” پھر خدا نے عورت کو بنانا چاہا مگر گندھی مٹی ختم ہو چکی تھی ۔ اس نے سوچا کیوں نہ عورت کو ایک نیا رنگ دوں ؟ یہ خیال آتے ہی خدا نے چاند سے چمک لی ، سمندر سے گہرائی اور موجوں سے روانی حاصل کی ۔ ستاروں سے جھلملاہٹ ، سورج سے گرمی اور شبنم سے اسکی مسحور کن طراوت ۔ سیماب سے بے قراری لی گئی۔ شہد سے حلاوت، خرگوش سے اسکی شرم اور قمری سے اس کا نغمہ ۔
ان سب چیزوں کو ملا کر جو مجسمہ تیار ہوا اس کا نام عورت رکھا گیا ۔ فرشتوں نے پوچھا ۔ ” اے خالق ارض و سما ! تو نے اپنی طرف سے اس میں کیا چیز شامل کی تو جواب آیا ۔
” محبت ”
اس پر فرشتے سر بہ سجود ہو گئے ۔ ”
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
حاویہ نے جھونپڑی سے باہر قدم رکھا ۔ اس کا وجود ایک الوہی ہالے میں لپٹا محسوس ہو رہا تھا ۔ اس کی آنکھیں ستاروں کی مانند جگمگا رہی تھیں ۔ اسکے لبوں پہ دلفریب مسکان تھی اور اسکی گود میں دبکا نو مولود اس بات کا پیغام تھا کہ قبیلے کا وجود محض عورت کے دم سے قایم ہے ۔ وہ سب حاویہ کے سامنے سجدہ ریز ہو گئے ۔دور سے مردوں کی ایک ٹولی آتی دکھائی دی ۔یہ لوگ ہفتوں پہلے شکار کو گئے تھے ۔ سب نے بڑھ کر ان کا استقبال کیا ۔ کچھ عورتوں نے شکار سنبھالا اور کچھ نے شکاریوں کو آرام دہ ٹھکانوں تک پہنچایا ۔ یہ مضبوط اور جوان مرد جنگل جنگل بھٹک کر ، اپنی جان جوکھوں میں ڈال کر تکلیفیں سہہ کر اپنے قبیلے کے بچوں ، بوڑھوں اور عورتوں کے لئے شکار مار کر لاتے تھے ۔اس لئے قبیلہ ان کے آرام کا ہر طرح خیال رکھتا تھا ۔ جن دنوں یہ شکاری آرام پہ ہوتے وہ یہ دیکھ کر حیران رہ جاتے کہ ان کی غیر موجودگی میں عورتیں کیا کچھ کر ڈالتی ہیں ۔ رہنے کے ٹھکانے بہتر سے بہتر ہوتے جا رہے تھے ۔ عورتیں ہر طرح کے پودوں کو پتوں سے جڑوں تک کھنگال کر یہ دریافت کرتی جا رہی تھیں کہ ان کے کون سے حصوں کو کھایا جا سکتا ہے اور کون سے حصے جسمانی تکالیف اور دکھ درد کو آرام پہنچاتے اور زخموں کو بھرتے ہیں ۔نرم و نازک ٹہنیوں کے تانوں بانوں سے ستر کیسے ڈھانپی جا سکتی ہے ؟ سخت لکڑیوں کی مدد سے مضبوط ٹھکانے کیسے بنائے جا سکتے ہیں ؟ ؟ پھولوں ، پتوں سے آرائش زیبائش کا کام کیونکر لیا جا سکتا ہے ؟؟؟ بیجوں سے نئےپودے اگانا، مختلف جانوروں کو قابو کر کے انہیں پالتو بنانا اور بھرپور فائدہ اٹھانا ، خوراک کو محفوظ کرنا ، کاشت کاری کے نت نئے طریقے ۔ پناہ بخدا ! عورتوں کا دماغ کسقدر تیز ہے ۔
یہ زندگی کو ہر دم آسان بنا رہی ہیں ۔ نت نئے گر انہیں ہی سوجھتے ہیں ۔ بچے ہیں تو انہی کے دم سے دنیا میں آتے ہیں ۔ ہم کیا کرتے ہیں ؟ شکار کیا اور فارغ ۔ گویا ہم بھی مفید پالتو جانور ہیں ۔
بچے ہیں تو عورت کے ، گھر ہے تو عورت کے دم سے ،سب رونقیں اور سرگرمیاں اسی ہستی کے گرد گھومتی ہیں تو عورت دیوی ہے ، ماں ہے ، معاشرے کی سر پنچ ہے ، اے عورت تیری عظمت کو سلام ۔ شجرہ نصب تیری طرف ہے اور وراثت کی منتقلی بھی تیری جانب سے ہے ۔ یہ وہ عزت اور احترام تھا جو مادر سری معاشرے میں عورت کو حاصل تھا ۔ ہر طرف عورت راج تھا اور حاویہ کی طرح پہلی مرتبہ ماں کے منصب پہ فائز ہونے والی عورت کو سجدہ کیا جاتا تھا ۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
نعیمہ نے کرسی کی پشت سے سر ٹکا کر آنکھیں بند کر لیں ۔ سر بوجھل تھا اور اسے چائے کی شدید طلب ہو رہی تھی ۔ اس نے گھنٹی پہ انگلی رکھی تو کچھ دیر میں ہی ملازم چائے لے کر حاضر ہو گیا ۔ ساتھ ہی ڈھولک کی تھاپ اور کچھ بے سری آوازیں بھی چلی آئیں ۔ اف یہ دیہاتی ، گنوار رشتے دار ۔ نعیمہ نے بے زاری سے سوچا ۔ ان سے پیچھا چھڑانا کتنا مشکل ہے ۔ شادی بیاہ کے موقع پہ دنوں پہلے فضول رسموں کے نام پہ جمع ہو جاتے ہیں ۔ چائے کا گھونٹ بھر کر اس نے پھر سوچا ۔ یہ میرا گھر جس کا نام رشک ارم ہے ، پہلی بچی کی شادی کے موقع پہ اسے مزید رشک ارم بنا دیا گیا ہے ۔ از سر نو اسکی نوک پلک سنواری گئی ہے ۔ رات کو یہ برقی قمقموں سے جیسے بقعہ نور بن جاتا ہے ۔
نعیمہ نے گہری سانس لے کر اپنے شوہرسرشار سعید کی تصویر پر ایک نظر ڈالی ۔ سر شار سعید جنہوں نے زمین پہ یہ جنت سجائی تھی اور نعیمہ ان کی پہلی بیگم تھی ، پہلی جسکے بارے میں وہ کہتے تھے کہ وہ ان کی پہلی اور آخری محبت ہے ۔ پر دعویٰ دھرا کا دھرا رہ گیا کہ نعیمہ نے چار بچیوں کو پیدا کیا تھا اور وہ اولاد نرینہ سے انہیں نہیں نواز سکی تھی ۔ اتنی بڑی بزنس ایمائر ان کے بعد تباہ ہو جاتی ۔ اربوں کی جائیداد ٹکڑوں میں بٹ جاتی ۔ نہیں ہم نے کئی نسلوں سے اپنی زمین جائیداد کی حفاظت کی ہے ۔ ہر نسل اس میں بے پناہ اضافہ کرتی رہی ہے ، میں اسے تباہ نہیں ہونے دوں گا ۔
کیا کرو گے ۔ اللہ سے جنگ یا دوسری شادی ؟ نعیمہ ہنس کر پوچھتی ۔ جواب میں خاموشی پا کر اس کا دل دھڑک اٹھتا ۔ وہ سوچتی کہ کیا ضروری ہے کہ پانچویں مرتبہ لڑکا ہی ہو ۔ اس نے کئی عورتوں کو سات ، آٹھ ، گیارہ بارہ لڑکیاں پیدا کرکے اپنی صحت تباہ کرتے دیکھا تھا ۔ کئی خیر خواہوں نے مشورہ دیا کہ چپکے سے کوئی لاوارث بچہ گود لے کر اپنا بیٹا ظاہر کرواور جان چھڑاؤ اس مسئلےسے ۔ پر نعیمہ کوئی فیصلہ نہ کر سکی اور دھماکہ ہو گیا ۔سرشار صاحب نے دوسری شادی کر لی اور نعیمہ کو قسمیں کھا کھا کر یقین دلایا کہ اگر اسکے ماں باپ اسے مجبور نہ کرتے تو وہ یہ قدم کبھی نہ اٹھاتا ۔ زرمین غریب گھرانے کی ایک کمزور سی عورت ہے ، وہ نعیمہ کے روز وشب کو کسی طرح متاثر نہ کر سکے گی ۔ اسے الگ گھر میں رکھا جائے گا ۔ گو کہ ایسا ہی ہوا پر نعیمہ کے دل پہ لگی گرہ نہ کھل سکی ۔
گاؤں میں لمبی چوڑی جاگیر پہ بیٹھی سرشار صاحب کی والدہ کی خواہش تو یہ تھی کہ بیٹے کا دوسرا نکاح زینت سے ہی ہو جو اسکی ٹھیکرے کی مانگ تھی پر اسے چھوڑ کر بیٹے نے نعیمہ سے بیاہ رچا لیا تھا ۔ اس نے کسی تقریب میں نعیمہ کو دیکھا تھا اور اسکے حسن و جمال پہ مر مٹا تھا ۔ ان کے خاندان میں لڑکیوں کے لئے رشتوں کا سخت کال تھا ۔ باہر وہ بیاہتے ہی نہ تھے کہ جائیداد خاندان سے باہر نہ جائے ۔ بہترے بے جوڑ رشتے خاندان میں ہی بھگتانے کے باجود بے شمار لڑکیاں گھر بیٹھے بیٹھے ہی بوڑھی ہو جاتی تھیں ۔ سرشار کی دو بہنیں ثنا اور نور بھی کنواری رہ گی تھیں اور زینت جو اسکی منگیتر اور خالہ زاد تھی وہ ماں باپ کے مرنے کے بعد سرشار کی حویلی میں ہی رہتی تھی ۔ والدہ کو بہت آس تھی کہ اولاد نرینہ کی خاطر سرشار زینت سے نکاح کر لے گا پر اس نے تو اپنی فیکٹری میں کام کرنے والی ایک لڑکی سے نکاح کر لیا ۔
اسکی اس حرکت نے والدین اور برادری کو بےحد مایوس کیا ۔ سب کے دلوں میں طوفان بھرے تھے کہ زرمین نے ایک بیٹے کو جنم دے دیا ۔ شہری ریاست اور دیہاتی جاگیر میں شادیانے بجنے لگے ۔ولی عہد آ گیا تھا ۔ پر جشن طرب جونہی ٹھنڈا پڑا ۔ خاندانی عدالت لگ گئی ۔ والدین نے فیصلہ صادر کیا کہ بہت من مانی کر لی ۔ اب زرمین کو رخصت کرو اور بچہ بڑی بیگم یعنی نعیمہ کی گود میں ڈال دو ۔ وہی اس کی پرورش کرے گی ۔سرشار نے بہت اڑنے کی کوشش کی۔ نعیمہ کو بھی پرایا بچہ پالنے کا کوئی شوق نہ تھا مگر ان دونوں کی ایک نہ چلی ۔رہی زرمین تو وہ بیچاری تو گریجویشن کے بعد سرشار انڈسٹری میں ملازمت کے لئے آئی تھی ۔ باپ فالج سے معذور تھا ۔ چھوٹے بہن بھائی پڑھ رہے تھے ۔ آمدن کے ذرائع مفقود تھے۔ لہذا اسے ہی گھر کو سنبھالنا تھا ۔ اس نے صرف دو ماہ ہی ریسپشنسٹ کی ڈیوٹی دی تھی کہ سرشار صاحب نے اسے شادی کی پیش کش کر دی تھی ۔ اسکے گھرانے کو ہر سہولت اور تحفظ دینے کا یقین دلایا تھا ۔
کام کے دوران رنگ برنگی نگاہوں کے تیر ، سرکاری ہسپتال سے باپ کا علاج جس کا کوئی فائدہ نہ تھا ، محلے کے دکاندار کا دن بہ دن چڑھتا قرض ، بہن بھائیوں کے اترے ہوئے چہرے اور آنکھوں میں پنہاں حسرتیں ، باپ کی صورت پہ منجمد کرب اور ماں کی ہر دم اشک برساتی آنکھیں۔۔۔۔۔۔ زرمیں کب تک اس صورت حال سے لڑتی ۔ یہ تو قسمت اسے ایک باعزت موقع فراہم کر رہی تھی ۔ اس نے سر جھکا دیا ۔سرشار صاحب نے شہر کے بہترین مقام پہ ایک بڑا بنگلہ خرید کر زرمین کے نام کیا اور اسے اور اسکے خاندان کو زندگی کی ہر سہولت فراہم کی ۔بیٹے کی پیدائش نے تو اسکو زمین سے اٹھا کر فلک پہ پہنچا دیا تھا مگر ایک مفلس و مجبور لڑکی کی زندگی میں اول تو بہار آتی ہی نہیں اور اگر بھولی بھٹکی آ جائے تو اسکی مدت بہت کم ہوتی ہے ۔ ساہو کاروں اور مہاجنوں کی دنیا کے فریب کارایک ہاتھ سے کچھ دیتے ہیں تو بدلے میں سو ہاتھوں سے جسم کا گوشت تک نوچ لیتے ہیں ۔ زرمین جیسی لڑکیاں ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں سو زرمین نے طلاق کے کاغذ پہ چپ چاپ دستخط کئے ، پوتا دادا کی آغوش میں ڈالا اور بدلے میں اپنے خاندان کی آسودہ زندگی حاصل کر کے سرشار کی زندگی سے ہمیشہ کے لئے نکل گئی ۔
زرمین کے بیٹے زر تاج کو جب نعیمہ کی آغوش میں ڈالا گیا تو سرشار صاحب خاصے افسردہ تھے ۔ اپنے والدین سے شاکی بھی تھے پر کچھ دن بعد ہی شانت ہوگئے وہ مالدار عیاش نہ تھے ۔ ان کی عیاشی تو کاروبار بڑھانا، حریفوں کی چالوں سے نمٹنا اورنت نئے طریقوں سے زر میں اضافہ کرنا ہی تھ ۔ دو دو گھروں میں دیوٹی دینا، ایک حسینہ اور دوسری عام سی لڑکی کے ناز اٹھانا ان کے لئے آسان نہ تھا ۔ چلو قصہ ختم ہوا ۔ نعیمہ جو ہر دم روٹھی روٹھی سی لگتی تھی اب مان جائے گی ۔
زرتاج شہزادوں کی طرح پل رہا تھا ۔ چاروں بہنوں کی جان تھا ۔ نعیمہ بھی ہر طرح خیال رکھتی تھی ۔ خوبصورت لوگوں کے گھر میں یہ سانولا سا عام نین نقش رکھنے والا بچہ کچھ اوپرا سا لگتا تھا مگر گھر کے مکینوں کو اسکی کچھ پرواہ نہ تھی ۔
زندگی کادریا ہلکورے لیتا آگے بڑھتا گیا ۔ سرشار کے والد جیون ندیا کے پار جا اترے ۔ گاؤں کی حویلی میں اماں ثنا، نور اور زینت کے ساتھ نوکروں کی فوج پہ حکومت کرتیں ۔ چھٹیوں میں نعیمہ کو بچوں کے ساتھ وہاں لازمی جانا پڑتا۔ اسے یہ دیکھ کر سخت وحشت ہوتی کہ زینت سرشار کے گرد منڈلاتی رہتی اور اماں کو شائد ابھی بھی گمان تھا کہ سرشار کسی روز اسے اپنا لے گا ۔ ثنا اور نور کی خالی آنکھیں اور چڑچڑا پن بھی قابل رحم تھا ۔ نعیمہ کی بڑی بیٹی مہ جبیں ضرورت سے زیادہ حساس تھی ۔ اسے اس آسیبی حویلی میں زندگی گزارتی دادی اور پھوپھیوں پہ بے حد رحم آتا تھا ۔ وہ اکژان کے بارے میں سوچتی رہتی اسی لئے جب وہ یونیورسٹی تک پہنچی اور سماجیات کا مضمون منتخب کیا تو اس کی تحقیقات کا موضوع انسانی ارتقاء میں عورت کا کردار تھا ۔ مہ جبیں نے اپنے مقالے پہ بے حد محنت کی اور تحقیق و تفتیش سے ایسا عمدہ مقالہ لکھا کہ اسے گولڈ میڈل ملا ۔ اس نے اپنا مقالہ اپنی ماں کے نام کیا تھا ۔
گزشتہ دس بارہ روز سے یہ دستاویز نعیمہ کے زیر مطالہ تھی ۔ مادر سری معاشرے سے موجودہ دور تک عورت کی یہ داستان اتنی حیرت انگیز تھی کہ نعیمہ بار بار اپنی مصروفیات سے بچ بچا کر اپنے کمرے میں آتی اور اسے کھول کر بیٹھ جاتی اور حیرت سے سوچتی کہ یہ سب کچھ میری بچی نے لکھا ہے جو ابھی کل تک پنگھوڑے میں جھولتی تھی ۔ یہ کب اتنی بڑی ہوئی ؟ یہ شعور اور قابلیت اس میں کہاں سے آئی ؟َ؟
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
رفتہ رفتہ انسانی معاشرے ارتقاء کی سیڑھیاں چڑھتے چلے گئے ۔ زراعت و تجارت کے نت نئے راستے کھلتے گئے ۔ پہلے پہل تو ان دھندوں کو محض عورتوں کے مشاغل سمجھا گیا پھر آہستہ آپستہ مردوں کو ادراک ہوا کہ صرف شکار سے بات نہیں بنتی اصل دولت اور طاقت کے راستے اور ہیں ۔ انہوں نے شکار سے ہاتھ کھینچا اور دوسری اطراف پہ بھی طبع آزمائی شروع کی ۔ جلد وہ جان گئے کہ یہ عورتیں جو ہر طرف چھائی ہوئی ہیں ان میں کچھ کمزوریاں بھی موجود ہیں ۔ سب سے بڑی کمزوری تو ان کے بچے ہیں جنہیں پا کر یہ مادی اشیاء کو بے وقعت سمجھنے لگتی ہیں ۔ یہ اپنے گھر کو پوری دنیا سے بڑھ کر فوقیت دیتی ہیں ۔ بہت رحمدل ہونے کے باعث بہت مقامات پہ مار کھا جاتی ہیں ۔ چناچہ انہوں نے عورتوں پہ قابو پانا شروع کر دیا ۔ ہل چلانے اور ہمہ وقت محنت کرنے کے باعث ان کی جسمانی قوت مزید بڑھنے لگی جبکہ عرتوں نے ان مصروفیات کو چھوڑا تو ان کے جسم نازک اندام ہوتے گئے ۔ پدر سری معاشرے نمودار ہونے لگے ۔وراثت اور نسب باپ کی طرف جانے لگا ۔ دیویوں کی جگہ دیوتا لیتے چلے گئے ۔ مردوں کو یہ بات سمجھ آنے لگی کہ جتنی بیویاں وہ جمع کریں گے اتنے ہی زیادہ بچے ان کو ملیں گے ۔ چناچہ زور جبر اور خرید و فروخت کے ذریعے عورتوں کو جمع کیا جانے لگا ۔ غلام منڈیاں رواج پانے لگیں ۔
عورتوں کی حیثیت گھٹانے اور انہیں مزید دبانے کے لئے انہیں مذہبی رسومات سے نکالا جانے لگا ، مارا پیٹا جانے لگا ۔ یہانتک کہ قبائل میں ان کا مقام روز بروز گرنے لگا ، حیثیت کم سے کمتر ہوتی گئی یہانتک کہ پالتو جانور اور موروثی جائیداد جیسی ہو گئی ۔ کبھی کے دن بڑے کبھی کی راتیں ۔ عورت کو وہ سکھ ، وہ عزت دوبارہ کبھی نصیب نہ ہوئی جو مادر سری معاشرے میں اسے حاصل تھی ۔ اسے شیطان کی بیٹی اور زہریلی ناگن قرار دیا گیا ۔ اس پر ایسےایسے ستم توڑے گئے کہ انسانیت تھرا گئی یہانتک سوال اٹھائے گئے کہ عورت انسان ہے بھی یا نہیں ؟ اسکے منہ پہ لگانے کے لئے قفل ایجاد کئے گئے اسے زمین میں زندہ گاڑھا اور آگ میں جلایا گیا ۔ اسکی صرف ایک حیثیت مردوں کو یاد رہی اور وہ تھی اسکی جوانی اور خوبصورتی ۔ اب مردوں کے لئے وہ صرف چابی کا ایک کھلونا تھی ۔ جب تک جی چاہے کھیلو اور جب چاہو توڑ مروڑ کر پھینک دو ۔ دنیا میں بڑی بڑی تہزیبوں نے جنم لیا مگر عورتوں کے معاملے میں یہ کنجوس اور تھڑدلی ہی رہیں ۔ اگر عرب بیٹیوں کو زندہ گاڑھتے اور عورتوں کو جوئے میں ہارتے تھے تو متمدن اہل روم و یونان اور ایرانی عورت کو ایک نحس جانور سمجھتے تھے ۔ ان معاشروں میں عورت کو صرف تین مقاصد کے لئے زندہ رکھا جاتا تھا تعیش، تجارت اور حصول اولاد ۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
دروازے پہ چرچراہٹ ہوئی ۔ صغراں نے اندر جھانک کر اعلان کیا ۔ ” بی بی جی ! چھوٹی بی بی پارلر سے واپس آ گئی ہے ۔”
یہ مہ جبیں کی شادی کے دن تھے ۔ وہ ایک شاندار پارلر سے دلہن کا کئی روزہ بیوٹی پلا لے رہی تھی ۔ نعیمہ نے گھڑی پہ نگاہ کی ۔ اسے احساس ہوا کہ وہ بہت دیر سے بیٹی کے مقالے کے مطالعے میں مصروف تھی ۔ پر وہ کیا کرتی ۔ یہ تحریر اسے تاریخ کے ایوانوں میں کھینچ لے جاتی تھی جہاں اسے دیویاں ، شہزادیاں ، ملکائیں اور پریاں دکائی دیتیں تو کبھی زنجیروں میں جکڑی ، شعلوں میں لپٹی اور ریت میں گڑھی نسوانیت روتی کراہتی نظر آتی۔لیکن تاریخ کے زندانوں میں روتی بلکتی ان عورتوں کے ساتھ اسے ملکہ سبا کی جھلک بھی دکھائی دی جو سلیمان علیہ السلام جیسے جلیل القدر پیغمبر کے ساتھ اپنی پوری قوم کا مقدر جوڑنے میں کامیاب رہی ۔ یہیں بی بی آسیہ کا چہرہ دکھائی دیا جنہوں نے ایک دریا کی لہروں پہ موجزن بچے کو پالا پوسا ۔پھر بی بی حاجرہ صفا مروہ پہ بھاگتی نظر آئیں ۔بی بی مریم کے بھی درشن ہوئے ۔ ۔۔۔۔۔
نعیمہ نے فائل میز پہ رکھی اور بال درست کرتی باہر نکل آئی ۔ ہال میں مہ جبیں اپنی سہلیوں کے جھرمٹ میں بیٹھی تھی ۔ آج رات اس کی نور پھو پھو نے اسکے لئے ڈھولک رکھوائی تھی۔ پورا گاؤن ہی پہلی بچی کی شادی میں امڈ آیا تھا ۔ اور خوب رونق لگی تھی۔ اسی لمحے سر شار صاحب بھی آ گئے ۔ وہ کافی دیر ہال میں بیٹھے رہے جہاں رشتے دار خواتین شادی کی رسومات ادا کر رہی تھیں ۔ان کی والدہ تو جیسے خوشی سے کھلی پڑ رہی تھیں ۔ ننھیال کی طرف سے کوئی نہ تھا کہ نعیمہ کے والدین مر چکے تھے اور اکلوتا بھائی امریکہ جا بسا تھا ۔ ہاں نعیمہ کو ایک بہت بڑی اور شاندار رسم حنا رخصتی سے ایک دن پہلے کرنی تھی جسمیں شہر کے عمائدین اور دوست احباب شامل ہوتے ۔
کمرے میں آ کر سرشار صاحب نے نعیمہ پہ ایک نظر ڈالی تو انہیں لگا کہ وہ اور بھی خوبصورت اور باوقار ہو چکی ہے جبکہ آئینے میں خود وہ بوڑھے بوڑھے سےلگ رہے تھے ۔
” زیورات آ گئے ہیں ؟ ” انہوں نے پوچھا ۔
” جی ! ”
” اور حسن سلک والوں نے ملبوسات بھجوا دئیے ؟ اچھی طرح خیال رکھنا ۔ امی ، بہنوں اور برادری کی سب خواتین کے شیان شان لباس ہونے چاہییں ۔ ” جی ! بے فکر رہیں ۔”
” اللہ کا شکر ہے کہ جہیز کا تمام تر سامان بنگلے میں پہنچ گیا ہے ۔ کھانے کا بندوبست بھی سب سے اعلیٰ ریزارٹ میں ہے ۔ ” سرشار ساحب نے اطمینان کی سانس لے کر کہا ۔ ” میں چاہتا ہوں کہ بجٹ بارہ پندرہ کروڑ سے آگے نہ بڑھے ۔ ابھی تین اور بھی بیٹھی ہیں ۔ ”
نعمہ خاموش رہی ۔زرتاج چھٹی جماعت میں تھا اور سرشار صاحب بیشتر اثاثے اس کے نام منتقل کرتے جا رہے تھے ۔ بچیوں کے لئے وراثت میں کچھ نہ تھا جو دینا لینا تھا بس شادی کے موقع پہ ہی تھا اور وہ بھی دینا کم اور نمود و نمائش پہ زیادہ خرچ کرنا ۔۔۔۔۔۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
عورت جب اپنی سماجی اور معاشرتی حیثیت مکمل طور پہ کھو چکی ۔ تب گھٹا ٹوپ اندھیرے میں اسلام کا اجالا چمکا ۔ سرورکائنات ﷺ سب کے لئے رحمت تھے ۔ مرد عورت کی تخصیص کے بغیر کہ اللہ نے سب کو انسان بنایا تھا ۔ مذکر مونث حیات کی کمتر برتر صورتیں نہ تھیں بلکہ دونوں مل کر انسانیت کی تکمیل کرتے تھے ۔ ایک سکے کے دو رخ تھے ۔ دونوں کے درمیان توازن ہی نسل انسانی کی بقاء کا ضامن تھا ۔ چناچہ تعلیم دی گئی کہ اگر کسی مقام پہ مرد کو برتری حاصل ہے تو دوسری جگہ عورت کا رتبہ فلک کو چھوتا ہے ۔ ماں کے روپ میں تم اللہ کا مشاہدہ کر سکتے ہو ۔ انتظامی اور معاشی امور میں مردوں کی ذمہ داریاں یوں رکھی گئیں کہ عورتیں ہر غم سے آزاد ہو کر اپنے بچوں کی پرورش اور تربیت کر سکیں پر افسوس اسلام نے عورتوں کو جو بھی حقوق دئیے ، مسلمان انہیں زیادہ دن نیک نیتی سے ادا نہ کر سکے ۔ جوں جوں اسلام پھیلا دیگر معاشروں سے متاثر ہو کر مسلمان بھی اپنی عورتوں کو پھر تنزلی میں گراتے چلے گئے ۔ حالانکہ ان پر واضح تھا کہ اسلام عورتوں کی تعلیم اور بہ وقت ضرورت معاش اور معاشرے کی ترقی میں ان کے کردار پہ کوئی قدغن نہیں لگاتا ۔حضرت خدیجہ ، حضرت عایشہ ، حضرت صفیہ ، جناب فاطمۃالزہرہ ،حضرت خولہ ، حضرت اسماء ، بی بی زینب رضی اللہ عنہما اور دیگر بے شمار بیبیوں کے نام اور مقام سےسب واقف تھے تو زیبدہ خاتون ، فاطمہ بنت عبداللہ، قرۃ العین طاہرہ ، رضیہ سلطانہ ، چاند بی بی ، نور جہاں ، جہاں آراء ، زیب النساء ، بیگمات بھوپال، بی اماں ، فاطہ جناح جمیلہ الجزائری، لیلیٰ خالد ، اور بے شمار ، ان گنت خواتین ، بار بار تاریخ کے پنوں پہ اپنے بے مثال کار نامے ثبت کرتی رہیں ۔
مغربی تہذیب بھی بہت عرصہ خواتین پہ جبر و ستم کے پہاڑ توڑتی رہی پر جون آف آرک ، فلورنس نائٹ انگیل اور ہیرٹ بیچر سٹون کے کار نامے ناقابل فراموش ہیں ۔ ملکہ وکٹوریہ کا طویل عہد امن اور خوشحالی کا پیامبر سمجھا جاتا تھا ۔ جون آف آرک نے انقلاب فرانس کی راہ ہموار کی تو فلورنس نائٹ انگیل نے زخمی انسانیت کی ٹیسوں پہ پھاہے رکھے ۔ ہیریٹ بیچر سٹوو اگر انکل ٹامز کیبن نہ لکھتی تو سیاہ فام شائد مزید غلامی کی زنجیروں میں جکڑے رہتے اور لنکن شائد امریکہ کا صدر نہ بن پاتا ۔
گولڈا مائر اور مار گریٹ تھیچر اپنی اپنی قوم کی آئرن لیڈیز قرار پائیں ۔ ہندو قوم میں سیتا ، رادھا اور میرا رول مادل بنی توجھانسی کی رانی تاریخ میں امر ہوئی اور اندرا گاندھی کے کارنامے بھارتیوں کو یاد رہیں گے ۔ سری لنکا میں بندرا نائیکے ، کماری ٹنگا ، مشرق بعید میں کارتینی ماور اور سائکارنو سپتری کو نہیں بھلایا جاسکتا ۔ دنیا میں جب جب ظلم و جبر کی تاریخ لکھی جائیگی تب تب انسانیت عورتوں کے عزم و استقلال کی داد دئیے بغیر نہیں رہ سکے گی ۔ مرد جنگیں کرتے ہیں اور ان کے ثمرات عورتیں بھگتی ہیں۔
موجودہ دور کو عورتوں کی ترقی کا دورقرار دیا جتا ہے مگر سوائے اس کے کہ کچھ مردوں نے عورت کی تعظیم اور احترام کو اہمیت دینے کا اغاز کیا ہے اسکے سوا سب کچھ سفید جھوٹ ہے ۔ عورت کو بھیڑ بکری کی طرح باڑوں میں بند کیا جائے یا آزادی کے نام پہ اسے سر عام نمائش پہ مجبور کیا جائے بہر صورت یہ استحصال ہے ، عذاب ہے ۔ اعتدال اور توازن میں ہی نجات ہے ۔اپنے اپنے مقام کو پہچانو اپنے فرائض ادا کرتے رہو ۔ حقوق خود بخود مل جاتے ہیں ۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
نعیمہ نے فائل بند کی تو موذن اللہ اکبر کی صدا بلند کر رہا تھا ۔ نعیمہ کا دل رب کی ثنا کرنے لگا ۔ وہ شکر گزار تھی کہ اسے ایسی باشعور بیٹی عطا ہوئی ۔ وہ شکر گزار تھی کہ نئے دور میں ایسے جوان ہیں جو عورتوں کی عزت کرنا جانتے ہیں ۔ منصور کی ملاقات مہ جبیں سے یونیورسٹی میں ہوئی تھی اور اس نے یہ جانے بغیر کہ وہ کسی سرمایہ دار کی بیٹی ہے اس سے شادی کی درخواست کی تھی ۔ جبکہ داؤ ابھی بھی یہی ہیں کہ وراثت میں حصہ دینے سے بچنے کے لئے بیٹی کی شادی ہی نہ کی جائے ۔
جس کے پاس جہیز نہیں اسکی بیٹییاں گھر بیٹھی رہیں ۔
اربوں کی جائدادیں ہر حربے سے جمع کی جائیں اور ان کو محفوظ رکھنے کے لئے ہر جتن کیا جائے ۔
وارث پانے کے لئے غریب کی بیٹی سے کھلونے کی طرح کھیلا جائے ۔
کہاں ہے عورت کی وہ تقدیر جو اسلام نے لکھی تھی ؟ نعیمہ کے آنسو گرتے رہے مگر وہ اقوال جو اس نے ابھی کچھ دیر پہلے عورت کی شان میں پڑھے تھے اسکے ذہن میں جگمگاتے ، جھلملاتے رہے ۔
٭ ۔ دنیا میں صرف دو طاقتیں ہیں ۔ ایک قلم اور دوسری ضمیر لیکن عورت ان دونوں طاقتوں سے زیادہ مضبوط ہے ۔
٭۔ عورت کی محبت انسان کی سب سے بڑی فتح ہے اور نفرت سب سے بری شکست ۔
٭۔ صنف نازک اگر چاہے تو انتہائی طاقتور، مضبوط اور توانا جسم لوگوں کو بیچارگی سے لنگڑانے پہ مجبور کر دے اور چاہے تو کوتاہ اندیش اور احمق قسم کے لوگوں کو عاقل اور دانا بنا دے ۔
٭ ۔ حقیقت یہ ہے کہ مرد اپنی پیدائش سے سفر آخرت تک عورت کے رحم و کرم پہ ہوتا ہے ۔ چند ایک تعریفی جملے اور معمولی سی توجہ بیچارے مرد کو خوش کرنے کے لئے کافی ہوتی ہے ۔
٭ ۔ اے عورت ! میں تیری تعریف اس لئے نہیں کرتا کہ تو کائنات میں سب سے خوبصورت ہے اور میں اس سبب تجھ سے محبت نہیں کرتا کہ تو انسانی راحت کا اعلیٰ تریں سر چشمہ ہے بلکہ میں اس واسطے تیری تعظیم کرتا ہوں کہ انسانیت تیرے طفیل قائم ہے اور تو تمام نیکیوں کا ملجا و ماویٰ ہے ۔ تیری ذات اور تیرے دل و دماغ میں وہ خوبیاں ہیں جن سے ضعیف البیان انسان بھی فرشتوں کی ہمسری کر سکتا ہے ۔
٭ ۔ عورت کی گود انسان کا پہلا مکتب ہے ۔
٭ ۔ عورت نے کائنات کے سب سے پہلے انسان سے خود کو منوایا پھر نامور فاتحوں، اوتاروں، پیغمبروں اور اولیاؤں کو جنم دیا ۔ اسکے باوجود کچھ عقل کے اندھے عورت کو دوسرے درجے کی مخلوق قرار دیتے ہیں ۔ واقعی چمگاڈروں کو روشنی میں کچھ نہیں دکھائی دیتا ۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
آہ میری بچی ! تو نے تو پتھروں میں سے جواہر پارے چن لئے پر ان کی وقعت کیا ہے ؟
لوگ عورت کو فقط جسم سمجھ لیتے ہیں
روح بھی ہوتی ہے اس میں یہ کہاں سوچتے ہیں
کتنی صدیوں سے یہ وحشت کا چلن جاری ہے
کتنی صدیوں سے ہے قائم یہ گناہوں کا رواج
لوگ عورت کی ہر چیخ کو نغمہ سمجھے
وہ قبیلوں کا زمانہ ہو یا شہروں کا رواج
نعیمہ نے اپنے آنسو پونچھے اور سرشار صاحب کو جگانے لگی ۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...