اُس کی سٹی گُم ہوگئی تھی ۔ نہ وہ اپنی دُم ہلا رہا تھا اور نہ ہی اپنے خوب صورت عقابی دیدے گول گول گھما رہا تھا ۔ بیزار تھا اور بیمار سا لگ رہا تھا ۔ بد دل اور سہما سا ۔۔۔۔۔ منہ بسورتا ہوا بڑا عجیب لگ رہا تھا ۔ دراصل یہ ٹونی تھا، میرا جرمن شفرڈ پالتو کُتا ، جسے چند برس قبل مانو میں نے گود لیا تھا ۔ میرے ایک فوجی افسر دوست کرنل دیا رام نے مجھے تحفے میں دیا تھا اور میں اسے اپنی گاڈی میں بٹھا کر اپنے گھر لے کر آگیا تھا ۔ تب وہ صرف تین مہینے کا تھا اور اب ماشااللہ تین سال کا ۔پچھلے ہفتے کی ہی بات ہے، اچھا خاصا تھا ۔چُست درُست، چاق و چوبند اور جاذب نظر ۔ پوری طرح سے نکھر آیا تھا اور میرے پائیں باغ کی زینت بنا ہوا تھا ۔ اکثر میرے ہی قریب نظر آتا تھا اور میرے آگے پیچھے دُم ہلاتا ہوا پھرتا رہتا تھا ،تب تک جب تک کہ میں وہاں موجود رہتا ۔ میں اکثر اسے اپنے گھر کے باہر بھی لے جاتا تھا اور ہم اکھٹے واک پر بھی چلے جاتے تھے ۔ اس وقت بھی خاموش اور سہما سا میرے قریب ہی پائیں باغ میں نیم دراز بیٹھا ہوا تھا ۔
"کیا بات ہے ٹوٹی ڈیئر ۔؟ میں نے خیرئیت پوچھی اور پیار سے اس کی کمر سہلانے لگا ۔
"اُوں۔۔۔۔۔۔اُوں۔۔۔۔۔۔۔ ۔" اُس نے آواز نکالی ۔ " مطلب ۔کچھ نہیں۔"
"کچھ تو ہے راجہ جی ۔؟ کہتے ہوے میں اسے پیار کرنے لگا ۔
او ۔۔و۔۔۔و۔۔او ۔۔اوو۔۔۔۔۔۔" وہ گویا ہوا ۔ مطلب " کوئی خاص بات نہیں ۔" جبھی میں نے اپنے نوکر زرخان کو آواز لگائی جو قریب ہی پائیں باغ کے ایک کونے میں پائیں باغ کے مالی کے ساتھ کھُسر پھسر کررہا تھا ۔"جی صاحب ۔" کہتا ہوا وہ تیز تیز قدم اُٹھاتا ہوا میری طرف چلا آیا ۔
" یہ ٹونی کچھ سُست سا لگ رہا ہے ۔کیا معاملہ ہے ۔" میں نے پوچھا ۔ دراصل زرخان ہی ٹونی کی دیکھ بال کرتا تھا اور اُس کا خیال رکھتا تھا ۔
" جی صاحب ۔۔۔۔ ٹونی نے کل سے کچھ ڈھنگ سے کھایا بھی نہیں ۔" اُس نے اثبات میں اپنا سر ہلا دیا ۔ " میں بتانے ہی والا تھا ۔ وہ پھر بولا ۔
" اوووو۔۔۔۔۔۔آئی سی ۔" میں نے اپنے ہونٹ دایرے کی شکل میں سکوڑے ۔" " ذرا دیکھو تو ۔"
میں نے تحکمانہ لہجے میں کہا اور پھر ہم دونوں اُس کا چیک اپ کرنے لگے ۔ مجھے لگا کہ اُسے تھوڑا سا بخار ہے ۔ میں سوچ ہی رہا تھا کہ زرخان بول پڑا ۔" صاحب جی ۔۔۔۔ بخار سا لگ رہا ہے ۔"
" مجھے بھی ایسا ہی لگ رہا ہے ۔" میں نے اتفاق کیا ۔ " اچھا ایسا کرنا ۔دن بھر ٹونی کا خیال رکھنا ۔ شام کو دفتر سے گھر لوٹتے ہی میں اسے ڈاکٹر کے پاس لے جاؤں گا ۔ابھی لے جاو اسے ۔" میں نے زرخان کو ہدایات دیں اور زرخان اسے لے کر چلا گیا ۔
دفتر میں میرا من اُچاٹ سا رہا ۔ دن بھر ٹونی کے بارے میں ہی سوچتا رہا ۔ ایک فکر سی لاحق ہوگئی اورطرح طرح کے خیالات ذہن میں کلبلانے لگے ۔
شام کو دفتر سے گھر لوٹا تو سیدھے ٹونی کے پاس چلا گیا ۔ٹونی کو دیکھا اور اس بابت زرخان سے بھی پوچھ تاچھ کی ۔ زرخان نے بتایا کہ حالت جوں کی توں بنی ہوئی ہے ۔ میں گھر کے اندر گیا ۔ جلدی سے ٹونی کا ہیلتھ کارڈ کھوجا ۔ گھر سے باہر آیا اور ٹونی کو گاڈی میں بٹھادیا ۔ میں خود بھی زرخان کے ہمراہ گاڈی میں سوار ہوگیا ۔ڈرائیور پہلے سے ہی گاڑی میں تیار بیٹھا تھا میرا اشارہ پاتے ہی اس نے گاڈی اسٹارٹ کی اور ہم ڈاکٹر سجاد حیدر کے ڈاگ کلینک کی طرف روانہ ہوگئے ۔
کلینک میں زیادہ بھیڑ نہیں تھی سو تھوڑے سے ہی انتظار کے بعد ڈاکٹر سجاد حیدر سے ملاقات ہوگئی ۔ وہ میرا شناسا اور دوست بھی تھا اور ہمارے آپس میں تعلقات بھی تھے ۔اب میں اُس کی میز کے ٹھیک سامنے بیٹھا تھا ۔رسمی ہاے ہیلو کےبعد ڈاکٹر سجاد حیدر نے ٹونی کا ہیلتھ کارڈ چیک کیا اور پھر ٹونی کو اپنے ایک مددگار کی مدد سے پاس ہی رکھے ایک چھوٹے سے بیڈ پر لٹا دیا اور اس کا چیک اپ شروع کردیا ۔
"کب سے بیمار ہے ؟" ڈاکٹر سجاد حیدر نے پوچھا ۔
" غالبا" دو تین دن سے ۔" میں نے جواب دیا ۔
"کچھ اُلٹا سیدھا تو نہیں کھایا ؟" وہ پھر بولا ۔
" نہیں ڈاکٹر صاحب۔ میں تو اسے اپنی ذاتی نگرانی میں کھِلاتا پِلاتا ہوں ۔"
"گھر سے باہر کہیں ۔مطلب اڈوس پڑوس میں۔"
" ارےیاد آیا ڈاکٹر صاحب ۔ چند روز قبل ہم ڈاکٹر سحر کے گھر گئے تھے ۔اُن کا جنم دن تھا ۔ وہ میری پڑوسن ہے اور میرے پڑوس میں رہتی ہے ۔" میں چونک گیا۔ مجھے یاد آیا اور میں نے اُسے بتادیا ۔ " او ۔۔۔ آئی سی ۔" ڈاکٹر سجاد حیدر جوابا" بولا ۔
" جی ۔۔۔ ٹونی میرے ہمراہ تھا۔ دراصل ہم دونوں ایوننگ واک پر تھے اور واک کے بعد سیدھے ان کے گھر چلے گئے تھے ۔" میں نے بات پوری کردی ۔
" کیوں ٹونی ۔؟ ڈاکٹر سجاد حیدر مسکراتاہوا ٹونی کی پیٹھ تھپتھپانے لگا ۔ جواب میں ٹونی نے اثبات میں اپنا سر ہلا دیا ۔ جبھی ڈاکٹر سجاد نے ٹونی کا چیک اپ مکمل کیا اور آکر اپنی کُرسی پر بیٹھ گیا ۔
" ایک منٹ ۔۔۔۔۔" اچانگ وہ چونکتے ہوے بولا ۔ " یہ ڈاکٹر سحر وہی ہے نا ۔" کہتے کہتے وہ رک گیا اور جیسے کچھ یاد کرنے لگا ۔
" میرے پڑوس میں رہتی ہے ۔معروف جرنلسٹ واجدہ وجدانی کی بیٹی ۔"
" ہاں ہاں ۔۔۔یاد آیا ۔ جس کا شوہر ثاقب وجدانی ایک سڑک حادثے میں جان بحق ہوا تھا ۔"
" جی ہاں ۔آپ نے صحیح پہچانا ۔"
" وہی تو ۔۔۔۔ یاد آیا ۔" ڈاکٹر سجاد حیدر کو جیسے کچھ یاد آیا ۔ " دراصل آج صبح ڈاکٹر سحر کی ماں واجدہ وجدانی اپنی ڈوگی کو لے کر یہاں آئی تھی ۔ ڈوگی بیمار تھی۔ وہ بھی جرمن شفرڈ ہے ۔شاید لوسی نام بتایا تھا ۔"
" او مائی گاڈ ۔ مطلب پارٹی میں گڑبڑ ۔ " میں چونک گیا ۔ " مگر ٹوٹی نے وہاں کچھ کھایا پیا نہیں ۔" میں یاد کرنے لگا ۔
" اچھا میں ٹونی کو انجیکشن دیتا ہوں ۔کچھ دوائیاں بھی لکھ کر دیتا ہوں، دیتے رہیئے گا ۔ضرورت پڑی تو پھر لے آئیے گا ۔"
تھوڑی ہی دیر میں ٹونی کو انجکشن دے کر، پھر نسخہ لکھ کر اور دیگر کام سے فارغ ہوکر اُس نے مسکراتے ہوئے نسخہ مجھے تھمادیا ۔ میں نے ان کا شکریہ ادا کیا اور رخصت ہوتا ہوا کمرے سے باہر جانے لگا ۔۔۔۔جبھی انہوں نے پھر پکارا ۔آواز سنتے ہی میں نے پلٹ کر دیکھا ۔
" ڈاکٹر سحر کے گھر سے بھی پتہ کیجئے گا ۔ شاید کچھ پتہ چل جائے ۔" وہ بولا ۔
" میں دیکھوں گا ۔اللہ حافظ ۔" کہتے ہوے میں ٹونی کے ہمراہ کلینک سے باہر آگیا ۔ڈرائیور اور زرخان باہر میرا انتظار کر رہے تھے ۔ زرخان نے ٹونی کو تھاما اور ہم گاڈی میں سوار ہوئے ۔ڈرائیور نے گاڑی اسٹارٹ کی اور ہم گھر کےلئے روانہ ہوگئے ۔
ٹونی کی حالت کچھ سُدھر نہیں رہی تھی ۔ وہ دوسرے روز بھی منہ بسورتا رہا اور دن بھر پائیں باغ کے ایک کونے میں پڑا رہا ۔ یہ اتوار کا دن تھا ۔ میں بھی سارا دن گھر پرہی موجود رہا ۔ شام کو میں گھر سے باہر آکر واک پر روانہ ہوا اور ٹونی کو بھی اپنے ہمراہ رکھا ۔ تھوڑی ہی دور نکل آے تھے کہ اچانک ٹونی رک گیا ۔ میں نے اپنے ہاتھ میں تھمی اور اُس کے گلے میں بندھی ہوئی زنجیر کو کھینچا تو وہ ہچکچانے لگا ، شاید آگے نہیں جانا چاہتا تھا ۔ میں رک گیا اور کچھ سوچنے لگا ۔ یہ جگہ ڈاکٹر سحر کے گھر کے پاس ہی تھی ۔ یہ خیال آتے ہی میں ڈاکٹر سحر کے بارے میں سوچنے لگا ۔ کیوں نہ وہاں چلا جائے، میں نے سوچا اور تھوڑے سے سوچ بچار کے بعد ڈاکٹر سحر کے گھر کی طرف بڑھنے لگا ۔ اس بار ٹونی نے کوئی مزاحمت نہ کرکے جیسے حامی بھر لی اور چُپ چاپ میرے ساتھ ہولیا ۔
ڈاکٹر سحر چھبیس ستائیس برس کی ایک خوبرو دوشیزہ تھی۔خوب صورت اور ماڈرن ۔غیر شادی شُدہ تھی۔۔۔۔ ۔ تیکھی تھی، گھمنڈی تھی اور زیادہ میل جول نہیں رکھتی تھی وغیرہ وغیرہ۔۔۔ ۔ اس کے بارے میں یہ باتیں زبان زد خاص و عام تھیں، مگر وہ مجھ سے جب بھی ملی تھی بڑی خندہ پیشانی سے ملی تھی ۔ جبکہ خود میرا بھی دیگر لوگوں سے ملنا جلنا کم ہی رہتا تھا اور میں بھی شاذونادر ہی کسی کے ہاں چلا جاتا تھا ۔ تھوڑی ہی دیر بعد ہم ڈاکٹر سحر کے گیٹ پر کھڑے تھے۔ میں نے کال بیل کا بٹن دبایا ۔ تھوڑی ہی دیر بعد کسی نے دروازہ کھولا ۔ غالبا" یہ ڈاکٹر سحر کا نوکر تھا ۔
" ڈاکٹر صاحبہ گھر پر ہیں ۔؟ میں نے پوچھا ۔
" آیئے ۔۔۔ آیئے ۔۔۔۔" جبھی ڈاکٹر سحر کی مدھر آواز میرے پردہ سماعت سے آ ٹکرائی ۔ وہ شاید پاس ہی لان میں پہلے سے موجود تھی ۔ اس نے میری آواز سُن لی تھی اور مجھے دیکھ بھی لیا تھا ۔ وہ استقبال کےلئے آگے بڑھی اور نزدیک آکر رسمی کلمات کے تبادلے کے بعد ہمیں اپنے ساتھ اندر لے کر گئی ۔
ہم اندر آئے تو دیکھا، میڈم واجدہ وجدانی بھی لان میں موجود تھیں ۔ وہ اپنے خوب صورت لان میں ٹہل رہی تھیں ۔ ہمیں دیکھتے ہی وہ بھی ہمارے استقبال کے لیے آگے بڑھی ۔
" آئیے آئیے ۔۔۔آج کیسے آنا ہوا ۔؟" وہ قریب اتے ہی بڑی خوش دلی سے بولی۔" اسلام و علیکم ۔" میں نے سلام کیا اور خیریت وغیرہ پوچھی ۔"
" دراصل آپ کی ڈوگی کی عیادت کے لئے آیا ہوں ۔ سنا ہے، بیمار ہے ۔ خود میرا یہ ٹونی بھی بیمار ہے ۔" میں نے ٹونی کی طرف اشارہ کیا ۔
" ارے ہاں ۔۔۔۔۔۔ وہ رہی ۔" اُس نے لان کے ایک کونے کی جانب اشارہ کیا ۔ "لوسی ۔۔۔۔لوسی ۔۔۔ ۔" وہ پکارنے لگی ۔ جبھی لوسی نے بھونکنا شروع کردیا ۔ اُس نے ہمیں دیکھ لیا تھا۔
لوسی کو دیکھتے ہی ٹونی نے اپنے کان کھڑے کردیئے ۔وہ خاصا چوکنا ہوگیا اور لوسی کو تیز تیز نظروں سے گھورنے لگا ۔ وہ کچھ عجیب سی آوازیں بھی نکالنے لگا ۔ لوسی بھی اُسے ٹُکر ٹُکر دیکھ رہی تھی اور کچھ آوازیں نکال رہی تھی ۔ دونوں کا ردعمل کچھ عجیب سا تھا ۔ جبھی ٹونی مچلنے لگا اور میرے ہاتھ میں تھمی ہوئی اُس زنجیر کو کھینچنے لگا جس سے کہ وہ بندھا ہوا تھا ۔ میں بھانپ گیا اورفوری طور پر سب سمجھ گیا ۔چنانچہ میں نے زنجیر کھول دی ۔ زنجیر کھلنے کی دیر تھی کہ وہ اُچھلتا کودتا ہوا لوسی کی طرف بھاگا ۔ لوسی بھی لپک کر آگے بڑھی اور ٹونی سے آن ملی ۔ اب دونوں اُچھلنےاور کودنے لگے ۔ مستیاں کرنے لگے اور ایک دوسرے کے گلے لگنے لگے ۔ وہ جیسے کھل اٹھے تھے ۔ چاق و چوبند ہوئے تھے اور کود بھاند کر نے لگے تھے ۔ دونوں بڑے خوش لگ رہے تھے۔۔۔۔۔۔ ۔ بیماری اب ندارد تھی اور ایسے غائب ہوئی تھی جیسے گدھے کے سر سے سینگ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم حیران تھے اور پھٹی پھٹی نگاہوں سے یہ منظر دیکھ رہے تھے ۔ میں بے آج پہلی بار جانوروں کی رومانی اور جمالیاتی حِس کو بھانپا تھا، اّن کے جذبات کو پرکھا تھا اور اُن کے سنگم کو دیکھا تھا ۔ زنجیروں میں بندھے ہوئے یہ جانور بھی کھلی ہوا میں سانس لینا چاہتے ہیں ۔کسی کی قُربت تو کسی کا ساتھ چاہتے ہیں ۔ زنجیریں توڑ کر آزاد رہنا چاہتے ہیں اور اپنی زندگی آپ جینا چاہتے ہیں ۔ یہی حال میڈم وجدانی اور ڈاکٹر سحر کا بھی تھا ۔ وہ بھی مبہوت ایستادہ یہ سب دیکھ رہی تھیں اور شاید یہی سب کچھ سوچ رہی تھیں ۔
میں نے اچانگ ایک نگاہ ڈاکٹر سحر کو دیکھا ۔ وہ کن انکھیوں سے مجھے ہی دیکھ رہی تھی ۔ آنکھیں چار ہوتے ہی وہ سٹپٹائی اور جھینپ سی گئی ۔چہرہ گُلنار ہوا اور چہرے پر لاج و حیا کی لالی دوڑ گئی ۔ جبھی اُس نے اپنی نگاہیں نیچی کیں اور اپنی جھینپ مٹانے کے لیے اپنے ایک پیر سے فرش کُھرچنے لگی ۔ اب اُس کی نظریں جُکھی ہوئی تھیں اور لبوں پر مسکراہٹ رقصاں تھی ۔ حال کچھ کچھ میرا بھی اُسی جیسا تھا ۔ میں بھی جھنپ سا گیا تھا اور بغلیں جھانک رہا تھا ۔ میڈم وجدانی شاید ہماری کیفیت بھانپ گئی تھی ۔ وہ باری باری ہمیں دیکھ رہی تھی، مُسکرا رہی تھی اور محظوظ ہو رہی تھی ۔ جبھی گرد و نواح کی مساجد کے بلند بانگ میناروں سے مغرب کی اذان گونجے لگی اور فضاء کو چہار سُو معطر و مسحور کرنے لگی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔