ان دنوں شہر بہت خاموش اور دن طویل ہوا کرتے تھے، فضا میں اتنا شور،اتنا ہنگامہ نہیں تھا اور نہ زندگی اتنی ارزاں اور غیر محفوظ ہوا کرتی تھی۔ان ڈور (Indoor) تفریح کا سامان نہیں تھا۔لوگوں کے پاس نہ تو ریکارڈ پلیئر ہوا کرتے تھے اور نہ ہی ٹیپ ریکارڈ۔یہ سب کچھ حقوق یافتہ طبقے تک محدود تھا۔بعض لوگوں کے پاس بڑے بڑے بے ہنگم ریڈیو ہوا کرتے تھے،جنہیں وہ کشیدہ کاری والے غلافوں میں سجا کر رکھتے،مگر ان پر بھی دن بھر پروپیگنڈا ہوتا یا پھر قوالیاں نشر ہوتیں۔ان قوالیوں کا سننا خاصے دل گردے کا کام تھا،مگر بعض لوگ انہیں ضرور سنتے، خصوصاً جمعہ کے روز کیوں کہ مشہور تھا کہ قوالیاں سننے سے بہت ثواب ملتا ہے۔
ہماری ایک ہی تفریح تھی کہ سرشام کسی ہوٹل میں جا بیٹھتے (بلوچستان میں ریسٹورانٹ کو ہوٹل کہا جاتا ہے)یہ ہوٹل کلچرل سینٹر ہوا کرتے تھے۔ہوٹلوں کے بے شمار نام تھے۔مگر بنیادی طور پر دوقسمیں تھیں۔ایک تو مہنگے ہوٹل جہاں بارودی بیرے مؤدب کھڑے رہتے، بات بے بات مسکرا دیتے،دوسری قسم کے چینکی ہوٹل تھے،جہاں دن بھر اونچی آوازوں میں گیت چلتے رہتے ایک روپے میں چائے کی چینک ملتی۔بیرا وہ چینک تین پیالوں سمیت میز پر پٹخ کر دوسرے آرڈر لینے لگتا۔
گاہک کاغذ کے ٹکڑوں پر،سگریٹ کے خالی پیکٹوں پر فرمائشی گیت لکھ کر کاؤنٹر پر بھجواتے،کاؤنٹر پر ہوٹل کے مالک ہی بیٹھتے،وہ ہر گاہک سے علیک سلیک کرتے،بل وصول کرتے اور فرمائشی ریکارڈر چلاتے۔ان کے ہاتھ مشینی انداز میں ریکارڈ تلاش کرتے۔کسی کمپیوٹر کی طرح وہ محض انگلیوں کے لمس سے ہی مطلوبہ ریکارڈ پہچان لیتے،پتھر کے بڑے بڑے ریکارڈ ان کے ہاتھوں میں تاش کے پتوں کی طرح پھسلتے چلے جاتے۔
ایک شام جب سرد ہوائیں کوند رہی تھیں اور برف آلود بادل شہر پر جھکے ہوئے تھے،میری ملاقات آرتھر جاوید سے ہوئی۔نشاط ہوٹل میں گیتوں کا طوفان تھا، سگریٹوں کا دھواں تھا، گالیوں اور قہقہوں کا ہجوم تھا،سخت دوستانہ فضا تھی،اچانک دروازہ کھلا ایک دبلا پتلا بلند قامت شخص ہال میں داخل ہوا۔اس کے چہرے پر غربت اور افلاس کی چھاپ لگی تھی اس کے جسم پہ بوسیدہ پینٹ کوٹ تھا اور ہاتھ میں گہرے نیلے رنگ کے کپڑے کا تھیلا، ایسا تکلیف دہ رنگ ریلوے کا نچلا اسٹاف وردی میں پہنتا ہے۔سرد ہواؤں نے اسے کاٹ کے رکھ دیا تھا۔
”شاہ جی” اس نے عام گاہکوں کے انداز میں جس میں خاصی اپنائیت تھی آواز لگائی، ” ایک کڑک چائے” ساتھ ہی اللہ ایک ہے، کے انداز میں شہادت کی انگلی اٹھائی۔حمید شاہ نے کاؤنٹر سے مسکرا کر دیکھا اور بیرے کو چائے دینے کا اشارہ کیا۔ جب حمید شاہ کی مسکراہٹ گاہک کے لیے گہری اور دل نواز ہونے لگتی تو ہم سمجھ جاتے کہ گاہک ہوٹل کا مزید قرض دار ہورہا ہے۔اب اس مشینی دور میں ایسی مورلیٹی (Morality)کی گنجائش نہیں ہے۔
اجنبی میرے پاس آبیٹھا۔وہ فوراً بے تکلف ہوگیا، ”میرا نام آرتھر جاوید ہے،میں ریلوے میں کلرک ہوں اور میرا اصل شوق افسانہ نگاری ہے۔” اس نے کالج کے بلیزر پر نظر ڈالی۔
” آپ کالج میں پڑھتے ہیں؟ ”
” جی ہاں! “ میں نے فخریہ انداز میں کہا، ”میں فرسٹ ایئر میں پڑھتا ہوں اور بلوچستان کا کلر ہولڈر ہوں۔”
آرتھر نے بدشکل سے تھیلے سے کچھ فلمی رسائل نکال کر میز پر پھیلا دیے،ان میں آرتھر کے رومانی افسانے تھے،جن سے میں خاصا متاثر ہوا اور یوں ہماری دوستی ہوگئی۔آرتھر ڈویژنل آفس میں کلرک تھا۔جب بھی میں جاتا وہ ہاتھوں ہاتھ لیتا اور ریلوے کینٹین میں چائے پلاتا ،جہاں اس کا حساب چلتا یا یوں کہنا چاہیے کہ جس کا مستقلاََ قرض دار رہتا۔
محکمہ ڈھنگ کا ہو تو، کلرکی تو بڑی بادشاہی ہے۔
TO BE A CLREK IS AN ART TO REMAIN CLERK IS A SIN.
اب ریلوے کی بھی کیا کلرکی وہ بھی ڈویژنل آفس کی جہاں بڑے بڑے ہال پژمردہ کلرکوں سے بھرے پڑے تھے، مجھے تو وہ بڑے بڑے ہال ریلوے گوداموں کی طرح لگتے۔فرق صرف یہ تھا کہ وہ وہاں بلٹیوں اور پارسلوں کے ڈھیر ہوتے اور ان کی خاصی قیمت ہوتی۔یہاں مدقوق سے کلرکوں کا اجتماع ہوتا جن کی کوئی قیمت نہیں،جن کی زندگیاں خالی پلیٹ فارم کی طرح اجاڑ اور بے مصروف ہوتی ہیں۔
آرتھر کے لکھنے کا انداز بہت دلچسپ اور انوکھا تھا۔ اس کے تھیلے میں دنیا جہاں کی چیزیں موجود رہتیں۔جب موڈ بنتا وہ اپنے تھیلے میں سے رجسٹر نکال لیتا اور بے تکان لکھتا چلا جاتا۔بعض اوقات وہ ایک ہی نشست میں افسانہ مکمل کر لیتا۔وہ اکثر ہوٹل میں بیٹھ کر افسانے لکھتا۔ہوٹل کا قیامت خیز شور، بازار کا ہنگامہ، کچھ بھی اسے ڈسٹرب نہ کرتا،وہ مسلسل چائے پیتا اور سگریٹ پر سگریٹ سلگاتا انہماک سے لکھے چلا جاتا۔
آرتھر کی تعلیم سطحی اور ادھوری تھی، مگر اس کا مشاہدہ اور تجربہ قابلِ تعریف تھا۔اس کے پاس ذخیرہ الفاظ کم تھا۔اس کا مطالعہ محدود تھا۔ وہ ادب برائے ادب کا قائل تھا جو فیوڈل ازم کی دین ہے۔کبھی کبھی ادبی بحثیں بھی ہوئیں۔ادھر کالج میں میرا ذہن ارتقائی منازل طے کرتا رہا۔
پروفیسر کرار حسین، سید خلیل اور پروفیسر نبوت یار خان،آغا جلیل الرحمان جیسے اساتذہ ہمیں پڑھاتے،جب کہ آرتھر دن بھر شدید غیر ادبی فضا میں سانس لیتا۔رفتہ رفتہ ہمارے نظریاتی اختلافات بڑھتے چلے گئے،مگر ادبی اختلافات کے باوجود ہماری دوستی بہت گہری ہوگئی۔
آرتھر بہت پیارا،سچا اور کھرا انسان تھا۔ سچے جذبوں اور خلوص پر ایمان رکھنے والا بے ضرر انسان جسے میں نے الجھتے،لڑتے، جھگڑتے یا نفرت کرتے نہیں دیکھا۔وہ کسی سے ناراض نہیں ہوسکتا تھا،نفرت نہیں کرسکتا تھا۔پسنجر ٹرین کی طرح ایک ہی سست رفتار سے چلنے والا انسان جو کسی سے ناراض نہیں کرسکتا تھا۔اس لکھنے لکھانے کا اسے کبھی مالی طور پر کوئی فائدہ نہیں پہنچا۔
وہ اکثر دوستوں کو اپنے چھپے ہوئے تازہ افسانے سناتا،رسالے بھی ساتھ ہی دے دیتا۔آرتھر ایک مخصوص انداز میں لکھتا چلا گیا۔وقت کے ساتھ ساتھ قارئین کی پسند و ناپسند کے معیار بدلتے رہے،فلمی رسالوں کی مانگ بھی کم پڑنے لگی۔ملک میں ڈائجسٹوں کا طوفان در آیا۔آرتھر کا اسکوپ مزید محدود ہوگیا۔ کرائم اور سیکس پر اس نے لکھنے سے باربار انکار کیا۔اس نے کچھ ڈرامے بھی لکھے جو اسٹیج نہ ہوسکے۔
اس سے تو انکار نہیں کہ آرتھر کو داد و تحسین بھی ملی اور صدارتی ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔پاکستان رائٹرز گلڈ بلوچستان زون کا عہدیدار بھی رہا،عکس بولان کا اعزازی سب ایڈیٹر بھی بنا،لیکن اس کی جیب خالی ہی رہی۔اب یہ کیا اعزاز کہ گورنر کے ساتھ اخبار میں تصویر آجائے اس کے مسائل تو ہر آنے والے دن میں بڑھتے چلے گئے۔ڈاکوؤں کے لیے تو بڑی بڑی سنگین سزائیں ہیں مگر جو قلم کاروں کو لوٹیں،ان کی تخلیقات مفت ہتھیالیں،جو ادبی چوری کے مرتکب ہوں،ان کے لیے کوئی سزانہیں۔اس سے تو بہتر ہوتا کہ انہیں ادبی مزدور قراردے کر لیبر لا(Labour Law) سے تحفظ دیا جائے۔سالہا سال کی ناکامیوں نے اسے مایوس کردیا۔غربت اور افلاس نے اس کی تخلیقی طاقت کو مفلوج کر کے رکھ دیا۔
میں مقابلے کا امتحان پاس کرکے مرکزی حکومت میں چلا گیا اور آرتھر بدستور کلرکی کرتا رہا،پھر بھی ہماری دوستی میں وہی مضبوطی اور پائیداری رہی۔جب بھی موقع ملتا میں اس کے دفتر چلا جاتا۔یہ نسبت بہ ادنیٰ تعلق کچھ جچتی نہیں ہے۔دفتر تو افسروں کے ہوتے ہیں،کلرک تو ایک لائن میں جتے رہتے ہیں۔آرتھر بھی اپنے دفتر میں ایک ہی کرسی پر بیٹھا بیٹھا بوڑھا ہوتا چلا گیا۔وقت کے طوفان نے ہمیں ایک ایسی جگہ لاکھڑا کیا جہاں صرف ذمہ داریاں رہتی ہیں۔اس کا کل اثاثہ ایک تھیلا ہی رہا جسے وہ اپنے خستہ حال سائیکل پر لیے پھرا۔ البتہ سردیوں میں اس کے لباس میں ایک تباہ حال کوٹ کا اضافہ ہوجاتا۔
جب اسلام آباد سے اقلیتوں کے لیے رسالہ ”ہم وطن” جاری ہوا تو کوئٹہ سے آرتھر جاوید کو نمائندہ خصوصی چنا گیا۔آرتھر رسالے میں لکھتا بھی اور اس کی سرکولیشن بڑھانے کے لیے رسالے کی کاپیاں اسی اپنے تھیلے میں رکھ کر اقلیتی ساتھیوں کے پاس جاتا اور رسالے کی کاپیاں فروخت کرنے کی کوشش کرتا جو اکثر لوگ مفت یا ادھار لے لیتے۔مجھے نہیں معلوم ”ہم وطن” کانمائندہ بن کر اس نے کوئی مالی منفعت حاصل کی ہو،لیکن اس نے رسالے کی مارکیٹنگ کے لیے اس قدر سائیکل چلائی کہ اگر وہ خط مستقیم پر چلاتا تو شاید چاند پر جا پہنچتا۔
جب جنرل ضیا نے منتخب وزیراعظم کو قتل کر کے اورنگ زیب کی مانند دوبارہ اسلامی نظام جاری کیا۔جسے یوں تو جاری ہوئے 1400برس بیت چکے تھے، تو اس بازار پر پابندی لگ گئی۔طوائفیں اپنے اڈے چھوڑ کر گلی محلوں میں چلی گئیں۔اور نئے سرے سے شرفا کے محلوں میں کاروبار کرنے لگیں۔بازار بند ہوگئے۔شراب کی قیمتیں آسمان کو چھونے لگیں۔آرتھر نے وہ دن دیکھے تھے جب کوئٹہ ڈسٹلری سے تیس روپے میں شراب کی بوتل مل جاتی۔کہاں اچانک وہی بوتل تین سو روپے میں ملنے لگی۔ایسے وقت میں کچھی اور نصیرآباد کی صدیوں پرانی شراب سازی کی صنعت انگڑائی لے کر جاگ اُٹھی۔ دیسی شراب بھاری مقدار میں شہر میں آنے لگی۔پلاسٹک کی تھیلیوں اور جبری کینوں میں فروخت ہونے لگی۔ شراب کا کاروبار کرنے والے زیادہ روپیہ کمانے کے لیے شراب کی مقدار پانی ملا کر بڑھادیتے اور ساتھ ہی ساتھ نشہ تیز کرنے کے لیے زہریلے کیمیکلز کی آمیزش کر لیتے تاکہ پرانے پینے والوں کی تعداد ملک میں ہوتی رہے۔
آرتھر چوںکہ غیر مسلم تھا۔سرکاری طور پر اس کے لیے شراب کا کوٹہ فکس ہوگیا۔ وہ کارڈ پر مقدار کے مطابق شراب لے سکتا تھا،مگر یہ کوٹہ اونٹ کے منہ میں زیرہ ثابت ہوا۔اس لیے آرتھر ٹھرا پینے لگا۔شراب پر پابندی اسے گراں گزرتی،مگر وہ اسے اسلامائزیشن (Islamisation)کا حصہ سمجھ کر پر عقیدت خاموشی اختیار کر گیا۔ اس نے اسلام اور سیرت پر بھی لکھا۔آرتھر کے خیالات ان کلرکوں سے جدا تھے، جن میں وہ گھرا رہتا۔ اسے ریلوے کا جو کوارٹر ملا وہ مسجد کے ساتھ تھا۔آرتھر تو مذہب و نسل سے بالاتر ہو کر سوچنے والا انسان تھا، لیکن اس کے ہمسائے اسے ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھتے کہ یہ عیسائی ہے حالاںکہ وہ عیسائی نہیں (عیسائی کا لفظی مطلب ہے ؛سرخ چہرے والا)سخت نیٹو(Native)تھا۔وہ دراصل مسیحی تھا نہ کہ عیسائی۔
ایک بار ادیب دوستوں نے میرے ساتھ شام منانے کا فیصلہ کیا۔ میرے نام کی مناسبت سے اسے ”شام گل” کا نام دیا گیا۔ فرح ہوٹل میں ایک تقریب ہوئی،کچھ جانے پہچانے کچھ دوست تھے،کچھ اجنبی چہرے۔آرتھر نے تقریر کے دوران ذرا دوستی کا پاس نہ کیا اور میری تحریروں پر خوب تنقید کی۔شاید ادبی ایمان داری کی یہ نادر مثال ہے۔اس کے ساتھ نہ تو کوئی لابی تھی نہ وہ کسی گروپ میں شامل ہوا۔بلوچستان میں ادیبوں کی انجمن قلم قبیلہ بنی تو ریٹائر منٹ کے قریب سرکاری افسر،محکمہ تعلیم کے حکام، محمود ایاز سبھی شامل ہوتے چلے گئے۔میں نے باربار اسے مشورہ دیا کہ وہ بھی بیگم صاحبہ کے قلم قبیلہ کے اس گروپ میں شامل ہوجائے مگر وہ کب کسی کی سنتا تھا۔
”میں کسی گروہ میں شامل نہیں ہونا چاہتا” اس نے حسبِ معمول لاتعلقی سے مستحکم لہجے میں کہا۔
” تمہیں شہرت بھی ملے گی اور عزت بھی،کچھ مالی امداد بھی مل جائے گی۔ یوں بھی تم جیسے کھرے ادیبوں کی ضرورت ہے۔” میں نے خاصے دباؤ سے کہا،مگر وہ بدستور لاتعلقی سے مسکراتا رہا اور سگریٹ کے لمبے لمبے کش لیتا رہا۔میرے تمام دلائل کے باوجود وہ ریلوے کے کسی کالے انجن کی طرح لا تعلق رہا جو شیڈ (Shad) میں اکیلا کھڑا رہتا ہے۔
آرتھر نے کبھی اپنا قلم نہ بیچا۔نشاط ہوٹل کے بل چڑھتے رہے،ریلوے کینٹین کا بدستور مقروض رہا،مگراس نے کبھی کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلایا۔بعض اوقات میں اس کے کئی کئی ماہ کے بل ادا کر دیتا جو تین ہندسوں کی ایک معمولی رقم پر مشتمل ہوتے،مجھ سے وہ بڑی بے تکلفی سے کہتا ” ڈبیہ کا یہ آخری سگریٹ ہے۔”
” آج تو چائے کے بھی پیسے نہیں ہیں۔”
زندگی میں کبھی کبھار وہ بڑی حکیمانہ باتیں کرنے لگتا۔ ایک بار ریلوے کینٹین میں کڑک چائے پیتے ہوئے میں نے سوال کیا تھا کہ زندگی کیا ہے، تم بطور ادیب زندگی کو کیا سمجھتے ہو؟
”زندگی تمہاری یا میری” اس نے پوچھا۔
میں نے کہا ” اپنی ہی بتا دو، کل نہیں تو جزو ہی سہی۔”
اس نے سگریٹ کا دھواں پھیپھڑوں تک کھینچا۔
” کسی روز بتاؤں گا۔یہ کوئی ریلوے کا ٹکٹ تو نہیں کہ تم نے مانگا اور میں نے دے دیا۔”
مجھے زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑا۔ایک روز ہم باتیں کرتے لائنوں سے گزر رہے تھے کہ اچانک آرتھر رک گیا۔
”وہ دیکھو” اس نے اشارہ کیا۔
سامنے سردی اور کہر میں ڈوبی فضا میں انجن شنٹنگ کررہے تھے۔کالے انجن برسوں پرانے انداز میں دہک رہے تھے اور سردی میں ٹھٹھرتے مدقوق سے کانٹے والوں کے اشاروں پر اِدھر اُدھر دوڑے تھے۔ٹرن ٹیبل پر شور مچاتا ایک اسٹیم انجن کھڑا تھا۔کوئی شخص لیور سے الجھا ہوا انجن کا رخ بدلنے کی تیاری کر رہا تھا۔
آرتھر بولنے لگا، ” جب کسی انجن کا رخ تبدیل کرنا ہو تو اسے ٹرن ٹیبل پر کھڑا کر دیتے ہیں۔لیور کی مدد سے ٹرن ٹیبل گھما کر اس مہیب انجن کا رخ دوبارہ اسی جانب موڑ دیا جاتا ہے،جہاں سے کہ یہ آتا ہے۔ یہ انجن چمن سے آیا ہے ،اب دوبارہ اس کا رخ چمن کی جانب موڑا جا رہا ہے۔کوئی سو برس سے یہ انجن کوئٹہ سے چمن آجا رہا ہے۔ اس کی کوئی منزل نہیں۔اس کی پوری زندگی ایک ٹرانزٹ (Transit) ہے۔ ہم بھی ان اسٹیم انجنوں کی طرح ہیں،فرق صرف اتنا ہے کہ یہ فولاد کے بنے ہیں،بڑا وقت لیتے ہیں۔ہم پچیس تیس سال میں کھوکھلے ہو جاتے ہیں۔انجن کی طرح ہماری تو اوور ہالنگ بھی نہیں ہوسکتی۔میرے باپ دادا زندگی کے ٹریک پر اوور لوڈ گاڑی کھینچتے رہے۔ ہمارے نظام کے ٹرن ٹیبل نے ان کی زندگی وہیں پہ ختم کردی ،جہاں سے وہ چلے تھے۔میں نے کلرکی کرلی۔کلرکی جسم کی توانائی اور ذہن کی صلاحیتیں نچوڑ لیتی ہے۔ میرا دماغ تو جواب دے چکا ہے،سوچتا ہوں میری اولاد کا کیا بنے گا؟ کیا میرے بیٹے کو بھی کلرکی کرنا پڑے گی؟ یہ میری کہانی ہی نہیں ہر دور کے انسان کی کہانی ہے۔انجمن تحفظ حیوانات ہے،ادارہ بے رحمی حیوانات ہے، وائلڈ لائف کے کئی ایک ہمدرد ادارے ہیں،لیکن ہم جیسے انسانوں کے لیے کوئی ادارہ نہیں ہے۔ٹرن ٹیبل وہ بے رحم دیوتا ہے جو انسان کی قربانی مانگتا ہے، صلیب سے زیادہ اذیت ناک چیز زندگی کا یہ ٹرن ٹیبل ہے۔”
چشتی نے پندرہ روزہ ”عکسِ بولان” جاری کیا تو آرتھر کو اخبار کا سب ایڈیٹر بنا دیا گیا۔معاملہ چوںکہ دوستی کا تھا۔ آرتھر نے کوئی معاوضہ طلب نہ کیا حالاںکہ اس کی بیٹی کی شادی قریب تھی۔چشتی کے قلم کی کاٹ بڑی تیز تھی۔مخالفوں سے اس کی ٹھن گئی۔کچھ عرصے دونوں جانب سے تحریری مبارزت ہوئی،پھر مخالفین نے عدالتی چارہ جوئی کی اور کسی طرح آرتھر اور چشتی کے وارنٹ جاری کروادیے۔آرتھر کو تو یونہی مفت میں دھر لیا گیا۔ اس نے شاید فلموں میں عدالتی سین دیکھے ہوں ورنہ اس کا ان جھمیلوں سے کیا کام۔تھانوں اور عدالتوں کا چکر چلا تو وہ خندہ پیشانی سے سب کچھ برداشت کرتا رہا۔پیشی کے دن اسی اپنے سائیکل پر تھیلا لٹکائے صبح سویرے عدالت پہنچ جاتا تاکہ غیر حاضر قرار دے کر مخالفین اس کی ضمانت منسوخ نہ کرا دیں۔دن بھر وہ عدالت میں لوگوں کی باتیں سنتا،خون جلاتا اور سگریٹ پھونکتا رہتا۔
ایک روز چشتی میرے پاس آیا اور جلدی جلدی بتانے لگا کہ آرتھر کو مخالفین نے آفر دی ہے کہ اگر وہ چشتی کے خلاف بیان دے دے تو اسے دس ہزار روپے کا نذرانہ پیش کیا جائے گا۔
” تو اس سے میرا کیا تعلق ہے؟” میں نے پوچھا۔
” تم آرتھر کو مجبور کرو کہ وہ میرے خلاف بیان دے کر دس ہزار روپے حاصل کر لے اس کی بیٹی کی شادی ہے،روپے کی اسے سخت ضرورت ہے۔”
مجھے معلوم تھا آرتھر یہوداہ اسکریوتی تو ہے نہیں،شاید ناراض ہی ہو جائے۔
یہ ناخوش گوار فریضہ بہر حال مجھے ادا کرنا پڑا۔
ریلوے کینٹین میں اسے جالیا۔
” تمہیں دس ہزار کی آفر ملی ہے،تمہارے خلاف استغاثہ بھی ختم کردیا جائے گا،تمہیں یہ رقم میرا خیال ہے لے لینی چاہیے۔چشتی یوں بھی کیس لڑ رہا ہے،جیت ہی جائے گا۔” میں نے ایک ہی سانس میں کہہ ڈالا۔
آرتھر شدید مالی بحران کا شکار تھا اتنی بڑی رقم اس کے لیے ناقابلِ تصور تھی مگر وہ حسبِ عادت سگریٹ کے طویل کش لے کر تفکرانہ انداز میں بولا۔
” رقم تو یقیناً میرے لیے بہت زیادہ ہے ،جوان بیٹی کی ذمہ داری بھی ہے،مقروض بھی ہوں،مگر اپنے دوست کو دھوکا نہیں دے سکتا۔ غربت میرے لیے نئی چیز نہیں،مجھے تو وراثت میں ملی ہے۔”
چشتی تک بات پہنچی تو بہت خفاہوا ” ایسے کریکٹر والے دوست خدا کسی کو نہ دے۔” اس نے غصے میں آکر کہا۔
آرتھر سنگل ٹریک ٹرین کی طرح ایک ہی سیدھ میں چلنے کا عادی تھا جہاں آگے بڑھنے کا راستہ۔پیچھے ہٹنے،دائیں بائیں مڑنے کی کوئی گنجائش نہیں۔وہ بڑھتا ہی چلا گیا۔ آخر کار وہ سینہ تھامے ریلوے سینی ٹوریم پہنچا۔جہاں کیچ سائیڈنگ میں کھڑے بیکار ڈبوں کی طرح اسے بھی جگہ مل گئی۔
اس نے زندگی کا آغاز بنیادی سہولتوں سے عاری ریلوے کوارٹر سے شروع کیا اور ریلوے سینی ٹوریم میں جاکر دم لیا۔اس نے کبھی گلہ شکوہ نہ کیا،کسی کی زیادتی کا تذکرہ نہ کیا۔اسٹیم انجن کی طرح اپنے آپ میں جلتا کھولتا زندگی کی لوپ لائن (Loop Line)پر چلتا رہا۔ کوئٹہ کی سڑکوں پر سائیکل چلاتے،نیم اندھیرے کمروں میں جھک کر لکھتے لکھتے وہ خون تھوکنے لگا۔
میں نے مختلف انجمنوں سے رابطہ قائم کیا،کرسچن تنظیموں سے بات کی، صحافیوں کو جگانا چاہا،مگر مالی امداد تو دور کی بات ہے، اس کے لیے ایک خبر بھی نہ لگی اور ایک شام میں جب آرتھر سے ملنے سینی ٹوریم پہنچا تو اس بیڈ پر نیا مریض پڑا تھا۔میں ساکت و جامد رہ گیا۔
کیا آرتھر کی دیہاڑی ختم ہوچکی ہے۔میں یہ سوچ کر نروس ہوگیا۔خود پر قابو پاتے ہوئے ڈیوٹی نرس کے پاس گیا،جو فون پر مسلسل رومانی گفتگو کیے جارہی تھی۔
”سسٹر اس بیڈ کا مریض کہاں ہے؟”
مگر اس نے سنی ان سنی کردی۔اس کے ناخنوں پر گہرے رنگ کی نیل پالش تھی اور چہرے پر سستا میک اپ جس سے جلد کی چھائیاں کافی حد تک چھپی ہوئی تھیں۔
”سسٹرکہاں ہے آرتھر،آرتھر کہاں چلا گیا؟” میں جذبات سے بے قابو ہو رہا تھا۔
اس نے جھنجلا کر گفتگو روکی۔فون پر اس کی گرفت بڑھ گئی۔اس کے چہرے پہ ناگواری سی چھائی۔اس نے چھت کی جانب انگلی اٹھائی اور نرم لہجے میں بولی۔
”اللہ کے پاس” پھر نہایت لاتعلق سی ہو کر دوبارہ فون کی جانب متوجہ ہوگئی۔
آرتھر کے یوں زندگی بھر کے لیے جدا ہوجانے کا صدمہ بہت بڑا تھا۔ جسے بہرحال برداشت کرنا پڑا۔
میں تو کبھی ڈویژنل آفس کے قریب سے بھی نہ گزرتا۔ موسم آتے اور جاتے رہے۔ایک روز جب شہر پر خزاں اتری ہوئی تھی اور سائبیرین ہوائیں زرد پتوں کو اڑائے لیے پھر رہی تھیں،یونہی بلا مقصد ڈرائیو کرتا ڈویژنل آفس جانکلا۔ سفیدے کے بوڑھے درخت ویسے ہی درجنوں بانہیں پھیلائے کھڑے تھے۔پس منظر میں دھواں اگلتا انجن شور مچارہا تھا۔فضا میں کوئلے کے دھوئیں کی ہلکی ہلکی خوش گوار سی بو تھی۔
کسی نامعلوم جذبے کے تحت میں نے گاڑی پارک کی اور ڈویژنل آفس میں داخل ہوگیا۔سب کچھ ویسا ہی تھا۔دفتر کی نیم تاریک راہداریوں سے گزرتا اس ہال میں جا نکلا، جہاں آرتھر کی سیٹ ہوا کرتی تھی۔ہال میں کوئٹہ اسٹوو جل رہے تھے۔ فضا میں دبی دبی گالیاں اور قہقہے بکھرے ہوئے تھے۔کلرک حسب معمول بے دلی سے کام کر رہے تھے۔آرتھر کی ٹیبل پر ایک نو عمر لڑکا سر جھکائے انہماک سے کچھ لکھ رہا تھا۔میں دیکھتا چلا گیا۔آرتھر خاموشی سے گزر گیا۔شنٹنگ کے بے آواز ڈبوں کی طرح دھیرے دھیرے بلا آواز۔
اچانک اس لڑکے نے سر اٹھاکر مجھے غور سے دیکھا اور سیٹ سے اٹھ آیا۔ میرے قریب آکر مصافحے کے لیے ہاتھ پھیلاتے ہوئے بولا۔
”شاید آپ نے مجھے پہچانا نہیں،میں آرتھر جاوید کا بیٹا ہوں۔”
مصنوعی ذہانت انسانی تخیل اور ادب کا مستقبل
مصنوعی ذہانت کا لفظ پہلی بار Dartmouthبرطانیہ میں ہونے والی ایک سائنسی کانفرنس میں معرض وجود میں آیا۔مصنوعی ذہانت یعنیArtificial...