دسمبر کے مہینے میں موریشس میں شدید گرمی پڑتی ہے۔ اس اثنا میں پیاس کی شدت سے سب لوگ پریشان ہوجاتے ہیں۔ وہ دکانوں سے طرح طرح کے مشروبات سے اپنی تشنگی کو کم کرنے کی پوری کوشش کرتے ہیں۔
امجد کے والد پورٹ لوئی شہر میں اپنے عالیشان مکان میں رہتے تھے۔ ایک دن گرمی میں وہ اپنی بڑی گاڑی میں نوکری سے گھر واپس آرہے تھے۔ انہیں راستہ میں ناریل فروش دکھائی دیا۔ امجد کے والد نے گاڑی روکی اور ناریل فروش سے دو بہترین ناریل خریدے۔ گھر آکر والد صاحب نے چاندی کے گلاس میں ناریل کے پانی کو انڈیلا۔ امجد کے والدنے چاندی کا یہ گلاس ہندوستان سے خرید ا تھا ۔ سفر کے دوران نہایت احتیاط سے اس گلاس کو اپنے ساتھ لائے تھے۔والد صاحب نے امجد کو گلاس دیا۔ ناریل کا پانی نہایت میٹھا اور تازہ تھا۔ امجد کا جی خوش ہوگیا۔
اسی دن اسلم کے والد بھی اپنی موٹر سائکل سے کام سے واپس آرہے تھے۔ اسلم ٹریولے گائوں میں رہتا تھا۔ والد صاحب کو گھر آتے دیکھ کر اسلم بہت خوش ہوا۔ فوراً کہہ اٹھا: ’’ ابو آج بہت گرمی ہے۔ ناریل کا پانی پینے کو دل کر رہاہے۔ ‘‘
’’میرے پیارے بیٹے کو ناریل کا پانی پینا ہے۔ ابھی درخت سے توڑ لاتاہوں۔‘‘
چنانچہ والد صاحب گھر کے پیچھے والے باغ میں گئے اوراپنے بیٹے کے لئے ناریل توڑنے لگے۔ یہ درخت انہوں نے اپنے ہاتھوں سے لگایا تھا۔ چند سالوں میں اس درخت کو اتنا تناور دیکھ کر والد صاحب فخر محسوس کرتے۔ ناریل کو توڑ کر ابو نے اس کو چھیلنا شروع کیا۔ امی باورچی خانہ سے اسٹین لیس اسٹیل کی ایک پیالی لائی اور اس پیالی میں ناریل کا پانی بھر کر اسلم کو دے دیا۔ اسلم اسٹیل کے گلاس میں ناریل کا پانی پی کر بہت خوش ہوا۔ ناریل کا پانی قدرت کا دیا ہوا نایاب تحفہ ہے۔
ٹریولے گائوں مون شوازی سمندر کے بہت قریب ہے۔ تبریز کچھ دن پہلے موریشس میں سیاحت کی غرض سے آیا تھا۔ وہ ملیشیا کا باشندہ تھا۔ گرمی کے اس موسم میں اس نے ناریل کا پانی پینے کا فیصلہ کیا۔ ناریل فروش نے اسے پلاسٹک کے کپ میں ناریل کا پانی پیش کیا۔ غروب آفتاب کے وقت تنریز دلفریب نظارے کا لطف اٹھاتے ہوئے آہستہ آہستہ پانی پینے لگا۔ ناریل کے پانی کی ٹھنڈک نے اسے راحت پہنچائی۔ وہ سوچنے لگاکہ خدا کی بنائی ہوئی چیزوں میں بس فائدہ ہی فائدہ ہے۔ تبریز نے دل ہی دل میں خدا کا شکر ادا کیا جس نے زمین میں اتنی پیاری پیاری چیزیں بنائیں۔ اس کا ذہن آرام محسوس کررہاتھا۔ وہ تازہ دم ہوگیا۔ ناریل کا پانی پی کر دن بھر کی تھکن دور ہوگئی۔ ہوٹل واپس جانے سے پہلے تبریز نے پلاسٹک کے کپ کو کوڑادان میں پھینکا۔
تبریز کے ہوٹل کے قریب ایک پختہ مکان تھا۔ وہ روزی صاحبہ کا گھر تھا۔ آج ان کے یہاں کئی مہمان آئے ہوئے تھے۔ روزی صاحبہ نے بازار سے ناریل کا پانی خریدا تھا۔ انہوں نے شیشے کے گلاس میں وہ پانی انڈیل کر اپنے مہمانوں کی خدمت میں پیش کیا۔ سب بہت خوش ہوئے اور دیر رات کو اپنے گھر واپس چلے گئے۔
دیکھا بچوں؛ چاندی، اسٹین لیس اسٹیل، پلاسٹک اور شیشے کے کپ میں ناریل کے پانی کا ذائقہ نہیں بدلتا۔ کوئی امیر ہو یا غریب ہوسب کو ایک جیسی خوشی ملتی ہے۔ گائوں کی زندگی ہو یا شہر کی زندگی، اصل میں سکون آدمی کے اندر پایا جاتا ہے۔ لوگ اکثر سوچتے ہیں کہ ان کے پاس بہترین پیالہ ہو تو زندگی کا ذائقہ زیادہ مزیدار ہوجائے گا۔ کچھ لوگ سوچتے ہیں کہ اگر مجھے زندگی میں زیادہ مل گیا تو میں زیادہ ہشاش بشاش رہوں گا۔ جبکہ حقیقت ایسا نہیں ہے۔ کسی کے پاس چاندی کا گلاس ہے، کسی کے پاس اسٹیل کا گلاس ہے، کسی کے پاس پلاسٹک تو کسی کے پاس کانچ کا پیالہ ہے، پھر بھی سب لوگ ایک ہی طرح سے زندگی کا مزہ لیتے ہیں۔ آپ جس طرح کے گھر میں رہتے ہیں، یا جس علاقے میں رہتے ہیں اس سے آپ کی زندگی کا ذائقہ نہیں بدلتا۔ جو لوگ ہر حال میں اپنے خدا کو یاد کرتے ہیں وہ خوش رہتے ہیں۔ خوشی ملنا سب کے بس کی بات ہے۔ اس لئے ایک دوسرے سے مقابلہ کرنا بے معنی ہے۔ زندگی کا ذائقہ اس برتن پر منحصر نہیں جس میں اس کا مزہ لیا جاتا ہے۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...