اس بار کچھ الگ ہوا
توقع کے برخلاف
جانے حماد کو بیٹھے بٹھائے ہو کیا گیا تھا۔ ایسی باتیں اس لہجے اور اس انداز میں اس کے دوستوں کے گروپ میں ہوتی ہی رہتی تھیں۔ جب معاملہ دوسروں کا ہو تو یوں بھی لوگ کسی بات کی گہرائی اور شدت کو اس طرح محسوس تھوڑا ہی کرتے ہیں جیسے وہ کرتے ہیں جن پر بیتی ہو یا جن کے پیاروں پر بیتی ہو۔ یار لوگ جب مل بیٹھتے ہیں تو یوں بھی وہ ہنسی مذاق کے موڈ میں ہوتے ہیں۔
لیکن اس روز تو حد ہی ہو گی۔ وہ بات حماد کی بہن یا دوست کی تو تھی نہیں۔ وہ بس ایک خبر تھی۔ قتل کی خبر۔ ایک لڑکی کو اس کے دوست نے قتل کر دیا تھا۔ لڑکیوں کے قتل اب عام بات ہو چکے ہیں۔ ایسی خبریں سن کر اکثر لوگوں کے احساس کی لکیر میں ایسا زیر و بم نظر نہیں آتا جو ان کے زندہ ہونے کا ثبوت دے۔ ان کے احساس کی لکیر اسی طرح فلیٹ رہتی ہے جیسے ہسپتال میں مرنے والے کے دل کی دھڑکن کی لکیر۔ ایک دم سیدھی ۔۔۔ ہاں تو حماد کے دوستوں میں سے کسی نے اس خبر کی جزئیات سنانا شروع کیں۔ ذکر شراب، نشے، لڑکی لڑکے کی مادر پدر آزاد دوستی اور رقص و سرود کی محفلوں کی تفصیلات تک پہنچا تو معمول کی طرح سنانے والا اور سننے والے اس جرگے کے لوگ بن گئے جن کے ہر فیصلے میں لڑکی کا مصلوب ہونا لازم ٹھہرتا ہے۔ گھٹن زدہ معاشرت کے لوگ یوں بھی ایسی باتوں کی تفصیل میں بھی کہیں نہ کہیں لذت یا تفریح کا پہلو ڈھونڈ ہی لیتے ہیں۔ ایسے قتل سکینڈل بن جاتے ہیں۔ جن اخباروں میں ان کی تفصیل چھپتی ہے وہ دھڑا دھڑ بکتے ہیں۔ تفصیلات میں خیال رکھا جاتا ہے کہ ایسی زبان اور الفاظ استعمال کیے جائیں جو معاملے کی سنجیدگی کو سنسنی خیزی میں بدل دیں۔ سنسنی خیز تفصیلات نشر کرنے سے پرائیویٹ ٹی وی چینل اپنی ریٹنگ بڑھاتے ہیں اور سننے والے اپنے ٹھنڈے احساسات کو گرماتے ہیں ۔۔۔
تو بس ایسا ہی ماحول اس روز حماد کے دوستوں کی اس بیٹھک میں تھا۔ سنسی خیز تفصیلات، اشارے کرتی آنکھیں، کچھ واہیات الفاظ، کچھ زیرِ لب تبسم، کسی کے لب کا ایک کونا تمسخر سے اوپر اٹھا، کسی نے اپنی غلیظ ہنسی دبائی۔ یہ سب کچھ معمول کا حصہ تھا۔ البتہ اگلا لمحہ معمول سے ہٹ کر تھا۔ اچانک حماد پر ناقابلِ بیان غصے کا دورہ سا پڑا اور وہ بے قابو ہو کر سنانے والے کی اور سن کر ہنسنے والوں کی اپنے مکوں، تھپڑوں، لاتوں سے دھلائی کرنے لگا۔ اس سے پہلے کہ وہ سنبھلتے اور اسے قابو میں کرتے، وہ اپنے حصے کی مار کھا چکے تھے۔