الماس تفکرات کے خشک صحراؤں سے ہوتا ہوا، اَن دیکھی پگڈنڈیاں عبور کرتا ایک اندھیرے راستے پر ہو لیا۔ اس کے دماغ میں خیالوں کی دبیز تہہ نمی اکھیڑتی ہوئی اپنا حصار تنگ کر رہی تھی۔ عجیب کشمکش میں وہ سَر کی رگوں کو دیر تک پھڑکاتا رہا۔ اضطراب اور اضطرار کی آمیزش سے اس کا نفَس نفَس سبک رفتاری سے سفر کر رہا تھا۔
سفر جاری تھا۔ سامنے روشنی کے آثار نے نقاب اٹھایا۔ پلکوں کی چقیں ہٹیں، نورِ ھدیٰ کی کرنوں کی حسین آغوش نے الماس کو سنبھال لیا۔
الماس نے مرشدِ کامل کی دست بوسی کا موقع غنیمت جانا اور سرمدی دولت سے سرفراز ہو گیا۔
دو ہفتے بعد!
اسے فطری تشکیک کی یورش نے آ لیا۔ جبیں پہ عرق آلود نقشوں میں اس کے دل کی گہرائی ماپی جا سکتی تھی۔ آنکھوں کے بے رونق حلقے زندان میں پڑے یاس آمیز لمحات کی چغلی کھا رہے تھے۔ اسے سوال کا جواب نہیں مل رہا تھا۔ وہ جواب جو سوال ہی کی گود میں کلکاریاں مار رہا تھا۔ گہری سوچ میں حواس نے اندھیرے کا سفر شروع کیا۔
آنکھ کھلی۔ جواب کے آثار نظر آنے لگے۔ الماس کا سفینۂ فکر پلِ صراط سے گُذرتا ہوا رازوں کی حویلی کے سامنے لنگر انداز ہوا۔
مشتاق نگاہوں نے مراد پائی۔ نصیبہ جاگا۔ اضطراب کے بندھن ٹوٹے، غم کدے کے آتشدان کو مسرت کا نور کھا گیا۔ مرشد نے صحیفہ کھولا۔ ارشاد ہوا!
الماس! تمھارا نام نہیں لکھا میرے پاس، ہاں! صحیفے کی جبین پہ یہ ادھورا مگر کامل جملہ ضرور ثبت ہے : ٠”گندمی رنگ کا چہرا“