(Last Updated On: )
نہ جانے وہ رات کا کون سا پہر تھا کہ ہر طرف سے چیخ و پکار کی آوازیں آنے لگیں۔اس کی آنکھ کھل گئی مگر وہ یہ سمجھنے سے قاصر تھا کہ یہ شور کیسا ہے۔پھر اس کے کانوں میں میں یہ آواز آئی کہ باندھ ٹوٹ گیا ہے۔وہ تیزی کے ساتھ اُٹھ کھڑا ہوا۔ اس کی بیوی اور بچے بھی بیدار ہو گئے تھے اور اب وہ سب مل کر چیخ چلا رہے تھے۔ وہ دوڑتے ہوئے اپنے کھیتوں پر پہنچا ۔وہاں ہر طرف پانی ہی پانی نظر آ رہا تھا۔ ساری فصل ڈوب کر بر باد ہو گئی تھی۔وہ سر پکڑ کر بیٹھ گیا اور اپنی بے بسی، بے کسی اور لا چاری پر آنسو بہانے لگا۔اب کیا ہوگا؟ گزر بسر کیسے ہو گی؟بینک سے قرضہ لے کر بیج اور کھاد خریدا تھا۔فصل لہلہانے لگی تھی تو اسے امید بندھی تھی کہ بینک کا قرضہ چکانے کے بعد بھی اتنی رقم بچ جائے گی کہ سارا سال آرام سے گزرے گا۔ مگر اس کی ساری اُمیدوں پر پانی پھِر گیا تھا ۔گاوں میں زیادہ تر لوگ غریب ہی تھے لہذا کہیں سے کوئی قرض یا مددملنے کی بھی امید نہیں تھی۔بڑی مشکل گھڑی تھی۔ اس کی بیوی بھی مسلسل روئے جا رہی تھی۔ بچے الگ پریشان تھے ۔ خیر کسی طرح رات کٹی اور صبح کا اجالا پھیلا۔ ہر طرف تباہی و بربادی کا منظر تھا۔ کھیت تو ڈوبے ہی تھے کئی گھروں میں بھی پانی گھس آیا تھا۔ ایسے وقت میں سبھی ایک دوسرے کی مدد کرنے میں لگے ہوئے تھے۔ کچھ سرکاری مدد بھی آئی۔ پھر دھیرے دھیرے حالات معمول پر آ نے لگے۔ لوگ اپنے روز مرّہ کے کاموں میں لگ گئے۔اس نے بھی چاہا کہ پھر سے زندگی کو واپس پٹری پر لایا جائے لیکن اب کھیتی باڑی سے اس کا دل اُچاٹ ہو چکا تھا۔ بہت سوچ وچار کے بعد اسے ایک راستہ سوجھا،کیوں نہ شہر جا کر محنت مزدوری کی جائے۔ اس کے گاوں کے بہت سارے لوگ پہلے ہی سے بڑے شہروں میں کام کیا کرتے تھے اور اچھے پیسے کماتے تھے۔ اس نے اپنی بیوی سے مشورہ کیا اور پھر ایک روز وہ اللہ کا نام لے کر شہر کے لئے روانہ ہو گیا۔ کہا گیا ہے کہ سفر وسیلہ ء ظفر ہے۔ چنانچہ شہر پہنچ کر وہ کام کی تلاش میں لگ گیا اور بہت جلد اسے کام بھی مل گیا۔ آمدنی بھی اچھی ہونے لگی تھی۔ اپنا خرچ پورا کرنے کے بعد وہ باقی رقم گھر بھیج دیا کرتا تھا۔ شہر میں کام کرتے کرتے اسے خیال آتا کہ کھیتی کرنا بھی کتنا مشکل کام ہے۔ سال بھر جی توڑ محنت کرنے کے بعد بھی پریشانی لگی رہتی تھی۔کھیت میں بوائی کرنے کے بعد اس کی دیکھ بھال کرنا،رات رات بھر پہرا دینا،جانوروں او دبنگوں سے کھیت کی حفاظت کرنا ۔اس پر سے کبھی سیلاب،کبھی سُکھاڑ اور کبھی کوئی اور وجہ۔وہ سوچتا کہ اچھا ہی ہوا کہ وہ شہر آ گیا اور کام دھندے سے لگ گیا۔ دن بھر محنت کرو اور شام کو مزدوری لے جاءو۔ نہ کوئی فکر نہ کوئی غم۔
مزدوری کرتے کرتے اسے کام کا کافی تجربہ ہو گیا تھا۔ ایک دن اس کی ملاقات کسی فیکٹری کے مالک سے سے ہو گئی اور پھر اسے فیکٹری میں ملازمت مل گئی۔ اب اسے کام کم کرنا پڑتا تھا اور ماہانہ تنخواہ ملنے لگی تھی جبکہ مزدوری میں یہ ہوتا تھا کہ کبھی کام ملا اور کبھی کام نہیں ملا۔
وہ ہر ماہ ایک بار اپنے گھر کا چکر لگاتا۔اس کے گھر کی حالت سدھر رہی تھی۔ بیوی بچوں کی صحت بھی اچھی رہنے لگی تھی۔ بچے گاو ¿ں کے اسکول میں تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ گاو ¿ں والے بھی اس کی تعریف کرتے اور کہتے کہ اس نے بہت اچھا فیصلہ کیا کہ شہر چلا گیا ورنہ گاو ¿ں میں رکھا ہی کیا ہے؟
وقت گزرتا گیا۔ اس کی بیوی بھی سگھڑ اور ہوشیار تھی۔ اس نے پیسے بچا بچا کر اپنے کچے اورٹوٹے پھوٹے مکان کو دھیرے دھیرے پختہ کرانا شروع کر دیا۔ لیکن وہ کچھ اور ہی سوچ رہا تھا۔زندگی راستے پر آئی تو اس نے نئے نئے خواب بھی دیکھنے شروع کر دئے۔ اب تک وہ کرائے کی ایک جھونپڑی میں تنہا رہتا آیا تھا لیکن جلد ہی وہ دو کمروں کا ایک چھوٹا سا مکان لے کر اپنے گھر والوں کو شہر لانا چاہتا تھا تا کہ وہ سب ایک ساتھ رہیں اور اس کے بچے شہر کے اسکول میں پڑھ سکیں۔
ابھی وہ مستقبل کے تانے بانے بُن ہی رہا تھا کہ اسے معلوم ہوا کہ چین میں کوئی نئی وبا آئی ہے جس سے لوگ دھڑا دھڑ مر رہے ہیں ۔اور پھر سننے میں آیا کہ اب دوسرے ممالک بھی اس کی چپیٹ میں آ تے جا رہے ہیں۔لیکن اپنے ملک میں ایسی کوئی خبر نہیں تھی اور سب کچھ حسب معمول چل رہا تھا ۔لیکن یہ اطمینان زیادہ دنوں تک قائم نہ رہ سکا۔یہاں بھی اس خطرناک وائرس نے دستک دی اور فضاءمیں ایک انجانا سا خوف پھیل گیا۔ ہر شخص سہما سہما سا دکھائی دینے لگا۔اس کے دل میں طرح طرح کے اندیشے جنم لینے لگے ۔اس نے اپنے آس پاس نظریں دوڑائیں۔ سب کچھ حسب معمول تھا۔ زندگی رواں دواں تھی اور سارے کام اپنے مقررہ وقت پر انجام پا رہے تھے۔ پھر ایک دن اس نے سنا کہ پردھان منتری آج رات آٹھ بجے قوم کے نام کوئی پیغام نشر کرنے والے ہیں ۔اور پھر جب رات آٹھ بجے یہ اعلان ہوا کہ ملک بھر میں اکیس دنوں کے لیے لاک ڈاو ¿ن کر دیا گیا ہے۔آنے جانے والی سبھی سواریوں کو روک دیا گیا ہے اور یہ حکم نافذ ہوا ہے کہ جو جہاں ہے وہیں رہے گا تو سبھوں کے اوسان خطا ہو گئے۔ادھر سارے کام دھندے بند ہو گئے۔ فیکٹریوں میں تالے لگ گئے ۔مشینوں کی آوازیں بند ہو گئیں اور مزدور لوگ اپنے اپنے گھروں کی جانب پیدل ہی روانہ ہو گئے۔ اس نے بھی اپنا مختصر سا سامان اُٹھایا اور پیدل چلنے والوں کے قافلے میں شامل ہو گیا۔ اسے نہیں معلوم تھا کہ اس کا گھر یہاں سے کتنے میل کے فاصلے پر ہے اور وہاں تک پہنچنے میں اسے کتنے دن لگیں گے۔ مگر ابھی یہ سب سوچنے کا وقت نہیں تھا۔وہ تو بس ایک بھیڑ کا حصہ تھا۔ اس سفر میں ان بے یار و مددگار لوگوں کو طرح طرح کی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ بھوکے پیاسے پیدل چلنے والوں کو پولس والوں نے کہیں ڈنڈے مارے تو کہیں مرغا بنایا اور کہیں جانوروں کی طرح گھٹنوں کے بل چلنے پر مجبور کیا گیا۔راستے میں بھوک پیاس اور تھکن سے نڈھال ہو کر لقمہ ¿ اجل بھی بن گئے۔مگر جو سخت جان تھے وہ چلتے رہے۔ وہ بھی کسی طرح تین دن اور تین رات کی مسافت کے بعد اپنے گاوں پہنچا۔گھر جانے سے پہلے راستے میں اسے اپنے کھیت ملے جو ویران پڑے تھے۔ انہیںدیکھ کر اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے اور وہ وہیں زمین پر بیٹھ گیا اور پھر اپنے کھیت کی ایک مٹھی مٹّی کو ہاتھوں سے اُٹھا کر اپنی آنکھوں سے لگایا اور روتے ہوئے بولا۔
”اب میں تمہیں چھوڑ کر کبھی نہیں جاؤں گا۔ کبھی نہیں۔“
٭٭٭
نشاط پروین