مجھے کبھی بھی کوئٹہ شہر اچھا نہ لگا۔تین پہاڑوں کے درمیان پیالہ نما وادی میں بسا بے ہنگم شہر جسے ایک بار خالق نے خاک میں ملا دیا اذان فجر سے بہت پہلے جب کہ سبھی سو رہے تھے شہر کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔تباہ شہروں کی مانند اسے عبرت کدہ بنائے رکھنے کی بجائے انگریزوں نے دوبارہ یہ شہر بسا دیا۔یہ ان کے Colonialism کا مرکز تھا ‘ بھلا وہ یہ ٹاپو کیوں بلوچستان میں ڈوبنے دیتے۔اس شہر کا اپنا کچھ بھی نہ تھا ‘ سردیاں شمال سے آتیں۔بارشیں بحیرہ عرب سے سمگلر جنوب سے حاکم مشرق سے! مجھے کوریئر کمپنی میں منیجر کی اسامی مل گئی شہر کے گنجان علاقے میں واقع تین منزلہ عمارت کی تیسری منزل پہ ایک معقول سا فلیٹ مل کرایہ پہ لے لیا۔پلازہ کا منیجر ہنس مکھ انسان تھا۔اس کا غبی سا بیٹا میٹرک میں تسلسل سے فیل ہو رہا تھا۔اسے بلا معاوضہ ٹیوشن پڑھانے لگا۔منیجر بہت ہی مہربان ہوگیا۔رات کا کھانا باقاعدگی سے بھجوانے لگا۔چند ہی ماہ بعد جب اس کے بیٹے اسد نے داخلہ ٹیسٹ پاس کیا تو منیجر خوشی سے مغلوب ہوگیا۔اس نے ماہانہ کرایہ معاف کردیا۔صبح کا ناشتہ بھی بھجوانے لگا۔ دوپہر کا کھانا کوریئر کمپنی کی جانب سے ملا کرتا۔موٹر سائیکل بھی کمپنی نے ہی لے دی۔فلیٹ کے لئے اقساط پہ ٹیلی ویژن ‘ فرج اور مائیکرو ویو اون بھی حاصل کر لیا۔ ان چیزوں کی موجودگی میں بیوی کی ضرورت نہیں رہتی۔ منیجر پلازہ لال بخش چونکہ میرا احترام کرتا ‘ پورا پلازہ ہی دوستانہ انداز میں پیش آیا کرتا ‘ حتیٰ کہ باہر تھڑوں پہ بیٹھے نجومی ‘ رمال ‘ سبزی کے ٹھیلے والے بھی میری عزت کرنے لگے۔لال بخش لحیم شحیم انسان تھا ‘ کوئی کرایہ دار ایک دو ماہ کرایہ ادا نہ کرتا تو اسے باہر پھکوا دیتا سامان ضبط کر لیا کرتا۔
میری زندگی تو سکون سے گزر رہی تھی۔البتہ شہر میں ایک طویل شب برات منائی جارہی تھی۔راون زندہ تھا مگر دیوالی کا جشن عروج پہ تھا۔سرِ شام دھماکے ہونے لگتے۔ انسانوں کے چیتھڑے اڑ جایا کرتے۔پٹاخے چلتے پھلجڑیاں بہار دکھاتیں۔میں کروٹ بدل کے سو جایا کرتا میری ترقی ہونے والی تھی۔لوگ مرتے ہیں تو میں کیا کروں کاسی قبرستان صدیوں سے انسانوں کو نگل رہا ہے۔میرا مقصد حیات ایک آرام دہ زندگی گزارنا تھا۔میں اپنی زبان بند ہی رکھتا تھا۔چھوٹی سی زبان ایک طویل زندگی کے امکانات ختم کر دیتی ہے۔زبان اتنی خطرناک ہے جانے چہرے پہ کیوں ہے۔پیروں میں بھی تو ہو سکتی تھی۔بوٹ میں دابے رہتے۔
ان ہی دنوں میرا دوست ایوب میرے گاؤں سے چلا آیا۔وہ نوکری کا متلاشی تھا۔مجھے بہت خوشی ہوئی منشی لال خان سے بھی ملوایا۔وہ حاتم طائی جیسا دیالو تھا ‘ پر تکلف دعوت کر ڈالی۔ایوب کے آنے سے کوئی اپنا مل گیا۔اتنے بڑے شہر میں اکیلا پن بہت کھلتا ہے۔میرے پاس تو کمپیوٹر خریدنے کے پیسے نہ تھے۔ایوب نیچے بازار میں نیٹ کیفے چلا جایا کرتا۔جانے کہاں کہاں ملازمت کی درخواستیں بھجوایا کرتا۔اون لائین کے علاوہ ڈاک سے بھی درخواستیں پوسٹ کیا کرتا بن سنور کے انٹرویو دینے جایا کرتا۔رفتہ رفتہ اس کی شوخی و خوش گفتاری گہنا سی گئی۔میں شام کو لوٹتا تو وہ ٹیلی ویژن آف کیے مہاتما بدھ کی مانند آنکھیں بند کیے جانے کن سوچوں میں ڈوبا رہتا۔میری آواز پہ چونک سا اٹھتا۔اس کا دماغ بھی کچھ کھسک سا گیا تھا بہکی بہکی باتیں کرنے لگا تھا۔
” ایوب ! یار کچھ بولو ‘ اپنی زبان بول کے دل خوش ہوتا ہے ۔ ”
”زبان ” وہ ہڑ بڑا کے مراقبے سے اٹھ بیٹھا ” ابتداء میں کلام تھا ‘ کلام خدا کے ساتھ تھا۔خدا کلام تھا ۔ ”
” یہ کیا تقریر شروع کر دی ” میں نے دوستانہ احتجاج کیا۔
ایوب نے ڈپٹ دیا ” خاموش بے ادب ! یہ کتاب مقدس کے الفاظ ہیں۔لفظ ہمیں خدانے دیئے ہیں ”
میں ہنس دیا ” صرف لفظ دیئے ہیں روٹی کیوں نہیں دی ؟” بھوک کے مارے لوگ مر جاتے ہیں۔جب کہ گونگے زندہ رہتے ہیں ”
ایوب کا لہجہ تلخ ہوگیا ” میں چاہتا ہوں انسان کی زبان ہی نہ ہو۔ڈارون نے یہ نہیں بتایا کہ بن مانس نما انسان کی زبان کب اگی؟ یہ لایعنی چیز کب نکلی۔جیسے مگر مچھ لاکھوں برس بعد سانپ میں منقلب ہوگیا۔ہو سکتا ہے کسی اندرونی عضو نے باہر نکل کر زبان کی صورت اختیار کر لی ہو؟ اور تم جھوٹ کہتے ہو بھوک سے اتنے انسان نہیں مرتے جتنی اموات زبان کے باعث ہوتی ہیں ”
اتنے میں لال بخش چلا آیا ” چلو کھانا تیار ہے ۔” ہم دونوں فوراً ہی ساتھ ہولیے ۔ کھانے کے بعد ایوب کے دل کے پھپھولے پھوٹ گئے ۔ بات شادی کی چل نکلی تھی میری شادی کا پوچھا پھر ایوب سے یہی سوال دہرایا ۔ ایوب یہ قنوطیت طاری تھی ۔ ” جسے چاہتا تھا اس کی زبان کچھ اور تھی انہوں نے انکار کر دیا اب تو کبھی ایسا سوچا بھی نہیں ۔ ”
مجھے ایوب کے بدلے ہوئے رویئے سے تشویش ہونے لگی کہیں اس کی انتہا پسندی کوئی نیا گل ہی نہ کھلا دے۔
اگلی رات حسب معمول شہر چار دھماکوں سے گونج اٹھا۔ ایوب ہڑ بڑا کر اٹھ بیٹھا ” دھماکے ہو رہے ہیں۔انسان ہی انسانوں کو مار رہے ہیں مختلف زبانیں بولنے والے ایک دوسرے کے گلے کاٹ رہے ہیں۔دل چاہتا ہے اس شہر کے تمام انسانوں کی زبان ہی کاٹ ڈالوں زبانوں کی نفرت ختم ہوجائے گی۔زبان ہی تو نفرت پھیلاتی ہے ۔”
میں نے بمشکل اس کا غصہ ٹھنڈا کیا۔فلیٹ میں چونکہ جگہ کم تھی میں پلنگ پہ سویا کرتا اور وہ زمین پر بستر لگا کر۔ مجھے دن بھر کام کرنا ہوتا۔جب کہ ایوب بالکل بیکار رہا تھا۔مجھے جھلاہٹ بھی ہوا کرتی کہ میرا بازو بننے کے بجائے وہ ایک بوجھ بنتا جا رہا ہے۔
اس کی جلی کٹی باتیں سن سن کر کان پک گئے تھے۔ سنجیدگی سے سوچا کرتا کہ اسے کسی طرح چلتا کروں۔
رفتہ رفتہ ایوب کے چہرے پہ پژمردگی سی چھانے لگی۔ اس کے چہرے پہ نومبر اتر آیا۔ایک زرد سی بجھی بجھی دھوپ اس کے چہرے پہ گھٹا کیے رہتی۔اب وہ براہوی زبان میں گفتگو سے احتراز کرنے لگا تھا۔
” میری زبان ہی آڑے آتی ہے۔میری زبان ہی کے سبب مجھے ملازمت نہیں دی جاتی۔زبان زبان زبان کاش میری ماں گونگی ہوتی۔میری کوئی مادری زبان نہ ہوتی ”
میں نے گفتگو کو مزاحیہ رنگ دینا چاہا ” معذوروں کا کوٹہ دو فیصد مقرر ہے ملازمتوں میں ۔ اگر تم گونگے ہوتے توکب کے افسر اعلیٰ بن چکے ہوتے ۔”
ایوب چونک اٹھا ” زبان سے چھٹکارہ پایا جا سکتا ہے۔ مجھے تو خیال ہی نہ آیا۔پاکستان کا وزیر اعظم غلام محمد مفلوج تھا زباں بند تھی۔بڑی کامیابی سے ملک چلاتا رہا۔واہ کیا بات ہے ” وہ بستر لپیٹ کر چھت پہ سونے چلا گیا۔
کبھی آسمان سے تجلیات اترا کرتیں۔اب تو اندھی گولیاں برستی رہتیں۔ایوب کو بارہا منع کیا مگر وہ سنی ان سنی کرکے چھت پہ سونے کیلئے چلا جایا کرتا اس کی باتیں سن سن کر جی ہلکان ہونے لگتا۔پھر مجھے مزید اذیت دینے کیلئے چھت پہ سونے جاتا۔طبعیت اوب سی جاتی۔تردد دور کرنے کے لئے میں مار دھاڑ کی فلمیں لگائے رکھتا۔اور پھر کروٹ بدل کے سویا رہتا۔
شب برات کے تین دھماکے ہوئے۔میں اس قدر عادی ہو چکا تھا کہ نیند اچاٹ نہ ہوتی میں کچھ ہی دیر میں دوبارہ سوجایا کرتا۔اتنے میں ایوب چلا آیا۔مجھے جھنجھوڑ کر جگانا چاہا حالانکہ میں پہلے ہی سے جاگ رہا تھا۔اس کی آنکھوں میں وحشت ٹپک رہی تھی۔سرخ سرخ آنکھوں سے مجھے گھورے جارہا تھا۔مارے دیوانگی کے وہ مجھے اجنبی اجنبی سا لگا۔پاگلوں کا سا انداز تھا۔وحشی سا ” بتاؤ اس شہر میں کتنی زبانیں بولی جاتی ہیں؟” اس کا جنونی انداز مجھے خوفزدہ کر رہا تھا میرا حلق خشک ہونے لگا۔مجھے خوفزدہ پا کر وہ اور بھی شیر ہو گیا ” بتاؤ مجھے ” مرتا کیا نہ کرتا۔میں منمنانے لگا ” بلوچ ‘ براہوئی ‘ دیہواری مکرانی ہزارگی ‘ سندھی ‘ پنجابی ‘ پشتو ۔۔۔۔۔۔اور۔” میری زبان گنگ ہوگئی کیونکہ اس نے جیب سے استرہ نکال کر کھول لیا تھا۔
” میرے ساتھ چلو چھت پہ ” وہ غرایا۔میں سہما سہما ساتھ ہو لیا کہ بگڑ کر کہیں میرا نرخرہ ہی نہ کاٹ ڈالے۔چھت پہ نسبتاً خنکی تھی لوڈ شیڈنگ کے باعث شہر پہ ظلمتوں کا سایہ تھا۔سیاہ رات تنی ہوئی تھی۔بم دھماکوں سے خوفزدہ شہری گھروں میں دبکے ہوئے تھے کتوں کا راج تھا۔
ایوب کے لہجے سے میں خائف ہو رہا تھا ” سنگ ہارا بستندو سگاں راکشاوند۔سنو شہر میں کتوں کا راج ہے۔ان کی زبان ایک ہی ہے۔سنو ! ایک ہی ہے کیا ” میں نے کان دھرا تو مجھے پہلی بار علم ہوا کہ واقعتاً سارے کتوں کی ایک ہی زبان ہے۔ ”میرا جسم سرد پڑ چکا تھا مارے خوف کے ٹانگیں جواب دے چکی تھیں۔جی کڑا کر کے تصدیق کی ” ہاں ان سب کی ایک ہی زبان ہے نسلیں اور شکلیں مختلف سہی مگر زبان ایک ہے۔سبھی آواز میں آواز ملا کر یک زبان ہوجاتے ہیں ”
ایوب با آواز بلند بولا ” مجھے بھی آج ہی علم ہوا کہ کتوں کی زبان ایک ہے۔صرف ایک ۔ ” ایوب نے بائیں ہاتھ سے اپنی زبان باہر کھینچی اور دائیں ہاتھ سے استرہ چلا دیا۔
حاشیہ: (1) ایک تباہ کن زلزلے نے ٣١ مئی ١٩٣٥ء کو تین بج کر تین منٹ پر کوئٹہ کے پچاس مکینوں کو موت کی وادی میں دھکیل دیا۔سنگ ہارا بستند : راستوں کے پتھر باندھ رکھے ہیں کتے آزاد کر دیئے ہیں۔ (2) دے اور دل ان کو جو نہ دے مجھ کو زبان اور ۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...