(Last Updated On: )
پچھلے کئی برسوں سے میں ایک عجیب سا خواب مسلسل دیکھ رہا ہوں ، جیسے گھوڑسوار دں کا ایک دستہ دکن کی سنگلاخ وادیوں سے نکل کر اور برہان پور کے راستے سے ہوتا ہوا دہلی کی طرف بڑھ رہا ہے اور میں ہر بار ہڑا کر اُٹھ بیٹھتا ہوں اور سوچنے لگتا ہوں کہ آخر اس خواب کا مجھ سے کیا تعلق ہے ۔۔۔؟ تب وہ سارے ہی گھوڑے مجھے اپنے اندر مچلتے ہوئے نظر آتے ہیں اور مجھے کوچ کا حکم دینے پر بضد ہوجاتے ہیں ۔ مجبوراًمیں پھر ایک بار اپنی آنکھیں موند لیتا ہوں اور گھوڑے منزل بہ منزل آگے بڑھنے لگتے ہیں ۔
ان خوابوں کو ابتداً میں صرف معدے کی خرابی سمجھتا رہا ، پھر ماہرینِ نفسیات سے رجوع ہوا ، ڈاکٹروں اور حکیموں سے ربط پیدا کیا اور آخر میں تھک ہار کر جوتشیوں اور معبروں کے دروازے کھٹکھٹانے لگا لیکن مجھے تشفی نہیں ہوئی ۔ ہر تعبیر مجھے انہونی سی محسوس ہوئی ۔ ایک روز جب اس خواب کا تذکرہ میں نے اپنی بیوی سے کیا تو وہ کہنے لگی ، ’’ ممکن ہے تاریخ آپ کا پسندیدہ مضمون رہا ہو اور کوئی خاص واقعہ ؤپ کے تحت الشعور میں بس گیا ہو ۔آپ سوچنا بند کردیجیے ۔۔۔! ‘‘
میں نے کہا ، ’’ عقلمند ۔۔۔میں ایک بڑے تاجر کا بیٹا ہوں اور اکاؤنٹس سے ذیادہ پسندیدہ میرا کبھی کوئی مضمون نہیں رہا ۔ ‘‘
تب وہ بولی ، ’’ پھر آپ کچھ دن آرام کیجیے ۔ آخر گذشتہ بیس برسوں سے لگا تار آپ دہلی کو چھوڑے جنوبی ہند میں اپنی کمپنی کے کاروبار کو پھیلا نے میں لگے ہوئے ہیں ۔ ہوسکتا ہے کہ واپسی کے لیے آپ کا دل اندر ہی اندر تڑپتا ہو ۔۔۔؟ ‘‘
’’ بیس برس ۔۔۔! ‘‘ میں نے اپنے آپ میں دوہرایا ۔ واقعی گذشتہ بیس برسوں سے میں دہلی سے دور اپنی کمپنی کے لیے نئے نئے علاقے فتح کرتا رہا اور کمپنی کو کروڑوں روپیوں کا فائدہ پہنچاتا رہا لیکن میرے ابّاجان کو کبھی یہ خیال نہ آیا کہ وہ مجھے چند دنوں کے لیے ہی سہی دہلی واپس بلالیں ۔ مجھے عجیب سی کوفت ہونے لگی ۔ میری آنکھوں میں دہلی کا چپّہ چپّہ گردش کرنے لگا ۔ پہلے بچپن ٹ پھر جوانی اورپھر والدین کی سرد مہری ۔ ہم چار بھائی اور دو بہنیں ہیں ۔ میرا نمبر تیسرا ہے ۔ اسی وجہ سے میں اپنے والدین کا کبھی بھی چہیتا بیٹا نہ بن سکا ۔ اُن کا سارا لاڈ و پیار تو بڑے بھیا پر ختم ہوگیا ۔ ہاں محبت اور شفقت کی کچھ بوندیں دوسرے اور چوتھے بیٹے کے حصّے میں ضرور آئیں لیکن مجھے تو کبھی انہوں نے اہمیت ہی نہ دی او ر شائد اسی وجہ سے وہ ساری زندگی مجھے دہلی سے باہر بھیجتے رہے ۔ بڑے بھیا ، ابّا جان کے ساتھ مل کر کمپنی کا سارا کاروبار دیکھتے رہے ۔ دوسرے اور چوتھے کو قریبی ریاستوں میں کمپنی کی برانچ قائم کرکے دے دی گئی ۔ اُن کا کام بس اتنا تھا کہ وہ پروڈکشن کرتے رہیں اور سارا مال دہلی کو روانہ کر دیں ۔ لیبل دہلی ہی سے لگتا تھا اور وہیں سے مختلف مقامات کو سپلائی کیا جاتا تھا ۔ لیکن میری خاطر نہ کوئی کمپنی کی برانچ قائم ہوئی اور نا ہی پروڈکشن کا کام سونپا گیا ۔ بظاہر کمپنی کا وارث ہوتے ہوئے بھی میری حیثیت کبھی سیلس مینجر سے آ گے نہیں بڑھی لیکن میں نے کبھی اعتراض نہیں کیا بلکہ پوری دلچسپی کے ساتھ اپنے تفویض کردہ کاموں کو نبھاتا رہا ۔
اِس وقت میں بالاحصار پر کھڑا ہوا ہوں ۔ میری آنکھوں کے سامنے گھنا جنگل پھیلا ہوا ہے اور کئی کٹی پھٹی پگڈنڈیوں پر دھول اُڑ رہی ہے اور ایک گھوڑ سوار تیزی سے شہر کی طرف چلا آرہا ہے ۔ شہرِ پناہ کا دروازہ کھلا ہوا ہے اوپر کچھ سیاح دوربین لگائے پتہ نہیں کیا دیکھ رہے ہیں ۔ خواب میں مسلسل گھوڑوں کو دیکھ دیکھ کر مجھے تو جیسے الرجی ہوگئی ہے ۔ میں اوپر سے نیچے آجاتا ہوں ۔ میری بیوی موسم گرما کے باؤجود میرے لیے سوئیٹر بُن رہی ہے اور میرا بیٹا تاریخ کی ورق گردانی کر رہا ہے ۔
’’ با با ۔۔۔ سمراٹ اشوک نے راج گدّی کی خاطر اپنے سارے بھائیوں کو کیوں قتل کردیا تھا ۔۔۔ ؟ ‘‘
’’ بیٹا طرزِ حکومت اگر جمہوری نہ ہو تو یہی سب کچھ ہوتا ہے ۔۔۔! ‘‘
’’ اچھّا ۔۔۔ تو پھر جمہوری ملک کی وزیرِ آعظم اندرا گاندھی کو کیوں قتل کردیا گیا تھا ۔۔۔؟ ‘‘
میں نے جواب دیا ، ’’ بیٹے ۔۔۔ فی الحال تم سمراٹ اشوک کے بارے میں پڑھو ، اندرا گاندھی کی شہادت کے بارے میں آئیندہ نسلیں سوال اُٹھائیں گی ۔ یہ مسلہ ابھی تمہارے سوچنے کا نہیں ہے ۔۔۔! ‘‘
ٹھیک اُسی وقت فون کی گھنٹی بجی اور میں نے ریسور اُٹھایا ، ’’ یس شہزور اِز ہیر ۔۔۔! ‘‘
’’ میں روشن آرا بول رہی ہوں ۔ بھیا ابّا جان کی طبیعت سخت ناساز ہے ۔ آپ فوراً دہلی پہنچنے کی کوشش کریں ۔ یہاں وصیتیں لکھائی جارہی ہیں ۔ ‘‘
میں نے اپنی چھوٹی بہن کو فوراً دہلی پہنچنے کا تیقن دلایا ۔ حالانکہ اس کے ساتھ ساتھ میری اپنی آواز بھی کانپ رہی تھی ۔ میں نے ریسور کو کریڈل پر رکھ دیا ۔ میری آنکھوں میں کمپنی کی عالیشان عمارت گردش کرنے لگی ۔ تجوریوں میں بھرا ہوا روپیہ اور مختلف بنکوں میں بند لاکر ایک ایک کرکے کھلنے لگے ۔ زمینات ، بنگلے ، کوٹھیاں اور باغات اور بھی حسین محسوس ہونے لگے ۔ میں سوچنے لگا شائد میرے وہاں پہنچنے سے پہلے ہی بڑے بھیا ساری جائیداد کو اپنے نام منتقل کروالیں گے ۔ میری طبعیت بے احتیار چاہی کہ میں فوری فلائیٹ لے لوں ، لیکن پھر خیال آیا کیوں نہ اپنے سے جو قریب بھائی ہے اُسے ہمراز بنالیا جائے ، چنانچہ میری اُنگلیاں فوراً اُس کا نمبر ڈائیل کرنے لگیں اور خمار میں ڈوبی ہوئی اُس کی آواز سنائی دی ، ’’ یس۔۔۔ شہباز اِز اسپیکنگ ۔۔۔! ‘‘
میں نے پوچھا ، ’’ شہباز تمہیںدہلی کی کچھ خبر ہے ۔۔۔؟ ‘‘
وہ بولا ، ’’ کئی دنوں سے نمبر ڈائل کر رہا ہوں ، لیکن ابّا جان سے گفتگو نہیں ہوئی البتہ بڑے بھیّا سے بات چیت ہوجاتی ہے ۔ وہاں سب خیریت سے ہیں ۔ ‘‘
میں نے کہا ، ’’ بے وقوف بڑے بھیّا ہم سب کو اندھیرے میں رکھنا چاہتے ہیں ۔ میرے مخبروں نے ابھی ابھی اطلاع دی ہے کہ ابّاجان سخت علیل ہیں اور وصیتیں لکھائی جارہی ہیں ۔ کیا تم اپنی کمپنی کا جنرل مینجر بننا چاہتے ہو ۔۔۔؟ ‘‘
’’ ج ۔۔ج ۔۔ جنرل مینجر ۔۔۔؟ ‘‘ شہباز کی زبان بری طرح لڑکھڑائی ۔
’’ ہاں جنرل مینجر ۔۔۔ اگر تمہاری خواہش ہو تو میں تمہارا ساتھ دے سکتا ہوں ۔۔۔! ‘‘
’’ اور تم ۔۔۔؟ ؟ ‘‘ اُس نے سوال کیا ۔
’’ ارے ساری زندگی تو میں سیلس مینجر رہا ۔ آئیندہ بھی وہی رہوں گا ۔ ۔۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ بڑے بھیا کے مقابلے میں تم ذیادہ کامیاب جنرل مینجر ثابت ہوسکتے ہو ۔۔۔ بولو کیا ارادہ ہے ۔۔۔؟ ‘‘
اُس کی آواز ایکدم کھانسی میں بدل گئی اور پھر وہ بولا ، ’’ اگر تمہارا ساتھ مجھے جنرل مینجر بنا سکتا ہے تو اتنا یاد رکھو، میں تمہارا ایک بڑا کام ضرور انجام دوں گا ۔ ‘‘
اُس کی بات سُن کر میں ہنس پڑا ۔ اور آخر یہ طئے ہوا کہ ہم دونوں مشترکہ دہلی کی طرف قدم اُٹھائیں گے اور وہ بہت جلد میرے پاس پہنچ جائے گا ۔
جب میں بستر پر لیٹا تو آنکھوں کے موندنے سے پہلے ہی میرے دماغ میں گھوڑ سوار دستہ ہنگامہ مچانے لگا ۔ میں نے اپنے چہرے پر ہاتھ پھیرا تو اچانک گمان ہوا کہ جیسے وہ داڑھی سے بھر گیا ہے ۔ میں نے گھبرا کر سر پر ہاتھ رکھا ، وہاں پر مجھے دستار بندھی ہوئی محسوس ہوئی ۔ میں نے اپنے شب خوابی کے لباس پر نظریں ڈالیں لیکن وہ مجھے عجیب و غریب نظر آنے لگا ۔ میں گھبراہٹ کے مارے اُٹھ کھڑا ہوا ۔۔۔یا اللہ یہ تو اس صدی کا لباس نہیںہوسکتا ۔۔۔؟ ٹھیک اُسی وقت کوئی بولا ، ’’ شہزادے دہلی کا تخت و تاج تمہارا انتظار کر رہا ہے ۔ آگے بڑھ کر صفیں اُلٹ دیجیے ۔۔۔‘‘
میں نے گھبراکر آواز کی طرف رُخ کیا تو کمرے کا کونہ کونہ اُسی آواز سے گونجنے لگا ۔ رفتہ رفتہ میرے چہرے سے ڈر و خوف دور ہوتا گیا اور پھر ایک سفّاک مسکراہٹ میرے چہرے پر نمودار ہوئی ۔ میں نے آگے بڑھ کر کھڑکی کھول دی دور جنگل پر اندھیرے کی حکومت تھی اور گھوڑوں کی ٹاپوں کی آوازوں سے جنگل دہل رہا تھا ۔
اچانک دروازہ کھلا اور میں نے بغیر دیکھے سوال کیا ، ’’ ا س وقت کس گستاخ نے مابدولت کی خواب گاہ میں در آنے کی جرائت کی ہے ۔۔۔؟ ‘‘ جواباً ایک نسوانی قہقہہ بلند ہوا ۔ میں شدید غصّے سے چلایا ، ’’ گستاخ ۔۔۔ اپنا انجام جانتی ہو۔۔۔؟ ‘‘
اب جو پلٹ کر دیکھتا ہوں تو میری بیوی سہمی ہوئی نظروں سے میری طرف دیکھ رہی تھی ۔ کچھ لمحوں تک ہم دونوں یونہی ایک دوسرے کو دیکھتے رہے ۔ پھر رفتہ رفتہ میں اپنے آپ میں واپس آتا گیا ، یہاں تک کہ میرے چہرے کی داڑھی غائب ہوئی ، پھر دستار اور پھر وہ عجیب و غریب لباس ، شب خوابی کے لباس میں تبدیل ہوگیا اور میں وہی پرانا سیلس مینجر بن گیا ۔ ٹوٹ کر اپنی بیوی کو چاہنے والا شوہر ۔۔۔
میں نے آہستہ سے پوچھا ، ’’ کیا بات ہے ۔۔۔؟ ‘‘
وہ میرے سینے سے چمٹ گئی ۔ اُس کی آنکھیں بھیگی ہوئی تھیں ۔ اُس نے آہستہ سے جواب دیا ، ’’ ابھی آپ کیسی انہونی سی باتیں کر رہے تھے ۔
’’ انہونی۔۔۔؟ ‘‘ میں نے اس کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا ۔
’’ ہاں ایک دم انہونی ۔ میں تو گھبراگئی تھی ۔ ایسا لہجہ اور ایسے الفاظ آپ کی زبان سے شائد ہی کبھی ادا ہوئے ہوں ۔ ‘‘
لیکن میں چپ ہی رہا اس لیے نہیں کہ میرے پاس اُس کے سوال کا جواب نہیں تھا ، بلکہ چپ اس لیے ہوگیا تھا کہ کہیں وہ میری باتوں سے میرے اگلے پروگرام کا اندازہ نہ لگالے ۔
دوسرے دن روشن آرا نے مجھے فون پر بتایاکہ ابّاجان کو ڈاکٹروں نے مکمل آرام کا مشورہ دیا ہے ۔ اب اُن سے گھر کا کوئی فرد مل نہیں سکتا ۔ سوائے بڑے بھیّا اور آپی کے ۔ وہ اب بھی گھنٹوں اُن کے پاس ہی رہتے ہیں ۔ میں نے اُنھیں ڈھیر ساری فائلیں لاتے اور لیجاتے ہوئے بھی دیکھا ہے ۔
تو گویا ابا جان بالکلیہ طور پر بڑے بھیا کے قبضے میں چلے گئے ہیں ۔ مجھے اپنا مستقبل بے حد تاریک نظر آنے لگا ۔
’’ با با ۔۔۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ راج پاٹ کے اصل وارث پانڈو ہی تھے ۔کوروں نے اُن سے جنگ کیوں کی ۔ ۔۔؟ ‘‘ میرا بیٹا پھر ایک بار تاریخ سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا ۔
’’ بیٹے اقتدار کی ہوس بہت بفری ہوتی ہے ۔ ‘‘
’’ با با ۔۔۔ ! اگر آپ اُس عہد میں ہوتے تو کیا آپ بھی وہی سب کچھ کرتے ؟ ‘‘
میں نے چونک کر اُس کی طرف دیکھا ، مجھے محسوس ہوا جیسے میرے کمبل کے نیچے میرے اپنے بھائیوں کے کٹے ہوئے سر موجود ہیں ۔ میرے پورے بدن میں ایک سرد سی لہر دوڑ گئی ۔ مجھے چکر سے آنے لگے ، اور میں فوراً کرسی پر بیٹھ گیا ۔ میرا بیٹا قریب آیا اور میری حالت دیکھ کر کہنے لگا، ’’ با با جی آپ تو اس گرمی میں بھی کانپ رہے ہیں ۔ میں آپ کے لیے ابھی کمبل لے کر آتا ہوں ۔ ‘‘
’’ کوئی ضرورت نہیں ۔۔۔ ‘‘ میں پوری شدت سے چیخا ، جیسے میرا راز فاش ہو جائے گا ۔ میرا بیٹا سہم گیا ۔ اُس نے اپنی کتاب ایک طرف پھینک دی ، اور پھر وہاں سے چپ چاپ کھسک گیا ۔
وہ تو چلا گیا لیکن میرے اپنے دماغ میں ایک طوفان برپا تھا ۔ میں نے گھبرا کر آنکھیں بند کرلیں ، تو گھوڑ سوار دستہ آدھمکا ۔ اس بار اُن کے ہاتھوں میں ننگی تلواریں تھیں ، اور وہ عجیب و غریب نعرے لگا رہے تھے ۔ میں نے گھبرا کر آنکھیں کھول دیں ، اور اپنے آپ پر قابو پانے کی کوشش کرنے لگا ۔ میرا دل عجیب سے وسوسوں کا شکار ہو چکا تھا ۔ ایک بار تو دل میں یہ بھی خیال آیا کہ مجھے اپنی حالیہ حیثیت ہی پر قائم رہنا چاہیے اور دہلی کے حالات کو دہلی ہی کے حوالے کر دینا چاہیے لیکن جانے کیوں میں نے اس حیال کو پوری شدت کے ساتھ جھٹک دیا ۔ واقعی اُس وقت اگر میں ہوتا تو وہی سب کچھ کرتا تھا جو کوروں نے کیا تھا ۔ اور شاید آنے والے دور میں میرا بیٹا بھی وہی سب کچھ کرے گا ، جو صدیوں سے ہوتا چلا آرہا ہے ۔ میں بے تابانہ ٹہلنے لگا ۔ دروازہ کھلا ہوا تھا ، اچانک شہباز اندر داخل ہوا ، اُسے اپنے سے قریب دیکھ کر مجھے عجیب سا اطمینان ہوا ، اور پھر سارے خدشے ، ساری اُلجھنیں اپنے آپ دفع ہو گئیں ۔
’’ شہباز ۔۔۔! تمھیں بے حد محتاط ہوکر یہاں آنا چاہیے تھا ۔ ‘‘
’’ منجلے بھائی آپ بے فکر رہیں میرے ترک ِ مستقر سے کوئی بھی واقف نہیں ۔ حتیٰ کے میرے بیوی بچے بھی ۔۔۔ ! ‘‘
میرے چہرے پر اطمینان بخش مسکراہٹ پھیل گئی ، اور میں نے اُس کی طرف شفقت آمیز نظروں سے دیکھا لیکن میرے ذہن میں گھناونے منصوبوں کی چنگاریاں بھرکنے لگیں۔ وہ میری جانب نہایت معصومیت سے دیکھ رہا تھا اور میں کسی ماہر عامل کی طرح اُسے بوتل میں قید کرنے کا پلان بنا رہا تھا ۔ میں اُس کی کمزوریوں سے واقف تھا ، اور پھر ایک وہی کیا ، میں تو اپنے خاندان کے ہر فرد کی کمزوریوں کو جانتا تھا ۔ اُن کی پل پل کی خبریں رکھتا تھا ۔ وہ نہیں جانتے تھے کہ میرا جال اُن کے اطراف کہاں تک پھیلا ہوا ہے ۔
دن ڈھلتے ہی میں شہباز کو ایک ایسی جگہ پر لے کر پہنچ گیا ، جہاں اُس کے مزاج اور معیار کی ہر چیز موجود تھی ۔ وہ بڑا سٹپٹایا ، میں نے بڑے خلوص سے اُس کے کاندھے پر اپنا ہاتھ رکھا اور پھر بولا ، ’’ شہباز یہ سچ ہے کہ میرے اور تمہارے ذوق میں زمین و آسمان کا فرق ہے ۔ میں درویش صفت اور تم شہزادوں کی زندگی بسر کرتے ہو مجھے تمہاری رنگین طبیعت کا علم ہے ۔ تم میرے مہمان ہو ، اور ان سب کا انتظام کرنا میرا فرض ہے ۔ اگرچہ تم میرے چھوٹے بھائی ہو ، لیکن ذرا سوچو تو ہماری عمروں میں فرق ہی کتنا ہے ؟ میں یہ بھی جانتا ہوں کہ میری موجود گی میں تم اس محفل کا صحیح لطف اُٹھا نہ پاو گے ۔ میں واپس جا رہا ہوں ، جاو ۔۔۔ عیش کرو ۔۔ لیکن بس یاتنا یاد رکھو کہ ہم دونوں بظاہر سکے کے دو رخ ہو سکتے ہیں لیکن ہماری حیثیت ایک سالم سکے ہی میں ہونی چاہیے ۔ ۔۔۔ اچھا ۔۔۔ شب بخیر ۔۔۔ ‘‘
میں مغل آرٹ کی نادر کمانوں سے گزرتا ہوا باہر نکل گیا ۔ میں نے ایک بار بھی پلٹ کر نہیں دیکھا ، کیونکہ مجھے دیکھنے کی ضرورت بھی باقی نہیں تھی ۔ شطرنج کی بساط پر میں اپنے مہروں کو متحرک کر چکا تھا ۔
شہباز نے جونہی ہال میں قدم رکھا ، وہ دم بخود رہ گیا ۔ اوپر بلوریں جھومر ، نیچے قالین ، گاؤ تکیے کی دیدہ زیب مسند سجی ہوئی تھی قیمتی شراب کی بوتلیں اور تقریباً پچیس حسینائیں نیم بر ہنہ اُس کی منتظر تھیں ۔ فانوسوں سے نکلنے والی رنگین روشنیاں ماحول کو خوابناک بنا رہی تھیں ۔ سازندے سلیقے سے بیٹھے ہوئے تھے ۔ پھر ایک پری پیکر نے بربط کے تاروں کو چھیڑا ، مُغنیہ کی لئے اُبھری اور رقص کا آغاز ہوا ، شہباز منظر کی سحر کاری میں کھوگیا ۔ اُسے پتہ ہی نہیں چلا کہ کب رقاصاوں نے اُسے مسند پر بٹھا دیا تھا ۔ وہ جام پر جام لنڈھائے جا رہا تھا ۔ پہلے اگلی صف کی حسیناوں نے اپنے بدن کو برہنہ کرنا شروع کیا ، چندری سرکی، پھر بلاوز ، اور پھر چولیاں اور پھر اس کے بعد مادرزاد ننگا رقص شروع ہوگیا ۔ شہباز کبھی کسی حسینہ کی طرف بڑھتا اور کبھی کوئی حسینہ اُسے اپنی طرف کھینچ لیتی ، بوس و کنار کی جیسے بارش ہو رہی تھی ۔ پہلے وہ جام سے شراب پی رہا تھا اور اب ہر حسینہ اُس کے لیے جام بنی ہوئی تھی ۔ چاروں طرف کھنکتے ہوئے قہقہے تھے ۔ اُسے یہ بھی ہوش نہیں رہا تھا کہ کہ اُس کے اپنے بدن کے کپڑے بھی نوچے جا رہے تھے ، یہاں تک کہ وہ بھی الف ننگا ہوگیا ، اور سرور میں ناچنے لگا ۔ مغنیہ کی لئے تیز ہو گئی ، سازندوں نے ہیجان انگیز دھنوں کو بجانا شروع کر دیا ، ایک بار وہ پورے ہوش کے ساتھ لہرایا اور پھر اپنے سے بالکل قریب کی حسینہ کے پہلو میں ڈوب گیا ۔ رقص کچھ دیر اُسی طرح جوش و خروش سے جاری رہا ، مغنیہ کی لئے اُبھرتی ڈوبتی رہی ، سازندے شور مچاتے رہے ، اور پھر آہستہ آہستہ ہر چیز ڈوب گئی ۔ یہاں تک کہ مکمل سناٹا ہوگیا اور ہال کی تمام روشنیاں گُل ہو گئیں ۔ میں نے ویڈیو اسکرین کا بٹن آف کیا اور خود بھی گہری نیند سوگیا ۔
دوسرے دن اخبار دیکھ کر میں اتنی زور سے اُچھلا کہ میری بیوی بچے بھی چونک اُٹھے ۔ اُنھوں نے مجھے چاروں طرف سے گھیر لیا ۔ میں نے زور زور سے رونا شروع کر دیا ۔میری بیوی نے مجھے چھوڑا اور اخبار پر جھپٹی، اور پھر اُس کی ایک درد ناک چیخ اُبھری ، ’’ ہائے شہباز بھیا کار کے حادثے میں فوت ہو گئے ۔ ؟ ‘‘
’’ ہاں ۔۔۔ ‘‘ میں نے روتے روتے کہا ، ’’ اور افسوس اس بات کا ہے کہ لاش یکسر جل گئی ہے ۔ ‘‘
وہ بولی ، ’’ ہمیں دہلی کو فوراً خبر پہنچانی چاہیے ۔ ‘‘
’’ تمہاری خبر کے پہنچنے سے پہلے ہی یہ اخباروہاں پہنچ چکا ہوگا ۔ ۔ فی الحال ہمیں اُس کے آخری رسومات کی تیاری کرنا چاہیے ۔ ‘‘ اور پھر میں پھوٹ پھوٹ کر روپڑا ۔
شہباز کو الوداع کہنے کے لیے دہلی سے کوئی نہیں آیا ۔ صرف بڑے بھیا نے فون پر کہا ، ’’ مجھے اُس کی اس طرح اچانک موت پر گہرا صدمہ ہوا ہے ۔ لیکن میں دہلی سے ایک منٹ کے لیے بھی باہر نہیں آسکتا ۔ خدا اُس کے بیوی بچوں کو صبر دے ۔۔۔ اور ہاں ۔۔۔ شہباز کی اہلیہ کو بتا دیں کہ وہ ابھی کچھ دن اپنے شوہر کے ریجن ہی میں قیام کریں ۔ میں بہت جلد اُن کا یہاں بندوبست کرتا ہوں ۔ ‘‘
چنانچہ میں نے دہلی کے حکم نامہ پر فوری عمل کرکے اپنی وفاداری کا ایک اور ثبوت فراہم کردیا تھا ۔ لیکن تعجب تو اس بات پر ہوا کہ بڑے بھیا نے ابا جان کی علالت سے متعلق ایک لفظ بھی بتایا ، اور ناہی میں نے پوچھا ۔ مجھے اب یقین ہو چلا تھا کہ ساری جائداد پر بڑے بھیا قبضہ کر چکے ہیں اور میری حیثیت اُس مکھی کی طرح ہے جسے مسکے سے باہر کردیا گیا ہو ۔
اگلا قدم اُٹھانے سے پہلے میں نے ایک بار پھر دہلی میں مقیم اپنی چھوٹی بہن روشن آراء کو فون کیا ، تو وہ مجھے بتانے لگی، بھیا یہاں حالات دن بدن ابتر ہو تے جا رہے ہیں ۔ کمپنی کے تمام اختیارات بڑے بھیا نے اپنے ہاتھوں میں لے لیا ہے ، بلکہ اب تو وہ ابا جان کی مخصوص کرسی پر بھی بیٹھنے لگے ہیں ، اور وہ مُہر جو ابا جان اہم کاغذات پر خود ثبت کیا کرتے تھے ، وہ بھی اب بڑے بھیا کے تصرف میں ہے ۔ اگر آپ اب بھی غافل رہے تو سمجھیے آپ کے لیے دہلی کے تمام راستے بند ہو چکے ہیں ۔ د
میں نے ریسیور رکھا اور فوراً دہلی پہنچنے کے انتظامات میں مصروف ہوگیا ۔ وہ باتیں جو اب تک مجھے صرف خوا ب میں نظر آ تی تھیں ، اب جاگتی آنکھوں سے بھی دکھائی دینے لگیں ، اور کان ایک بھیانک جنگ کی آوازیں سننے لگے تھے ۔
’’ با با ۔۔۔ آخر اتنی مستحکم مغلیہ سلطنت کا شیرازہ کیوں بکھر گیا ۔۔۔؟ ‘‘ میرے بیٹے نے پھر تاریخ کی کتاب نکالی ۔
’’ آپسی انتشار اور عدم اعتماد ۔۔۔‘‘ میں نے مختصر سا جواب دیا ۔
’’ تو پھر اس پر قابو پانے کے لیے اُنھوں نے ایمر جنسی کیوں نہیں ڈیکلیر کی ؟ ‘‘ اُس نے پھر سوال کیا ۔
’’ ایمرجنسی کے بعد بھی تو کانگریس اپنی حکومت کو بچا نہ سکی تھی ۔ ‘‘
’’ لیکن عوام کو فوراً اپنی غلطی کا بھی تو احساس ہوگیا تھا ۔ ‘‘
’’ بیٹے ۔۔۔ سیاست کی بساط پر ہمیشہ ہی یہ سب ہوتا رہا ہے ۔ کل کا نا پسندیدہ لیڈر کب عوام کا چہیتا لیڈر بن جائے گا ، کوئی سوچ نہیں سکتا ، اور اسی طرح بے حد مقبول شخصیت کی زندگی میں کب اکیلا پن آجائے گا ، یہ بھی طئے نہیں ہے ۔ لیکن تم ایسے سوالات کیوں کرتے ہو ؟ ‘‘ میرا لہجہ قدرے سخت ہو گیا ۔
’’ با با ۔۔۔ ! میں ایسے انقلابات سے بہت ڈرتا ہوں کیونکہ ان کے باعث عام آدمی کو کوئی فائدہ نہیں پہنچتا ۔ ‘‘
’’ دیکھو بیٹے ۔ ‘‘ میں اُسے سمجھانے لگا، ’’ یہ سب سوچنا تمہارا کام نہیں ہے ۔ تم ابھی ہائی اسکول کے طالب علم ہو ، تمھیں تو صرف اپنی پڑھائی پر نظر رکھنی چاہیے ۔ جاو اور پڑھتے بیٹھو ۔ ‘‘
وہ میرے سامنے سے اسی طرح اُٹھ کر چلا گیا جیسے میں اپنے ابا جان کے حکم پر دہلی کو چھوڑ کر جنوبی ہند کی طتف نکل آیا تھا ۔
آخر ایک روز میں دہلی پہنچ گیا اور ہوائی اڈے سے سیدھا اپنی خاندانی دیوڑھی کی طرف روانہ ہوا ۔ راستہ بھر عجیب سے وسوسے مجھے گھیرے ہوئے تھے، میں پریشان تھا کہ کیا میں بڑے بھیا سے وہ سب پوچھ سکوں گا ، جس کی خاطر یہاں تک آیا ہوں ۔
میری کار جیسے ہی صدر دروازے میں داخل ہوئی، دور پہلی کمان کے پاس کھڑی ہوئی سیکوریٹی فورس نے اپنی بندوقیں کاندھوں سے اُتار کر ہاتھوں میں لے لیں ۔ میں کار سے باہر نکلا،اور تقریباً دس منٹ تک چلتا ہوا جیسے ہی اُن کے قریب پہنچا ، اُنھوں نے مجھے روک دیا ، میں نے کہا ، ’’ مجھے پہچانیے ۔۔۔ میں ۔۔۔ میں شہزور ہوں ۔۔۔ اس کمپنی کے وارثوں میں سے ایک ۔۔۔ ! ‘‘
’’ مجبوری ہے جناب ۔۔۔ مالک کے حکم کے بغیر اس دیوڑھی میں پرندہ بھی پر نہیں مار سکتا ۔ ‘‘
میں نے کہا ، ’’ تو پھر ٹھیک ہے ۔ بڑے بھیا کو مطلع کر دیجیے کہ جنوبی ہند کا سیلس مینجر شہزور آیا ہے ، اور وہ آپ سے ملنا چاہتا ہے ۔ ‘‘ میرے لہجے میں طنز بھرا ہوا تھا ۔
باوردی شخص پہلے ادب سے جھکا اور پھر اندر چلا گیا ۔ میں نے ایک نظر دیوڑھی پر ڈالی ۔ میرا سارا بچپن دیوڑھی کیکے ایک ایک کونے سے ہمکنے لگا ۔ پھر اماں جان کی لوریاں یاد آئیں ، اُن کی باتیں کانوں میں رس گھولنے لگیں ۔میرا دل بے اختیار چاہا کہ میں دوڑتا ہوا اندر چلا جاوں ۔ لیکن ۔۔۔ ؟؟؟
’’ آپ اندر تشریف لے جا سکتے ہیں ۔ مالک آپ کے منتظر ہیں ۔ ‘‘
اور جونہی میں بڑے بھیا کے چیمبر میں داخل ہوا ۔ اُن کی رعب دار آواز اُبھری ، ’’ شہزور ۔۔۔ بلا اجازت ترک ِ مستقر کی تم میں ہمت کیسے ہوئی ، ‘‘
میں ایک دم بوکھلا گیا ۔ بڑے بھیا نے مجھے بیٹھنے کے لیے بھی نہیں کہا ، بلکہ ایک دم بھرک اُٹھے ۔ مجھے دھکا سا لگا ، آخر پورے بیس برس کے بعدمیں اپنے گھر لوٹا تھا ۔ میں نے ہمت سے اپنے کو سمیٹا اور پھر نہایت دھیمے لہجے میں بولا ، ’’ بڑے بھیا ایک تو شہباز کا حادصہ اور پھر ابا جان کی بیماری کی اطلاعیں ۔ ۔۔ ؟؟
’’ کس نے تم تک پہنچائیں ؟ ‘‘ وہ قدرے چونکے تھے ۔
’’ آپ نے اگر اس خبر کو چھپانا چاہا تو کیا ہوا ، اس گھر میں کوئی تو میرا بھی بہی خواہ ہوگا ؟ ‘‘ میری آنکھیں بھیگ گئیں ۔
بڑے بھیا اپنی کر سی سے اُٹھ کر کھڑے ہوئے اور پھر وہ آہستہ آہستہ چلتے ہوئے میرے قریب پہنچے ، ایک لمحہ میری آنکھوں میں جھانکا اور پھر بے حد شفیق لہجے میں کہنے لگے ، ’’ شہزور ۔۔۔ تم کیا سمجھتے ہو کہ ابا جان کی بیماری کو چھپا کر میں ۔۔۔ میں کچھ اپنا بھلا چاہتا ہوں ؟ ارے پگلے کچھ مصلحتیں ایسی ہوتی ہیں جن کے باعث آدمی کو اپنے آپ پر بھی جبر کرنا پڑتا ہے ۔ شہباز کے حادثے نے میری کمر توڑ کر رکھ دی ، اب تمھیں کیا بتاوں کہ میں اُس کی خاطر ساری رات روتا رہا ، اور اب بھی اُس کا چہرہ میری آنکھوں میں گردش کرتا ہے ۔۔۔۔ ‘‘
وہ پھر ایک بار اپنی کرسی کی طرف بڑھنے لگے ، اور میں سوچنے لگا ، بڑے بھیا اقتدار کی ہوس نے تمہارے مزاج میں کس قدر مکاری اور عیاری پیدا کر دی ہے ۔ تمہاری ساری مصلحتیں میں خوب سمجھتا ہوں ، تم اگر چاہتے تو اپنے بھائی کا آخری دیدار تو ضرور کر سکتے تھے ۔ لیکن تمھیں تو ابا جان کی ساری جائداد اپنے حق میں کروانی تھی ۔۔۔
بڑے بھیا اُداس کرسی پر بیٹھ گئے ۔ ، پھر اُنھوں نے مجھے بہت ہی دھیمے لہجے میں بیٹھ جانے کو کہا ، ’’ ابا جان بہت زیادہ سیریس ہیں لیکن یہ بات باہر نہیں جانی چاہیے ، ورنہ مارکیٹ پر اس کا بہت بُرا اثر پڑے گا ۔ ہمارے پرکھوں نے بڑی محنتوں سے اپنی اس تجارت کو استحکام بخشا ہے ۔ اور ہماری معمولی سی حماقت بھی اسے تنکوں کی طرح بکھیر دے سکتی ہے ۔ اور میں ۔۔۔ ‘‘
’’ میں ابا جان سے ملنا چاہتا ہوں ۔ ‘‘ میں نے بڑے بھیا کی بات کاٹی ۔ اُن کا چہرہ ایک دم سرخ ہوگیا ۔ اُنھوں نے پوری سختی کے ساتھ پیپر ویٹ کو اپنی مٹھی میں دبوچ لیا اور پھر قدرے تلخ لہجے میں گویا ہوئے ، ’’ تم ابا جان سے نہیں مل سکتے ۔ ‘‘
’’ کیوں نہیں مل سکتا ؟ ‘‘ میں بھی بپھر گیا ، ’’ آخر وہ کونسا خدشہ ہے جس کے باعث آپ ابا جان اور میری ملاقات کے آڑے آرہے ہیں ۔۔۔ ؟ ‘‘
’’ بے وقوف ۔۔۔ ڈاکٹروں نے اُن کے سلسلے میں سخت تاکید کی ہے کہ اگر اُن کے بدن میں ذراسی بھی ہلچل ہوئی تو وہ اُن کی زندگی کا آخری لمحہ ہوگا ۔ ‘‘
میری طبعیت چاہی کہ میں بڑے بھیا پر ٹوٹ کر برس جاوں ، لیکن میں خاموش رہ گیا ۔ البتہ میری آنکھیں میرے جذبات کی ترجمانی کر رہی تھیں۔ بڑے بھیا ایک بار پھر اپنی کرسی سے اُٹھے اور کہنے لگے ، ’’ دیکھو ۔۔۔ میں یہاں تم سے اس سلسلے میں مزید گفتگو کرنا نہیں چاہتا ۔ بہتر ہوگا کہ تم شام کو میری کوٹھی پر آجاو ، وہیں میں تمہاری بھابھی اور بچوں کے ہمراہ ملوں گا ۔ اب تم جا سکتے ہو ۔ ‘‘
اور پھر وہ میرا جواب سنے بغیر ہی تیز تیز قدم اُٹھاتے ہوئے چیمبر سے باہر نکل گئے ۔ میری آنکھیں اُن کا تعاقب کرتی رہیں ۔ اُنھوں نے مقابل کے کمرے کا تالا کھولا اور اندر جاکر اُسے بولٹ کرلیا ۔ میں وہیں کھڑا سوچتا رہ گیا۔ زندگی میں پہلی بار مجھے اماں جان کی کمی کا شدت سے احساس ہوا ۔
شام کو جب میں بڑے بھیا کی کوٹھی پر پہنچا تو صدر دروازے پر موجود اُن کے دربان نے میرا استقبال کیا اور مجھے اندر جانے کی اجازت دے دی ۔ میں دیوڑھی کے کمان در کمان سے آگے بڑھنے لگا ۔قدم قدم پر موجود اُن کے غلام میرے قدموں میں اپنا سر جھکاتے جاتے تھے ۔ میں دونوں ہاتھوں سے نوٹوں کی بارش کر رہا تھا ۔ میرے لیے منزل آسان ہوتی جا رہی تھی ۔جونہی میں دیوان خانے کے دروازے پر پہنچا ، بڑے بھیا کو اپنا منتظر پایا ۔ میں وہیں رک گیا ۔
’’ اندر آجاو ۔ ۔۔! ‘’ اُن کی پر وقار آواز اُبھری ۔
میں اندر داخل ہوگیا ۔ ہال کا وہی ماحول تھا جو میں نے شہباز کے لیے منتخب کیا تھا ۔ اوپر بلوریں جھومر ، نیچے دبیز قالین ، رنگ برنگے فانوس ، گاو تکیے کی مسند ، قیمتی شراب کی بوتلیں،بس کمی تھی تو خوب صورت لڑکیوں کی ، میں ایک لمحے کے لیے پریشان ہوگیا ۔
’’ بیٹھ جاو ۔ ‘‘ بڑے بھیا کی آواز میں وہی رعب تھا ۔ میں بیٹھ گیا ۔ بڑے بھیا کچھ بے چین سے نظر آرہے تھے ۔ ۔ وہ ٹہلنے لگے ، اور میں سوچنے لگا ۔ اب وہ تالی بجائیں گے ، پھر مغنیہ کی لئے اُبھرے گی اور نیم برہنہ لڑکیوں کا رقص شروع ہوجائے گا ۔لیکن اُنھوں نے تالی نہیں بجائی بلکہ ایک دم میرے مقابل بیٹھ گئے اور پھر کہنے لگے ، ’’ شہزور ۔۔۔ شاید تمھیں پتہ نہیں ہے کہ اب شہزاد بھی اس دنیا میں نہیں رہا ۔ ‘‘
میں ایک دم گھبرا گیا ۔ مجھے محسوس ہوا جیسے اب میرا بھی آخری وقت آگیا ہے ۔ میں سہمی ہوئی نظروں سے اُن کی طرف دیکھنے لگا ۔ تو اُن کی آواز اُبھری ، ’’ جانتے ہو وہ حادثہ کیسے ہوا ؟ ‘‘
میری آنکھوں میں شہباز کا سارا حادثہ گردش کرنے لگا ۔ خوف کے مارے میرے بدن میں کاٹے اُگ آئے ، لیکن میں چپ چاپ اُن کی طرف دیکھے جا رہا تھا۔ بڑے بھیا نے پھر ٹہلنا شروع کیا ، اور ساتھ ساتھ کہنے بھی لگے ، ’’ وہ بھی تمہاری طرح ایک روز بلا اجازت ترک ِ مستقر یہاں پہنچ گیا تھا ۔ میں نے اُسے بہت سمجھایا ، لیکن اس نے میری بات نہیں مانی اور اپنے حصے کے لیے بضد ہو گیا ۔ میں نے کہا وہ تو تمھیں میں دے ہی دوں گا ۔ لیکن وقت آنے پر ، میں پرکھوں کی قائم کردہ اس کمپنی کا شیرازہ بکھر نے نہیں دوں گا ۔ وہ غصے کے مارے بپھر گیا ، لیکن اُس کا جسم اُس کے غصے کا ساتھ نہ دے سکا اور اُس کے دماغ کی رگ پھٹ گئی اور وہ ۔۔۔ ! ‘‘
بڑے بھیا خاموش ہو گئے ۔ ایک لمحہ اُنھوں نے میرے چہرے کو پڑھنے کی کوشش کی ، اور پھر پوچھا ، ’’ شہزور تم سن رہے ہو نا ؟ ‘‘
میں نے اُن کی طرف تر چھی نظروں سے دیکھا ، اچانک مجھے گمان ہوا کہ میں اب میں نہیں رہا ۔ میرا سارا چہرہ داڑھی سے بھر گیا ۔ جسم پر زرہ بکتر چمکنے لگا اور کمر میں تلوار جھولنے لگی ۔ میرے چہرے پر سفاک مسکراہٹ نمودار ہوئی ۔۔۔ بڑے بھیا ۔۔۔ میں شہزاد کی طرح اُتھل نہیں ہوں ، اس بار ؤپ نے غلط جال بچھایا ہے ۔ یہ بات اچھی طرح نوٹ کرلو ، نہ میرے دماغ کی رگ پھٹے گی نہ مجھ پر دل کا دورہ پڑے گا اور ناہی میں شہباز کی طرح شکار ہو جاوں گا ۔ ۔۔ میں دل ہی دل میں بڑبڑانے لگا ۔
مجھے اس طرح خاموش دیکھ کر بڑے بھیا نے پھر پوچھا ، کچھ کہنا ہے تمھیں ؟ ‘‘
میں نے کہا ، ’’ جی نہیں ۔۔۔ مجھے جو بھی کہنا تھا وہ میں پہلے ہی آپ سے کہہ چکا ہوں ۔ بس اب اجازت دیجیے حاضر ہوتا ہوں ۔ ‘‘
بڑے بھیا نے میری طرف اُسی طرح شفیق نظروں سے دیکھا جیسے میں نے کبھی شہباز کو دیکھا تھا ۔
’’ چلو کھانا کھاتے ہیں ۔ ڈائینگ ٹیبل پر تمہاری بھابھی معہ بچوں کے منتظر ہے ۔ ‘‘
لیکن میں وہاں سے معذرت کے ساتھ اُٹھ گیا ۔ دراصل میں کوئی جوکھم لینا نہیں چاہتا تھا ۔ جب میں کوٹھی سے واپس ہو رہا تھا تو اُن کے گھر کا ہر پہریدار میری طرف ممنونیت کی نظروں سے دیکھ رہا تھا ۔ میرے چہرے پر مسکراہٹ کھیل رہی تھی اور میں اپنے آپ میں بڑبڑا رہا تھا ۔۔۔ بڑے بھیا مجھے معلوم ہے آپ رات دس بجے آخری سگریٹ پیتے ہیں ۔ خدا کرے آج آپ سگریٹ نہ سلگائیں ۔
اور پھر میں وہاں سے اپنی رہائش گاہ کی طرف لوٹ پڑا ، ۔ دوسرے دن اخبار کی ساری سرخیاں میرے منصوبے کے مطابق تھیں ۔ بڑے بھیا کی کوٹھی میں زبردست دھماکہ ہوا تھا اور گھر کا کوئی فرد بچا نہ تھا ۔ شاید اُن کے گھر موجود سارے ہی گیس سلینڈر کسی نے کھول دیے تھے ۔
شطرنج کی بساط پر سارے ہی مہرے بے جان ہوچکے تھے ۔ وقت میرے حق میں فیصلہ کر چکا تھا اور کمپنی کی جنرل مینجر شپ اب میری منتظر تھی ۔ اپنے نام کا خطبہ جاری کروانے کی خاطر جونہی میں اپنی چھوٹی ہمشیرہ روشن آرا ء کے ساتھ اپنی خاندانی دیوڑھی پر پہنچا تو وہاں پر موجود سیکوریٹی نے مجھے سلامی دی اب مجھے روکنے والا وہاں کوئی نہ تھا ۔ میں کسی فاتح کی طرح شان ِ بے نیازی کے ساتھ راہ داری عبور کرتا ہوا کمان در کمان چلا جا رہا تھا ۔ کمپنی کا سارا عملہ اب میرے قدموں میں تھا ۔ جیسے ہی میں چیمبر میں داخل ہوا ، آپی کو بڑے بھیا کی کرسی پر بیٹھا ہوا پایا ، وہ مجسم تصویر ِ غم بنی ہوئی تھی ۔ روشن آراء نے اُن کی طرف طنزیہ نظروں سے دیکھا اور میں نے آگے بڑھ کر اُن کے ہاتھوں میں سے چابیاں اُچک لیں اور اُس قفل کو جلدی جلدی کھولنے لگا جس میں ابا جان بیمار سانسیں لے رہے تھے ۔ لیکن جونہی میں اندر داخل ہوا میری حیرت کی انتہا نہ رہی ابا جان کا بستر خالی تھا ۔ رضائی کے نیچے صرف تکیے تھے ۔ آس پاس فائلیں بکھری ہوئی تھیں ۔ میری نظریں مقفل الماری پر پڑیں اور میں نے ایک ہی جھٹکے میں اُسے بھی کھول دیا ۔ میرے سامنے وہ وصیت موجود تھی جس کے اسرار جاننے کے لیے ہم سب بے چین تھے ۔ میں نے فوراً اُسے اُٹھا لیا ، اور پڑھنا شروع کیا ۔ میری سانسیں تیز تیز چلنے لگیں ، اور جب میں پوری طرح وصیت پڑھ چکا تو ندامت سے جھکی ہوئی میری گردن اوپر تک نہ اُٹھ سکی ، مجھے چکر سے آنے لگے ، اور میں ابا جان کے پلنگ پر بیٹھ گیا ۔ میری کیفیت کو دیکھ کر روشن آراء ایک دم گھبرا گئی اور مجھ سے دریافت کرنے لگی تو میں نے رک رک کر کہنا شروع کیا ، ’’ روشن ۔۔ ابا جان نے اپنی ساری جائداد اپنے چاروں بیٹوں میں مساوی نساوی تقسیم کر دی تھی ۔ بیٹیوں کے لیے شرعی احکام کی روشنی میں حصے کی تلقین تھی اور اسی وصیت کے آخری صفحے پر بڑے بھیا نے لکھا تھا ، میرے بھائیو ! ابا جان کا انتقال تو اس وصیت کی تکمیل کے بعد ہی ہو گیا تھا ۔ میں نے یہ بات راز میں رکھی تھی اس کے لیے میں تمہارا قصور وار ہوں لیکن میں نے اس خبر کو راز میں رکھنا اس لیے ضروری خیال کیا تھا کہ کہیں اس حادثے کے باعث مارکیٹ سے ہمارا اعتماد نہ اُٹھ جائے ، اور نئی نئی کمپنیاں ہمارے مقابل نہ کھڑی ہوجائیں ۔ ابا جان کی وصیت کے مطابق چاروں بھائی جائداد میں برابر کے حصے دار ہیں ۔ اور میں بڑے بھائی کی حیثیت سے تمھیں اجازت دیتا ہوں کہ تم اپنی اپنی پسند کے مطابق جو چاہو لے لو ، اور تم سب مل کر جو بھی حصہ میرے نام چھوڑنا چاہوگے وہ مجھے منظور ہوگا ۔ لیکن میری گزارش بس اتنی ہے کہ ہماری سالمیت پر آنچ نہ آئے ، پرکھوں کا وقار بحال رہے اور ہماری کمپنی قائم و دائم رہے ۔۔۔
میں چپ ہو گیا ۔ وصیت کو سننے کے بعد روشن آراء نے رونا چاہا ، لیکن رو نہ سکی ، میں نے اپنی آنکھیں موند لیں ، لیکن اب میری آنکھوں میں دور دور تک کوئی گھوڑ سوار موجود نہ تھا ۔