے کے لیے پدرسری سماج کے ایسے گھٹیا تصورات کی ضرورت نہیں۔
نظم یہ ہے:
"اترن"
کبھی کہیں پر
سنا ہے تم نے؟
کہ کوئی اپنے پرانے کپڑے، کہیں غریبوں میں بانٹ دے اور
پھر کبھی ان سے جا کہ پوچھے
“کہ کس نے پہنا وہ سرخ جوڑا
وہ سبز چادر کسے ملی تھی
کسے ملی میری نیلی جیکٹ؟”
نہیں سنا ناں؟
کسی کو فرصت نہیں ہے لڑکے
کہ خستہ کپڑوں کے روگ پالے
پرانی اشیاء پہ بین ڈالے
یا اپنی اترن کے بھید رکھے
کبھی کہیں پر
سنا ہے تم نے؟
کہ کوئی تھک کر کسی پیارے کو دور جنگل میں چھوڑ آئے
تو مڑ کے دیکھے؟
یا چند سالوں کے بعد واپس وہیں پہ لوٹے
وہ جس کو چھوڑا تھا لینے آئے؟
نہیں سنا ناں؟
کسی کو حاجت نہیں ہے لڑکے
کہ رفتگاں کا عذاب جھیلے
پرانی بازی کو پھر سے کھیلے
کسی کے ہونے کو اپنے جینے کی شرط کر لے
اسی لیے تو
مجھےنہیں ہے یہ فکر بالکل
کہاں تمہاری یہ عمر بیتی
یا کیسی حالت میں وقت کاٹا
بچھڑ کے مجھ سے کسے ملے تم
مجھے نہیں ہے یہ فکر بالکل
کہ میری اترن کو کس نے پہنا!!
ماہ نور رانا