مصنف : سائمن سلویسٹر
••••
چارلی کو سرکس سے محبت تھی۔۔ اس میں اسے مسخروں والا حصہ سب سے زیادہ پسند تھا۔۔۔ اسے ان کی تضحیک کرنا اور تمسخر اڑانا اچھا لگتا تھا۔۔۔ شرارت اور خوشی کے ملے جلے جذبات میں گرفتار وہ ایک نالی کی مدد سے ان پر تھوکتا رہتا۔۔۔ وہ لاابالی پن سے ان کے احمقانہ طور پر بنائے گئے مسخروں والے چہروں کو مونگ پھلی کے دانوں سے نشانہ بناتا رہتا۔۔ اسے ان کے " چکنے رنگوں " کی تہہ کے نیچے سے ابلتے غصے کو دیکھنا بھی پسند تھا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ وہ اس کا کچھ بگاڑ تو کیا اسے چھو بھی نہیں سکتے تھے۔۔۔
ہفتے کے روز کے صبح والے شو کے بعد اگلی پرفارمنس سے پہلے ، چارلی وقت گزاری کے لئے تنبو سے نکل آیا۔۔۔ اس نے دو قافلوں کا درمیانی راستہ اپنایا تاکہ مختصر وقت میں مزید مونگ پھلی خرید سکے۔۔۔ سرکس کی کانوں کو بہرا کر دینے والی آوازوں کا عادی ہونے کی وجہ سے وہ بمشکل ہی ان بڑے جوتوں کی گھسٹی آوازیں سن پایا جو اس کے گردا گرد اکٹھے ہو رہے تھے۔۔۔ اور پھر ہاتھی کے گوبر کی گیلی سرانڈ اور " لچھوں " میں جلی چینی کی بو کی وجہ سے وہ کلوروفارم کی ایسیٹون والی بو بھی محسوس نہ کر پایا…
جب سرکس نے اگلے گاﺅں میں پڑاﺅ ڈالا تو اس میں کام کرنے والوں میں ایک اور مسخرے کا اضافہ ہو چکا تھا۔۔۔ یہ باقی مسخروں کے مقابلے میں سب سے چھوٹا تھا اور بھدا بھی۔۔۔ مسخرے پن کی پوری کاروائی میں وہ ان کے لطیفوں کا حذف ہوتا۔۔۔ دوسرے مسخرے اسے گرا کر الٹا دیتے۔۔۔ وہ اس کی پتلون میں کسٹرڈ ڈال دیتے اور اس کے چوتڑوں پر پیر مار کر دھکیل دیتے۔۔۔ وہ اس کے منہ پر لجلجے ملیدے دے مارتے۔۔۔ پھسل کر گرنے کے بعد جب وہ بھاگنے کی کوشش کر رہا ہوتا تو وہ اسے ایسا نہ کرنے دیتے اور ہر بار پکڑ لیتے اور اسے گھسیٹ کر دائرے کے وسط میں لے آتے تووہ مسخرے پن سے ایسی آواز نکالتا جیسے کتے کا پلا انسانی ٹُھڈا کھا کر چیوں چیوں کرتا ہے، درد سے اس کا چہرہ مزاحیہ حد تک بگڑ جاتا، ایسے میں سارے بچوں کا ہنس ہنس کے برا حال ہو جاتا۔۔۔
یہ سب اتنا پر مزاح ہوتا کہ اداس سے اداس چہرے بنائے مسخروں کے منہ پر بھی مسکراہٹ آ جاتی۔۔۔ گو چہروں پر سجے رنگوں کی تہہ میں ان پر کیا بیت رہی ہوتی تھی اس کے بارے میں کچھ کہنا بہت مشکل ہے۔۔۔!!
•••
حوالہ : عالمی ادب اور افسانچہ
اردو قالب و تحاریر : قیصر نذیر خاورؔ