طوفانی بارش ،بجلی کی گرج اور چمک، رات کی تاریکی کو اور بھی خوفناک بنا رہی تھی۔ سسکیاں اور آہیں کمرے میں کسی ذی روح کی موجودگی کا احساس دلا رہی تھیں۔
المیرہ یوسف کی سسکیاں ،
آہ و پکار ،دل سوزچیخیں حویلی کے بوسیدہ
،تاریک اور گھٹن ذدہ کمرے کی بنا پلستر کے دیواروں کو چیر رہی تھیں۔
کمرے کی دیمک ذدہ حالت یہاں کے مکین کی حالت اور زندگی کی چیخ چیخ کر گواہی دے رہی تھی۔
کہ ظلم کی کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی۔
بیڑیوں سے جکڑے پاؤں میں اب وہ سکت نہیں رہی تھی۔ جو بنا تھکے گاؤں کی گلیوں کی خاک چھانتے تھے۔
نیںم بے ہوشی سے اس کی آنکھیں کبھی کھلتی تو کبھی بند ہوتی۔۔اس نیم بے ہوشی میں اسکا ذہن ہولے ہولے کھلے آنگن کا منظر یاد کرنے لگا۔
اسے ابا کا شفیق لمس یاد آیا۔ صحن میں پڑی ابا کی چارپائی اور اس کے ساتھ بنے باورچی خانے میں چوکی پر بیٹھی ہانڈی چڑھاتی اماں یاد آنے لگی ۔
جو ہر ہانڈی سے چن چن کر مرغ سے اسکی تھالی بھر دیا کرتی تھی ۔
اسکی نیم وا آنکھوں کے سامنے چونترے کے درمیان میں لگے پیپل کے پیڑ کے ساتھ رسی سے بنی پینگھ جھولنے لگی۔ سہیلیوں کے ساتھ مل کر لال اڑنی والے کھیل یاد آنے لگے۔۔۔کھیل۔۔ گڑیا گڈے کا کھیل۔ آنکھ مچولی کا کھیل۔
" المیرہ کبھی ٹک کر گھر بھی بیٹھ جایا کر ،
کبھی سہیلیوں کے ساتھ گھاٹ پر ہوتی ہے تو کبھی اس کمبخت پینگھ پر، اور دیکھ اب تو سولہویں کو لگ گئی ہے یوں منہ اٹھا کر اپنے ابا کے ساتھ ڈیرے پر اور میلوں پر نہ جایا کر"_اماں کے ایسے لہجے پر وہ الجھی رہتی۔
بیک وقت اماں لاڈ اور ڈانٹ ڈپٹ ایک ساتھ کرتی۔ اس نے منہ بسورہ تو ابا ڈھال بن گئے "المیرہ کی اماں یہ ہی تو دن ہیں بچی کے کھیلنے کے کل کو ذمہ داریاں ہی نبھانی ہیں"_ ابا نے مرغیوں کو دانہ ڈالتے ہوے کہا۔
یہ سننا تھا کہ المیرہ یوسف قہقہ لگاتے ہوئے اماں ابا کے گلے لگ کر پیار جتانے لگی۔اماں نے ٹوکتے ہوئے کہا "اتنا نہ ہنسا کر کسی حاسد کی نظر تیری ہنسی یا خوشیاں نہ کھا جائے"__ اماں کو ایسے ہی وسوسے ستاتے تھے۔ ماں کے دل کو الہام ہو جاتا ہے نا اکثر ۔
المیرہ یوسف نے جوانی میں قدم رکھا تو حسن اس پر ٹوٹ کر اترا تھا بیری حسن جب زبان زد عام ہو گیا تو دشمن کی نظر اسے کھا گئی۔اور بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ اپنے ہی پہلو میں سے اٹھ کر کوئی ڈنک مار لیتا ہے۔
کوئی اپنا ہی دشمن بن جاتا ہے جس پر مان ہوتا ہے وہ ہی مان توڑ دیتا ہے۔
کچے صحن میں شام کو اب پانی کا چھڑکاؤ نہیں کیا جاتا ۔نہ ہی دیواروں کی لپائی کی جاتی تھی ابا کی چارپائی نہیں ہوتی تھی صحن میں،
نہ ہی اماں کا چوکی پر بیٹھ کر کھانے بنا کر اسے آواز دینا اور اس کا جھولا چھوڑ کر بھاگے آنا اب سب ویسا نا تھا۔
وہ دسویں میں تھی ابا چھوڑ گئے۔۔۔ اماں نے خاموشی کا لبادہ اوڑھ لیا تھا بیٹا نکھٹو نکلا اور ایک دن جوے کے اڈے پر جب ابا کی زمین ،جائداد ہارنے کے بعد کچھ نہ بچا تو قتل کے بدلے اپنی بہن ہار آیا۔
"اماں اماں بھائی سے کہو نہ میرے اوپر یہ ظلم نہ کریں ۔اماں بھائی تو بہنوں کا مان ہوتے ہیں اماں بھائی سے کہو نہ مجھے زندہ نہ دفنائیں۔ ابا کی لاڈلی کی سن لیں بھائی"۔
بھابھی نے ہاتھ جوڑ کر واسطہ دیا "میرے بچوں کی خاطر مان جا المیرہ یوسف"
_ بیداری کی کروٹ سے ماضی خواب ہوا۔
کرب ،اضطراب اور نیم بے ہوشی سے ایک بار پھر صحن اماں ابا کی بلائیں ، محبت اور شفقت بھرا لمس یاد آیا ۔صحن میں لگے پیپل کے درخت پر لگی اس کی پینگھ اس کی منتظر تھی اور ایک پھیکی مسکراہٹ لبوں پر پھیل گئی۔تکلیف سے سانس اٹک رہا تھا کمرے کی بوسیدہ درو دیوار اس کی تکلیف اور پھیکی ہنسی سے لرز رہے تھے بارش تھم چکی تھی۔
کمرے میں اب سسکنے کی آواز نہیں تھی آہستہ سے آنکھیں موندتے ہوئے المیرہ یوسف اپنے بھائی کا ڈسا کر دیا ہوا زہر پی چکی تھی۔۔۔۔۔۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...