(Last Updated On: )
“نوعمری میں کی گی محبت دل پہ اتنے گہرے قدم جما دے گی کبھی سوچا نہ تھاچاہے کوئی ہوا کا جھونکا ہوگرتے پتوں کی آہٹ ہو یا پھر دور کسی کے دبے قدموں کی آواز ہر بار اسی کے آ جانے کا گماں ہوتا دروازے پر ہونے والی ہر دستک اس کے آنے کا احساس دلاتی آج بھی دستک تھی پر دروازے پہ نہیں دل پہ اس کی یاد کی “جب جب اس کی یاد نے چاروں طرف سے دبوچ لیا دل میں عجیب سی گھٹن محسوس ہوتی سانس بھی روک روک کے آتی ایک بے کلی چھا جاتی جوپورے وجود کو جھنجھوڑ کے رکھ دیتی برسات کی رات میں یاد کی بجلیاں کڑکڑارہی تھی جینے کی امیدبھی جیسے ماند پڑی جارہی تھی زندگی تھی جو گھوٹ گھوٹ کے اپنے وجود کو کھو رہی تھی “مریم کسی بیوہ کی طرح اپنے چہرے پر دوپٹے کا پلو ڈال کر اور اپنی آنکھیں بند کر لیتی پر درد جو کسی صورت مریم کا پیچھا نہیں چھوڑ رہا تھا “
برسات کے باوجود آسمان میں عجیب سی اداسی تھی وہ چاند کے بغیر ویسے ہی ادھورا لگ رہا تھا جیسے کسی کا دل ارمان کے بغیر
و قت تھا جو کسی صورت گزرنے کا نام نہیں لے رہا تھا ویسے بھی کہتے ہیں درد کے وقت کی رفتار بہت مددھم ہوتی ہے
گزرتے گزرتے گزرتا ہے
مریم کے دماغ میں یہ اشعار آتے ہیں
“دل بہت چیخ کے رویا ہوگا
جس گھڑی یار کو کھویا ہوگا
ڈھونڈ لیں گی اسے وہ شاخیں بھی
جو دل میں غم تیرے بویا ہوگا
جس لمحے فیصلہ کرنا تھا اسے
ضمیر اس کا کہیں سویا ہوگا”
مریم اپنے خیالوں میں گم ہو جاتی ہے
کے اچانک خوبصورت ہاتھ جیسے ہی اسکے چہرے سے دوپٹے کو ہٹاتے ماحول سرخ گلاب کی خوشبو سے معطر ہو جاتا بے جان مریم میں جان آ جاتی
“مریم کو دل کی دھڑکن کانوں تک سنائی دینے لگی ایک لمحے میں وہ خود کو دلہن دکھائی دینے لگی”کیوں کہ مریم کی آنکھوں کے سامنے اس کی محبت کھڑی تھی
مریم کی آنکھیں جم جاتی سانس کی رفتار بھی بڑھ جاتی احمد مریم کےہاتھوں کو اپنے ہاتھ میں لے کر چومتا ہے اور اس کو صوفے پر بیٹھاتا چراغ کی لو کو بڑھاتا ہےکھڑکی سے پردے کو ہٹا دیتا ہے ٹھنڈی ہواؤں کے ساتھ بوندیں بھی تھوڑی تھوڑی اندر آنے لگی ایک لمحے میں مریم مجسمہ کی صورت ہو گئی احمد سوٹ کیس سے سرخ رنگ کا دوپٹہ نکال کر مریم کے سر پر ڈالتا سرخ چوڑیاں اسکے ہاتھوں میں پہناتاہے مریم کی آنکھوں میں آنسو ابشارکی طر ح بہنے لگتےہیں پھر سارے شکوےا بھر آتے ہیں مریم کاوجود جو تھر تھر کانپ رہا تھا اس کے باوجود
احمد کے دونوں ہاتھوں کو اپنے ہاتھ میں لے کر چہرے تک لے کے جاتی اور سوالوں کی لمبی قطاریی لگا لیتی ہے
پتہ ہےاحمد “تمہارے بغیر میں خود کو کتنا اکیلا محسوس کرتی ہوں کیوں احمدکیوں کیا تم نے میرے ساتھ ایسابولو کیوں کیا کیو ں کیا؟
“کیوں مجھے جھوٹے خواب دیکھائے
جن کی تعبیر آج تک میں ان یادوں میں ڈھونڈ رہی ہوں تمہارے وجود کو تمہارے وعدوں نے ڈھونڈ رہی ہوں”
کیوں میرےاتنے پاس آ کے اتنے دور چلے گئےکے جب جب تمہاری ضرورت ہوئی تم تو کیا تمہاری خوشبوبھی میسر نہ تھی
کون سی محبت تھی جومیں تمہیں نہ دے سکیں محبت کا وہ کونسا معیار جس پر میں پوری نہ اتر سکی بے لوس محبت کی اتنی بڑی سزا کہ میرے حصے کی محبت کسی اور کی جھولی میں ڈال کے میرے دل کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کر دیے جن کو آج تک میں سمیٹ نہیں پائی ایک بار تم مجھ سے جیسا کہتے میں ویسی ہی بن جاتی بتاؤ اتنے سالوں بعد ہم مل رہے ہیں میں تم سے شکوہ کروں یا شکایت کروں یہ تم سے محبت کروں کیا کروں میں تمہارے سا تھ؟
احمد اس کے ہونٹوں پر اپنی انگلی رکھ کے خاموش ہونے کا اشارہ آنکھوں ہی آنکھوں میں کرتا اب مریم کے پاس احمد اور احمد کی محبت تھی
احمد بہت پیارسے مریم کو گلےسے لگاتے ہوئےکہتا ہے دیکھو اب میں آگیا ہوں اب تمہاری زندگی میں کوئی غم نہیں آنےدوں گا اور آج کے بعد سے تمہاری آنکھوں میں آنسو نہ دیکھوں میں نے غلطی کی ہے مجھے اس بات کا پچھتاوا ہے بس ایک بار مجھے معاف کردو میں وعدہ کرتا ہوں میں تمہارا پہلے والا احمد بن جاؤں گا جو صرف اور صرف اپنی مریم کے لئے تھا اور دعا کرتا ہوں میرے بعد کبھی کوئی کسی کو دھوکا نہ دے کسی کی ہنستی بستی زندگی میں آگ لگاکے نہ چلا جائے جو معصوم زندگی بھر اس آگ میں نہ جلتی رہے تم مجھے معاف بھی کردو گی مگر میں ہمیشہ تمہارا گنگار ہی رہوں گا
ایک دم سے زوردار بجلی کڑکتی ہے مریم کی بیٹی آواز دیتی ہے اماں مجھے ڈر لگ رہا ہے میرے پاس آ جائیں مریم ایک دم سے دیکھتی ہے نہ ہی چراغ کی لو بڑی تھی نہ ہی کھڑکی کا پردہ ہٹا تھا اور نہ ہی مریم کے سر پر سرخ دوپٹہ تھا نہ ہاتھوں میں چوڑیاں نہ ہی ساتھ میں احمد “
“زبان سے ایکدم دعا نکلتی ہے اے میرے پروردگار اس خواب کو ان خوابوں میں شامل کر دیں جو ہمیشہ پورے ہو جاتے ہیں “
“دل ہی دل میں سوچتی ہے آج پھر احمد میری راہوں میں یاد کے کانٹے بچھا کر چلا گیا “
مریم اپنی بچی کو اپنے سینے سے لگا لیتی ہے پھر اپنی بچی کا ماں اور باپ دونوں بن جاتی ہے۔
****
****
سیدہ صباحت کاظمی
کراچی پاکستان