’شامو ناچا؟ یہ کیسا نام ہوا؟ یہ کیا ناچتا رہتا ہے؟‘ میں نے بھورے شاہ بخاری کے مزار پر لیٹے ہوئے ملنگ کے بارے میں منشی اختر علی سے پوچھا جس نے اس سائیں نما شخص کا یہ عجیب نام بتایا تھا۔
’جی اسپیکٹر صاب، اب یہی نام ہے اس کا۔‘
’اب مطلب؟ اصلی نام کیا ہے اس کا؟‘
’دراصل جی اس کا اصل نام شہاب علی تھا جی، بس عشق کا روگ لگ گیا تھا، تب سے اسی مزار پر پڑا ہے۔‘
’اور یہ جو اتنی ساری کڑیاں ہیں اس کے دونوں پاؤں میں؟‘
’یہ جی منت کی ہیں۔ کل بارہ کڑیاں ہیں۔‘
’بارہ کیوں ہیں؟ اور تمہیں کیسے معلوم کہ بارہ ہیں؟‘، مجھے پیشہ ورانہ تجسس نے آ لیا۔
’منشی ایک بار پوری بات کیوں نہیں بتاتا؟ تھانے تو نہیں چلنا تو نے میرے ساتھ؟‘، میں نے مصنوعی غصہ کا اظہار کرتے ہوئے دھان پان سے منشی کو کندھے پر ایک ٹہوکا دیا۔
منشی لڑکھڑاتے ہوئے پھیکی سی ہی ہی کرتے ہوئے بولا، ’اسپیکٹر صاب آپ کدھر مراثیوں کے بارے پوچھ گچھ کرنا شروع ہوگئے ہیں۔ اپنی شان کے مطابق چوہدریوں سے رابطے رکھیں‘۔
’او تو میری شان کی فکر نہ کر۔ یہ ملنگ یا مراثی جو بھی ہے، مجھے اس کی کہانی بتا‘، میرا غصہ اب زیادہ مصنوعی نہ رہا۔ ویسے بھی ولی پور میں مجھے تعینات ہوئے دوسرا مہینہ تھا۔ کوئی خاص کام تو یہاں تھا نہیں۔ فیصلے یا تو پنچایت کرتی تھی یا پھر چوہدری گلزار علی۔ تھانے کے چکر میں لوگ کم ہی پڑتے تھے۔
ہم چلتے چلتے حنیف چائے والے کے ڈھابے تک پہنچ چکے تھے۔ میں نے اپنے کھاتے میں دو دودھ پتی کا آرڈر دے دیا۔
’یہ جی تیرہ سال پہلے کی بات ہے‘، منشی نے بولنا شروع کیا۔ ’ایک خانو مراثی ہوا کرتا تھا۔ یہ اسی کا بیٹا ہے۔ خانو نے اسے کبھی ناچ گانے اور ڈھول واجوں کے نیڑے بھی نہیں پھڑکنے دیا۔ اکلوتا تھا نا جی۔ اس کی بیوی تو شہاب علی کو جنتے ہی مر گئی تھی۔ اکیلا ہی پالتا رہا بیٹے کو۔ پھر اسے شہر پڑھنے کو بھیج دیا۔ چوہدری گلزار علی نے خانو کو ایک ایکڑ دے رکھا تھا مسجد کے ساتھ والی زمین پر۔ زیادہ گزر بسر اسی زمین سے ہوتی تھی جی باقی ڈھول ڈھمکا تو اکا دکا شادی بیاہ پر ہی ہوتا تھا۔ پھر جی اس کا بیٹا واپس آیا۔ سنا تھا شہر میں کسی مقابلے کے امتحان میں پاس ہوکر آیا ہے۔ اب جلدی صاحب لگ جائے گا کہیں۔ لیکن کیا پتا تھا جی کہ اس کا ابھی اور امتحان باقی ہے‘، منشی نے چائے طشتری میں ڈال کر سڑکی لگائی اور پھر بولا۔
’قسمت خراب، ایک دن باپ کے ساتھ زمین پر ہل چلاتے مسجد کے قریب مولوی کفایت کی بیٹی بانو کو دیکھ بیٹھا۔ اسپیکٹر صاب، عشق مشوقی مولوی یا مراثی نہیں دیکھتی۔ وہ اپنے آپ میں چوہدری ہوتی ہے‘، منشی اختر علی اس وقت مجھے ایک سستا سا فلاسفر لگا۔
’خیر اسپیکٹر صاب، آگ دونوں پاسے لگ پڑی تھی۔ خانو نے بہتیری مت دی بیٹے کو لیکن مجبور ہوکر ایک دن مولوی کے گھر چلا گیا۔ مولوی کفایت نے وہی کیا جو اسے کرنا چاہیے تھا۔ ایسا بست کیا جی خانو کو کہ کہیں منہ دکھانے لائق نہ چھوڑا۔ اور تو اور سارے ولی پور اور آس پاس کے علاقوں میں بھی بات پھیلا دی۔ شامو نے بانو کو بھاگ چلنے کی صلاح دی لیکن وہ عین ٹائم پر مکر گئی۔ وہ اپنی اور باپ کی بدنامی سے ڈر گئی تھی جی۔چوہدری گلزار علی کے چھوٹے بیٹے کی نظر بھی بانو پر تھی۔ اس کو پتا چلا تو آدمی بھیج کر دونوں باپ بیٹے کو لمیاں پوا لیا۔ شامو حواس کھو بیٹھا جی، سائیں ہوگیا۔ خانو کے لیے تو دنیا مک گئی، جوان بیٹا ملنگ ہوگیا، زمین بھی چوہدری نے واپس لے لی۔ پورے علاقے میں مذاق الگ بنا۔ لوگ آوازے کستے، ٹھٹھا اڑاتے۔ مرگیا جی پھر خانو اور یہ ادھر بھورے شاہ بخاری کے مزار پر پڑا رہتا ہے۔ ہر سال بابے کے عرس پر ایک کڑی اور چڑھا لیتا ہے۔‘
’بانو کہاں ہے اب؟‘ میں نے چائے کا آخری گھونٹ لیتے ہوئے پوچھا۔
’وہ تو جی چوہدری گلزار علی کے منڈے سے بیاہی گئی جی، چوہدری مختار علی سے۔ لیکن بارہ سال سے اولاد کوئی نہیں ہوئی۔ ہر سال عرس پر بانو بھی منت مانگنے آتی ہے جی۔ شامو ناچے کا دھمال دیکھنے والا ہوتا ہے۔ اس بار بابا بھورے شاہ بخاری کے عرس پر الگ ہی رنگ تھا۔ چوہدری مختار علی نے بڑے لنگر کا اہتمام کیا تھا۔ بانو کا پاؤں بھاری ہوگیا تھا۔ منت اتارنے خود آئی تھی۔ اس کا چہرہ دمک ریا تھا۔ شامو ناچا اپنے مدار میں مست دھمال ڈالے ہوئے تھا۔ اتنی ہوائی فائرنگ ہو رہی تھی جیسے جنگ چھڑ گئی ہو۔ بانو منت اتار کر مختار کے ساتھ واپس حویلی جانے کو مزار سے باہر آئی ہی تھی کہ ایک گولی اس کے پیٹ کو چیرتی ہوئی کمر سے پار ہوگئی تھی۔ فائرنگ بند ہوگئی۔ دھمال رک گیا۔ شامو ناچا مزار کے احاطے میں دیوار سے ٹیک لگائے بیٹھا تھا۔ ڈسپنسری کی نرس جمیلہ بھی عرس میں موجود تھی۔ اس نے سر پیٹتے چوہدری مختار علی کو دیکھتے ہوئے نفی میں سر ہلا دیا۔ مختار کی دلخراش چیخ بلند ہوئی، شامو ناچا یہ آواز سنتے ہی منت کی کڑیاں اپنے پاؤں سے اتارنے لگا۔‘