کرن سکول سے آئی تو بہت افسردہ لگ رہی تھی۔ (وہ ایک پرائیویٹ سکول چلا رہی تھی۔ اور پرائیویٹ سکولز ایسوسی ایشن کی شعبۂ خواتین کی صدر بھی تھی۔ کورونا نے جہاں تمام کاروبار زندگی کو متاثر کیا تھا ان میں پرائیویٹ سکولز بھی تھے۔ کافی عرصے کی چھٹیوں کے بعد کچھ دنوں میں سکولز کھلنے والے تھے۔ والدین چھے ماہ کی فیس دینے سے انکاری تھے۔ جبکہ مالک جائیداد کرایوں اور اساتذہ اور دوسرا سٹاف تنخواہ کا تقاضہ کر رہے تھے۔ بلز اور دوسرے اخراجات اس کے علاوہ تھے۔ روزانہ ایک نیا سرکاری حکم نامہ جاری ہو جاتا جو والدین کے حق میں تو ہوتا مگر سکول مالکان کیلئے روز نئے پریشانی کے در وا کر دیتا۔ آج بھی کرن ایک ایسی ہی میٹنگ بھگت کر آئی تھی جس میں والدین سرکار اور ایسوسی ایشن کے ممبران کی ایک لمبی بحث ہوئی جو حسب معمول لاحاصل رہی۔) ظہر کی نماز ادا کرنے کے بعد کرن امی جی کے کمرے میں آئی تو امی جی تلاوت کے بعد قرآن بند کر کے چوم رہیں تھیں۔ اشارے سے کرن کو قریب بلایا اس پر پھونک ماری اور ماتھے پر چوم کر پیار بھرے لہجے میں گویا ہوئیں۔ تھک گئی ہو؟
جی امی جی واقعی تھک گئی ہوں! (نہایت افسردہ اور نا امید سے لہجے میں جواب آیا) رازق اللہ ہے بیٹا اس کے لئے اتنی افسردگی اچھی نہیں۔
بے شک امی جی رازق اللہ ہے ۔ میری پریشانی دو وجوہات کی بنا پر ہے۔ ایک یہ کہ، والدین فیس نہیں دیں گے تو چھوٹے سکولوں کے کرائے، بل ، تنخواہیں اور دوسرے اخراجات کہاں سے پورے ہوں گے؟ بحیثیت صدر ایسوسی ایشن دوسروں کے مسائل بھی میری میز پر ہوتے ہیں۔ان مسائل کی وجہ سے کتنے ہی پرائیویٹ سکول بند ہو گئے۔ سننے میں آیا ہے کہ ایک پرائیویٹ سکول مالک نے پریشان ہو کر خود کشی کر لی۔ ایک طرف چند سکول مالکان صرف اپنا رونا رو رہے ہیں اپنے تھوڑے سے ذاتی مفاد کی خاطر ایک دوسرے پر الزامات لگا رہے ہیں۔ ان کی سنو تو ان سے زیادہ مظلوم کوئی نہیں وہ اپنے چھوٹے چھوٹے مسائل بھی ایسوسی ایشن کے سامنے پہاڑ بناکر پیش کر رہے ہیں تو دوسری طرف ہماری طرح کے چند چھوٹے سکولوں کے مالکان نے باقاعدہ چھے مہینے کی فیس معاف کرنے اور پوری تنخواہیں دینے کا اعلان کر دیا۔(کرن پریشان لہجے میں بولی)
یہ تو اچھا اقدام ہے! اس میں پریشانی کی کیا بات ہے؟(امی جی حیرت بھرے لہجے میں مستفسر ہوئیں)
امی جی!!!! پریشانی کی بات یہ ہے کہ اس بات کا اعلان وہ ہر میڈیا پر کر رہے یعنی ڈھنڈورا پیٹ رہے ہیں۔ (امی جی کی حیرت بدستور قائم تھی) (امی جی کی حیرت کو سمجھتے ہوئے کرن نے اپنی بات الفاظ بدل کر دہرائی) وہ ڈھنڈورا پیٹ رہے ہیں کہ ہم بہت نیک صفت ہیں۔ جیسے میں شامخ صاحب کی مثال دوں گی کہ ہماری آج کی والدین کے ساتھ میٹنگ میں ہمارے پینل پر بیٹھ کر وہ والدین کو اپنی اچھائیاں گنوا رہے تھے۔ کہ باوجود ان سب مسائل کے میں چھے ماہ کی فیس والدین کو معاف کر رہا ہوں اساتذہ کی تنخواہیں بھی پوری دوں گا۔ وغیرہ وغیرہ ۔۔۔ اب نجانے وہ اس بات کو کیوں نہیں سمجھ رہے تھے کہ ایک بندے کی وجہ سے کتنے لوگوں کو تکلیف کا سامنا کرنا پڑےگا۔ ہمارا اتفاق تو ٹوٹ گیا ناں! (اب بات امی جی کی سمجھ میں آ چکی تھی۔) کچھ دیر کی خاموشی کے بعد گویا ہوئیں ۔
ہر تصویر کے دو رخ ہوتے ہیں ایک وہ جو نظر آئے دوسرا وہ جو اس کی وجہ تخلیق اور بقا ہو۔
سامنے نظر آنے والے رخ کی خوبصورتیاں ہمیشہ ہمیں اپنی جانب کھینچتی ہیں۔ لبھاتی ہیں اور ہم فطرتی رخ کو فراموش کر بیٹھتے ہیں۔ پھر ہم خود غرضی کی عینک لگا لیتے ہیں مگر بالکل غیر محسوس انداز میں۔ ہمیں معلوم ہی نہیں ہوتا کہ ہم دراصل خودفریبی کا شکار ہو چکے ہیں۔
إِنَّا عَرَضْنَا الْأَمَانَةَ عَلَى السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَالْجِبَالِ فَأَبَيْنَ أَن يَحْمِلْنَهَا وَأَشْفَقْنَ مِنْهَا وَحَمَلَهَا الْإِنسَانُ ۖ إِنَّهُ كَانَ ظَلُومًا جَهُولاّ
ہم نے اپنی امانت کو آسمانوں اور زمین پر پہاڑوں پر پیش کیا لیکن سب نے اس کے اٹھانے سے انکار کردیا اور اس سے ڈر گئے (مگر) انسان نے اٹھا لیا وہ بڑا ہی ظالم جاہل ہے ۔
کیا ہم جانتے ہیں کہ ہماری خود فریبی دو طرح کی ہوتی ہے۔ ظلم اور جاہلیت۔
یا تو ہم اپنے آپ کو مظلوم ثابت کرنے پر تل جاتے ہیں کہ ہم نقصان میں جا رہے ہیں ہمارا کیا بنے گا۔ ہم کہاں سے کھائیں گے پھر جس کسی کے ساتھ کوئی سانحہ انہی حالات کے تناظر میں ہو جائے تو اس کو مزید بڑھا چڑھا کر اپنا خوف وہراس دوسروں میں منتقل کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ لہذا کچھ اور مظلوم بڑھ جاتے ہیں جو اس مظلومیت کو بڑھاوا دیتے رہتے ہیں۔ آپ کیا کہتے ہیں کیا مظلومیت بڑھانا ظلم کے زمرے میں نہیں آتا؟ میرے خیال میں تو اپنے آپ کو مظلوم سمجھنے والا سب سے بڑا ظالم ہے کیونکہ وہ دائرے سے باہر نکل جاتا ہے مرکز سے دور ہو جاتا ہے ۔ اپنے آپ کو دائرے کا حصہ تو سمجھتا ہے مگر فیصلے اپنے کرتا ہے اور لباس مظلومیت کا پہنتا ہے۔ یعنی ایک درگاہ کو اپنا پیر خانہ مان کر نہ درگاہ پہ حاضری، نہ پیر کی جی حضوری، اپنے فیصلے، پھر درگاہ کی بدنامی الگ اور درگاہ سے اپنے جیسے کچھ اور مظلوموں کا ووٹ الگ۔
ظالم کون؟ مظلوم مرید!
مظلوم کون؟ درگاہ کے باقی مرید!
حالانکہ قرآن ہی کہتا ہے کہ
انا اللہ مع الصابرین
اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔
جب اللہ ساتھ ہے تو اور کیا چاہئیے۔
اللہ نے رزق کا وعدہ کیا ہے۔ اور وہ اپنے وعدے پورے کرنے والی ذات ہے۔
مگر آخرت کا کوئی وعدہ نہیں بلکہ وعید ہے۔ سو ہمیں اپنے آپ کو مظلوم سمجھنے کے بجائے اپنے رزق کی فکر میں گھلنے کے بجائے اپنی آخرت کی فکر کرنی چاہئیے۔ اب آپ کہیں گے کہ خالی پیٹ آخرت کی فکر کیسے کی جائے۔
جب ایمان کامل ہو کہ رازق اللہ ہے اور یہ ایک ہی دروازہ میرے حصے کے رزق کی طرف نہیں کھلتا تھا مجھے دروازہ بدل کر دیکھنا چاہیے تو کھلے راستے خود بخود نظر آنے لگیں گے۔ اس دروازے سے پہلے بھی تو میرا رزق کسی اور دروازے سے آ رہا تھا۔ رزق بند تو نہ تھا اور نہ ہی یہ ایک دروازہ ہمیشہ سے موجود تھا۔
پھر ظلم انتہا دیکھیں کہ ہم اپنے آپ کو مظلوم ثابت کرنے کے لئے اپنی تمام کوتاہیوں کا الزام یا تو لوگوں پر ڈال دیتے ہیں حکومت پر یا مقدر کو دے دیتے ہیں۔ایک شاعر جمیل یوسف صاحب کا ایک شعر ہے کہ
تمناؤں کی دنیا میں قدم دھرنے نہیں دیتی
جو کرنا چاہتا ہوں زندگی کرنے نہیں دیتی
ایک اور شاعر عباس تابش صاحب فرماتے ہیں
کوئی چہرہ نہ بن پایا مقدر کی لکیروں سے
سو اب اپنی ہتھیلی میں مجھے خود رنگ بھرنا ہے
یہاں میں نے مکھی کا کردار ادا کیا۔ دونوں بہت اچھے شعراء ہیں۔ میں نے ان کے کلام سے صرف اپنے مطلب کی چیز اٹھائی۔ جس طرح مکھی ساری صاف میز چھوڑ کر گری ہوئی گندگی پر یا صاف جسم چھوڑ کر زخم دانے یا پسینے پر بیٹھتی ہے۔ اسی طرح ہم بھی ڈھونڈ ڈھونڈ کر اپنے آس پاس کے لوگوں کی برائیوں اور کمزوریوں کا اشتہار لگاتے ہیں۔ اپنے آپ کو مظلوم ثابت کرنے کے لئے دوسروں کی پوشیدہ باتوں کو بھی مشتہر کر دیتے ہیں اور انھیں تضحیک و تمسخر کا نشانہ بنا دیتے ہیں۔ پشتو کے ایک عظیم صوفی شاعر رحمان بابا فرماتے ہیں۔
د زړه راز به یار ته نه وایی رحمانه
هغه یار به یار لری تا به رسوا کړی
ترجمہ:
رحماؔن اپنے دل کا راز اپنے یار کو نہیں بتانا
اس یار کا بھی کوئی یار ہوگا جو تمہیں رسوا کر دے گا
خود فریبی کا دوسرا رخ جاہلیت ہے۔ جب ہم اپنے آپ کو دوسروں سے ممتاز ثابت کرنے پر تل جاتے ہیں۔ اور مرکز سے دور ہو جاتے ہیں۔ جب ہم کسی ایک کمیونٹی کسی ایک گروہ کے ساتھ ہونے کا دعوی کرتے ہیں ان کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے ہیں۔ مگر جب اپنا تھوڑا سا فائدہ نظر آتا ہے تو اس گروہ کے تمام قوانین کو بالائے طاق رکھ کر خود کو سب سے اچھا ثابت کرنے کی خاطر وہ اقدام اٹھا لیتے ہیں جو باقی سب کےلئے نقصان دہ ہوتے ہیں۔ یہاں انسان لایعنی غرور کے تابع ہوتا ہے۔ اور غرور تو نری جاہلیت ہے۔
کرن انسان جن چیزوں پر غرور کرتا ہے وہ سب دنیاوی و فانی ہیں۔ جیسے دولت پر، حسن پر ، جاہ و مرتبے پر ، صحت پر، علم پر ، اور تو اور عبادات اور عمل پر جسے انسان اپنا سمجھتا ہے۔
(کافی دیر سے خاموش بیٹھی کرن نے الجھن بھری نظروں سے امی جی کو دیکھا مگر بولی کچھ نہیں، ادب مانع آ گیا)
امی جی نے اس کی نظروں کے مفہوم کو سمجھتے ہوئے اپنی بات جاری رکھی۔
اب ہم کہتے ہیں ناں کہ دولت، حسن، مرتبہ، صحت، علم اللہ کی دین ہے مگر عبادت اور عمل ہمارا ہے۔ حالانکہ اپنے اعمال اور عبادات پر غرور کرنے والے یہ نہیں جانتے کہ اس کی توفیق بھی منجانب اللہ ہی ہے۔ سورة ھود کی آیت نمبر 88 ہے۔۔۔
قَالَ يَا قَوْمِ اَرَاَيْتُـمْ اِنْ كُنْتُ عَلٰى بَيِّنَةٍ مِّنْ رَّبِّىْ وَرَزَقَنِىْ مِنْهُ رِزْقًا حَسَنًا ۚ وَمَآ اُرِيْدُ اَنْ اُخَالِفَكُمْ اِلٰى مَآ اَنْـهَاكُمْ عَنْهُ ۚ اِنْ اُرِيْدُ اِلَّا الْاِصْلَاحَ مَا اسْتَطَعْتُ ۚ وَمَا تَوْفِيْقِىٓ اِلَّا بِاللّـٰهِ ۚ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَاِلَيْهِ اُنِيْبُ
کہا اے میری قوم! دیکھو تو سہی اگر مجھے اپنے رب کی طرف سے سمجھ آ گئی ہے اور اس نے مجھے عمدہ روزی دی ہے، اور میں یہ نہیں چاہتا کہ جس کام سے تجھے منع کروں میں اس کے خلاف کروں، میں تو اپنی طاقت کے مطابق اصلاح ہی چاہتا ہوں، اور مجھے تو صرف اللہ ہی سے توفیق حاصل ہوتی ہے، میں اسی پر بھروسہ کرتا ہوں اور اسی کی طرف رجوع کرتا ہوں۔
(امی جی نے رسان سے آیت قرآنی مع ترجمہ پڑھتے ہوئے بات کو جاری رکھا۔)
اس سے پچھلی آیت میں قوم شعیب علیہ السلام ان سے سوال کرتی ان کی عبادت کے بارے میں کہ۔۔۔
انہوں نے کہا اے شعیب! کیا تیری نماز تجھے یہی حکم دیتی ہے کہ ہم ان چیزوں کو چھوڑ دیں جنہیں ہمارے باپ باپ دادا پوجتے تھے یا اپنے مالوں میں اپنی خواہش کے مطابق معاملہ نہ کریں، بے شک تو البتہ بردبار نیک چلن ہے۔
تو آیت نمبر 88 اسی کا جواب ہے۔
یعنی آپ کا مطلب ہے کہ شامخ صاحب اپنے عمل کو عبادت کا درجہ دیتے ہوئے جاہلیت کا ثبوت دے رہے ہیں؟ کرن افسردہ لہجے میں بولی!
“لا حول ولاقوه الا بالله العلي العظيم”! امی جی فوراً بولیں! میں نے ایسا کب کہا میں تو تمہیں انسانی فطرت سمجھا رہی ہوں۔ کسی ایک انسان کو ذہن میں رکھتے ہوئے انسانی فطرت کو کبھی نہ جانچا کرو۔ جانچ کا پیمانہ ہمیشہ وسیع ہونا چاہیئے، مثلاً سکول میں دو طلباء کا امتحان لو گی تو لازماً ایک فرسٹ آئے گا دوسرا سیکنڈ (امی جی نے مسکراتے ہوئے انگریزی الفاظ آواز ذرا بھاری کر کے ادا کئے) تو اسی لئے جب رویوں کو جانچنا ہو تو پورے معاشرے کو ذہن میں رکھو۔ جیسے کوئی انسان مکمل طور پر برا نہیں اسی طرح کوئی انسان مکمل اچھا بھی نہیں ہو سکتا۔ یعنی کاملیت انسانی فطرت نہیں غلطیاں تو انبیاء کرام سے بھی ہوتی تھیں مگر غلطیوں پر ندامت انسانی فطرت ہے۔ اگر ندامت نہیں تو یہ شیطانی فطرت کہلائے گی۔
اللہ ہمیں معاف کرے ہم کتنا جلدی دوسروں کے بارے میں منفی سوچنا شروع کر دیتے ہیں۔ اپنی کوتاہیوں کو تو ہم فوراً معاف کر دیتے ہیں جبکہ دوسروں کی معمولی غلطی کو بھی ہم معاف نہیں کرتے۔ حالانکہ حکم الہی دوسروں کو معاف کرنے اور خود کا محاسبہ کرتے رہنے کا ہے۔ (کرن ندامت سے سر جھکا کر رندھے لہجے میں بولی)۔
امی جی کے کمرے سے نکلتے ہوئے کرن کے دماغ میں کل کے لئے ایک جامع حکمت عملی تیار ہو چکی تھی۔ اس نے توازن پیدا کرنا تھا۔ تاکہ کسی کی دل آزاری نہ ہو۔کسی کو مکمل نقصان اور کسی کو مکمل فائدہ نہ ہو بلکہ فوائد و نقصانات ایک توازن سے برابر تقسیم ہوں۔